’’ساری دنیا کے گھروں میں ایشین ، اٹالین یورپین ڈشز بنتی ہیں۔ ساری دنیا شوق و رغبت سے کھاتی ہے۔ لے دے کے ایک ہمارا انوکھا نرالا بلکہ خالص روایتی گھر ہے، جس میں دیسی کھانوں کے سوا کچھ اور پکتا ہی نہیں۔‘‘ روٹیوں پر طبع آزمائی کرتے ، منہ بسورتے وہ خاصی اونچی آواز میں کہہ رہی تھی۔ ’’یقین کریں ونیزے آپی! کبھی کبھی دل چاہتا ہے احتجاج کروں۔ باقاعدہ بھوک ہڑتال شروع کردوں، لیکن ہائے میری دادی اماں......بڑی سخت ڈکٹیٹر ہیں۔ خالص قدیم روح ان کے اندر رہتی ہے ، مجال ہے کبھی مرغ کو چکن چائو من بنانے کی سوچ بھی ذہن میں در آنے کی گستاخی کر لے۔‘‘
وہ بدستور اپنے اردگرد سے بے خبر کہہ رہی تھی کہ کچن میں داخل ہوتیں دادی اماں کے ناتواں کانوں نے اس کے نادر خیالات سن لیے تھے ۔ وہ جو آہستہ آہستہ چلتی اپنے گھٹنوں کے درد کو کوس رہی تھیں۔ وجیہ کے نادر فرمودات سے بہرہ ور ہونے کے بعد تیز تیز قدم اٹھاتی اس کے عقب میں جا کھڑی ہوئیں۔
بڑی نفاست سے گھونٹ گھونٹ پیپسی اپنے حلق میں انڈیلتی ونیزے انہیں جلال کی بجلیاں اپنے چہرے پر طاری کئے دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’وجیہ۔‘‘خاصی نحیف آواز میں اسے متوجہ کرنے کو پکارا مگر مجال ہے جو اس نے سنا ہو۔ وہ کن انکھیوں سے دادی اماں کو دیکھنے لگی، پھر ایک نظر وجیہ پر ڈالی جو بدستور روٹیاں بناتے آج دال گوشت پکنے پر برے برے منہ بنا رہی تھی۔ بلکہ چند سیکنڈ پہلے ادا ہونے والے فرمودات بھی اسی حوالے سے تھے۔ وہ مزید دادی اماں کی آمد سے بے خبر اپنی راگنی چھیڑ ے کچھ کہہ رہی تھی۔ ونیزے نے پھر ڈرتے ڈرتے دادی اماں کے تیور ملاحظہ کئے۔ ان کے چہرے پر وجیہ کی بات پر غصہ صاف ظاہر ہو رہا تھا۔
’’سچ ونیزے آپی ! مجھے تو بڑی حیرت ہوتی ہے۔ آپ تو چائنیز کھانوں کی عادی ہیں پھر اب کیسے یہ سڑیل روایتی دیسی کھانے کھا لیتی ہیں۔ کیا آپ کو ان کم مرچ مصالحوں والے کھانے کھا کرابکائی نہیں آتی۔‘‘
ونیزے کا جی چاہا اپنا سر پیٹ لے۔ اب اسے یقین ہو گیا کہ ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر دادی اماں اس کی چٹیا پکڑ لیں گی اور ہوا بھی ایسے ہی تھا ۔ جیسے ہی اس نے وجیہ کے پائوں پر پائوں مارکر اسے دادی جان کی موجودگی سے باخبر کرنا چاہا مگر رزلٹ الٹا ہوا تھا۔ وہ جیسے ہی بلبلا کر پلٹی ونیزے کے اپنے ہی ہاتھ میں پکڑا گلاس اس کا ہاتھ لگنے سے چھوٹ کر زمین بوس ہو کر شہید ہو گیا۔ بے چارے مرحوم کے ٹکڑے اردگرد بکھرے ہوئے تھے۔
’’ارے......خداکی پناہ......کیسی پٹاخہ لڑکی ہو تم۔ ہر وقت ناشکری پر تلی رہتی ہو۔ ذرا ادھر تو آئو میں تمہیں بتاتی ہوں کیسے ابکائی آتی ہے۔ ‘‘ اتنا نفیس خوبصورت شیشے کا گلاس ٹوٹنے پر دادی اماں مزید چراغ پا ہو گئیں۔فوراً آگے بڑھ کر وجیہ کا بازو دبوچا وہ جو ان کی آمد سے قطعی بے خبر تھی، اپنی جگہ سے یوں اچھلی گویا بچھوّ نے ڈنک مارا ہو۔ وہ ایک دو قدم پیچھے بھی ہٹی تھی مگر اب دادی اماں سے بچنا نا ممکن تھا۔
’’خداکی مار تجھے۔ لے کے اتنا خوبصورت گلاس توڑ دیا ہے اوپر سے ناشکری کی حد کرتی ہے۔ موئے ایشی اٹائی کو روتی ہے۔‘‘ وجیہ کے بازو کو زور زور سے جھنجوڑتے انہوں نے ایشین اٹالین کو’’ایشی اٹائی‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ونیزے کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ ابھری مگر اس نے کمال ہوشیاری سے ضبط کر لی۔
’’اوہوں دادی اماں! کونسا کچھ میں نے غلط کہہ دیا ہے ۔ جس دور میں ہم جی رہے ہیں ، روز نئی نئی ڈشز دریافت ہو رہی ہیں۔ لوگ انتہائی شوق سے کھاتے ہیں اور ہمارے گھر میں دیسی کھانوں کے علاوہ کچھ اور پکتا ہی نہیںہے۔ کبھی دال پالک ، کبھی مرغ چاول ، کبھی دال کدو ، کبھی خالی دال۔ میں تو تنگ آ چکی ہوں اس روٹین سے۔‘‘ وجیہ ایک لمحے کو ڈری تھی غصے سے اپنا بازو چھڑوا کر زور زور سے مرغ دال والی ہنڈیا میں چمچہ چلایا اور پھر روٹی بیلنے لگی۔ دادی اماں نے اس کے یوں دو بدو جواب دینے پر زور سے اسے دوہتڑمارا۔
