مناہل بے صبری سے شاہدہ کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔
مگر آج شاہدہ نے بہت دیر کردی آنے میں ۔۔۔
جب وہ آی تو آتے ہی شروع ہوگی ۔۔۔
سلام بیبی جی
والیکم سلام
کیا ہوا ؟؟؟؟
جی بیبی میں گی تھی اس نے یہ تعویز دیا ہیں زمین پہ دبانا ہے رات کو اور یہ تعویز آپ نے اپنے پاس رکھنا ہے جب تک شادی نہ ہو ۔۔۔
اچھا اور کیا بولا
بس بیبی بولا 11 دن کا ٹائم دیا ہیں 11 دن میں آپ کا رشتہ پکا ہو جاے گا ۔۔۔
شاہدہ مجھے یقین نہیں۔ آرہا ایسا ہو بھی سکتا ہیں؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔
بیبی فکر نہ کرے سب ہوگا بس آپ دیکھتی جائے ۔۔
منال نے رات کو تعویز بھی دفن کردیا ۔۔۔
اب دیکھو کیا ہوتا ہے ۔۔۔
تعویز رکھ کے دو دن ہوگے مگر ابھی تک شاویز نے کوئی اچھی خبر نہیں سنای ۔۔۔۔
آج تعویز دفن کے سات دن ہوگے ۔۔۔
آج صبح سے شاویز نے بھی فون نہیں اٹھایا پتا نہی کہاں مصروف ہے ۔۔۔
میسج چھوڑ دیتی ہوں جب فری ہوگے جواب دے دے گے ۔۔۔
شاویز جی آپ کی یاد آرہی ہیں جیسے فری ہو فون کرے گا ۔۔۔۔
رات دیر شاویز کی کال آی ۔۔۔۔
اس کے ابّو کو فالج کا اٹیک ہوا تھا صبح ۔۔۔
بہت حالت خراب ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں تھا شاویز ۔۔۔۔
فالج کا سن کر مناہل کی جان ہی نکل گی ۔۔۔شاویز ابّو کی طبعیت کو لے کر بہت پریشان تھا ۔۔۔
فالج کی وجہ سے ان کا جسم کا ایک حصہ کام نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کے فالج کا اثر زیادہ ہوا ہیں۔ اس لئے بہت مشکل ہیں یہ دوبارہ کھڑے ہو سکے ۔۔۔۔
شاویز دل جان سے ابّو کی خدمت کر رہا تھا اور گھر بھی دیکھ رہا تھا ۔۔
آج 3 دن سے ہسپتال میں جاگ رہا تھا ۔۔۔۔صبح مناہل بھی ابّو کو دیکھنے آی تھی ۔۔۔
مگر پریشانی یہ تھی اس کو
کہیں تعویز کی وجہ سے تو کچھ غلط نہی ہوا
وہ اتنے دن یہاں رہ نہیں سکتا تھا ۔۔۔
بہرحال نوکری سے زیادہ اس وقت والد صاحب کی خدمت ضروری تھی ۔۔۔۔۔
مناہل بھی بہت پریشان تھی کے تعویز سے شادی کیا ہونی تھی انکل کی طبعیت ہی خراب ہوگی ۔۔۔۔
شاہدہ کام کر کے میرے کمرے میں۔ آنا ۔۔۔۔
جی بیبی جی میں آتی ہوں ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد شاہدہ مناہل کے کمرے میں آتی ہے ۔۔۔
بیبی جی آپ نے بلایا مجھے ؟؟؟؟
ہاں شاہدہ مجھے یہ پوچھنا تھا آج کو تعویز کو سات دن ہوگے ہیں شادی کی بات ہونا تو دور کی بات وہاں انکل کو فالج ہوگیا
مجھے لگتا ہے تعویز کا الٹا اثر ہوگیا ہیں
نہیں نہیں بیبی جی ایسا کچھ نہیں ہوتا آپ صبر کرے دیکھے سب ٹھیک ہوگا میں کل دوبارہ جاو گی پوچھ کے آپ کو بتا دو گی ۔۔۔
ان سب میں 15 دن ہوگے شاویز کے ابّو بھی گھر آگے ۔۔
ہاں مگر یہ ضرور ہوا تھا مفتی کامل کا سب گرور تکبر ختم ہوگیا تھا انھیں سمجھ آگی تھی کے اولاد پہ زبردستی پابندی لگانے سے کچھ نہیں۔ ہوتا اس لئے آج وہ سوچ رہے تھے کے شاویز سے بات کرے گیے ۔۔۔
شا شا ویز
جی جی ابّو جی کیا ہوا کچھ چاہے ۔۔
نہ نہیں مفتی کمال کو بولنے میں بھی اب مشکل ہوتی تھی ۔۔
بیٹا تماری شا شادی وہی شادی کرو گا...
