اسے شک تھا کہ وہ اگر زندہ ہوئی تو اسے امریکا میں نہیں ملے گی عزیز کا کہنا تھا کہ وہ ایک لمبے عرصے کے لیے امریکا چھوڑ گئے ہیں... آغا کو اس نے تلاش کیا تھا وہ بوسٹن میں ہی تھا...ماریہ سے متعلق کوئی خبر نہیں ملی تھی نیٹ سے...
وہ اپنے اقر اس کے گھر گیا... وہ گھر بک چکا تھا... ناچار اسے آغا سے بات کرنی پڑی... اسے پہچان کر وہ چپ ہو
گئے...
"کیا چاہتے ہو؟"
"ماریہ سے ملنا چاہتا ہوں..." اس نے ایسے کہا جیسے اگلے الیکشن میں وہ گورنر کی سیٹ کے لیے کھڑا ہونے والا ہے... فارغ وقت میں وہ ماریہ سے بھی مل لینا چاہتا ہے...
ذرا دیر خاموشی رہی... وہی اس کے فرعون صفت سابق سسر کی عظیم عادت...
دس منٹ بعد اسے دوبارہ فون کیا گیا... ماریہ کے گھر کا پتا لکھوایا گیا... وہ خوب ہنسا... یعنی اس گری ہوئی لڑکی کو پھر اس کے سامنے کیا جا رہا ہے... پھر سے اسے علاج کی ضرورت ہو گی... اس بار وہ اسے اس کا نفیس خلاصہ ضرور سنا آئے گا...
وہ ٹیکسی سے گیا تھا اور گھروں کے نمبرز پڑھ رہا تھا... پھر اسے یہ ضرورت بھی نہ رہی... ایک بڑے گھر کے سامنے بنے کھلے اور وسیع لان میں اسے ماریہ کھڑی نظر آ گئی... وہ پودوں اور پھولوں کے ساتھ مصروف تھی اورایسے مصروف تھی... جیسے یہ دنیا کا مقدس ترین کام ہو... قریب ہی گھاس کاٹنے کی مشین رکھی تھی... جس کے ساتھ ایک دو ڈھائی سالہ بچہ زور آزمائی کر رہا تھا...
"ماریہ...." گھر کی روش پر کھڑے ہو کر اس نے آواز دی...
ماریہ پلٹی..... اس کا حسن....... اف! اس کا وہ بے مثال حسن..... عدن نے جھرجھری لی...
امریکن میگزین میں چھوٹے چھوٹے کپڑے پہننے والی..... ڈانس فلور پر جم کر ناچنے والی کا حسن نہیں تھا وہ...... بار میں کبھی اس کی بانہوں میں' کبھی اُس کی بانہوں میں..... کبھی اس کونے میں' کبھی اُس کونے میں..... یہ وہ حسن نہیں تھا... جس کو دیکھ کر خباثت سے آنکھ ماری جائے... نہیں..... اب اسے دیکھ کر یہ جرات نہیں کی جا سکتی تھی...
"اوہ عدن..." وہ فوراً اس کی طرف آئی... سیاہ فام بچہ بھی ماریہ کا ساتھ اس کی طرف لپکا...
"میرا خیال تھا' تم ایک دو دن میں آؤ گے... پاپا نے فون کیا تھا... آؤ! کہاں بیٹھو گے..... آ جاؤ! اندر ہی چلتے ہیں..." پلٹ کر اس نے بےبی کاٹ اٹھایا... جس میں اس کی شباہت لیے ایک بچی آنکھیں کھولے دراز تھی...
"فلورا...." اندر داخل ہوتے ہی اس نے آواز دی...
میڈ کچن میں سے نکلی... اس کے ہاتھ میں فیڈر تھا... جو ماریہ نے لے لیا...
"ابراہیم ابھی اور کانٹ چھانٹ کرنا چاہتا ہے آپ اس کے ساتھ رہیے..."
ماریہ اسے اپنے ساتھ لیے سٹنگ ایریا میں آ گئی...
"صرف پندرہ منٹ لگیں گے سارہ کو سونے میں.... تمہیں اتنا انتظار تو کرنا ہی پڑے گا..."
"ایک سیاہ فام ہے... ایک سفید فام...... کتنے شوہر بدل چکی ہو ماریہ.... یا...."
وہ اس کے سامنے صوفے پر آ کر بیٹھی ہی تھی کہ اس نے لفظوں کا پہلا طمانچہ ماریہ کو مارا...... نفیس خلاصے کی پہلی سطر...
ماریہ کے چہرے کے رنگ بدلے اور صاف نظر آنے لگا کہ وہ خود کو خود کو قابو میں رکھنے کے لیے دل ہی دل میں کچھ دہرا رہی ہے... ذرا سی دیر بعد وہ مسکرائی اور اس کی طرف کامل اطمینان سے دیکھا...
"میرا خیال تھا' تم مجھ سے ملنے آئے ہو..." وہ پھر ایسے مسکرائی... جیسے عدن کی بیوی ہوتے تو کبھی نہیں مسکرائی تھی...
