ساری رات وہ سڑکوں پر گشت کرتا رہا... اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر روتا بھی رہا... دراصل اب ہی وہ صحیح معنوں میں خالی ہاتھ ہوا تھا... افق کے اب کبھی نہ ملنے پر اسے اصل دکھ ابھی ہوا... وہ اپنے شوہر سے محبت کرتی ہے... اس پر زیادہ ہوا... ہاں صرف شوہر...
اس نے اپنی نم آنکھیں دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے صاف کیں... وحشت زدہ پاگل آنکھیں' جو صدمے اور دکھ میں جامد بھی ہو جاتی ہیں اور تیزی سے پھڑپھڑانے بھی لگتی ہیں... وہی نفسیاتی دورے کی کیفیت' جو اسے قید کے دوران پڑتے تھے...
اتنا رو کر' اتنا پچھتا کر بھی عدن روز اسٹور کے قریب چلا جاتا... دو' چار' چھ دن' افق وہاں آ ہی نہیں رہی تھی... عدن کو ہنسی آئی... وہ اس سے ڈر رہی تھی... ایک ہفتے بعد وہ تھوڑی سی دیر کے لیے آئی اور چلی گئی... فاصلہ رکھ کر عدن اس کے پیچھے پیچھے اس کے گھر تک جا پہنچا... پھر وہ روز اس کے گھر تک جانے لگا... وہ اس کے شوہر کے انتظار میں تھا... افق اکیلی ہی گھر سے باہر نکلتی نظر
آتی... وہ سمجھ گیا کہ افق نے اس سے جھوٹ بولا ہے کہ وہ شادی شدہ ہے... کیوں بولا ہے... یہ پوچھنے کے لیے وہ اس کے ساتھ ساتھ کالج آ گیا... اس پر نظر پڑتے ہی افق کا رنگ پھیکا پڑ گیا...
"میری سمجھ میں نہیں آ رہا افق! تم مجھ سے اتنا کترا کیوں رہی ہو؟ میں وہی امان ہوں' جو تمہاری جان ہے..."
عدن نے کالج کی طرف جاتی سڑک پر اسے جا لیا تھا... افق نے سختی سے اپنے لب بھینچے اور ایسے ظاہر کیا کہ نہ اسے جانتی ہے' نہ ہی اسے سن رہی ہے اور تیز تیز چلنے لگی...
"تم اتنا سخت ناراض ہو مجھ سے.... میں نے تمہیں فون نہیں کیا' اس لیے.... میں حالات میں پھنس گیا تھا... تمہیں چھوڑ کر نہیں گیا تھا... تم میری بات تو سنو... تم اس طرح منہ موڑ کر کیسے میرے بغیر رہ سکتی ہو..."
افق کے تن بدن میں آگ لگ گئی... یہ شخص کتنے مزے سے اس سے جھوٹ بول رہا تھا...
"کیسے حالات؟ اس نے پوچھا...
"میں امریکا نوکری کے لیے آیا تھا... مجھے اچانک آنا پڑا... جہاں اپلائی کیا تھا... وہاں سے فوری کال آ گئی تھی... تیاری کرنے میں' میں اتنا مصروف ہو گیا کہ تمہیں ایک فون نہیں کر سکا... سوچا تھا امریکا آکر کر لوں گا..."
"وہ اسپتال تمہارا اپنا نہیں تھا' جہاں تم نوکری کرتے رہے ہو؟"
وہ سمجھ رہا تھا کہ افق کو کچھ نہیں معلوم اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ عزیز سے بھی مل چکی ہے اور آرٹیکل بھی پڑھ چکی ہے... وہ اسے وہی افق سمجھ رہا تھا جو فیکٹری جایا کرتی تھی... ایف میں فیل ہو گئی تھی... کچھ جانتی ہی نہیں تھی...
"وہ کسی آغا عباس حیدر کا تھا..."
"اور وہ آغا عباس حیدر تمہارے سسر نہیں تھے؟" اب عدن کا حلق خشک ہو گیا...
"ان کی بیٹی..... تمہاری بیوی..... ماریہ.... تمہارے بچپن کی محبت..."
عدن کے فرشتوں کو بھی گمان نہیں تھا کہ وہ نہ صرف اس کی شادی... بلکہ ماریہ تک کے بارے میں جانتی ہے... وہ اتنا سب کچھ کیسے جانتی ہے؟
"میں اسے چھوڑ چکا ہوں..." اسے یہی بات سوجھی...
