میری زندگی کی کتاب کا ہے لفظ لفظ یوں سجا ہوا
سر ابتدا سر انتہا ترا نام دل پہ لکھا ہوا
عدن۔۔۔! عدن۔۔۔! خدا کے لئے چپ ہو جاؤ یار۔۔ کیا پاگل پن ہے یہ؟ زمرہ نے عدن کے چہرے سے چادر ہٹاتے ہوئے کہا تو عدن نے اپنی سرخ انگارے کی طرح ہوتی آنکھوں پر بازو رکھ لیا اور کہا ’ہاں میں پاگل ہو گئی ہوں، اس کے عشق میں۔۔۔ میں نہیں رہ سکتی اس کے بغیر۔۔ وہ اگر نہ ملا مجھے تو میں مر جاؤں گی‘ وہ اسی طرح لیٹی رہی اور زمرہ نے زچ ہوتے ہوئے کہا
’بس بھی کرو ناں!، مریں تمہارے دشمن، پلیز اب اٹھ جاؤ، بس ایک دفعہ میری بات سن لو، پھر جو تمہارا دل چاہے تم وہ کرنا، میں تمہیں نہیں روکوں گی‘ زمرہ نے ساتھ ہی منت سماجت شروع کر دی اور عدن اٹھ بیٹھی، سائیڈ پہ رکھے کشن کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر ٹیک لگا لی اور زمرہ نے بھی اپنے پیر اوپر کر کے بستر پہ آرام دہ انداز میں بیٹھ گئی، عدن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے دیکھا اور کہا ’دیکھو، تم کہتی ہو کہ تمہیں وہی شخص چاہئیے وہ بھی محرم طریقے سے میرا مطلب وہ تم سے نکاح کر لے، کیوں کہ تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے دل میں اس کی محبت اللہ نے ڈالی ہے؟‘ اس نے عدن کے ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھ کر کہا ’میں صحیح کہہ رہی ہوں ناں؟‘ تو عدن نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’تو میری جان! مجھے یہ بتاؤ کہ اللہ نے کب نامحرم سے محبت کی اجازت دی ہے؟ اللہ نے کدھر لکھا ہے کہ جس کام کے لئے اس نے منع کیا ہے ہم اسی کام کے لئے میرا مطلب تھا گناہ کے لئے سجدوں میں جا جا کر رو رو کر دعائیں مانگیں گے تو اللہ قبول فرما لیں گے؟‘
عدن اسے دیکھتی رہ گئی اور زمرہ نے اپنی بات جاری رکھی۔
’عدن یہ جو محبت ہوتی ہے ناں، بہت ذلیل و خوار کرتی ہے، انسان کو رسوا کر کے رکھ دیتی ہے، جانتی ہو ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘ زمرہ نے عدن کو دیکھا اور چپ ہو گئی تھوڑی دیر بعد پھر بولنے لگی
’کیونکہ اللہ ہمیں نامحرم سے محبت کی اجازت نہیں دیتا اور پھر جو لوگ اللہ کی بات نہیں مانتے پھر وہ لوگ ذلیل و رسوا ہی ہوتے ہیں‘ زمرہ لمحے بھر کے لئے رکی تھی لیکن عدن بول پڑی۔
’لیکن زمرہ میں کیا کروں؟ میں اسے بھلانا چاہوں بھی تو نہیں بھلا سکتی، مجھے تو وہ ہر پل ہر دم یاد آتا ہے، پھر میں کیسے سجدہ رو ہو کر اس کے لئے دعا نہ مانگوں؟ جب سجدے میں جاتی ہوں آنسو خود بخود جاری ہو جاتے ہیں آنکھوں سے اور زبان پھر ایک ہی دعا مانگتی ہے، میرا خود پر قابو نہیں رہتا، میرا دل، میری سوچ، میرے الفاظ بھی جیسے اس کے لئے مقید ہو گئے ہوں! تھک گئی ہوں، کوشش کے باوجود بھی میں خود پہ قابو نہیں رکھ پا رہی، جانتی ہو؟ اب اگر میں اس سے بات نہ کی تو یقین کرو میں مر جاؤں گی‘ عدن نے بے بسی کی آخری حد پر پہنچتے ہوئے کہا اور زمرہ کے ہاتھوں پر اپنا چہرہ رکھ کر رونا شروع کر دیا، زمرہ سے اس کی یہ حالت غیر دیکھی ہی نہیں جا رہی تھی۔
٭٭