"یہ......" اس نے سامنے کی دیوار کی طرف اشارہ کیا... جس دیوار کو دیکھ کر عدن پہلے ہی منہ موڑ چکا تھا...
"جس نے بڑا سا ہیٹ پہن رکھا ہے... طلال ہے اور اس کے ساتھ جو پنک شرٹ میں ہے... وہ زکریا ہے... دونوں اس وقت اسکول میں ہیں... ورنہ تم دیکھتے کہ یہ تمہیں کبھی اتنے سکون سے بیٹھنے نہ دیتے..." جن کی طرف وہ اتنے اطمینان سے اشارہ کر رہی تھی... وہ بھی سیاہ فام ہی
تھے... ایک کی عمر قریباً نو سال تھی اور دوسرا سات آٹھ سال کا ہو گا...
عدن حیران ہوا... دیوار دس پندرہ تصویروں سے ایک ہی جگہ سے بھری ہوئی تھی... ایک تصویر میں ماریہ اور ایک اسمارٹ سا لڑکا مسکراہٹ دبائے کھڑا تھا... صرف اسی تصویر کو عدن نے ذرا سی دیر کے لیے دیکھا تھا...
"ہو گا موجودہ بوائے فرینڈ..." وہ تمسخر سے ہنسا... بچوں کی تصویروں کے بارے میں اس نے کوئی بھی خیال دوڑانے کی کوشش نہیں کی...
"یہ جمال ہے..." اس نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا... جو گرل فش دم سے پکڑے کھڑا تھا اور ماریہ کھلا منہ فش کی طرف بڑھا رہی تھی...
"ریکس کی جگہ اب جمال نے لے لی..." عدن نے ٹانگ پر ٹانگ جمائی اور جیسے باپ بیٹی ٹانگ ہلایا کرتے تھے... ویسے ہی اپنی ٹانگ ہلانی شروع کر دی... مطلب ہش..... ہش...
"میرے شوہر....." ماریہ کے انداز میں فرق نہیں آیا تھا...
"اس وقت یوگنڈا میں ہیں... ورنہ تم ضرور جمال سے مل کر خوش ہوتے..."
"شوہر....." اس نے بلند آواز میں بلند قہقہہ لگایا...
"تم شوہر پالنے کا تردّد کیوں کرتی ہو ماریہ؟"
ماریہ کا رنگ فق ہو گیا... عدن نے خوب مزا لیا اور ہاتھ بڑھا کر فریش جوس کا گلاس اٹھایا اور منہ سے لگا لیا...
"شادی کرنے کا تردّد تو میں نے تم سے کیا تھا... شوہر تو مجھے اب ملا ہے... بیوی تو مجھے اب بنایا گیا ہے..."
"اسے کب تک چلتا کرو گی ماریہ؟" عدن پھر سے ہنسنے لگا...
"اس کی نوبت نہیں آئے گی... ٹوٹتے تعلقات ہیں..... محبت نہیں..."
اس بات پر وہ اتنی دیر تک ہنسا کہ تھک کر بے دم ہو گیا...
"محبت...... ماریہ! محبت...... تم محبت لائق چیز نہیں ہو... تم ناچنے گانے...... لڑکھڑانے تک ہی ٹھیک ہو..."
وہ اٹھی اور جمال کی تصویر کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی... "جمال کا کہنا ہے میں وہ صبح ہوں... جو زندگی کے لیے کی گئی..."
"ہاہاہا..... اور تم بہل گئیں...."
"میں ایمان لے آئی..." وہ بھرپور سنجیدگی سے بولی "اسے دیکھ چکی تھی.... اسے سن چکی تھی... اس لیے ایمان لے آئی..."
عدن تمسخر سے اسے دیکھ رہا تھا... جیسے مذاق اڑا رہا
ہو... جیسے کامیڈی ڈراما سمجھ کر ابھی تالیاں بجائے گا...
"ہالی ووڈ کی کس فلم کا ہیرو ہے تمہارا یہ موجودہ شوہر؟"
ماریہ اس کے انداز پر ٹھٹکی..... پھر اس نے سمجھا اور جانا کہ وہ کس حد تک جمال کی ہتک کرنے والا ہے...
"امریکا کے بڑے بزنس ٹائیکون کا بیٹا ہے' جمال.... اس وقت نائیجریا میں ہے... وہاں جلدی امراض کی ایک وباء پھوٹی ہے اور وہ ہر صورت وہاں رہنا چاہتا تھا..."