میری شادی ابّو مجھے معاف کردے آپ جہاں جس سے بولو گے میں اس سے شادی کرو گا شاویز بھی باپ کی تکلیف کو دیکھ کر رو پڑا ۔۔۔۔
نھ نہیں تماری امی کو بلاو. ۔۔۔۔
شاویز اپنی امی کو لے کر آتا ہے آپ کو ابّو بلا رہے ہیں ۔۔۔
جی کیا ہوا کمال صاحب سب ٹھیک ہیں نہ کوئی تکلیف ہیں آپکو ڈاکٹر کو بلاو ۔۔۔۔
نہیں نہیں تم شاویز کا رشتہ لے کر اس لڑکی کے گھر جاو ۔۔
کمال صاحب تکلیف سے اٹک اٹک کر اپنی بات پوری کی ۔۔۔۔۔
مناہل کے گھر ؟؟؟؟؟
کمال صاحب نے سر کے اشارے سے ہاں کی ۔۔۔
میری زندگی کا بیگم کچھ پتا نہیں میں چاہتا ہوں اپنے سامنے اس کی شادی کرا دو ۔۔۔۔
شاویز کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا اس کے ابّو نے کس طرح اس شادی کی بات کی
ابّو آپ دل سے بول رہے ہیں ۔۔۔
ہاں بیٹا مجھے تماری شادی دیکھنی ہیں ۔۔بس تم اس لڑکی کو دین۔ سے قریب کرنا ۔۔۔۔
جی جی ابّو ضرور شاویز اپنے ابّو کا ہاتھ پکڑ کر خوشی سے رو پڑا
یہ شاویز کا صبر اور والدین کی بات مانے کا صلہ تھا جو اللّه نے اس کے ابّو کے دل میں یہ بات ڈالی مگر دکھ اس بات کا تھا اس خوشی میں اپنے باپ کو اس طرح لاچار بےبس دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
ابّو سے بات کر کے مناہل کو فون کیا ۔۔۔
السلام علیکم ۔۔
والیکم سلام کیسی ہو ؟؟؟؟
جی میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں انکل کیسے ہیں ؟؟؟؟
میں ٹھیک ہوں بس ابّو کی طبعیت ایسی ہی ہے وقت لگے گا انھیں ٹھیک ہونے میں ۔۔۔
جی یہ تو ہیں مگر آپ پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہوجاے گا ۔۔۔
انشاء اللّه ۔۔۔
بلکل بس تم بھی دعا کرنا ۔۔۔۔
اچھا ایک بات کرنی تھی مناہل تم سے ۔۔۔
جی بولے۔۔۔۔
وہ آج ابّو نے شادی کی بات کی تھی ۔۔۔
کس کی شادی کی ؟؟؟؟؟
میری شادی کی ۔۔۔۔۔
آپ کی شادی کی
مناہل کا تو دل ہی ڈوب گیا مطلب اب شاویز اپنے ابّو کی پسند کی لڑکی سے شادی کر لے گا ۔۔۔۔۔
مناہل آنکھوں میں آنسوں لے کر چپ تھی فون پہ ۔۔۔۔
مناہل
مناہل
شو شو جی سن رہی ہوں ۔۔۔
کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو ؟؟؟؟
کیا کرو پھر آپ کی شادی پہ آکر بھنگڑا ڈالو ؟؟؟؟؟
شادی پہ بھنگڑا ؟؟؟؟
اچھا اچھا اب شاویز سمجھا مناہل کو پوری بات سمجھ ہی نہیں آی ۔۔۔۔
ہاں شادی میں تو تمہیں آنا ہی ہوگا مگر دلہن بھنگڑا ڈالتی ہوئی اچھی نہی لگتی ۔۔۔۔
کیا مطلب دلہن ؟؟؟؟؟
مطلب میں دلہن آپ کی شادی ؟؟؟؟
جی جناب میری شادی تم میری دلہن ۔۔۔
ابّو ہم دونوں کی شادی کے لئے مان گے ہیں ۔۔۔
شاویز
ارے أستہ لڑکی میرے کان کے پردے پھٹ جاے گے ۔۔۔۔
مجھے یقین نہیں آرہا ۔۔۔
اچھا جی یقین کر لو اور اب گھر والوں سے بات کر کے مجھے بتاو کب امی اور دادی کو بیجھو ۔۔۔۔۔۔
جی جی میں کل صبح ہی مما پاپا سے بات کرتی ہوں۔۔۔۔
رات دیر تک مناہل اور شاویز اپنے مستقبل کی باتیں کرتے رہے ۔۔۔۔
فون رکھ کے مناہل کتنی دیر سوچتی رہی کیسے سب ٹھیک ہوگیا ۔۔
شاہدہ کے بابا جی تو بہت پونچے ہوئے نکلے ۔۔۔۔