’’خبر دار لڑکی! تم نے تنگی والی بات کی تو۔ جان نکال لوں گی تمہاری۔ ارے ناشکری! خدا کا شکر ادا کر۔ تینوں وقت کی اچھی بھلی کھا کر سوتی ہے۔ بھوکی نہیں مر رہی تُو۔ کپڑا ، لتا ، کھانا ، پینا سب وقت پر ملتا ہے تجھے ۔ کس چیز کی کمی ہے۔ کبھی ان لوگوں کی طرف نظر اٹھا کر کیوں نہیں دیکھا جو ایک لقمے کی خاطر اوروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔جب تک میں ہوں اس گھر میں ایسے ہی کھانے پکیں گے، چسکا لگ گیا ہے تجھے مرچ مصالحوں سے بھرے کھانے کھانے کا ۔ اگر میں دیسی کھانوں پر زور دیتی ہوں تو تم لوگوں کی صحت کی وجہ سے ورنہ یہ جو ایشیاٹائی کھانے کھا کھا کر تم لوگوں کے دماغوں میں کچھ ہوتا ہے نہ ہی آنکھوں میں کچھ سمجھ میں آئی میری بات۔ موئے انگریز یہ کھانے نکال کر چل دیئے اور دوسروں کو لت ڈال گئے ہیں۔‘‘ اپنے خاصے بے لچک تحکمانہ انداز میں کہتے انہوں نے گھورتے ایک لمبی تقریر کر ڈالی تھی۔ وجیہ نے اکتائے ہوئے فوراً سر ہلایا۔
ونیزے کے ہونٹوں پر اس سعادت مندی کے بھرپور مظاہرے پر ایک خوبصورت مسکان ابھر آئی تھی۔ اس دفعہ ونیزے نے مسکراہٹ روکنے کی ناکام کوشش نہیں کی تھی۔ کھل کر مسکرائی۔ وجیہ کی تمام روٹیاں پک چکی تھیں۔ توا اتار کر ہاٹ پاٹ ڈھک کر اس نے برنر بھی آف کیا۔
’’بس کریں دادی اماں! بچی ہے نا، سمجھ جائے گی آہستہ آہستہ ہی عقل آئے گی۔‘‘ دادی اماں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو اس نے بھی زبان کھولی تو اس کی بھولی بھالی معصوم صورت دیکھ کر وہ فوراً ہی دھیمی پڑ گئیں۔
’’میں اس گھر کی یا اس کی دشمن نہیں ہوں۔ سب کے بھلے کی ہی کہتی ہوں ۔ اب یہ تو نہ ہی بچی ہے اور نہ ہی کم عقل۔ جب میں اس کی عمر کی تھی تو اللہ رکھے اس کے بڑے ابو جہانگیر احمد کو، وہ میری گود میں تھا۔ دودھ پیتا تھا اور ایک یہ نخوست ماری ہے۔ بارہویں میں پڑھتی ہے، دیو جتنا قد ہے اور عقل نام کی نہیں ہے۔ لڑکوں کی طرح اچھلتی کودتی ہے۔ چھینا جھپٹی کرتی ہے، ہر بات پر اعتراض ، لڑکیاں تو نظر کے اشارے سے ہی سمجھ جانے والی مخلوق ہیں۔ خدا جانے یہ مصیبت کس پر چلی گئی ہے۔ خدا کا عذاب ہی تو ہے۔‘‘ دادی اماں نے وجیہ کی اور بھی بہت سی خامیاں جو ایک عرصے سے کھٹک رہی تھیں گنوائیں۔ وہ اندر ہی اندر غصے سے تلملا اٹھی۔
’’دادی اماں پلیز.....‘‘ خاص طور پر ان کی آخری بات پر وجیہ احتجاجاًچیخی تھی۔ مگر غصے کی زیادتی سے فوراً چپ بھی ہو گئی۔ مبادا کچھ غلط نہ بول جائے۔ دادی اماں کے سامنے تو ابو چچا، امی چچی تک کی زبان بند ہو جاتی تھی وہ تو پھر نیا نیا بولنا سیکھی تھی۔ اتنی گستاخی کیسے کر جاتی۔
’’یہ پولیس ، ولیس کی تڑیاں مجھے مت لگایا کرو۔ سیدھی ہو جائو جب سے کالج جانا شروع کیا ہے زبان ہی دراز کر لی ہے۔ ہر وقت تڑ تڑ کرتی رہتی ہے۔ اگراب بھی اثر نہ ہوا تو ٹانگیں توڑ کر کمرے میں ڈلوا دوں گی۔ جو گھر میں پکتا ہے، جو سب کھاتے ہیں ، وہی تم بھی کھائو گی۔ مہارانی نہیں ہو جو تیرے لیے علیحدہ مرغ مسلم بھون کر رکھے جائیں۔‘‘ دادی اماں نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی تھی۔ وہ سر جھکا کر رہ گئی مگر دھیمی آواز میں کہے بغیر نہ رہی۔
’’اتنی کنجوسی بھی اچھی نہیں ہوتی۔ جب خدا نے ہمیں دیا ہے تو شکر ادا کرتے کھائیں بھی ناں۔ سنبھال سنبھال کر رکھیں گے ، قبر میں لے جانا ہے نا۔‘‘
’’کیا کہا تو نے.....؟‘‘اسے اچھی خاصی سنا کر دادی اماں جو باہر جانے کو قدم اٹھا رہی تھیں ان کے تیز کانوں تک وجیہ کی یہ مدھ سرائی پہنچ گئی تھی۔ فوراً پلٹیں ، وجیہ کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
