وہ اس سے ناراض تھا... بلاشبہ...بہت ناراض تھا... لیکن آج عدن اس کے آفس میں آیا تو اس مے وہ ناراضی بھی چھوڑ دی...
"کیوں آئے ہو؟" ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی اور معدوم ہو گئی...
"افق کے لیے..."
"بکواس بند کرو... تمیز سے بات کرو... بیوی ہے وہ میری..." فرزام کا تو جی چاہ رہا تھا کہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دے... ورنہ اس کا گلا ہی دبا دے...
"بیوی وہ تمہاری ہے... لیکن محبوبہ وہ صرف میری ہے... وہ آج بھی صرف مجھ سے محبت کرتی ہے..."
"اسے تم بےوقوف بنا کر بھاگ گئے...اب پھر سے آگئے ہو..."
"بےوقوف تو تم ہو... جو اس کے ساتھ تعلق کا رشتہ سمجھ رہے ہو... تم نے دیکھا نہیں کہ اس نے صرف میرے لیے ناممکن کو ممکن کر دیا... میں پچھلے پانچ' چھ سال سے جیل میں تھا... مجھے میرا قابل وکیل اور امیر کبیر باپ بھی آزاد نہیں کروا سکے... لیکن افق نے کر دکھایا... یہ ہے اس کی محبت کی طاقت... وہ بہت قابل لڑکی ہے... کس کس سے جا جا کر ملی... میرے لیے درخواستیں دیں... صحافیوں سے ملی... پاکستانی کمیونٹی سے واک کروائی... اتنی بڑی این جی او کو میرے لیے فعال کر دیا... کون کون آ کر وہاں مجھ سے نہیں ملا... اس نے این جی او کو فنڈز بھی دیے... یہ سب کیوں کیا اس نے؟ کس لیے؟ وہ میرے بغیر سانس نہیں لیا کرتی تھی... ایک بار پاکستان میں بھی جیل چلا گیا تھا... رو رو کر بیمار ہو گئی تھی... وہ رات رات بھر دعائیں کرتی تھی میرے لیے... اس وقت وہ میرے لیے دعا کر سکتی تھی... اس بار اس نے سب کر دکھایا... کیا یہ کم ہے سمجھنے کے لیے کہ وہ مجھ سے کس قدر محبت کرتی ہے؟ اتنے سال اس نے میری گمشدگی کا ہی سوگ منایا ہے... میری زبردستی شادی کر دی گئی تھی... اپنے باپ کی بیماری کے ہاتھوں میں مجبور تھا... تمہارے لیے اسے کبھی نہ چھوڑتا... وہ تو نہ ہنسی ہو گی' نہ ہی روئی ہو گی... زندگی کو مر مر کر گزارا ہو گا... تم اسے کبھی نہیں جان سکتے... اس کے اندر کا بھید نہیں پا سکتے..."
خاموشی کا وقفہ اس نے اپنی مرضی کا لیا...
"اور نہیں تو اتنا ہی سوچ لو کہ اس جیسی شریف لڑکیاں محبت کے کھیل بار بار نہیں کھیلتیں... یہ وہ لڑکیاں ہوتی ہیں' جو پہلی محبت کا جو پودا اپنے اندر لگا لیتی ہیں' اسی کے نیچے اپنی قبر بنا لیتی ہیں... اسے اکھاڑ کر نہیں پھینکتیں... حالات سے مجبور ہو کر اگر اس نے شادی کر بھی لی تو..... کیا وہ تم سے محبت بھی کرنے لگی؟ اگر کہہ بھی دیا ہو گا..... جیسا کہ مجبور مشرقی لڑکیاں کہہ ہی دیتی ہیں..... تو کیا وہ سچ مچ کرتی ہے؟ اپنی ماں کی وجہ سے تم سے شادی کر لی ہو گی..... یا سہارا چاہیے ہو گا... اس کا تو کوئی بھائی بھی بڑا نہیں تھا... تمہیں اس نے سہارا بنا لیا... لیکن جان ابھی تک اس کی میں ہی ہوں... اس نے مجھے دیکھا... میرے بارے میں جانا تو باز نہیں رہ سکی... دیکھو! ہمارے تعلق کی مضبوطی کہ وہ میری طرف بھاگی آئی... عقل سے کام لو' اسے چھوڑ دو..... اسے مجبور نہ کرو... اپنی اماں یا تمہارے کسی احسان کے وجہ سے وہ تو شاید تم سے نہ کہے... ایسے ہی مجبوری سے تمہارے ساتھ بندھی رہے... آزاد کر دو اسے... اور پھر دیکھو کہ کیسے بھاگی آتی ہے میرے پاس وہ... وہ مجھ سے یہاں بار بار چھپ چھپ کر ملتی رہی ہے... تب تم یہاں نہیں تھے... اس نے تمہیں بتایا کہ میں نے اس کی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے تھے؟ چلو! میرے ساتھ اس کافی شاپ جہاں اس نے کافی پی تھی... کوئی ایک آدھ تو تمہیں ضرور بتا دے گا کہ وہ میرے ساتھ وہاں جاتی رہی ہے... اور کتنی باتیں بتاؤں کہ تم یہ یقین کر لو کہ وہ میرے لیے بنی ہے... تمہارے لیے نہیں اسے آزاد کر دو..."