"اسے بھی تمہاری طرح شہرت کا شوق ہے؟"
"وہ چھوت کی بیماریوں کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتا ہے... اپنے ہاتھوں سے ان کے زخم صاف کرتا ہے... وہ تکلیف سے کراہتے بچوں کا اپنی آغوش میں رکھتا ہے... وہ ان کے وہ وہ کام کرتا ہے' جو تم سے قابل ڈاکٹر کرنے سے پہلے ناک ڈھانپ لیتے ہیں... مجھ سے غیر انسانی لوگ منہ موڑ لیتے ہیں... وہ ناک نہیں ڈھانپتا... ہاتھ نہیں کھینچتا... تیسری دنیا کا ایک چھوٹا موٹا شہر خرید لینے کی استطاعت جمال یہ سب کرتا ہے عدن... شایس تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا میرے خوش قسمتی کا..... ایسی قسمت کہ جمال میرا شوہر ہوتا... ہاتھ جوڑ کر یہ خوش قسمتی میں نے خدا سے مانگی تھی... زخم صاف کرنے والے کی میں نے جا کر منت کی تھی کہ وہ مجھ سے شادی کر لے... میں نے اسے کہا کہ وہ مجھے بھی بیمار' لاچار ہی سمجھ لے اور میرا زخم' زخم صاف کر دے... صرف اتنا ہی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ رکھ لے... میں نے خدا سے پہلی بار دعا کی کہ وہ مجھے جمال دے دے..."
نشے میں بدمست ہو کر ہر بات پر گالی نکالنے والی خدا کا نام لے رہی تھی... دعا کرنا سیکھ گئی تھی...
عدن پھر ہنسا... اس بار اسے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس پر ہنسا... وہ اس کے گھر میں بیٹھا تھا... جس کی آرائش گواہی دے رہی تھی کہ یہاں ایک خاندان آباد ہے... یہاں کچھ لوگ محبت سے رہتے ہیں... گھر خوب صورت تھا... سجا ہوا تھا... لیکن وہ نمائش کی کوئی دکان نہیں لگ رہا تھا...
بات ختم کر کے ماریہ خاموشی سے عدن کو دیکھنے لگی...
"لنچ تیار ہے عدن!"
وہ چونکا... وہ انکار کر کے اٹھ جانا چاہتا تھا... لیکن وہ سر ہلا کر اٹھ گیا... وہ کچھ دیر اور اس گھر میں گزارنا چاہتا تھا...
ماریہ' ابراہیم کو کھلاتی رہی... وہ اتنے نخرے کر رہا تھا کہ عدن کا جی چاہا' اس کی کرسی الٹ دے... وہ اسے ڈسٹرب کر رہا تھا...
"انہیں کہاں سے اٹھایا ہے؟" عدن نے انگلش میں اتنی بےرحمی سے کہا کہ ابراہیم ایک دم چپ ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگا... غصے سے ماریہ کا منہ سرخ ہو گیا...
"تمہیں اس انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے..."
"کیا یہ سچ نہیں.... جگہ جگہ سے اٹھا کر انہیں گھر میں لا رکھا ہے؟"
ماریہ نے ایک نظر ابراہیم کی طرف دیکھا اور اس کے گال چومے...
"یہ ہمارے بچے ہیں صرف..... یہ ہمیں خدا کی خاص رحمت سے ملے ہیں..... وہ توفیق' جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے..... اسی سے..."
اتنے کرارے جواب پر عدن بدمزہ ہو گیا...
"تو اب چیریٹی کر کے سکون حاصل کرتی ہو؟"
"جمال مجھے مل چکا ہے..... سکون کی تلاش نہیں ہے
مجھے..... سکون کی تلاش چند سال پہلے تھی... اسی تلاش کا انعام ہے جمال..... تم کب کر رہے ہو سکون کی تلاش؟"
"میرے پاس بہت سکون ہے..." نیپکن سے ہونٹ صاف کیے...
"کیا یہ سچ ہے؟" اس نے دونوں کہنیاں ٹیبل پر ٹکا دیں اور اس کی آنکھوں میں دیکھا... عدن اس کی آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈال سکا...
"مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟"
وہ اس پر تھوکنے کے لیے ملنا چاہتا تھا... ایک آخری دھتکار کے لیے... عدن کا جی چاہا' اپنی حسرت پوری کر ہی لے... ڈرگز کا کیڑا اب کیسے بن ٹھن کر بکواس کر رہا تھا...
"اپنے لیے سکون کی تلاش جلد ہی کر لو....."
"عالمہ بھی بن گئی ہو یا نن..... مجھے تو ٹھیک سے تمہارے مذہب کا بھی نہیں معلوم..." یہ بات وہ کہہ رہا تھا... جسے ٹھیک سے اپنے مذہب کے بارے میں معلوم نہیں تھا...
"رب العالمین سے اپنے لیے دعا کرو...."
"خدا کے نام بھی سیکھ لیے ہیں.....؟"
"نماز پڑھا کرو...."
"نیک بھی ہو گئی ہو..... اتنا حیران مت کرو..."
"لوگوں پر رحم کیا کرو...."
"تم تو فرشتہ بن گئی ہو....."
"اپنے گناہوں پر توبہ نہیں کر سکتے تو شرمندہ ہونا ہی سیکھ لو...."