"طلاق اس نے لی تھی تم سے..." افق کی معلومات زیادہ جامع تھیں..
"تم اس لیے ناراض ہو کہ میں نے ماریہ سے شادی کر لی؟ پاپا نے زبردستی....."
"میری طرف سے تم دنیا میں موجود ہر ماریہ سے شادی کر لو..." افق نے تمسخر اڑایا...
"روز میرے راستے میں ایسے مت آیا کرو... میں اپنے شوہر کو بتا دوں گی... میرا شوہر روایتی پاکستانی بھی ہے اور امریکا کا لاء تو تم جانتے ہی ہو... دونوں اگر مل گئے تو......"
عدن جس کا شرمندگی سے حلق خشک ہو چکا تھا... افق کے اس دھمکی بھرے انداز سے آنکھوں میں خون اتر آیا... اسے دو' دو پیسے کام کرتے دیکھا تھا نا... ہمارے ملازم..... جوتیاں اٹھانے والے.....گندے برتن دھونے والے.... آواز پر جی کہنے والے.... ترقی کر کے کسی بھی آسمان پر جا بیٹھیں... کسی کے لیے وہ تب بھی ملازم ہی رہتے ہیں...
"شوہر کو؟" وہ ہنسا... "کس شوہر کو جو سرے سے ہے ہی نہیں... کہاں ہے وہ..... بلاؤ..."
افق نے اسے نظر انداز کرنا ہی مناسب سمجھا... اتنی بات کر کے بھی بےوقوفی ہی کی تھی... اس کی طرف دیکھے بغیر وہ آگے بڑھی اور عدن نے اسے آگے بڑھتے دیکھ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روکنا چاہا...
"میں ہر بار تمہاری یہ جرات معاف نہیں کروں گی..." وہ حلق کے بل چلائی...
"تمیں میری بات سننا ہی ہو گی..." وہ بھی چلایا... "ورنہ میں بار بار تمہارے راستے میں آؤں گا... تمہارے گھر آ جاؤں گا... تمہیں ایک بار مجھے موقع دینا ہی ہو گا..."
افق اس سے ڈرتی نہیں تھی... لیکن اندر ہی اندر اب ڈر گئی... وہ کالج تک اس کے پیچھے آ گیا تھا... اب بار بار آئے گا... گھر بھی آ جائے گا... وہ نہ جانے کیوں ایسے پاگل ہو رہا ہے...
اس کی بات آخری بار سننے کے لیے وہ قریب کی کافی شاپ میں آ گئی...
"تم یہ سمجھ رہی ہو کہ میں تمہیں چھوڑ گیا تھا... بتاؤ! کس کی قسم کھاؤں کہ تمہیں یقین آ جائے... میں نے تمہارے لیے اپنے خاندان کو' پاپا کو بھی منایا..... گھر چھوڑنے کی دھمکی دی... دو دن ہوٹل میں رہا..... ماما بیمار ہوئیں تو ہوئیں پاپا کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی... اپنے باپ کے لیے میں اتنا بھی نہ کرتا کہ اس کی مرضی سے شادی کر لیتا؟ کس منہ سے تمہیں فون کرتا؟ سب بتاتا...... مجھ پر الزام لگا کر جیل بھیج دیا گیا... ماریہ نے طلاق لے لی..... اس سب میں میرا قصور کہاں ہے؟ میں نے تمہیں بہت یاد کیا افق..... بہت...... میں نے ہمیشہ صرف تم سے محبت
کی.... تمہارا کتنا احترام کرتا رہا ہوں میں...... اتنے سال میں تمہارے لیے روتا رہا ہوں اور تم ایسے دور جا رہی ہو...... مجھ پر کچھ رحم کرو... اتنی بڑی سزا نہ دو... میرے پاپا نے زبرداستی میری شادی کر دی..."
افق صرف آخری بار اس کی بات سن رہی تھی... تا کہ وہ بار بار اتنی بات کہنے کے لیے اس کے راستے میں نہ آئے... اسے کوئی مطلب نہیں تھا کہ وہ جھوٹ اور کتنا سچ بول رہا
ہے...
"میں نے سب سن لیا ہے.... ساری باتیں...... تم اپنی زندگی میں خوش رہو... اور مجھے میری میں رہنے دو..."
"تمہارے بغیر میں کیسے خوش رہوں؟"
افق نے بمشکل غصہ ضبط کیا... "میں اپنی قسمت پر رشک کرتی ہوں کہ اس نے مجھے فرزام دیا..."