فرزام گم صم اسے سنتا رہا...... سنتا رہا... دنیا کا کوئی بھی مرد ہوتا' وہ عدن کو سنتا... عدن کا یقین کرتا... افق پر شک کرتا اپنی قسمت پر روتا..... اور نہیں تو اس سارے نقصان پر' اس سب پر خودکشی تو ضرور ہی کر لیتا...
وہ سب سنتے سنتے فرزام کہیں کا نہ رہا... وہ شخص اپنی مرضی سے بول کر چلا گیا... وہ فاتح تھا... آیا اور چلا گیا اور فرزام شکست خوردہ وہیں پڑا رہا تھا... اس نے ماں کو فون کرنا چاہا... گلا پھاڑ کر رونا چاہا..... نہ فون کر سکا' نہ ہی رو سکا... وہ اس سے محبت کرتا ہے اور وہ..... وہ عدن سے... پہلی محبت..... مشرقی عورت..... ٹھیک کہا اس نے... افق جیسی لڑکی محبت کا کھیل نہیں کھیلتی... محبت ایک ہی کرتی ہے اور اسی محبت میں خود کو دفنا دیتی ہے...
اس سے متاثر ہوتے..... اس کے قریب آتے.... اس سے محبت کرتے..... فرزام عین وقت پر لٹ گیا... اب وہ کسی پُل سے چھلانگ لگا دینے کے ہی قابل رہ گیا تھا بس..... اب ایسے انجام کے ساتھ وہ کیسے زندگی جیے گا... کسی کو بنا بتائے وہ آفس سے چلا آیا... مجبوری کے ان دونوں کے رشتے کو اسے ختم ہی کر دینا چاہیے...
وہ ناراض ہے... وہ مان جائے گا... لیکن وہ تو طلاق کی بات کر رہا ہے... وہ اس انگوٹھی کے انتظار میں تھی' جو جلد ہی دوبارہ اسے پیش کی جائے گی اور وہ اسے باہر کا راستہ دکھا رہا تھا... وہ اس قدر پتھر دل ہو چکا ہے افق کے لیے... اتنا متنفر.... اس کے جسم پر چیونٹیاں لوٹ کھسوٹ کرنے لگیں... وہ بےیقینی سے اسے دیکھتی رہ گئی...
فرزام نے اس کے ایسے دیکھنے پر اسے نظر اٹھا کر دیکھا... دونوں ایک دوسرے کو دو مختلف نظروں سے دیکھ رہے تھے... اس کی نظر میں وہ روبوٹ گھوم رہا تھا جو صرف کام کرتا تھا... نہ ہنستا تھا...نہ بولتا تھا... نہ ہی زندگی میں زندہ تھا... وہ اندر باہر سے مردہ ہو چکا تھا...
افق کی نظر اس فرزام پر تھی... جس کی آنکھوں میں اس کے لیے محبت کا سمندر تھا اور جو اب آنکھیں بدل رہا تھا... اب وہ شاید رومی کے پاس جانے کی تیاری کر رہا تھا... وہ اس کا یقین ہی نہیں کرنا چاہتا تھا... وہ اسے اپنی زندگی میں رکھنا ہی نہیں چاہتا تھا... فرزام نے سچ مان ہی لیا تھا کہ انارکلی بازار میں شادی کا سن کر بت بن جانے والا وجود عدن کہ محبت کا سوگ ہی منا رہا تھا... وہ بھول گیا کہ نیو بری میں اس کے ساتھ وہ کس قدر خوش تھی... اس نے مان لیا تھا کہ وہ اس وقت خود کو بہلا چکی تھی... وہ ایک بہلی ہوئی زندگی گزار رہی تھی.... ایک سمجھوتے کی زندگی...
"مجھے طلاق دے رہے ہو؟" صرف سوال نہیں تھا یہ...
"تمہیں اور کیا چاہیے؟ تمہیں عدن ہی چاہیے نا..... تو تم آزاد ہو..."
واقعات اتنے معمولی اور عام بھی نہیں تھے... جتنا کہ بظاہر نظر آ رہے تھے... کوئی شخص سرِبازار کسی دوسرے کی بیوی کا ہاتھ پکڑ لے اور کہے کہ یہ مجھ سے چھپ چھپ کر ملتی ہے تو یہ بات اتنی عام بھی نہیں رہتی... کوئی ایسے ہی کسی کی بیوی پر بات نہیں کرتا... صاف دل کے' بڑے دل کے شوہر اگر غصہ پی بھی جائیں تو دلوں میں بال ضرور آ جاتے ہیں... شک اور وسوسہ تو شیطان کا پسندیدہ ہتھیار ہے... جسے وہ ہمیشہ اٹھائے رکھتا ہے اور تاک کر موقعے سے انسان پر وار کرتا ہے اور زہر پھیل کر نس نس تک چلا جاتا ہے... تو یہ وار فرزام پر بھی کام کر گیا... تب ہی اس کا انداز زہرخند تھا...... جان لیوا تھا...