’’کچھ نہیں دادی اماں ! میں تو کہہ رہی تھی آپ بالکل بجا فرماتی ہیں بلکہ میں ہی ناشکری ہوں بلکہ بقول آپ کے ،نحوست ماری۔‘‘ بوکھلا کر وہ پھر چبا چبا کر کہتی ونیزے کو مسکرانے پر مجبور کر گئی۔
’’اچھا جلدی سے کھانا لگائو، سب انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ وجیہ چونکہ بیان بدل گئی تھی اس لئے دادی اماں نے اسے گھورنے پر اکتفا کرتے اس کی جان بخشی کی تھی۔ وہ پھر اپنے گھٹنوں کے درد کو کوستے باہر نکل گئیں تو وجیہ قریب رکھی کرسی پر یوں گری جیسے معرکہ سر کر کے آئی ہو۔
’’توبہ ہے.....ایک تو یہ ہماری پیاری دادی اماں بھی ناں.....‘‘بات ادھوری چھوڑ کر اس نے اپنے گالوں پر ہاتھ رکھ کر ان سے پھوٹتی حرارت محسوس کی جو صرف اور صرف دادی اماں کے جلال کی وجہ سے پھوٹ رہی تھی۔
’’تم نے بھی تو حد کر دی وجیہ! توبہ اتنا بولتی ہو، کبھی تو چپ رہ لیا کرو ۔ اچھے بھلے تو ہوتے ہیں تم لوگوں کے کھانے۔ کیا کمی ہے، مجھے تو اتنا مزہ آتا ہے ایمان سے میں بہت لطف اندوز ہوتی ہوں ۔ ایسا ٹیسٹ تو میں نے کبھی اپنی ساری زندگی میں اپنے چائنیز کک کی تیار کردہ ڈشز میں بھی نہیں محسوس کیا۔‘‘
’’آپ صرف اس لیے کہہ رہی ہیں کہ آپ نے کبھی ایسے کھانے کھائے ہی نہیں ۔ ابھی تو آپ کو ڈیڑھ ماہ ہوا ہے یہاں رہتے ہوئے ۔ مزید وقت گزاریں گی تو اس روٹین سے اکتا جائیں گی۔‘‘ وہ ایک منٹ رکی پھر بولی۔’’میں ان کھانوں کو ہر گز ہر گز برا نہیں کہتی مجھے تو اس روٹین کی خوراک سے اکتاہٹ ہوتی ہے۔ کیا کمی ہے ہمارے پاس ، ماشا اللہ اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے ہر چیز ہے پھر بھی اتنی کنجوسی اور الزام صحت کو۔ کبھی کبھی روٹین سے ہٹ کر کچھ اور بھی پکا لیا جائے تو منہ کا ذائقہ ہی چینج ہو جائے۔ یہاں چاہے کدو ، گوبھی ، بھنڈی ، پالک آلو، گوشت چاول کوفتے ، کباب کچھ بھی پکے، سب میں دال کا ہی ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔‘‘ وہ بڑے برے منہ بناتے ہوئے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔ ونیزے کھل کر مسکرا دی۔
وجیہ اپنی جگہ درست تھی اور دادی جان اپنی جگہ پر۔ وہ پرانے خیالات کی حامل پرانی سوچ و روایت کی مالک پرانی عورت تھیں ۔ وہ ہر بات میں دیسی ٹوٹکوں اور بزرگوں کی باتوں کو اہمیت دیتی تھیں۔ چاہے معاملہ کھانے کا ہو یا صحت کا یا پھر عام گھریلو مسئلہ ہو وہ ہر کام اپنی مرضی ، اپنی سوچ کے مطابق ہی کرواتی تھیں۔ باقی لوگ تو ان کی رائے کو، کام کو اہمیت دیتے تھے۔ ان کے فیصلے کو مانتے تھے مگر وجیہ نئے دور کی پروردہ ، نئی سوچ رکھنے والی نئی لڑکی تھی۔ اسے ہر کام میں ، ہر بات میں جدت چاہیے ہوتی تھی۔ اسے دادی اماں کے ٹوٹکوں سے اکثر اختلاف رہتا تھا۔ اسی لئے وہ سارے گھر میں سب سے زیادہ دادی اماں کی جھڑکیوں ، سلواتوں کا نشانہ بنتی تھی۔
’’وجیہ ! تم نے ابھی تک دستر خوان پر کھانا نہیں لگایا۔ وہاں سب انتظار کر رہے ہیں اور یہ نواب زادی یہاں استراحت فرما رہی ہیں۔ چلو اٹھو جا کر دسترخوان بچھائو میں کھانا لاتی ہوں۔‘‘ چچی جان جو دادی اماں سے اس کی تازہ ترین کارگردگی سن کر آئی تھیں اسے یونہی بیٹھے دیکھ کر غصے ہوئیں۔ ماں کا غصہ دیکھ کر وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
بڑ بڑاتے ہوئے باہر چل دی۔
’’ایک تو میں ہی ہر ایک کو فارغ نظر آتی ہوں۔ مجھے ہی ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہیں۔‘‘
’’یہ دیکھو ذراونیزے! یہ حال ہے اس لڑکی کا ایک ذرا سا کام کیا کہہ دیا ہے۔ زبان ہی نہیں رک رہی۔ کیا ہو گا اس کا۔ اگلے گھر جا کر ماں کی ناک کٹوائے گی۔‘‘ اسے مخاطب کر کے انہوں نے اپنا دکھڑا رویا تو اس نے مسکراتے ہوئے انہیں تسلی دی۔
’’کچھ نہیں ہوتا، ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘
’’مشکل ہی ہے۔‘‘ چچی جان کافی نا امید تھیں۔ وہ بھی خاموش رہی۔