اسے ہی بوا جی اتنے لمبے لمبے وظائف کرتی ہیں سیدھا بابا جی کے پاس چلی جایا کرے ۔۔۔
صبح شاہدہ کو باقی کے پیسے بھی دے دو گی یہ نہ ہو پیسے کی وجہ سے کوئی کام ادھورا رہ جائے ابھی تو انہوں نہ مما پاپا کو بھی راضی کرنا ہیں ۔۔
منال کو یقین نہیں آرہا تھا اس کا رشتہ اتنی جلدی ہو بھی گیا ۔۔۔
جب شاویز کی امی اور دادی رشتہ ڈالنی آی تو پتہ چلا شاویز کے ابّو اور منال کے ابّو کالج میں ایک ساتھ پڑھتے تھے اور بہت اچھے دوست بھی تھے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا اس لئے جیسے ہی شاویز کی دادی کو دیکھا منال کے پاپا فورن پیچان گیے اور جب کمال صاحب کی طبعیت کا پتہ چلا اسی وقت اپنے دوست سے ملنے بھی گے دوست کو اس حالت میں دیکھ کر تکلیف سے دل دکھ گیا کیسے جوان دوست تھا آج اس حالت میں ملا ۔۔۔۔
بہرحال اب تو رشتے سے نہ کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی شاویز کا مستقبل نظروں میں تھا اور دولت کی اس لئے فکر نہیں تھی ان کا جو بھی تھا وہ سب منال کا ہی تھا ۔۔۔
مگر منال کی مما تھوڑی پریشان تھی بیٹی کو سونے کا نوالہ دے کر پالا تھا پتہ نہیں رہ سکے گی یا نہیں اس ماحول میں ۔۔۔
مگر بیٹی کی محبّت میں مجبور ہو کر ہاں کردی ۔۔۔۔
اور کمال صاحب کی طبعیت دیکھ کر جلد ہی شادی کا فیصلہ کیا گیا ۔۔۔۔۔۔
دونوں طرف سے شادی کی تیاری عروج پہ تھی
شہروز بھی خوش تھا آپی بھابھی بنے والی تھی ۔۔۔۔اور زرنش بھی پیاری دوست کو بھابھی دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔۔
آج شادی کا دن آ ہی گیا ۔۔۔
مناہل لال جوڑے میں خوبصورت ترین دلہن لگ رہی تھی اور دوسری طرف شاویز بھی ۔۔۔۔۔
سب نے چاند سورج کی جوڑی کو خوب دعا دی رحمت بوا نے پہلی فرسٹ میں نظر اتاری ۔۔۔۔
مناہل کے پاپا نے مناہل کو ایک خوبصورت کوٹھی گفٹ کی ۔۔
اور قرآن پاک کے سایہ میں بیٹی کو رقست کیا ۔۔۔۔۔
مناہل دلہن بیٹھی شاویز کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔
السلام علیکم ۔۔۔۔شاویز نے اندر آتے ہی پیار سے مناہل کی طرف دیکھ کر سلام کیا ۔۔۔
والیکم سلام ۔۔۔۔۔
یہ تمارا منہ دکھایی کا تحفہ ۔۔۔
پیارے سے کنگن مناہل کے ہاتھ میں ڈالتے ہوئے تمارے اس پیارے سے چہرے کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں مگر یہ میرا پیار ہے تمارے لئے ۔۔۔
تھینکس بہت خوبصورت ہیں ۔۔۔
مناہل اور شاویز نے اپنی زندگی کا سفر شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔
شاویز کو بچپن سے نماز کی عادت تھی اس لئے رات دیر سے سونے کے باوجود بھی صبح فجر کے وقت اٹھ گیا ۔۔۔۔
مناہل کو بھی نماز کے لئے آواز دی ۔۔۔
مناہل
مناہل
ہو ۔۔۔۔۔۔
اٹھ جاو نماز کا وقت ہوگیا ۔۔۔
آپ پڑھ لو مناہل نیند میں جواب دے کر کروٹ بدل کر سو گی ۔۔۔
مناہل اٹھ جانا میں مسجد جا رہاہوں ۔۔۔
مسجد سے واپس آخر دیکھا مناہل گھیری نیند میں سو رہی تھی ۔۔۔
لگتا ہیں شادی کی تھکن میں برا حال ہوگیا ہیں چلو سونے دو اٹھ کر قضا پڑھ لے گی ۔۔۔۔۔