"مجھے صرف فزام چاہیے..." پانی افق کے سر پر سے گزر چکا تھا... اب تو بہت دیر ہو چکی تھی... فرزام کی زندگی سے نہ وہ جائے گی... نہ ہی اسے جانے دے گی ہر کام کو پھرتی اور دل جمعی سے کرنے والے افق' فرزام پر اپنی ساری جان لگا دے گی... جو ہو رہا ہے' اسے ہونے نہیں دے گی...
وہ تمسخر سے ہنسا... "یہ فرزام تمہارے پاس پچھلے تین سال سے ہے... کبھی تم اس کے پاس آئیں؟ اس فرزام اے تمہارا دل بہل رہا تھا...... بس تمہیں ایک سہارا مل گیا تھا... گندم کی بھوسی میں جیسے آگ لگتی ہے اور بجھتی نہیں... ایسے ہی فرزام میں عدن آگ لگا گیا تھا... اب یہ آگ بجھ نہیں رہی تھی...
"نہیں..... ایسا نہیں ہے..... یہ غلط ہے..."
اس نے اس کی بات کو درمیان میں ہی اچک لیا...
"تم اپنے لیے آنے والے ہر رشتے کے لیے انکار کر دیتی تھیں... تم نے تنگ آ کر مجھے ہاں کہہ دیا..."
"یہ غلط ہے فرزام! یہ زیادتی ہے میرے ساتھ..... یہ جھوٹ ہے... تنگ آ کر نہیں......
"پھر کیا تمہیں مجھ سے محبت تھی؟"
"محبت تو ہم دونوں کو ہی نہیں تھی نا... ہم نے ایک دوسرے کو جان کر ہی ہاں کی تھی... میں نے سب سچ بتا دیا تھا... میں تب نہیں کرتی تھی... مگر اب بہت محبت کرتی ہوں فرزام" اس نے ایسے وقت میں اپنی محبت کا اعلان کیا... جب اسے کوئی وقعت ہی نہ دی گئی...
"کب کی تم نے مجھ سے محبت؟ میرا تمہارا محبت کا معاہدہ نہیں تھا ایمان داری کا تو تھا... مجھے تم اچھی لگیں... تمہاری شرافت' تمہارے کام' تمہارے اصول...... بہت متاثر تھا میں تم سے... میرا ایمان تھا کہ صرف ایک افق جیسی لڑکی میری زندگی کو تباہ نہیں کرے گی... میں نقصان میں نہیں رہوں گا... میں بہت خوش نہ رہا تو نا خوش بھی نہیں رہوں گا... تمہارے جس حسن پر دنیا مرتی ہے نا..... اس پر میں نے کبھی نظر نہیں ڈالی تھی.... جو حسن تمہارے اندر تھا' اس پر میری نظر تھی... گزرے سالوں میں' میں نے رومی کو یاد کیا... تاکہ مجھے یاد رہے کہ میں نے رومی جیسی غلطی دوبارہ نہیں کرنی... تمہارے یہاں آنے سے پہلے مجھے بہت بار اس کے فون آئے... لیکن اپنی بیوی کی غیر موجودگی میں اس سے بات کرنا میں نے گوارا نہیں کیا..." آنسو کا گولہ اس کے حلق میں اٹکا...
"تم سے متاثر ہوتا میں تمہارا مقید ہو گیا... تمہارے بغیر رہنا محال ہو گیا... پہلے تمہیں پرکھ رہا تھا... پھر تمہارے سحر میں مبتلا ہو گیا... لیکن صرف تمہارے لیے کہ تم ماضی کے ہر طرح کے دکھ سے نکل آؤ... تم اتنی مستحکم ہو جاؤ کہ تم...... تمہیں مجھ تک آنے میں کوئی مسئلہ نہ پیش آئے... اس الٹ پلٹ میں' میں کہیں کا نہیں رہا... جس خوف سے بچتا رہا اسی سے محبت کرنے لگا... قسم کھائی تھی میں نے کہ کسی عورت پر یقین نہیں کروں گا... بہت یقین کیے تھے میں نے رومی پر..... قسم توڑی اور نقصان بھی خود ہی اٹھایا..." جسے انگوٹھی پہنانا تھی' وہ تقریباً رو رہا تھا.... جسے تالیاں بجوانا تھیں' وہ سن کر سن ہو رہی تھی...
"تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا افق؟ دل میں اسے چھپائے تم میرے ساتھ رہیں... دور...... دور..."