پھر اس نے چچی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ان کے ساتھ مل کر کھانا لگویا ۔ ایک ایک کر کے سب دستر خوان پر جمع ہونے لگے تو وہ بھی ہاتھ دھو کر دادی اماں اور بڑی امی کے پہلو میں بیٹھ گئی۔
وہ صبح صبح فجر کی نماز ادا کر کے باہر لان میں نکل آئی۔ بھیگی گھاس پر گرتی اوس، اسے یہ دلآویز منظر ہمیشہ کی طرح دنیا جہاں کے سب منظروں سے زیادہ دلنشین ، حسین اور روح پرور لگا۔ روح اندر تک معطر ہوتی چلی گئی۔ جو تا اتار کر ایک طرف رکھا اور اور شبنمی مخملی سبز گھاس پر چہل قدمی کرنے لگی۔ آنکھیں بند کئے ، گہرے گہرے سانس لیتی ، خارج کرتی یونہی ادھر سے ادھر چکر لگاتے اس خوبصورت ماحول کا ایک حصہ ہی محسوس ہو رہی تھی۔
تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے جب وہ اپنے گھر میں تھی تو بوا باقاعدگی سے اسے صبح صبح اٹھا دیتی تھیں۔ وہ نماز ادا کر کے باہر لان میں نکل جاتی اور بوا، قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف ہو جاتی تھیں۔ ہر چیز سے بے نیاز ہو کر خوبصورت منظروں کو اپنے اندر اتار کے وہ دیر تلک واک کرتی ، کبھی پھولوں کو سونگھتی ، چومتی ، شاخوں سے اٹکھیلیاں کرتی ، درختوں کے گرد جھومتی ، شاخوں سے آزاد ہو جاتی تھی۔ یاد رہتا تو صرف اتنا کہ یہ صبح کا خوبصورت منظر ، قدرتی حسن ، شبنمی قطروں کی نرماہٹ و چہک سب اس کے لیے ہے اور پھر لان کے وسط میں بنے خوبصورت حوض کی چھوٹی سی سنگ مرمر سے تراشی دیوار پر بیٹھ کر گھنٹوں یخ ٹھنڈے پانی میں اپنے پائوں ڈبوئے غافل ہو جاتی تھی ۔ گردوپیش کا کوئی ہوش نہیں رہتا تھا یہاں تک کہ اسے بوا آ کر متوجہ کرتیں۔ پھر اتنی دیر تک لان میں رہنے پر ماما کی ہلکی پھلکی پیار بھری جھاڑ پڑتی تھی۔ اگلے دن پھر وہی روٹین ہوتی تھی۔ ماما کے انتقال کے بعد تو بہت کچھ بدل گیا تھا ، گھر ، رشتے بزنس اور خود پاپا بھی۔ اگر نہیں بدلے تھے تو وہ امجد بھیا اور صبیحہ بھابی تھیں۔ ان کی محبتیں اب بھی ویسی ہی تھیں۔ جان لٹاتی ہوئی۔
اسے اپنے گھر کے لان سے بے پناہ محبت تھی ۔ ان کا اپنا لان تھا بھی بہت خوبصورت اور وسیع ۔ رنگ برنگ پھولوں سے لدا ہوا ، شاید ہی کوئی پودا ہو جو اس میں نہ ہو ، ورنہ جب پاپا اور ماما زندہ تھے وہ نجانے کہاں کہاں سے ڈور انڈور پلانٹس منگواتے تھے۔ اس کام کے لیے انہوں نے بطور خاص دو ملازم (مالی) رکھے ہوئے تھے۔ اس کی ماما کو گارڈننگ کا بہت شوق تھا اور پاپا نے کبھی ان کی کوئی خواہش رد ہی نہیں کی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا لان اپنی کلاس کے تمام لوگوں کے گھروں کے لانز سے زیادہ خوبصورت اٹریکٹو اور صاف ستھرا تھا۔
آنکھیں بند کئے وہ اپنے گھر کے لان میں پہنچی ہوئی تھی۔ جہاں کبھی بھی کسی کو اس کی محویت میں دخل اندازی کرنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی سوائے ماما اور بوا کے۔ اب تو ڈیڑھ ماہ سے یہ قیدیوں جیسی زندگی گزارتے ہوئے اسے گزشتہ تمام واقعات و مناظر خواب ہی لگ رہے تھے۔ پچھلی سب باتوں کو سوچتے ہوئے اسے سب بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ دل چاہ رہا تھا کہ وقت یہیں تھم جائے اور وہ خوابوں کے اسی جزیرے میں گھومتی رہے۔ ماما پاپا کے متعلق سوچتی رہے۔