"شیخ اور رئیس کے علاوہ کتنوں کا نام لے کر توبہ کی تھی تم نے؟"
"توبہ کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ تمہیں معاف کر دے گا..."
"تم تو حیران کر رہی ہو' وہسکی' شراب کے ذائقے بھول گئی ہو؟"
"حرام سے ہر حال میں بچ کر رہنا.... خدا سے معافی مانگو.... وہ سب دیتا ہے... تیونس کے خیراتی اسپتال کے غلیظ سے اسٹور روم میں روتے بھی اس نے مجھے سن لیا... ہر طرح کے حرام کو چکھ چکی میری زبان بلکتے اس نے مجھے
سنا... یقین جانو! ایسا ہوا..."
"بند کرو اپنا یہ وعظ....." عدن اٹھ کھڑا ہوا...
"میں اپنا فرض ادا کر رہی ہوں... میرے لیے یہ فرض کبھی کسی اور نے ادا کیا تھا.... افریقہ کے صحراؤں میں..... تمہارے لیے میں ادا کر رہی ہوں..." وہ مسکرائی... مشفق سی وہ عدن کو بہت پیاری لگی...
وہ اس گھر سے جا رہا تھا... جانا ہی تھا... اور وہ جانا نہیں چاہ رہا تھا... اس کے دل میں آئی کہ وہ یہیں ماریہ کے سامنے بچھ جائے اور رونے لگے... التجا کرے کہ ماریہ اسے کہیں چھپا لے... ایسی باتیں کرتی وہ کتنی انہونی لگ رہی تھی... ایرے غیرے کے گلے سے جھول جانے والی...
وہ ماریہ کے قریب آیا... اور ہاتھ اس کے گال کی طرف بڑھایا ماریہ دو قدم پیچھے ہوتی حیران ہوئی...
"مجھ سے دور رہو....."
"تم میرے لیے ایسی کیوں نہ بنیں ماریہ؟"
"تم جمال کیوں نہ بنے؟ تم خریدنے والوں میں سے نہیں
ہو...... صرف محبت ہی ایک مکمل انسان کو خریدنے کا ہنر رکھتی ہے... تم نے یہ ہنر سیکھا ہی نہیں..."
عدن اکڑ کر چلتا ہوا ماریہ کے پاس گیا تھا... وہ خود کو گھسیٹتا ہوا وہاں سے نکلا سو میٹر کی دوڑ میں ریکارڈ بنانے والے سے اب کوئی پوچھے... پیچھے رہ جانا' ہار جانا کسے کہتے ہیں؟"
اس نے اگلی کئی راتیں بار میں گزاری... کئی طرح کے افسوس آ لگے تھے اسے... لیکن وہ ہارنا نہیں چاہتا تھا... یہ باتیں' یہ وعظ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے... الکحل کو اپنے اندر انڈیلتے ہوئے اس نے سب ہار دیا.....
افق کو کیسے ہار جاتا؟
خالی ہاتھ رہ جانے والا افق کو کیسے جانے دیتا؟
"ماریہ....... آخ تھو...... محبت....... جمال....... تھو...... وہ کیا جانے محبت کیا ہے... کوئی مجھ سے پوچھے..... بنگلے میں رہتے میں نے ایک معمولی لڑکی سے محبت کی...... ہے کسی میں یہ حوصلہ..... میں نے کی..... ڈاکٹر عدن نے..... جس کے پیچھے ایک عالم پاگل تھا..." وہ بڑبڑاتا رہا...
"ایے کیسے افق کو چھوڑ دوں..." کتنا ہی گر جائے کتنا ہی بھگت لے... افق کو کیوں چھوڑے وہ؟
"خدا کو مجھے امان دینا ہی ہو گا..." افق بہت بار اسے کہہ چکی تھی...
"تم خدا کو میرے لیے اتنا تنگ کرتی ہو؟"
"میں تو التجا کرتی ہوں..."
"جو ہوتا ہے...اچھا ہی ہوتا ہے..." اس نے انگریزی مثل بیان کی...
"کیا مطلب ہوا' اس بات کا؟"
وہ دل کھول کر ہنسا... وہ تو اسے تنگ کر رہا تھا...
"یعنی کہ اگر تمہارے کہنے پر بھی خدا مجھے تمہیں نہ
دے..... تو...."
"اتنی بڑی بات......اتنی بدشگونی...." وہ رونے لگی...
"تو تمہیں کوئی اور مل جائے گا... کوئی رکشہ' ٹیکای چلانے والا......"
"ایسی منحوس بات..... ایسی......" وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی...
وہ بدشگونی تو اس کے لیے ہوئی تھی... اسے یاد آیا... رونا تو اسے چاہیے تھا..... کاش! وہ ایسی بات نہ کرتا..... یہ سب اسی منحوس ساعت کی وجہ سے ہوا...
"پاپا! کوئی لڑکی ہے؟" چلتے چلتے اس نے فون نکال کر پاکستان کال کی...