"میں تم سے محبت کرتی ہوں.... بار بار یہی کہوں گی' باقی باتیں حالات نے پیدا کر دی ہیں... بظاہر وہ سچ ہیں.... پر وہ وہ جھوٹ ہیں... صرف ایک بار میرا یقین کرو... میرے ڈر نے مجھے دور رکھا... مجھے محبت کرنے سے ڈر لگتا تھا..."
"محبت سے نہیں افق! کسی اور کے ساتھ محبت کرنے
میں.... تم وہی لڑکی ہو جو پہلی محبت کے نام پر زندہ رہتی ہے اور اسی پر مر جاتی ہے؟"
"ہاں! میں وہی لڑکی ہوں' جو محبت کے لیے جیتی اور مر جاتی ہے اور تمہاری محبت ہے... میری اس اس نادانی کو محبت نہ کہیں... میرے شوہر کے برابر کوئی نہیں آ سکتا..."
"اس نادانی کو..." فرزام نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ
کیا... "اپنی اماں کا لحاظ کر رہی ہو... معاشرے کا..... خاندان کا... مجبور ہو یا احسان اتار رہی ہو.... آج تم مجھے چھوڑ کر جا رہی ہو..... مجھے ہی تمہیں چھوڑ کر رومی کے پاس چلے جانا چاہیے تھا... کیونکہ تم نے وار میں اسے بھی مات دے دی... وہ صاف صاف انکار کر گئی... انگوٹھی منہ پر مار دی اور تم روایتی لڑکی' ڈرپوک اور شریف..... پہلی محبتوں کو سینے سے لگائے رکھنے والی... تمہیں تو مجھ سے دور جانا آیا... نہ ہی قریب کرنا..." غم و غصے سے وہ تقریباً پاگل ہی ہو چکا تھا... اس کی آخری بات نے افق کو اندر تک تہس نہس کر دیا...
تو اب اسے بار بار رومی یاد آ رہی ہے اور اب یہ خود رومی کے پاس جانا چاہ رہا ہے... اب وہ رومی کے لیے تڑپ رہا تھا...
"تمہارا وہ امان تمہاری راہ میں آنکھیں بچھائے کھڑا ہے... جس کے لیے تم نے اپنی محنت سے جمع کیا گیا پیسہ فنڈز میں دے دیا... اگر تمہارے اکاؤنٹ میں اور پیسے بھی ہوتے تو تم وہ بھی دے دیتیں نا؟"
"بکواس کی ہے اس نے سراسر....... میں نے کوئی پیسے نہیں دیے... اس کی بات پر یقین ہے..... مجھ پر نہیں..."
"یقین دراصل بروقت سچ بولنے پر کیے جاتے ہیں... کیونکہ افق! اس کی کی گئی باتیں اب تک سچ ہی نکل رہی ہیں... کیا اس کا کہا سب سچ نہیں؟ اگر وہ نہ ملتا تو تم مجھے بتاتیں یہ سب؟ شاید بنا بتائے ہی چھوڑ جاتیں... وہ شخص تمہارے کالج آیا..... پھر اسٹور تک... تم لوگ کافی شاپ میں ملے... اس کے وکیل کے پاس تم بار بار جاتی رہیں..... اور کیا کچھ تمہیں کرنا تھا افق؟ کیا کچھ اور اتنا کچھ چھپایا تھا تو بتانا کیا تھا؟"
"کہ مجھے تم سے....... صرف تم سے محبت ہے... صرف اپنے شوہر سے.... اپنے فرزام سے بہت بڑی غلطی کر دی میں نے.... دھوکا نہیں دیا..."
"اب بھی کہہ رہی ہو محبت کا..... اب بھی... کیا ابھی اور میرے نام کاسہارا چاہیے؟ جب تک ڈاکٹر عدن کا کیس ختم نہیں ہو جاتا..... کیا تب تک؟" وہ واقعی پاگل ہی ہو چکا تھا... اس کا دماغ جو جو کچھ سوچ رہا تھا اسے جانچے بغیر وہ زبان پر لا رہا تھا...
صوفے پر گرے ہوئے انداز سے بیٹھی وہ اونچی آواز سے بچوں کی طرح رونے لگی...
"میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں فرزام... میرا یقین کر
لو... چلو ہم پاکستان چلیں... میں نے کہا نہیں کہ میں محبت کرتی ہوں... لیکن مجھے کہنا ضرور تھا... مجھے اپنی قسمت پر رشک ہے کہ تم میرے شوہر ہو... میں تمہارے پیروں میں گر کر معافی مانگ لیتی ہوں... میں نے اتنا کچھ چھپایا' لیکن میں نے ایک پل کو بھی دھوکا نہیں دیا... میں کس کی گواہی لاؤں کہ تمہیں یقین آئے... صرف اللہ ہی ہے' جو سب جانتا ہے فرزام! تم اسی اللہ پر جو سب جانتا ہے' یقین رکھ کر میرا یقین کر لو... اسی خدا کے لیے میری بات مان جاؤ.... صرف ایک بار خدا کے لیے..."