’’آ......آ......ہم‘‘ وہ آنکھیں بند کئے ماضی کو یاد کرتے شاید اس گھر کے چھوٹے سے مگر خوبصورت لان کا کوئی دسواں چکر لگا چکی تھی ، جب اسے یہ عجیب سی آواز سنائی دی۔ شاید کوئی اس کے قریب کھانسا تھا۔ اندازہ تو یہی ہوا تھا۔ ونیزے نے ایکدم آنکھیں کھول دیں مگر اپنے بالکل سامنے قدرے بہت نزدیک کھڑے قطعی اجنبی شخص کو دیکھ کر پہلے بوکھلائی ، ڈری اور پھر اس کے حلق سے بے اختیار چیخ ہی نکل گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید حماقت کا مظاہرہ کر کے چور چور کا شور مچاتی ، اس اجنبی شخص نے فوراً آگے بڑھ کر اس کے منہ پر اپنا کھردرا مگر مضبوط ہاتھ رکھ دیا۔ دوسرے ہاتھ میں پکڑا ہوا سفری بیگ وہیں گھاس پر ڈھیر کیا اور مضبوطی سے ڈری سہمی ڈرپوک سی ونیزے کا نرم و نازک بازو بھی دبوچا۔ اجنبی کی اس جرأت پر ونیزے کی خوف و ہراس سے آنکھیںپھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ تو اچھی خاصی ڈرپوک لڑکی واقع ہوئی تھی۔ اس اچانک افتاد سے مزید گھبرا گئی۔ نروس سسٹم نے کام کرنے سے یکدم انکار کر دیا۔ ونیزے جیسی دھان پان سی ، کانچ کی طرح نرم و نازک لڑکی کے لیے اتنے قوی مضبوط و توانا ، ڈیل ڈول والے چور کا تصور ہی سوہان روح تھا۔
اپنے منہ سے اس کا فولادی ہاتھ ہٹانے کو اس نے دونوں ہاتھوں سے اس کا بازو تھام کر پیچھے ہٹانے کی کوشش کی مگر سب مزاحمتیں بے کار گئیں۔ تڑپنا بے سود تھا۔ مقابل نہ صرف خاصا چالاک تھا بلکہ نہایت فولادی اعصاب کا مالک تھا۔ وہ کچھ بھی کر لیتی سب بے کار تھا ۔ وہ اس کی مزاحمت روکنے کو نظر انداز کئے بازو سے دبوچے بے دردی سے گھسیٹتے ایک سائیڈ پر لے گیا۔
’’خبر دار ! شور مچانے یا کوئی حرکت کرنے کی کوشش کی تو جان سے مار دوں گا۔‘‘ جسم کی طرح لہجہ بھی بہت کرخت کسی احساس سے عاری تھا۔ آواز اتنی بھاری، گونج دار ، تحکم بھری مضبوط و بے لچک تھی کہ ونیزے کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ٹانگوں نے اس کے وجود کا بوجھ سہارنے سے انکار کر دیا۔ ہاتھ پائوں......اتنے یخ ہوئے کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا ناچتا محسوس ہوا۔ بزدل اور کم ہمت وہ شروع سے ہی تھی۔ بجلی کی کڑک چمک سے بے ہوش ہو جانے والی ونیزے اب بھی خود کو کمپوز کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ایک دوبار آنکھیں جھپکتے ، مختل حواسوں کو قابو میں کرنے کی کوشش میں بے حال ہوتی اسی اجنبی شخص کی بانہوں ہی میں تو جھول گئی تھی۔
’’اوہ .....نو......‘‘ ڈال کی طرح ، لچکدار کانچ کی طرح نازک چاندی سے بھی زیادہ روشن خود پر گرے اس معطر ہو شربا وجود پر اس نے ایک نگاہ کی۔ لڑکی کے بے ہوش ہو جانے سے اس کی سوچ کا رخ یکدم بدلا تھا۔ نظریں اس کانچ سے وجود پر گویا جم سی گئی تھیں۔ لڑکی بلا کی حسین تھی۔ اتنا مکمل حسن شاید اس نے پہلی دفعہ ہی دیکھا تھا یا پھر پہلے بھی دیکھا تھا۔ وہ اندازہ نہ لگا سکا۔ پورا وجود ہی سحر انگیز تھا۔
’’یہ کون ہے؟ اس قدر استحقاق سے یہاں کیا کر رہی تھی۔ ‘‘ یہ الجھن اسے بے چین کرنے لگی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس کانچ کے پیکر کو پہلے بھی کہیں دیکھ چکا تھا۔ کہاں؟ پہچان کے رنگ واضح نہیں ہو رہے تھے۔ مزید ستم یہ تھا کہ وہ ہوش و خرد سے بے گانہ اس کے سینے سے لگی بازوئوں کی گرفت میں تھی۔ اتنی جلدی وہ حواس کھوئی تھی کہ وہ اس سے کوئی پوچھ گچھ یا کوئی رائے قائم ہی نہیں کر سکا تھا۔ اس کے لیے اصل پریشانی موجودہ صورتحال تھی۔ اگر اس وقت کوئی گھر کے اندر یا باہر سے ادھر نکل آتا تو وہ بری طرح پھنس جاتا۔ اپنی پوزیشن خاصی آکورڈ دمحسوس ہو رہی تھی۔ اپنی نیچر پر غصہ بھی آیا کہ بلا سوچے سمجھے اتنا خوفناک ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ بہت آہستگی سے اس لڑکی کو گھاس پر لٹا کر اس کا سر اپنی جھولی میں رکھا۔
’’ہیلو گرل.....دیکھو ہوش کرو......پلیز اٹھو......‘‘ دونوں ہاتھوں سے اس کے گلابی چھلکتے رخساروں کو تھپتھپاتے اس نے کہا مگر دوسری طرف وہ یونہی بے حس و حرکت تھی۔ اس نے اس کی ناک کو زور سے بند کر دیا تا کہ سانس بند ہو اور وہ ہوش میں آئے مگر یہ طریقہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا۔ اب اس کے حقیقت میں ہوش اڑے تھے۔ اجنبی لڑکی بے ہوش پڑی تھی وہ بھی اس کی اپنی کم عقلی کی وجہ سے۔