"لڑکی......؟ کیا ہوا ہے تمہیں؟ تم ٹھیک تو ہو؟" وہ اس کی آواز اور انداز پر گھبرا گئے...
"اب آپ کس سے میری شادی کریں گے؟"
"تم پہلے پاکستان تو آؤ.....بہت لڑکیاں ہیں..."
"کیا واقعی بہت ہیں؟ ابھی بھی بہت ہیں؟ کیا ان میں کوئی ایک افق جیسی ہے..... یاد آئی آپ کو افق..... وہی افق جسے...."
غلام علی نے فون بند کردیا... "بدذات...."
بند فون کو وہ کان سے لگائے رہا...
"جانتے ہیں آپ' وہ کتنی بڑی دھوکےباز نکلی... کہتی ہے' مجھ پر ایک نظر ڈالنا نہیں چاہتی... کہتی ہے مجھ پر محبت واجب نہیں ہوئی... اس بات کا کیا مطلب ہے پاپا..... ماریہ بھی یہی کہتی ہے..... کچھ ایسا ہی... آپ نے مجھے اس بارے میں بتایا ہی نہیں... اب مجھے معلوم کرنا ہے...میں تو ہمیشہ شان سے جیتا ہوں نا...اب کیسے میں فیل ہو گیا... صرف اسی ایک کھیل میں کیوں..... میں نے تو جم کر کھیلا تھا... پہلےتو افق میری ہر بات کا یقین کر لیتی تھی... اب کیوں نہیں کرتی... میں نے کتنی بار اس سے کہا کہ میں اسے محبت کرتا ہوں... اسے کھونا نہیں چاہتا... پاپا! اسے فرق ہی نہیں پڑا... کیا اوقات ہےفرزام کی میرے سامنے..... اندھی ہوئی ہے افق..... مجھے سننا نہیں چاہتی... ایسی بہری پہلے تو نہیں تھی..... ایسی بہری وہ کب سے ہو گئی؟ وہ نہیں مان رہی... میں فرزام کو مجبور کر دوں گا... وہ اسے چھوڑ دے گا... پھر وہ میرے ہی پاس آئے گی..... فرزام اسے چھوڑ ہی چکا ہے..." سڑک پر چلتے وہ بہت دیر تک بند فون سے باتیں کرتا رہا...... اور پھر ایک بار میں بیٹھ کر بڑبڑانے لگا...
"میں ہر طریقہ آزما لوں گا... میں بہت ذہین ہوں میرے پاس بہت سے راستے ہیں..."
اس کی بلند بڑبڑاہٹ پر ایک دو اسے اچنبھے سے دیکھ رہے تھے... لیکن اتنے بھی حیران نہیں تھے... ایسی فلمیں وہاں ہزاروں بار چل چکی تھیں...
عبادت گاہوں میں بڑبڑانے والوں کو عقیدت کی نظریں نصیب ہو ہی جاتی ہیں... انہیں پاگل بھی سمجھا جاتا ہے تو خاص رتبے کا پاگل سمجھتے ہیں...
ایسی جگہوں پر بڑبڑانے والوں کو لوگ مزے سے گالیاں دے جاتے ہیں... ٹھوکریں مار جاتے ہیں... یہی ان کا رتبہ ہے...
وہ حلق تک شراب انڈیل چکا تھا...نشہ تھا کہ آ کر نہیں دے رہا تھا... ایک ہی نشہ تھا... جا کر نہیں دے رہا تھا.... افق کے انداز کا..... وہ ماریہ کو گالیاں بک رہا تھا... فرزام کی شان بیان کر رہا تھا... لیکن افق کی شان میں کوئی گستاخی نہ کر سکا...
ٹھیک ہے' اگر افق چاہتی ہے تو یہی سہی...اگر وہ اس کی راہ میں بچھ جائے..... تو وہ آئے گی اس کے پاس.... اسے یقین تھا کہ وہ ضرور آئے گی...... وہ پہلی محبت ہے افق کی..... وہ پہلا مرد جس کے لیے اس نے اپنی ذات کے دروازے کھولے... افق یہ کیوں بھول رہی ہے کہ امان سے ہی اس کی محبت کی ابتداء ہوئی...... انتہا بھی امان پر ہی ہونی چاہیے.... ایک مشرقی لڑکی ہے وہ... اس میں ردوبدل کس طرح کر سکتی ہے... ایسی محبت کر کے وہ امر ہو جاتی... کسی اور کی زندگی میں جا کر اس نے یہ کڑی کیوں توڑی؟ افق کو تو سزا ملنی چاہیے.... اسے یہ حق کس نے دیا کہ وہ کسی اور سے محبت کرے؟ اگر اسے یہ حق استعمال کرنا ہی تھا تو پور پور اسے امان میں نہیں اترنا چاہیے تھا... سارا قصور افق کا ہے...
فرزام نامی تعلق کو وہ آگ لگا آیا تھا... دنیا کو وہ آگ لگا دے گا...