جس وقت وہ یہ بات کر رہی تھی' ٹھیک اسی وقت بیل دی گئی... فرزام نے اٹھ کر دروازہ کھولا... افق سمجھی نمل ہو گی... وہ اٹھ کر اندر جانے لگی... لیکن جسے اس نے دیکھا...
فزام نے بڑھ کر دروازہ کھولا...... سامنے نظر آنے والے شخص کو دیکھ کر اس کی کنپٹی کی رگیں پھڑک کر تن گئیں... وہاں عدن کھڑا تھا...
اس کی شکل پر وہی تاثر تھا' جو میدان جنگ میں دشمن کے سپاہیوں کی لاشوں کو ٹھڈے مارنے والوں کی آنکھوں میں ہوتا ہو گا... وہ عدن آ گیا تھا... اپنی فتح کا جھنڈا فرزام نامی لاش پر گاڑنے...
"افق مجھ سے کچھ بات کرنا چاہتی تھی..." اس نے ذرا سا جھک کر سرگوشی کی...
چوٹ عین مقام پر لگی...
"تمہیں پورا حق ہے..." فرزام ذرا سی بلند آواز میں بولا... وہ بےانتہا غصے میں نظر آنے لگا... اس کا جی چاہا' گھونسا مار کر اس کو چت کر دے... اسے گھونسا مار دینا چاہیے تھا لیکن وہ باہر نکل گیا اور عدن اندر آ گیا... افق دروازے کی طرف جب تک آئی فرزام باہر جا چکا تھا...
"فرزام!" بند ہوتے دروازے تک یہ آواز پہنچی عدن دروازے کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا...
"جانے دو اسے... اس نے ہی مجھے بلایا تھا کہ میں آ کر تمہیں لے جاؤں..."
افق نے اسے دھکا دیا اور لپک کر باہر نکلی... سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی... فرزام وہاں نہیں تھا... وہ پارکنگ کی طرف لپکی... فرزام کی کار تیزی سے وہاں سے نکلی اور وہ چلا گیا... اس نے نیچے آنے میں دیر کر دی.....؟"
نہیں.... اس نے ہر معاملے میں دیر کر دی... عدن سے متعلق ہر بات بتانے میں..... اپنی زندگی میں فرزام کو اس کا مقام دکھانے میں..... وہ اسے چھوڑ رہا ہے... یہ صرف عدن کی وجہ سے ہی نہیں ہوا..... یہ افق کی وجہ سے ہوا ہے... افق کی آنکھیں جھلملائیں...
دل کے رستے جان کیسے نکلتی ہے... وہ آنسوؤں کی زبان میں بتا سکتی تھی..... واقعات المیے کیسے بنتے ہیں وہ ایک ایک کو سمجھا سکتی تھی... برسوں پہلے اس نے اپنی عقل پر ماتم کیا تھا... جب وہ عدن کے باپ کے ہاتھوں سے بچ نکلی تھی... برسوں بعد بھی وہ اپنی عقل پر ماتم ہی کر رہی تھی... وہ عدن کے ہاتھوں سے نہیں بچ سکی...
اب وہ حلق پھاڑ کر اعلان کر سکتی تھی کہ وہ فرزام سے محبت کرتی ہے... لیکن اب اس اعلان کو کون وقعت دے
گا... یہ ایسے ہی ہوا نا' جیسے کسی کے مرنے کے بعد اس کی پیدائش کا اعلان کیا جائے..... پھر ایسی خبروں سے کسی کو کیا سروکار.... فرزام تو جا چکا نا....
کھڑے کھڑے افق پر بہت سی حقیقتیں وارد ہوئیں...
وہ اس وقت اسے تنہا کر گیا ہے... یہ چھوٹی بات ہے... بڑی بات تب ہو گی... اگر وہ ایک بار بھی پلٹ کر نہ آئے...
شاید ایک لمبی مسافت اس کے انتظار میں تھی...
یا ایک طویل کرب......
کیا وقت اسے اور سبق دینا چاہتا تھا یا وقت واقعی بےرحم بن کر اس سے کچھ چھین لینا چاہتا تھا... وہ ایک بار پھر سے سوالیہ نشان بن گئی تھی... اجنبی لوگ بھی اسے دیکھ لیتے تو ضرور اس سے پوچھتے "کیا ہوا؟"
وہ زیرِلب اللہ کو یاد کرنے لگی... وہ ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں کر رہی تھی... وہ تو مجسم النجل (دعا کی صورت جڑے ہاتھ) بنی کھڑی تھی...