"مجھے اس کی قسمت پر رشک ہے..."
"یہ ہماری آخری ملاقات ہے..." وہ اٹھ کھڑی ہوئی...
"میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ مت جاؤ... تم تو کہتی تھیں کہ تم میرے بغیر رہ نہیں سکتیں؟"
"تب میں بےوقوف تھی..." اس نے بہت اعتماد سے کہا...
"تم اب بےوقوف بن رہی ہو اور مجھے بنا رہی ہو... تمہارے اندر آج بھی میں ہی ہوں... ورنہ تم میری مدد نہ کرتیں... تمہاری اماں نے زبردستی تمہاری شادی کرا دی اور تم مان گئیں..."
"تمہارے باپ نے تمہاری زبردستی شادی کی اور تم مان
گئے..." کرنے پر آئی تو کڑے طنز افق کے پاس بھی تھے...
"میں مجبور تھا افق..."
"میں مجبور نہیں تھی... میں چودہ جماعتیں پڑھی' ایک عاقل و بالغ لڑکی تھی اور پورے ہوش و حواس میں فرزام کو تاعمر کے لیے "ہاں" کی تھی... اپ ے منہ سے' اس کے عین سامنے ہو کر...."
"حالات کے پیشِ نظر "ہاں" کر دی ہو گی..... محبت نہیں..... تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتیں... محبت تم صرف مجھ سے کرتی ہو... تم میرے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتیں..." اتنا جانتا تھا وہ افق کو... اسی لیے اتنا دور تھا اس سے...
"ہاں! شاید صرف خالی خولی محبت نہیں کرتی... کیونکہ یہ جذبہ تو اس سے بھی آگے کا ہے... میں فرزام کے لیے اپنی جان دے سکتی ہوں ڈاکٹر عدن..... اور کسی کی جان لے بھی سکتی ہوں..."
اس نے ٹھہر ٹھہر کے عین اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا... اسے اندازہ ہونا چاہیے کہ افق کتنا بڑا سچ بول رہی ہے... خالی خولی دعوا نہیں...
عدن تڑپ اٹھا... افق کے منہ سے کسی اور کے لیے یہ سن کر اس کا جی اس شخص کو مار دینے کو چاہا.....
"بکواس بند کرو اپنی..." وہ چلایا... "جھوٹ مت بولو..."
افق نے پروا بھی نہ کی اور قدم آگے بڑھا دیے... وہ پیچھے لپکا...
"تم نے کہا تھا تم میرے بغیر سانس نہیں لیتیں... تمہارا دن رات ہوں میں... مجھے سوچ کر تمہیں نیند آتی ہے اور میں تمہارے سب ہی خواب ہوں..."
افق آگے آگے تھی... وہ پیچھے پیچھے تھا... جو وہ کہہ رہا تھا... وہ اسے پاتال میں گراتا جا رہا تھا... وہ اس شخص سے اب اور نفرت کرنے لگی...
"تم مجھ سے اب کیا چاہتے ہو؟" پلٹ کر وہ چلائی... وہ اس کے پیچھے ہی آتا جا رہا تھا...
"فرزام کو چھوڑ دو... آؤ! ہم شادی کر لیں افق..."
افق ہکا بکا رہ گئی... کس ہمت اور بےغیرتی سے وہ اسے کہہ رہا تھا یہ سب..... اسے چھوڑ جانے والا....... صفائی سے جھوٹ بولنے والا یہ توقع بھی کیسے کر سکتا تھا...
"تمہارے جیسے دو کوڑی کے انسان کے لیے اسے چھوڑ دوں؟ جس نے ایک امیر باپ کی بیٹی سے شادی کر کے مجھے چھوڑ دیا... اس شخص کے بیٹے کے ساتھ' جس نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا...
افق یہ بات کسی کو بھی بتانا نہیں چاہتی تھی... یہ اس کی عزت کا پردہ تھا... اسے وہ چاک کرنا نہیں چاہتی تھی... لیکن اب عدن کے منہ پر یہ بات مارنی ہی پڑی... آخری بات سن کر عدن سناٹے میں رہ گیا...