اس کی ٹانگ پر بھاری جوتے کی ضرب لگی اور ڈوبتی ابھرتی ایک آواز سنائی دی..
"تم یہاں سے دفعان کیوں نہیں ہو جاتے؟"
کون تھا' جو اس کے کان کے پاس غرا رہا تھا... عدن نے ہوا میں مکے لہرائے اس کے جبڑے پر ایک زوردار گھونسا پڑا... اس نے اٹھنا چاہا اور وہ گر گیا... چھناکے کی آواز آئی... شاید بہت کچھ گرا.....
اس کے پیٹ میں لاتوں کی بارش ہو گئی... وہ بھی ہاتھ پیر ہلا تو رہا تھا... ابھی اس میں ہمت تھی... وہ مار سکتا تھا... وہ ہاتھ لہرا رہا تھا... گالیاں دے رہا تھا... لیکن اٹھ کر ہر بار وہی گر رہا تھا...
اس میں بہت ہمت تھی ابھی بھی.....
وہ مار کھا رہا تھا... اسے پیٹا جا رہا تھا... اس کے کپڑے محلول سے گیلے ہو چکے تھے... جانے کیا کیا کچھ گر گیا تھا اس پر... وہ چلا رہا تھا اور جیسے جیسے اس کے چلانے کی آواز بلند ہوتی تھی... وہسے ویسے اس کے منہ پر...... پیٹ میں...... کمر میں آ کر گھونسے لگتے تھے... اسے کئی بار گریبان سے پکڑ کر گردن میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کیا گیا... گھسیٹا گیا... وہ لڑکھڑا کر گرتا ہی جا رہا تھا... اسے خفیہ جیک خانہ یاد آ گیا... وہ حلق پھاڑ کر چلانے لگا...
"چھوڑ دو مجھے...... نہیں ہوں میں دہشت گرد...... میں..... پانی دو مجھے....... چھوڑو (گالی) مجھے..." اسے پٹخا گیا...
"میں دہشت گرد نہیں ہوں....."
اس کا سر کسی وزنی چیز سے ٹکرایا... جلتی بجھتی لائٹس اس کے آگے پیچھے رقص کرنے لگیں...
وہ کہاں پڑا ہے؟ فٹ پاتھ پر...... سڑک پر...... یا کسی گندی سی گلی کی غلیظ سی جگہ پر؟ اور پھر اس کی پروا کسے تھی... پروا کرنے والے عدن جیسے نہیں ہوتے... وہ عدن کی طرح نہیں ہو جاتے...
اس کی جیب میں رکھا فون بج رہا تھا... اس کا باپ اسے فون کر رہا تھا...
شاید اب وہ عدن کو کوئی نئی راہ دکھا لے... زندگی گزارنے کا کوئی نیا گر.... نئی مشق... اب وہ اسے کسی اور میدان کا رنگ ماسٹر بننے کے لیے کہے گا... شاید اب وہ کتے' بلیوں سے اوپر کا کوئی اور جانور نما انسان اسے سدھارنے کے لیے اکسائے... وہ عدن کو بتائے کہ اس کا باپ وہ ہے.... غلام علی غلام..... عدن اس کا باپ نہیں ہے...
اس کے سر کے پچھلے حصے سے خون کی ایک پتلی لکیر کنپٹی سے ہوتی ہوئی بدبودار جگہ میں جذب ہو رہی تھی... ایسی ہی ایک لکیر اس کے منہ سے نکل کر اس کے گریبان تک جا رہی تھی...
اس میں اٹھ کر چلنے کی سکت نہیں اور وہ فرزام کو مار دینا چاہتا تھا...
شراب پی کر وہ بےہوش ہو چکا تھا اور افق کے ساتھ جینا چاہتا تھا..... امریکی عدالت میں اس کا مقدمہ چل رہا تھا اور وہ ابھی بھی بہت سوں کو پیروں تلے مسل دینا چاہتا تھا...
اس کے باپ نے اسے کبھی ہارنا نہیں سکھایا تھا... وہ سکنداعظم بنا اوندھے منہ پڑا تھا...
جن انسانوں کو وہ پچھاڑنے گیا تھا... ان سے وہ پچھاڑ آیا تھا... وہ رو رہا تھا... مگر مان نہیں رہا تھا...
"افق میری ہے..... فرزام اسے چھوڑ دے گا..." وہ بڑبڑاتا رہا...
وہ ضدی ہے......؟ نہیں...
وہ بدنصیب ہے.....؟ نہیں...
وہ قفل زدہ ہے..... وہ قفل جو بدہدایتوں پر لگا ہے..... وہی قفل جسے وہ توڑنا ہی نہیں چاہتے...
فرزام گھر آیا تو تیزی سے بلڈنگ کی سیڑھیاں پھلانگتا اوپر آیا تھا... گھر کا دروازہ کھلا تھا...
اسے خوشی ہوئی...... انجانی خوشی..... رات کے اس پہر..... اس آخری پہر یہ دروازہ ایسے ہی نہیں کھلا... سارا گھر روشن تھا... جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا... ویسا ہی...