عدن کھڑکی میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا... وہ وہاں ایسے کھڑی تھی... جیسے اپنے ہی ہاتھوں اپنے تخت و تاج کے ٹکڑے کر ڈالے ہوں... جیسے اپنے ہی مردہ وجود پر کھڑی ماتم کر رہی ہو... ذرا سا دور...... تھوڑا سا دھندلا ہی سہی عدن دیکھ رہا تھا کہ وہاں کون کھڑا ہے... وہاں امان کی افق نہیں کھڑی تھی... وہ اس کے لوٹ آنے پر نہیں' کسی اور کے چلے جانے پر ماتم کناں تھی...
کیا وقت ایسے بدل جاتا ہے... اگر یہ وقت ہی ہے تو عذاب کا مستحق ہے...
عدن نے صاف شیشے پر اپنا ہاتھ رکھا... وہ افق کو خود میں بھینچ لینا چاہتا تھا... وہ اس میں حلول کر جانا چاہتا تھا... وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے بتانا چاہتا تھا' ان سالوں میں اس پر کیا گزری... اس نے ایک ایک ساعت اس کے لیے جمع کر رکھی تھی... وہ گزری ساری ساعتیں اس کی جھولی میں ڈال دینا چاہتا تھا... وہ اب اسے ٹھیک ٹھیک بتانا چاہتا تھا کہ اس کی محبت اس پر کب اتری اس محبت پر اس کا ایمان کب مکمل ہوا... اس کاملیت کا لفظ لفظ وہ اس پر آشکار کر دینا چاہتا تھا... وہ اسے بتائے گا کہ قید کے ان برسوں میں اس نے کتنی بار اسے پکارا... کتنی بار اس نے اسے خواب میں دیکھا اور آنکھ کھل جانے پر رویا...
"وہ اسے چھوڑ گیا تھا..." اس نے غلطی کی...
"وہ واپس آ گیا ہے..." غلطی کی اصلاح ہو گئی...
افق ہتھیلی سے آنکھیں رگڑ رہی تھی... وہ دیکھ سکتا تھا... اسے اس پر ترس آ رہا تھا.... بہت آ رہا تھا... لیکن خود سے زیادہ نہیں... ترس اس نے پہلے خود پر کھا لیا تھا... اس نے ایک پُرعذاب وقت کاٹا تھا... زیادہ رحم کا مستحق وہ ہی تھا... افق سے دور عدن اس سے زیادہ ہارا کھڑا تھا... وہ کیسے افق پر ترس کھا لیتا؟ اتنا ظالم کیسے ہو جاتا کہ خود کو ہی مار ڈالتا؟ عدن کے اندر افق کے لیے اب محبت اس سے کہیں زیادہ تھی... جتنی افق کا خیال تھا' اس کے اندر فرزام کے لیے ہے...
وہ دیکھ سکتا تھا کہ وہ کس حال کو پہنچی کھڑی ہے...
وہ کس حال کو پہنچ چکا ہے... وہ کیوں نہیں پلٹ کر دیکھتی...
وہ اپنے نفعے کی طرف کیوں نہیں پلٹ رہی؟
"یہ جو آسمان کا رنگ ہے... یہ کتنا پیارا ہے امان! مجھے اتنی دیر سے کیوں معلوم ہوا کہ آسمان اتنا خوب صورت ہے؟"
"تمہاری آنکھوں میں امان آ بسا ہے... اب تمہیں خوب صورت کا ہر پیمانہ معلوم ہو گا... کہو امان جی! شکریہ....."
"اے اللہ شکریہ... میری آنکھوں کو امان دیا... یہ بند ہوئی ہیں تو اندھیرے پر بھی فدا ہوئی ہیں..."
"میں ان پر فدا ہوں..."
عدن نے اپنی گیلی آنکھیں صاف کیں... اب اسے افق کی نفرت ملے گی... ایک لمبا عرصہ ملے گی... فرزام اسے طلاق دے دے گا... وہ عدن سے نفرت کرے گی... ٹھیک کرے گی... افق کی ہے' تو نفرت ہی سہی... اسے ایک طویل انتظار تو کرنا ہی پڑے گا... اس کی پہلے جیسی محبت پانے کے لیے.... اور وہ تو افق ہے... مستقل نفرت پال ہی نہیں سکتی... محبت کے بنا رہ ہی نہیں سکتی...
وہ ضرور کرے گا یہ انتظار..... اب وہ صابر بن جائے گا... اب وہ سب کرے گا... گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا تو اب پریم امرت ہی پینا ہے... یہی خضر اب اسے زندہ رکھ سکے گا... ایک ایک بوند کے لیے وہ ہر حد سے گزر جائے گا... وہ افق کے لیے ہر پاتال میں اتر جائے گا اور اسے بھی گھسیٹ لے جائے گا... وہ اندر باہر سے افق ہو چکا تھا... اس کی ذات میں صرف اسی کا عکس جھلملا رہا تھا... وہ کیس پیچھے ہٹ جاتا... اسی لیے وہ فرزام کے پاس گیا تھا... ایک سپر پاور ملک کی بدنامِ زمانہ جیل میں وقت گزارنے والے کو ٹھیک ٹھیک اندازہ تھا کہ اسے کس وقت ان دونوں کے درمیان دخل دینا ہے...