’’کیا ضرورت تھی یار اتنے مشکوک ہونے کی۔‘‘ اس نے جھنجلا کر خود کو لتاڑا ۔ کلائی تھام کر نبض چیک کی تو سکون ہوا۔ وہ نارمل تھی۔ اپنی تسلی کے لیے دل کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر دھڑکن چیک کی۔ جہاں کچھ سکون ہوا اس اجنبی لڑکی کی اس بے ہوشی پر کوفت بھی ہونے لگی۔ آج اسے اپنا یہ سرپرائز بہت مہنگا پڑا تھا۔ ایک آخری کوشش کے بعد بھی وہ ہوش میں نہ آئی تو اس نے اس کا سر بھی گھاس پر رکھا دونوں ہاتھ جھاڑتا اندر کی طرف لپکا۔
’’امی .....امی.....دادی جان.....بھئی سب کہاں ہیں......وجہی.....چچی جان۔‘‘ اندر داخل ہوتے ہی اس نے پکارنا شروع کر دیا تھا۔
’’امی ......‘‘وہ پکارتا بغیر ادھر اُدھر دیکھے امی کے کمرے کی طرف بڑھا۔ امی اس کی آواز سن کر حیران ہوتیں کچن سے باہر نکل رہی تھیں اسے کمرے کی طرف جاتے دیکھ کر فوراً پکارا۔
’’واصق.....‘‘ وہ اس پکار پر ایکدم پلٹا تھا۔ امی اسی کی طرف آ رہی تھیں ۔ دوسرے کمروں سے دادی جان، چچی بیگم ، وجیہ ، ابو، شہروز ، مہران وغیرہ بھی نکل آئے تھے۔ ان سب کو دیکھ کر وہ بے طرح خوش ہواٹھا تھا فوراً سب سے پہلے امی کے آگے جھکا۔
’’السلام و علیکم امی جان۔‘‘
’’وعلیکم السلام جیتے رہو۔ اس قدر اچانک ......‘‘ سر پر ہاتھ پھیرتے انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا۔
’’واصق تو اتنی صبح صبح ، تجھے تو آٹھ دن بعد آنا تھا۔‘‘ اس کی اچانک آمد پر دادی اماں بھی حیران ہوتے پوچھ رہی تھیں ۔ اس کی توقع کے مطابق سب اس قدر اچانک آمد پر حیران تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے ان کے ساتھ لگ گیا۔
’’بس بہت یاد آ رہی تھی آپ سب کی.....جلدی جلدی سارا کام سمیٹتے فوراً یاد آگیا۔‘‘ اپنے سرپرائز کی کامیابی پر مسرور بھی تھا۔
ان سے ہٹ کر اس نے باری باری سب سے سلام دعا کی اس دوران وہ یہ بھول بیٹھا تھا کہ باہر کوئی وجود اس کی حرکت کی وجہ سے بے ہوش پڑا ہوا ہے۔
’’واصق بھیا میں آپ کو بہت یاد کرتا رہا تھا۔‘‘ چچی جان کے سپوت زارون نے کہا۔
’’اے واہ، میرا پارٹنر مجھے یاد کرتا رہا تھا ۔ یار میں نے بھی تمہیں بہت یاد کیا تھا۔ خاص طور پر تمہاری اس چونچ سی ناک کو۔‘‘ اس نے شرارتی سے زارون کی لمبی ناک کو کھینچا تو سب ہنس پڑے تھے۔
’’مجھ سے تو تم بات مت کرنا۔ پانچ مہینوں میں تو ایک بار بھی ملنے نہیں آئے ۔ اب بھی مت آتے۔ ‘‘ شہروز نے بھی کہا۔ ان سب کے شکوے بجا تھے وہ ہنس دیا۔
’’اور دادی اماں کیا آپ بھی مجھ سے ناراض ہیں۔‘‘ اس نے دادی اماں سے پوچھا تو انہوں نے کچھ نہ کہا۔
’’ارے آپ تو واقعی ناراض ہیں۔‘‘ انہیں خاموش دیکھ کر وہ تھوڑا سا پریشان ہوا ۔ پھر اچانک باہر بے ہوش ہونے والی لڑکی بھی یاد آئی تو سر پر ہاتھ مارتے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ارے مارے گئے۔ پلیز دادی اماں سارے گلے شکوے بعد میں ، پہلے میرے ساتھ باہر چلیں ۔ وہاں باہر لان میں کوئی لڑکی بے ہوش پڑی ہوئی ہے۔ پلیز دیکھیں وہ کون ہے؟‘‘ اپنی کارستانی اور لڑکی کے بے ہوش ہونے کی وجہ حذف کیے اس نے خاصی عجلت دکھائی تو دادی امی ،چچی وجیہ کے ساتھ باقی سب بھی چونک گئے۔
’’کون لڑکی؟‘‘ دادی اماں کے لہجے میں شک بول رہا تھا ۔ وہ زچ ہوا۔
’’کون لڑکی؟‘‘ دادی اماں کے لہجے میں شک بول رہا تھا ۔ وہ زچ ہوا۔
’’پتا نہیں دادی اماں ، میں جب گیٹ سے اندر داخل ہوا تھا تو وہ لڑکی وہاں چکر لگا رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بے ہوش ہو گئی۔ پلیز آپ لوگ چل کر دیکھیں تو سہی۔‘‘
’’ارے.....میں مر جائوں.....وہ تو اپنی ونیزے آپی ہیں .....‘‘وجیہ کو بروقت یاد آیا۔’’وہ روز صبح صبح لان میں واک کرتی ہیں لیکن واصق بھائی انہیں ہوا کیا؟‘‘ اونچی آواز میں بڑبڑاتے اس نے باہر کی طرف دوڑ لگائی۔ اس کے پیچھے واصق ، چھوٹی چچی، امی ، دادی ، شہروز اور زارون وغیر ہ بھی تھے۔