شاویز بھی تھوڑی دیر میں دوبارہ سوگیا ۔۔۔۔۔
دن 12 بجے شاویز کی آنکھ کھلی ۔۔۔۔
اف اتنی دیر ہوگی کسی نے اٹھایا بھی نہیں ۔۔۔۔
مناہل اٹھ جاو 12 بج گے ہیں ۔۔۔
سونے دے نہ شاویز بہت نیند آرہی ہیں ۔۔۔۔
شاویز کی جان اٹھ جاو تمارے گھر والے بھی آنے والے ہوگے اور باہر مہمان بھی ہیں اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔
اچھا جی اٹھ جاتی ہوں مناہل منہ بناتی ہوئی اٹھ گی ۔۔۔۔
آج جلدی اٹھ گی ہوں کل دیر تک سونے دینا ۔۔۔۔
اچھا میری پیاری بیوی جو حکم آپ کا ۔۔۔۔
مناہل کے گھر والے ناشتہ لے کر اے مناہل کے چہرے میں رونق اور خوشی دیکھ کر خوش ہوئے ۔۔۔۔
دوسرے دن ولیمہ تھا شاویز کے تمام دوست اپنی فیملی کے ساتھ اے سب ہی مناہل کو بہت اچھے لگے پڑھے لکھے آرمی میں میجر اور کرنل اور زیادہ تر ان کی وائف بھی آرمی میں ہی تھی ۔۔۔۔
سب کو مناہل بھی بہت پسند آی ۔۔۔
معصوم اور خوبصورت ۔۔۔۔
خیریت سے ولیمہ کا فنکشن ختم ہوا ۔۔۔
شاویز کو 15 دن کی چھٹی ملی تھی جو آج کل دعوت میں ہی گزر رہی تھی ۔۔۔
شاویز نے جیسا مناہل کو سوچا تھا وہ اس سے زیادہ اچھی نکلی اس کے گھر والوں کو عزت دینا دادی اور کمال صاحب کو بھی ٹائم دیتی تھی ۔۔۔
بس ایک بات شاویز کو پریشان کر رہی تھی مناہل کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔۔۔۔
کپڑے تو مناہل شاویز کی پسند کے پہن رہی تھی کے کمال صاحب کو برا نہ لگے ۔۔۔
مگر نماز کا جب بھی بولو ابھی پڑھ رہی ہوں ایسا بول کر تال دیتی تھی ۔۔۔۔۔
آج مناہل کے ماموں کے گھر دعوت تھی ۔۔۔۔
مناہل تیار ہو رہی تھی ۔۔۔۔
شاویز ۔۔۔
واپسی میں میں مما کے گھر رک جاو ۔۔۔۔۔
کیوں جناب اتنی جلدی مجھ سے تھک گی ۔۔۔۔۔
ارے نہیں نہیں آپ تو میری زندگی ہیں آپ نے مجھے جتنا پیار دیا ہیں میں تو ایک پل بھی آپ سے دور نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔
بس میں یہ سوچ رہی تھی آپ کے ساتھ پنڈی چلی جاو گی تو مما پاپا کے ساتھ ایک رات گزار لو ۔۔۔۔
اچھا اچھا میں تو مذاق کر رہا تھا ۔۔۔
مجھے امی بھی آج بول رہی تھی تمیں تمارے گھر رکنے چھوڑ آیو ۔۔۔۔۔۔
مناہل کو مما پاپا سے زیادہ اس تعویز کی پریشانی تھی وہ سوچ رہی تھی شاہدہ سے پوچھے کے تعویز کا کیا کرنا ہیں پھر وہ پنڈی چلی گی تو بات نہیں ہو سکے گی ۔۔۔
وہ تو شاہدہ کا جتنا احساں مانے کم ہیں وہ یہ ہی سوچ رہی تھی کے کچھ پیسے اور اپنا پرانا سامان بھی شاہدہ کو دے دے وہ خوش ہو جائے گی ۔۔۔
دعوت سے واپسی پہ شاویز نے مناہل کو اس کے گھر چھوڑا ۔۔۔
مناہل کے پاپا نے بہت روکا شاویز کو کے وہ رات یہاں سو جائے مگر شاویز معذرت کر کے گھر واپس آگیا ۔۔۔۔۔
مناہل دیر تک مما پاپا اور رحمت بوا سے باتیں کرتی گی ۔۔۔۔
رحمت بوا نے بہت کچھ سمجھایا ۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی جلدی سے اٹھ گی کے مما کے اٹھنے سے پہلے شاہدہ سے بات کر لے ورنہ اکیلے میں بات نہی ہو سکے گی