"تمہارا باپ......مونچھوں والا گدھ....... جب اپنی ماں کے علاج کے لیے تم سے مدد لینے تمہیں ڈھونڈتی میں وہاں گئی..... تو اس نے میرے آگے پیسے پھینکے اور میری عزت پر ہاتھ ڈالا... تمہارے باپ نے میرے سامنے تمہیں فون کیا تھا... تم اور ماریہ جب ہنی مون پر تھے اور تم چاہتے ہو کہ اب بھی میں تمہارے جیسے انسان کا احترام کروں؟ تم سے بات کروں؟"
"ہونہہ...... سفید جھوٹ' سراسر الزام..." وہ الٹا بدک گیا... اگر حالات دوسرے ہوتے تو وہ گدھ کہنے اور ایسے الزام لگنے پر اس کی گردن دبا دیتا...
"یہ تم اپنے باپ سے جا کر پوچھو... ہاں! میری وجہ سے تم باہر کھڑے ہو اس وقت... شاید اللہ میرے ہی ذریعے تمہیں باہر لانا چاہتا تھا... جو تم سے مدد لینے کے لیے گئی تھی' اسی کے ذریعے... جاؤ! جا کر بتاؤ اپنے باپ کو' یہ افق ہے جس نے تمہاری مدد کی ہے... عزت بچا کر بھاگ جانے والی کے ہاتھ سے مدد کا یہ تھپڑ بہت زوردار ہے... یہ تھپڑ تم دونوں کو بیک وقت لگا ہے...بہت پاگل بنا لیا تم نے مجھے... بہت ذہین نہیں ہوں... لیکن تم سے اب ہمیشہ دور ہی رہوں گی... اتنی سمجھ دار تو ضرور ہوں..."
افق چلی گئی... عدن بت بنا وہیں کھڑا رہا... ماں اور باپ' صرف یہ دو ایسے رشتے ہیں کہ کتنے بھی گناہ گار ہوں' اولاد کسی تیسرے کے منہ سے ان کے گناہ نہیں سن سکتی... اپنے باپ کو افق کے بارے میں بتا بھی چکا تھا... پھر بھی اپنے بیٹے کی پسند کے ساتھ..... افق کے ساتھ..... فون بوتھ سے اس نے فون کیا...
"افق آپ کے پاس آئی تھی کبھی؟"
"کون افق؟" لمحہ بھر کے تامل کے بعد کہا گیا...
"جس کی عزت پر آپ نے ہاتھ ڈالا تھا... جو میرا پوچھنے ڈی ایچ اے والے بنگلے میں آئی تھی..." آخری حد پر تھا تحمل کی...
"کیا بکواس ہے یہ؟"
"ہاں' نہ میں جواب دیں..." تن کر کہا...
"بکواس بند کرو گدھے... اپنے باپ پر الزام لگا رہے ہو؟"
"اسی افق نے بوسٹن میں مجھے اس سیل سے آزاد کروایا ہے' جہاں زمین پر میں نے ایڑیاں رگڑی ہیں اور دیواروں سے سر ٹکرایا ہے... اس....."
"کیا بک رہے ہو؟" فون بند ہو گیا... عدن جان گیا... افق سچ کہہ گئی ہے... ایسا تو نہیں تھا کہ وہ اپنے باپ کی سرگرمیوں سے واقف نہیں تھا... لیکن اسی لڑکی کے ساتھ' جس کا ذکر وہ ان سے کر چکا تھا... اسی کے ساتھ یہ سب کچھ..... عزیز کے ہاتھوں جب وہ بار بار پیغام بھجواتا تھا کہ افق کے گھر جائیں... اسے عدن کے بارے میں بتائیں تو اسے ایک ہی جواب ملتا تھا کہ وہاں کوئی ایسا گھر نہیں ہے... نہ ہی وہاں کوئی افق رہتی ہے...
وہاں کوئی گیا ہی نہیں تھا... اس کا باپ کس منہ سے وہاں جاتا..... زندگی کے اس حصے میں باپ نام کا بھرم رکھے اس شخص کی عزت بھی اس کے اندر سے گئی... تو اب سب کچھ چلا گیا عدن کے پاس سے.... عدن خالی ہاتھ رہ گیا... اس سے اچھا تو وہ امریکی سیل میں ہی تھا... سر ہی پھوڑنا ہے تو آزادی میں ہی کیوں... پاگلوں کی طرح اس نے ایک ہی سڑککے دس چکر لگائے بڑبڑاتا رہا...
اب اس کے پاس کچھ نہیں بچا.... جو بچا تھا' اسے چھین لیا گیا... اب اسے زندہ رہنا ہے تو صرف اپنی مرضی کے ساتھ... اپنے من پسند لوگوں کے ساتھ...
......... .................. .........