نہیں..... وہ ویسا بھی نہیں تھا... جس عورت کو وہاں چھوڑ کر گیا تھا... وہ وہاں نہیں تھی اور گھر تک آتے جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ اسے دروازے پر نظریں گاڑے ہی ملے گی' وہ وہاں نہیں تھی...
اس نے سارا گھر دیکھ لیا... وہ وہاں نہیں تھی... اس نے بار بار دیکھا... حد تو یہ کہ اس نے کپڑوں کی الماری تک کھول کھول کر دیکھی...
یہ جو وقت گزر گیا.... یہ صرف ایک وقت نہیں تھا... یہ ایک پیمانہ تھا... جو انہیں بتا گیا تھا کہ ان کی محبتیں اس پیمانے میں کہاں ہیں..... کس درجے پر ہیں...
فرزام نے وہ درجہ دیکھ لیا تھا...
یہ صرف ایک رات نہیں تھی...... گھپ رات...... یہ ایک حساب کتاب کی رات تھی..... وہ اس میں موجود محبت کا حساب کمال انداز سے کر گئی تھی...
اسے افسوس ہوا... وہ واپس کیوں آیا... افق تو جا چکی تھی...
وہ عدن کے پاس گئی ہے... یا وہ اس سے ناراض ہو کر گئی ہے...
اس نے خود سے بھی چھپا کر دعا کی کہ وہ ناراض ہو کر ہی گئی ہو... اس کے سارے اعتراضات ابھی بھی اس پر وہی تھے... لیکن ایک یہ دل ہے... جو اپنے ہی حکم صادر کرتا ہے... الگ ہی کھڑا ہوتا ہے...
فرزام کے پاس افق کے لیے وہی دل تھا..... وہی دل جو افق ڈھال گئی تھی اپنی طرز پر.... وہ بار بار اس کے راستے میں کھڑا ہونے کے لیے تیار تھا...
وہ بار بار اس کی منت کرنے...... گڑگڑانے کے لیے تیار تھا...
یہ دل جو الگ ہی مقام پر کھڑا ہوتا ہے...
پلٹ کر...... لپک کر...... افق سے لپٹ جانے کے لیے تیار تھا...
اعتراضات..... شکوک و شبہات..... غصہ' نفرت' بےگانگی..... سب ابھی بھی وہیں تھے... لیکن کیا کیا جائے کہ دل بہت تیز ہوتا ہے..... بہت پھرتیلا...... وہ اس جنگ میں فاتح رہا...
بہت دیر گزری.... فرزام نے سر اٹھایا... اسے آہٹ سنائی دی تھی... اسے ایسی ہی آہٹ پہلے بھی بہت بار سنائی دی
تھی... سٹنگ ایریا میں فلور کشن پر بیٹھے میز پر سر ٹکائے فرزام نے آنکھوں کو اٹھایا...
وہاں سامنے افق کھڑی تھی... دروازے میں...
گہرے پاتال سے وہ اوپر آیا... یک دم جھٹ سے...
اس کے سارے یقین سچے تھے...
اس کے سارے شکوک جھوٹے تھے...
سب دیپ جل اٹھے... دیپک راگ آب و تاب سے گونجنے لگا...
"کہاں تھیں تم.....؟" اٹھ کر بھاگ کر اس سے لپٹنے سے پہلے اس نے یہ پوچھا... اسے جواب چاہیے... ٹھیک وہی' جو ان دونوں کو بچا سکے... وہی جواب چاہیے...
"تمہیں ڈھونڈنے؟" اس پر نظر پڑتے ہی وہ شانت ہو گئی اور فرش پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی...
اتنے بڑے شہر میں وہ اسے ڈھونڈنے نکلی تھی... جبکہ جانتی تھی' اسے ڈھونڈ نہیں سکتی... جو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں... وہ ایسے ڈھونڈنے سے نہیں ملتے... پھر بھی وہ اسے ڈھونڈنے نکلی تھی
"میں تمہیں ڈھونڈنے نکلی تھی..."
"یہ مجھے ڈھونڈنے نکلی تھی...."
ایک نیا لوک گیت محبت کے لیے لکھا جا رہا تھا...
فرزام چل کر اس کے پاس آیا اور اس کے بالکل پاس نیچے بیٹھ گیا...
"میں ہر سانس کے ساتھ تمہاری منت کروں گی... آنسوؤں کا ہر رنگ لیے روؤں گی..... فرزام...... میں تمہیں خود کو چھوڑنے نہیں دوں گی....."
فرزام نے بڑھ کر اسے خود میں سمیٹ لیا...
لوک گیت لکھا گیا...