وہ اس بلڈنگ کے آگے پیچھے ہی ٹہل رہا تھا... فرزام آفس سے فوراً ہی اٹھ آیا تھا... وہ کیوں جلدی آیا تھا... عدن نامی نا نہاد دہشت گرد جانتا تھا... الٹی انگلیوں کے کافی گر وہ سیکھ چکا تھا...
افق گھٹنوں کے بل زمین پر ڈھے گئی... بوسٹن میں آج یہ کیسی رات اتری تھی... اتنی اندھی... اس رات نے سب کو اندھا کر دیا تھا... یہ اندھا پن ستارہ صبح کو نگل رہا تھا... یہ اندھیرا..... یہ اندھیرا...
زندگی میں وہ اتنے صدمات سے گزری تھی... وہ کسی ایک بھی صدمے سے مر کیوں نہ گئی... مرنے کے لیے یہ آج ہی کی رات کیوں؟
اسی صدمے سے کیوں.....؟
کیا نحس ساعت ابھی بھی اس کے پیچھے ہیں؟
پیچھے ہی ہوں گی... ورنہ وہ گہرے ہوتے اندھیرے میں حلول نہ کر رہی ہوتی...
اس کا جی چاہا' دیوانی ہو کر در بہ در بھٹک جائے... یہ دیوانگی اس نے فرزام پر ظاہر کیوں نہ کی؟ لیٹ جانے کے لیے دھول ہی سہی... قدم بوسی کے لیے خاک ہی سہی... یہ بھی کم تھا اس پہلے شخص کے لیے' جس عزت سے اس کی طرف دیکھا اور شرافت سے اپنی عزت بنا لیا... بلور جان کر رخ رخ روشن کیا... دل میں ایک مقدس دعا کی طرح رکھا... ایسی دعائیں جن پر خدا سے خاص وعدہ لیا جاتا ہے... وہ اس پر زندگی کے رخ روشن کرتا رہا... اس پر لمحہ بہ لمحہ فدا ہوتا رہا... وہ ایک ایسا فدائی تھا... جس نے کبھی پرستش کیے جانے کی خواہش نہ کی... پس ہاتھ جوڑے بیٹھے رہنے پر ہی نازاں رہا... رشتے اور تعلقات میں کون ایسے کرتا ہے... کون ہے' جو ماضی کے عیبوں کو فراموش کر کے دیوتا بناتا ہے..... کون ہے' جو تعلق کو مقدس فریضے کی طرح سرانجام دیتا ہے... ایسی عبادتیں کون کرتا ہے' جو فرض نہیں ہوئیں... لیکن فرض کر لی جاتی ہیں... محبت سے.... محبت کے لیے یہ صرف محبت ہی ہے' جو اس مقام تک لے آتی ہے... یہ کرشمے محبت کے ہی ہیں...
کشمیری حسن پر اس کی چاہت قائم نہ تھی... وہ جس حسن پر نظر پڑتے ہی شاہراہ قائداعظم کی ٹریفک عدن کے لیے ساکت و جامد ہو گئی تھی... وہ نیلی گہری آنکھیں' جن میں عدن کا دل ڈوب گیا تھا...
"مجھے معلوم ہو گیا' صرف ایک ہیلن کے لیے جنگ کیوں کی گئی... میں تاریخ کے اس افسانے پر ہنسا کرتا تھا... اب یہ تاریخ مجھ پر ہنس رہی ہے افق... تمہارے لیے تو عالمی جنگ بھی کم ہے...
وہ عدن کی وہ ہیلن تھی' جو لاکھوں انسانوں کو میدان جنگ میں گھسیٹ لائی تھی... جسے اٹھا لایا جاتا ہے... پہلو میں بٹھایا جاتا ہے... وہی حسن اور وہی کشش' جو عظیم قوموں میں جائز نہیں... جس پر قلم اٹھا کر دو لفظ بھی نہیں لکھے جاتے...
"میں نے سنا ہے کہ کچھ روگی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ایک سچا اور کھرا انسان ایسے روگیوں پر ایک پھونک مارے تو وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں... تمہیں تو مجھے پھونک بھی مارنی نہیں پڑی... اور سنو..... اگر ہم اچانک سے بہت غریب ہو گئے تو ہم ایک شفا خانہ کھول لیں گے... تم پھونکیں مارتی جانا... میں پیسے اکٹھا کرتا جاؤں گا... ہاہاہا نہیں.... نہیں.... میں تمہیں اپنی شفا کے پیسے نہیں دوں
گا... ایک روپیہ بھی نہیں... ٹھیک ہے' میں کوئی ایسا روگی بھی نہیں تھا... لیکن تم میں تو کمال کا کمال تھا...
"افق!' عدن کی آواز اس کی پشت سے ابھری وہ آواز دینا نہیں چاہتا تھا... وہ بڑھ کر اسے تھام لینا چاہتا تھا...