چند دن وہ عزیز کے ساتھ مقدمے کی سماعت میں مصروف رہا...چند اخبار والوں نے اس کے تفصیلی انٹرویو بھی لیے..... عزیز اسے اپنے ساتھ چند دوسرے اداروں میں لے کر گیا' جو مزید اس کی مدد کر سکتے تھے... وہ ہفتے سے کچھ زیادہ دن مصروف رہا... فارغ ہوتے ہی اس نے افق کی نگرانی شروع کر دی...اب وہ گھر سے کم ہی باہر نکلتی تھی... لیکن جب بھی نکلتی' فرزام ساتھ نہیں ہوتا تھا... اسے فرزام کے آنے کا انتظار تھا... ٹیکسی میں بیٹھ کر ایک دن افق بہت بن ٹھن کر ایر پورٹ گئی... اسے وہ شخص دیکھنا تھا' جس کے لیے وہ جان لے بھی سکتی ہے' تو اس کا خیال تھا کہ پھر یہ "جان" لینا فرزام کی ہی سہی... فرزام کی جان لے لینی چاہیے...
اسی دن شام کو وہ دونوں اکٹھے باہر نکلے... وہ ان کے پیچھے ہی تھا...بس ایک بار اس نے انہیں ایک سڑک سے گم کر دیا تھا... دو گھنٹے وہ انہیں نیو بری میں ڈھونڈتا رہا... جب وہ اسے دوبارہ نظر آئے تو دونوں آمنے سامنے کھڑے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے...
فرزام کی جان نکالنے کا یہ بہترین موقع تھا... وہ ان دونوں کے پاس چلا گیا تھا...
تھپڑمار کر وہ اس کا گریبان جھنجھوڑ رہی تھی... "تم نے میرے ساتھ یہ کیوں کیا؟ اتنا جھوٹ بولا؟ میں نے تمہاری مدد کی..." وہ ساتھ ساتھ رو رہی تھی...
"تم نے میری مدد نہیں کی... تم ہی نے کہا تھا کہ تم نے میرے باپ کے منہ پر تھپڑ دے مارا ہے... اس تھپڑ کے بارے میں میں نے انہیں بتا دیا ہے..." خود کو اس کے ہاتھوں سے چھڑوا کر اس نے اطمینان سے کہا...
"تم نے ایک بار پھر میرے ساتھ برا ہی کیا نا.....تمہاری مدد کر کے میں نے خود اپنے ساتھ برا کیا..."
"میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا افق! چھوڑ دو اسے..... تم صرف مجھ سے محبت کرتی ہو... میں ہوں تمہارا امان..."
ایک اور تھپڑ سے اپنا ہاتھ روک کر افق اسے وہیں کھڑا چھوڑ کر اپنے گھر کی طرف بھاگی...
فرزام کا فون بند جا رہا تھا... پہلے جب اس نے کیا تھا تو ایک بیل گئی تھی... ٹیکسی میں بیٹھی وہ مسلسل اسے فون کر رہی تھی... اب وہ اسے سب سچ سچ بتا دے گی... اسے چھپانا ہی نہیں چاہیے تھا... وہ ناراض ضرور ہو گا... لیکن مان ہی جائے گا... بات بگڑ گئی تھی تو سنبھل بھی جائے گی...
دروازہ کھوک کر وہ اندر آئی تو ہر طرف اسے فرزام کا غصہ بکھرا نظر آیا... شاپنگ بیگز ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے... جیسے ایک ایک کو اٹھا کر پھینکا گیا ہے... سارے جوتے' بیگز' کوٹ' کپڑے' شرٹس' کچھ جیولری' ادھر ادھر بکھری پڑی تھی...گلدان بھی ٹوٹا ہوا تھا...
"فرزام.....!" وہ لپک کر اس کے پاس آئی... وہ ڈائننگ ٹیبل پر سر رکھے بیٹھا تھا اور ایسے بیٹھا تھا جیسے کہیں سے بےعزت کر کے نکالا گیا ہو... اس نے سر اٹھا کر ایک تیز نظر اس پر ڈالی...
"مجھے وہاں اکیلا چھوڑ آئے... مجھے سنتے تو سہی..." راستے بھر وہ روتی آئی تھی... اسے دیکھتے ہی پھر سے رونے لگی...
"لے لی تم نے اس کی ٹریٹ؟ کیسا رہا ڈنر؟"
"بکواس کر رہا تھا وہ..." وہ چلائی... "جھوٹ بول رہا تھا... میں نے نہ بتا کر غلطی کی...اب نہیں کروں گی..."