ونیزے ابھی تک اسی حالت میں تھی جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ دادی اماں اسے اس حالت میں ہوش و خرد سے بیگانہ دیکھ کر تڑپ کر آگے بڑھیں۔
’’ارے میری بچی کیا ہوا اسے؟‘‘ اس کا سر اپنی گود میں رکھتے انہوں نے بطور خاص واصق کو دیکھا ۔ سب ہی پریشان تھے۔ خاص طور پر واصق کے چہرے پر پریشانی سے زیادہ الجھن تھی۔ یہ لڑکی ابھی بھی اس کے لیے سوالیہ نشان بنی ہوئی تھی۔ جس کے لیے سب ہی پریشان ہو گئے تھے۔
’’ارے کوئی اسے اٹھائے تو.....اندر تو لے جائے .....میرے خدا ......یہ تو امانت ہے میرے پاس.....کیا جواب دوںگی میں اس کے بھائی بھاوج کو .....اے میرے خدا عزت رکھنا.....‘‘ اونچی آواز میں کہتے انہوں نے سب کو دیکھا تو وجیہ اور چچی نے اس کی کمر میں بازو ڈال کر سر اونچا کر کے اسے اٹھا یا۔
’’واصق بھائی پلیز .....ہماری مدد کریں۔ انہیں اندر لے چلیں ۔‘‘ اس سے اور چچی سے تنہا ونیزے کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔ دو تین قدم آگے بڑھنے کے بعد ہی اس نے اسے پکارا جو اس ونیزے کے مسلسل بے ہوشی کا ذمہ دار تھا۔ وہ فوراً آگے بڑھا تھا۔ چچی کو ایک طرف ہٹا کر اس نے اسے سنبھالا۔
وجیہ اور وہ بے ہوش ونیزے کو اندر لے آئے تھے۔ کمرے میں لے جانے کے بجائے اسے دادی اماں کے مخصوص تخت پر لٹا دیا۔ امی نے تکیہ اس کے سر کے نیچے رکھا۔ دادی اماں چچی، اس کے ہاتھ پائوں سیدھے کرنے لگیں۔ وجیہ پانی کا گلاس لے آئی تھی۔
’’بھائی! آپ پلیز کسی ڈاکٹر کو بلوائیں۔‘‘ اس کے منہ پر پانی کا چھڑکائو کرتے ہوئے وجیہ نے شہروز سے روہانسے لہجے میں کہا تو وہ ٹیلی فون اسٹینڈ کی طرف بڑھ گیا۔ اس دوران باقی لوگ بھی ارد گرد جمع ہو گئے تھے جبکہ دادی اماں نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنی جگہ مزید چور بن گیا۔ لڑکی کا تعارف حاصل کئے بغیر ہی وہ یہ اچھی طرح جان چکا تھا کہ یہ لڑکی گھر والوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
’’میں نے فون کر دیا ہے ۔ ڈاکٹر بس آتا ہی ہے۔‘‘ شہروز نے واپس آ کر سب کے اترے روہانسے چہرے دیکھ کر تسلی دی۔
’’بڑی بہو! اس کے ہاتھ سہلائو.....پائوں ملو.....کچھ کرو۔ خدا کے لیے اسے ہوش تو آئے.....پرائی امانت ہے یہ تو۔‘‘ دادی اماں مسلسل بول رہی تھی۔ ان سب کو پریشان دیکھ کر وہ خود بھی آگے بڑھا۔ وجیہ کے ہاتھ سے گلاس لے کر اس نے پورا گلاس اس پر انڈیل دیا تھا۔ ایک دم سر پر پانی گرا تھا۔ وہ کسمسائی مگر پھر بھی ہوش میں نہیں آئی تھی۔
’’خرم فریج سے ٹھنڈا یخ پانی لے کر آئو.....جلدی کرو۔‘‘ اس نے قریب کھڑے بھائی کو کہا تو وہ فوراً دوڑا۔
’’ارے کیا کرتے ہو تم.....اس موسم میں ٹھنڈا پانی ڈالو گے۔ مارو گے اسے۔‘‘
خرم بوتل لے آیا تھا وہ ڈھکن کھول کر ڈالنے ہی لگا تھا جب دادی اماں نے ٹوکا۔
’’کچھ نہیں ہو گا.....آپ پلیز چپ رہیں ۔ دیکھیں یہ ابھی ہوش میں آتی ہیں۔ ‘‘ بہت چڑچڑے انداز میں اس نے جواب دیا۔ دادی اماں چپ ہو گئیں۔ آج تو وہ اپنے دیسی ٹوٹکے تک بھول گئی تھیں۔ اس نے بوتل پوری کی پوری اس پرالٹا دی تھی۔ اتنا یخ ٹھنڈا پانی ایکدم گرنے سے اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں ۔ اس کے یوں ہڑبڑا کر آنکھیں کھولنے سے سب کے جسموں میں جان لوٹ آئی تھی۔
’’کیا ہوا تھا میری بچی کو؟‘‘ دادی اماں نے بہت ہی حلاوت ومٹھاس بھر ی آواز میں پوچھا تھا ۔ وہ جو سب کو خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی اس میٹھی نرم پھوار پر انہیں دیکھنے لگی تو تھوڑی دیر پہلے خود پر بیتنے والی سچویشن بھی یاد آ گئی۔ آنکھیں نمکین پانی سے جل تھل ہو گئیں۔
’’دادی اماں.....وہ......وہ وہاں چور......وہ مجھے ......‘‘ مزید اس سے کچھ کہا نہیں گیا تھا۔ پھُوٹ پھُوٹ کر رونے لگی۔ دادی اماں نے اسے یوں بچوں کی طرح روتے دیکھ کر ساتھ چمٹا لیا۔ بچوں کی طرح چمکارنے لگیں۔ وجیہ گلوکوز ملا پانی لے آئی تھی۔ بڑی امی نے ونیزے کے ہونٹوں سے لگایا۔