اپنی ہیروئن کا ہیرو بننے کے لیے وہ دریائے سین (پیرس) کے آس پاس ٹہل رہا تھا... اسے وہاں کسی کا انتظار نہیں تھا... یہ نوبت نہیں آئی تھی... وہ اس کے ساتھ ہی تھی... غضب کا موسم تھا... اچھی ہوا چل رہی تھی... دراصل کافی رومان پرور ہوا تھی... کیا پیرس میں ایسی ہی ہوا چلتی ہے' شاید..... اور شاید یہ صرف محبت کرنے والوں کے لیے ہی چلتی ہو... ان ہی پر اثر کرتی ہو...
اس کی ہیروئن ایک بہت بڑی آئس کینڈی کھا رہی تھی اور مزے کی بات یہ تھی کہ وہ اکیلی ہی کھا رہی تھی... وہ اسے دینا نہیں چاہتی تھی... کیونکہ اس کا دایاں ہاتھ کوٹ کی بائیں جیب میں پھنس چکا تھا... نکل ہی نہیں رہا تھا وہاں سے..... جب تک وہ ہاتھ باہر نہیں آئے گا... وہ بےرحم ہی بنی رہے گی اس کے ساتھ... وہ آس پاس دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی... لیکن اس کوشش میں ناکام ہو رہی تھی... اس کی نظریں اسی پر لگی تھیں...
اور وہ ہنس رہا تھا... ہاتھ برآمد نہیں کر رہا تھا... لطف اندوز ہو رہا تھا...
وہ تب بھی ہنسا تھا اور عدن کے تاثرات پر لطف اندوز ہوا تھا... جب بہت سے شراب خانوں میں سے اسے ڈھونڈ ڈھانڈ اس نے ایک گھونسا جڑا تھا...
"میں افق کو ضرور چھوڑ دیتا.... اگر میں عدن ہوتا..." اس نے کہا تھا... عدن پر جیسے سب ہی آسمانی بجلیاں آ گریں... اس کی شکل بتا رہی تھی... ایسا ہوا ہے... وہ بری طرح سے پٹ چکا ہے...
افق کو آئس کینڈی بالکل مزہ نہیں دے رہی تھی... اسے فرزام پر غصہ بھی آ رہا تھا...
گٹار لیے ایک بےحد خوب صورت لڑکے Jeff Beck (گلوکار) کو گا رہا تھا... یقیناً وہ اپنے سامنے بیٹھی لڑکی پر اہنا جادو جگانا چاہتا تھا اور یقیناً وہ اسے کچھ اور بتانا چاہ رہا تھا...
"I am in love
Oh i am in love"
کوٹ سے ہاتھ برآمد ہو چکا تھا.... ہاتھ مٹھی بند تھا... یقیناً اس میں کچھ بہت خاص بند تھا...
I am all shock up
well my knees are shaking.....
my hands are getting weak....
and
Can't seem to stand on my two.....
مسرت کی ایک تیز لہر افق میں جاگی..... بند مٹھی کے ساتھ فرزام گھٹنوں کے بل جھکا...
پیار کے پہلے شہر میں رہنے والے ایسے مناظر پر جشن مناتے ہیں... آس پاس اردگرد پھیلے ہوئے لوگ فوراً متوجہ ہوئے.... وہ اٹھ کھڑے ہوئے..... کچھ صرف گردنیں موڑ کر دیکھنے لگے.... وہ جانتے تھے انہیں کیا کرنا ہے...
I fear.....
I am in love...... oh
I am in love......
اس نے بند مٹھی کھولی... انگوٹھی کو دو انگلیوں میں لیا... گستاف ایفل کے ٹاور نے ذرا سا جھانک کر دیکھا...
روایت زندہ کی جا رہی تھی... محبت کے اظہار کی رسم نبھائی جا رہی تھی... صدیوں پہلے کی....... صدیوں بعد
کی.... صرف یہی ایک رسم زندہ جاوید کر دینے کے لیے کافی ہے...
نامحسوس طور پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کا...... بوڑھوں
کا...... بچوں کا ایک دائرہ بن گیا.... اب زیرِلب مسکرا رہے تھے... وہ اس بدیسی کے کچھ بولنے کے انتظار میں تھے... وہ اس کے سامنے کھڑی لڑکی کی شرمگیں مسکراہٹ کے انتظار میں تھے...
"یہ انگوٹھی تمہاری ہے.... اس انگوٹھی کو تھامنے والا ہاتھ تمہارا ہے... اس ہاتھ کے مالک کا دل تمہارا ہے..... کیا یہ دل ہمیشہ کے لیے تمہارا ہیرو بن سکتا ہے.....؟"
افق نے ایک بلند قہقہہ فضا میں چھوڑا...
"ہاں....." وہ ذرا سا چلائی... انگوٹھی سے اس کا ہاتھ دمکنے لگا...... اور انگوٹھی پر افق نے اپنے ہونٹ رکھ دیے... دائرے کی صورت کھینچے لوگوں نے دل کھول کر تالیں بجائیں' Jeff Beck کا "آئی ایم اِن لو..... آئی ایم اِن لو" تیز ہو گیا...
محبت کی رسم نبھا دی گئی...... اور........ محبت مقدس ٹھہری...
......... .................. .........