فرزام اٹھ کر صوفے پر آ بیٹھا... جیسے اسے سن ہی نہیں رہا...
"پلیز میری بات سنو فرزام...... میں نے مان لیا کہ میں نے غلطی کی... میرا یقین کرو... میں سب بتا دیتی ہوں..."
"سن آیا ہوں... تم نے اس کی مدد کی..."
"ویسے نہیں... جیسے آپ سمجھ رہے ہیں..."
"پھر کیسے؟ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ کہاں ہے؟" وہ ایسے جرح کر رہا تھا... جیسے مقدمے کا فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے... اب تو صرف وہ ایسے ہی سوال کر رہا ہے... "تم اسے بھولیں نہیں؟ تم نے اسے ڈھونڈ نکالا..."
اس نے نفی میں سر ہلایا... اتنے سے ہی سوالوں پر اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ بات اتنی بھی آسان نہیں رہ گئی...اب اس یقین پر جواب دے دینے پر بھی کامل نہیں ہو گا... سر تیزی سے نفی میں ہلتا رہا...
"ایسا نہیں ہے فرزام..." آواز اور بھیگ گئی...
"پھر کیسا ہے؟ کیسے ہوا یہ سب؟"
"میں نے میگزین میں اس کے بارے میں پڑھا تھا..." وہ جانتی تھی... اس سلسلے میں پوچھا گیا اگلا سوال تھوڑے سے بچے کچے یقین اور اعتماد کی بھی موت کر دے گا...
"پھر...." اس کے لیے پہلے بار فرزام کا انداز سخت تر ہو
گیا... اس "پھر" کا جواب تو وہ خود نہیں جانتی تھی... اس "پھر" کا جواب ہی اسے لے ڈوبے گا... یہ "پھر" بہت الجھا ہوا تھا...
"میں اس کے وکیل کے آفس گئی..." اس کی آواز اٹک گئی... حلق خشک ہو گیا... الفاظ سارے غائب ہو گئے...
"تمہیں اس کے وکیل کا کیسے معلوم ہوا؟"
"میں نے سرچ کیا تھا..." شرمندہ سے وہ اور شرمندہ ہو
گئی...
"اوکے......" یہ اوکے بہت جان لیوا تھا...
"تم آفس کیوں گئیں؟" وہ سوال کر رہا تھا... اوہ اپنا اور اس کا مذاق اڑا رہا تھا...
پاگل تھی جو گئی... خود نہیں جانتی تھی... اب بتا اور سمجھا نہیں سکتی تھی...
"میں پاگل تھی فرزام! جو چلی گئی... خدا جانتا ہے... میں بنا کسی وجہ کے گئی... وکیل نے میری بہت منت سماجت کی... مجھے اکسایا... انسانیت کے واسطے دیے... مسلمان ہونے کا کہا..."
"تم نے انسانیت کے ناتے یہ سب کیا؟" وہ بظاہر بہت اطمینان سے یہ سب پوچھ رہا تھا...
"ہاں..... میرا یقین کرو...... حالات ایسے...."
"لاکھوں لوگ جیلوں میں بند ہیں... پاکستانی' مسلمان' انسان بھی..."
"مجھے معاف کر دیں فرزام..." اس کے پاس فرزام کے ایسے سوالوں کے جواب نہیں تھے... سوال کے نام پر اب اس کے پاس مانگنے کے لیے صرف معافی ہی تھی...
"تم کس دن آفس گئیں؟"
"جس دن آپ کا میسج آیا تھا کہ گھر سے باہر نہ جانا..." اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ جتنے بھی سچ بول رہی تھی... وہ حیثیت میں دو کوڑی کے بھی نہیں تھے... ایک سچ جو جج کے سامنے بول کر کسی کو پھانسی سے بچا لیتا ہے... اگر بروقت نہ بولا جائے تو بعد ازاں بےشک ساری دنیا کے سامنے بلند و بانگ بولا جائے... پھر وہ سچ ایک گونج ایک اعلان ہی بن کر رہ جاتا ہے...
"مجھے معاف کر دیں فرزام..... میں نے اتنا کچھ چھپایا.... میرے اور اس......"
"معاف کیا..."