’’لو، یہ پانی پیو.....شاباش.....‘‘اس نے ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کر دیا تھا۔دل کی دھڑکن معمول پر آئی، حواس بحال ہوئے تو اس نے دادی اماں کے سینے سے سر اٹھا کر سب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ مگر اب کی بار اسے پھر ایک شدید جھٹکے سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
سینے کے اندر موجود دل نے شور مچا دیا۔ ’’چور چور‘‘ وہ ان سب میں موجود تھا جو اس کی اس حالت کا ذمے دار تھا۔ اس کی آنکھیں ایک دفعہ پھر پھٹی تھیں۔ دماغ سر سرانے لگا تھا۔
’’خبردار شور مچانے یا کوئی حرکت کرنے کی کوشش کی تو جان سے مار دوں گا۔‘‘ کتنی سفاک آواز تھی احساس و رحم سے عاری ،جس نے اس کے حواس چھین لیے تھے۔ اب بھی وہ اس کے کان کے قریب پکارا تھا ۔ اپنے ہونٹوں پر اس کی نمکین انگلیوں کی سختی پوری شدت سے محسوس ہوئی۔ وہ پوری جان سے چیخی۔
’’نہیں.....‘‘ اس کی نظریں جیسے واصق پر جم سی گئی تھیں پھر ایک دم حرکت میں آئی۔ دادی اماں کو جھنجوڑ ڈالا ۔’’دادی اماں.....یہ ......یہ چور......اس نے مجھے .....‘‘ انگلی سے اس نے باقاعدہ واصق کی جانب اشارہ کیا تھا۔ سب نے یکبارحیرانگی وبے یقینی سے واصق اور پھر ونیزے کو دیکھا۔
’’لاحول ولا قوۃ.....‘‘ وہ با آواز بلند بڑبڑایا۔ ’’دادی اماں ! لگتا ہے ان کے حواس ابھی تک ٹھکانے نہیں آئے۔ بہتر ہے یہاں تماشہ مت لگوائیں ۔ یہ جو کوئی بھی ہیں ان کو کمرے میں لے جائیں۔ ڈاکٹر آنے ہی والا ہو گا۔‘‘ ناگواری سے کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
دادی جان نے فوراً اسے بازوئوں کے حصار میں لے لیا۔ وجیہ اور امی ایکدم ہنس پڑی تھیں۔ چچی جان بھی تخت پر بیٹھیں تو باقی سب بھی مطمئن ہو گئے۔
’’پاگل ہو تم تو.....بھئی وہ کوئی چور وور نہیں۔ میرا بیٹا ہے سب سے بڑا، پانچ ماہ سے پشاور گیا ہوا تھا اپنی بہن کے ہاں۔ اسے سر پرائز دینے کی عادت ہے۔ بغیر بتائے ہی صبح صبح چلا آیا۔ تم نے چونکہ اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اسی لیے غلط فہمی ہو گئی ہو گی۔ ویسے وہ شکل کا اتنا پیارا ہے چور تو نہیں لگتا۔‘‘ اس کے مر مریں نرم ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں دباتے انہوں نے بتایا اور آخر میں کچھ شریر سے انداز میں چھیڑا تو اسے کچھ حیرت ہوئی۔
’’مگر اس نے تو مجھے.....‘‘وینزے نے انہیں اس کا روّیہ بتانا چاہا۔ پھر لب بھینچ لیے۔
’’بڑا سنجیدہ ہے کبھی کبھار دل چاہا دوسروں کو حیران کرنے کی بات آئی تو یوں چپ چپاتے بغیر بتائے گھر آتا ہے۔ خاص طور پر جب وہ گھر سے باہر ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ یا مہینوں رہ کر آئے تو یونہی سر پرائز دیتا ہے۔ مشکوک لوگوں کے ساتھ رہتے رہتے اب خود بھی ایسی مشکوک حرکتیں کرنے لگا ہے کہ کوئی اجنبی پہلی ہی نظر میں دیکھے تو فوراً غلط سمجھ بیٹھے۔ ‘‘ چچی جان نے بھی بتایا ۔ وہ چپ رہی۔ اسے دیکھ کر اچھی خاصی الجھ گئی تھی۔ وہ اسے نظر سے ہی نہیں واقعی مشکوک لگ رہا تھا ۔
’’وجیہ! بہن کو کمرے میں لے جائو۔ سب کو کام دھندے پر نکلنا ہے۔ ہم ذرا کچن دیکھ لیں۔‘‘ بڑی امی نے وجیہ کو کہا تو دادی اماں نے پیار سے اسے خود سے جدا کر کے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور وجیہ کے حوالے کیا۔ وہ چپ چاپ اس کے ساتھ اس کے کمرے میں آگئی۔ دماغ تو ابھی بھی سنسنا رہا تھا۔ وہ ٹوٹلی غیر حاضر تھی۔ بستر پر لیٹتے ہی آنکھیں بند کر لیں۔
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر بھی آگیا تھا۔ چیک اپ کے بعد اسے ’’ٹوٹلی پرفیکٹ‘‘ کہہ کر ایک دو ہدایتیں دیتے چلا گیا ۔ باقی سارا وقت وہ آنکھیں بند کیے لیٹی رہی۔