افق آنسو بہاتی رہی... وہ اباک (مبہوت) کھڑا رہا...
"کاش! خدا نے فرزام نامی انسان پیدا ہی نہ کیا ہوتا..." خدا اسے یاد بھی آیا تو شکوے کے لیے...
"اس شخص کے لیے آنسو بہا رہی ہو' جو تمہیں چھوڑ
گیا...؟"
افق کے جوگ سادھنا میں تبدیلی نہ ہوئی... شاہد وہ اسے سن ہی نہیں رہی تھی... یقیناً وہ فرزام کے دل کی دھڑکنیں تلاش رہی تھی... آس پاس سے اندھی بہری ہوئی' وہ فرزام کے آسن جمائے تھی... عدن گھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھا...
"ہم دونوں جانتے ہیں کہ تم مجھ سے کتنی محبت کرتی
ہو... تم کہا کرتی تھیں کہ خدا کو تمہیں امان دینا ہی ہو
گا... تم خدا کو منا کر ہی چھوڑو گی.... دیکھو! تم نے خدا کو منا ہی لیا... خدا مان گیا افق... اسی نے ہمیں دوبارہ ملایا ہے... واقعی خدا تمہاری بہت مانتا ہے... تم نے راضی کر ہی لیا اسے...."
"اب ہی تو میں نے اسے ناراض کیا ہے..." افق نے عین اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا... اس کی آنکھوں میں ڈر کا شبہ تک نہ تھا... چادر کا کونا دانتوں میں دبائے' سرخ پڑتی' ذرا ذرا سی کپکپاتی' کیا یہ وہی لڑکی ہے... مال پر اس کے سامنے سے گزرتے' جس کی جان نکل جاتی... وہ فرزام کے لیے اس کی جان لے لینا چاہتی تھی... نگاہوں کے اس تصادم نے ایک گہرا صدمہ دیا...
عدن کا بھاگ کر کہیں چھپ جانے کو جی چاہا... کوئی اس پر صرف اتنا مہربان ہو جاتا کہ وقت کو پیچھے لے جاتا جہاں اس لڑکی کی نظریں شرما کر چرا کر نلل جایا کرتی تھیں... جن نظروں میں پہلی شبیہہ اس کی ہوا کرتی
تھی...
اسے صدمہ ہوا.... گہرا صدمہ ہوا... اس لڑکی نے رو رو کر ان آنکھوں کو برباد کیوں نہ کر لیا... اسے یہی تو کرنا تھا... ایک کمزور ڈال پر بیٹھی کمزور سی تتلی جیسی لڑکی کو... خود کو اجاڑ لینا چاہیے تھا... اس نے ایسا کیوں نہ کیا... اتنی مضبوط کیوں ہوئی؟ وہ جوگن ہو جاتی تو وہ زندگی کے کسی بھی حصے میں اسے خود کو دان کر آتا... اب تو وہ کشکول لیے کھڑا ہے... افق جیسی لڑکی اس پر یہ نوبت کیوں لائی؟ اول آنے والے کو وہ اس درجے پر کیوں لے آئی؟ وہ افق سے پوچھتا... ضرور پوچھتا... لیکن اب کیسے پوچھتا؟
"تب وہ میرا تھا... اس نے مجھے تم سے بچا لیا... میری راتوں کی عبادتوں' سجدوں' دعاؤں پر اس نے مجھے فرزام دیا... اس نے مجھے وہ ہیرا دیا' جو انسانوں کی کان سے نہیں نکلتا..... جسے مقدس صفات سے بنایا جاتا ہے... تم جانتے ہو' وہ کیا ہے؟ تم نہیں جا سکتے... تمہارے پاس وہ علم نہیں ہے... تمہارے پاس تو وہ آنکھ ہے... جسے میرا حسن نظر آتا ہے... وہ آنکھ' جو مجھے دیکھتے رہنا چاہتی تھی... میرے حسن کے قصیدے بیان کرتی تھی... تم نے وہی سب دیکھا نا' جو بازار سے خریداری کرتے وقت ایک گاہک دیکھتا تھا... وہی گاہک جو انسان اور چیز میں فرق نہیں کر سکتا تھا... اپنے مطلب کا... اپنے مطلب سے خریدنے سے تعلق رکھتا ہے بس... وہی خریدار ہو نا تم....؟"
"تم اس وقت غصے میں ہو..." عدن نے اپنے اندر اٹھنے والی کپکپی کو قابو میں کرنے کی کوشش کی... وہ افق کے سامنے ایسی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا...
"اگر میں غصے میں ہوتی تو تم پر تھوکتی... کیا میں نے ایسا کیا؟ میرا تم پر غصہ بھی حرام ہے... جیسے تم مجھ پر حرام ہو..."
عدن کو اب سہارے کی ضرورت تھی... وہ بیٹھا ہی رہتا... وہ کھڑا کیوں ہوا...؟"