اسے درمیان میں ہی ٹوک کر وہ خود اٹھ کر بیڈ روم میں چلا گیا... دروازہ لاک کر لیا... لمحوں میں ہی اس نے اس دن سے اب تک کی ساری فلم آنکھوں میں چلائی... اس کے سارے جھوٹ فرزام کے کانوں کو سنائی دے گئے... افق لاؤنج میں کھڑی رہ گئی... گھٹنے ٹیکنے والارد مقفل ہو کر اکیل ہی بیٹھ گیا... انگوٹھی نہ جانے کہاں گئی... ٹیکسی کی کھڑکی سے باہر..... یا اس گھر کی... پہلی بار افق نے اپنی قسمت کو کوسا... منہ پر ہاتھ رکھ کر وہ رونے لگی... فرزام کی جگہ کوئی بھی ہوتا' وہ یہی کرتا... شاید اسے سرِراہ ہی تھپڑ مار دیتا... گھر سے نکال دیتا...
عدن نامی وبا اسے ہمیشہ ناکام کروا دیتی تھی... آج وہ فرزام کے آگے بھی فیل ہو گئی...
اگلے دن وہ صبح ہوتے ہی چلا گیا... وہ گھر میں ہی اس کا انتظار کرتی رہی... ابھی وہ غصے میں ہے... اس سے بہت ناراض ہے... وہ مان ہی جائے گا... وہ اس سے بہت محبت کرتا ہے...
رات گئے وہ آیا اور سیدھا کمرے میں چلا گیا... اس نے کوشش کی بات کرنے اور کمرا کھلوانے کی... مگر کہ اس نے بات کی' نہ ہی کمرا کھلا... آنے والے چند اور دن بھی ایسے ہی چلتا رہا... پیرس جانے والے جوڑا اور خریدی گئی اتنی ساری چیزیں دھری کی دھری رہ گئیں... وہ سارا وقت روتی رہتی... دونوں کے درمیان وقت اور حالات کی جو خلیج تھی اور جسے دونوں ہی جانتے تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ ختم کر رہے تھے... وہ خلیج ایک دم ہی پھیل کر انہیں بہت دور لے گئی... اب جب وہ اس کے قدموں میں بیٹھنا چاہتی تھی... وہ اس سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا تھا...
کچھ غلطیاں نقصان کا باعث بنتی ہیں... کچھ غلطیاں لے ڈوبتی ہیں اور کچھ کچل کر ملیا میٹ کر دیتی ہیں... عدن یہ تینوں غلطیاں تھا اور یہ تینوں افق سے ہوئی تھیں...
اس کے باپ کو پہچان لینے پر بھی وہ اس کی خصلت کو نہیں جان سکی... آخر خون تو ایک ہی تھا نا... وار کر دیا نا عدن نے اس پر... ایسا وار کے اس کی جان ہی نکال لی...
اگر انسانیت کے نام پر اسے یہ سب کرنا ہی تھا تو فرزام سے کیوں چھپایا؟ یہ غلطی اسے ملیامیٹ کر چکی تھی... اب اسے وقت کا ہی انتظار تھا کہ فرزام اس پر یقین کر لے...
جس کمپنی کے ساتھ وہ کینیڈا کام کر کے آیا تھا... اسی کی ایک اشتراکی کمپنی میں وہ کام کرنے لگا... آفس کے پہلے دن جو اسے پھولوں کے بکے ملے... اسے اس نے ٹیبل پر پٹخ دیا... سارے منصوبے خاک ہو گئے... دو ماہ کی لمبی چھٹی اور یورپ کی سیر..... صرف اس کی پیاری بیوی افق اور ساتھ صرف وہ....
افق نے کالج جانا چھوڑ دیا... اسٹور جانا بھی چھوڑ دیا... وہ اس حالت میں ہی نہیں تھی کہ کہیں جاتی... سارا دن لفظ جوڑتی رہتی اور فرزام کی طرف نظر اٹھتے ہی اس کا دم نکل جاتا... وہ اس سے بات نہیں کرتا تھا... اس کی طرف دیکھتا نہیں تھا... ناشتا کر کے نہیں جاتا تھا... گھر آ کر کھانا نہیں کھاتا تھا... رات رات بھر افق رو' رو کر دعائیں کرتی رہتی... وہ فرزام کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی... لیکن وہ فرزام کے ساتھ ایسے بھی نہیں رہ سکتی تھی... وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اسے وہ بتا نہیں سکی کہ وہ اس سے کس قدر محبت کرتی ہے... دونوں ایک ہی راستے پر ایک ساتھ چلتے چلتے ایک دوسرے کی پشت پر آ گئے...
ایک روز وہ حسبِ معمول رات گئے آیا تو اس نے آتے ہی اس کا ہاتھ پکڑ لیا...
"خدا کے لیے میرے ساتھ ایسے نہ کرو فرزام! مجھے مار لو' برا بھلا کہو... لیکن ایسے نہ کرو..."
سارا دن بھی وہ روتی رہی تھی... اس کے سامنے بھی رو رہی تھی..
اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس سے آزاد کروایا...
"اور تم نے میرے ساتھ کیا' کیا افق! تم نے مجھ سے سب کچھ چھپایا... جھوٹ پر جھوٹ بولا... کئی بار میں نے تم سے پوچھا... تم ٹھیک ہو... تم یہی کہتی رہیں کہ تم ٹھیک ہو... ان دنوں تم اس سے مل رہی تھیں نا؟ چھپ کر اتنا کچھ کر رہی تھیں..."
"میں اس سے نہیں ملی تھی... وہ میرے راستے میں آتا
تھا..."
"کیوں اس شخص کے لیے تم اس کے وکیل کے آفس جا پہنچی تھیں... مجھے یقین دلاؤ افق! تم بنا کسی وجہ کے گئی تھیں... تم اس شخص عدن کے لیے نہیں گئیں... ابھی تک وہ تمہارے اندر ہے..."
"میں اس سے نفرت کرتی ہوں..... میرا یقین کرو..."
"ہاں! مجھے یقین دلاؤ افق..... میں یقین کرنا چاہتا ہوں... تم سے محبت کرتا ہوں... تمہارا ہی تو یقین کرنا چاہتا ہوں... لیکن تم نے اس یقین کا بہت غلط استعمال کیا... تم نے میرا اعتماد تار تار کر دیا... اتنے سال سے میرے ساتھ ہو... مجھے جان نہیں سکیں... تم نے مجھ سے اتنے جھوٹ بولے... جس نے شادی سے پہلے ہر کڑوے سچ کو سن کر بھی تمہیں
اپنایا... اگر تمہیں اس شخص سے نفرت ہوتی تو تم اس میگزین کو ہی پھاڑ کر پھینک دیتیں... یہ ہوتی تمہاری نفرت... اپنے قدم باہر کی طرف بڑھانے سے پہلے تم میری طرف آتیں... سالوں پہلے میں نے ہزاروں بار یہ شکوہ کیا تھا کہ کس قوت نے مجھے برطانیہ سے نکال باہر کیا... تم سے شادی کرتے ہوئے مجھے اس قوت پر بہت پیار آیا... میں نے لاکھوں بار شکر ادا کیا کہ مجھے افق کے لیے بروقت وہاں سے نکال دیا گیا... رومی سے دور کر دیا گیا... آج مجھے یقین ہوا ہے افق! کہ مجھے تو تم سے میرے ناکردہ گناہوں کی سزا دینے کے لیے ملوایا گیا ہے... جس کے بعد میں کسی اور قابل ہی نہ رہوں... بس تم ہی میرا یہ انجام ہو... ہر خواب کی اجڑی تعبیر..... زندگی میں جس تباہی سے میں بچتا رہا' اس تباہی کو خود اپنی زندگی میں شامل کر لیا... مجھے یقین دلاؤ افق! تم اس شخص سے نفرت کرتی ہو...... اور یہ سب کچھ تم نے نفرت میں کیا؟ اب نہ جانے یہ وقت کتنا وقت لے گا... پھر سے محبت کے لیے..."
فرزام چلا گیا... افق کھڑی رہ گئی...
اب اکثر وہ اسے آن لائن رومی سے بات کرتا نظر آتا... افق نے چھپ کر عدن سے بات کی تھی... وہ سامنے کرتا تھا... مسٹر فرزام کے گھر میں مسز فرزام اجنبی ہو گئیں... دنیا کے ہر کام سے افق کا دل اچاٹ ہو گیا... ایک فرزام کے علاوہ اسے کسی کی فکر نہ رہی... ایک اسی کے علاوہ اسے کوئی دکھ نہ رہا... اس کی سب سے بڑی خوشی اس کے لیے سب سے بڑا غم بن گیا...
وہ آفس سے جلدی آ گیا... اسے آواز دے کر سامنے صوفے پر بٹھایا... دونوں کے درمیان آواز دے کر بلانے اور ایسے موقع پر آمنے سامنے بیٹھنے کا رواج ختم ہو گیا تھا... وہ اس کی شکل کی طرف دیکھ رہی تھی اور اس کی طرف دیکھ کر اس کا جی چاہا کہ کانوں میں انگلیاں دے لے...
"میں کاغذات بنوا رہا ہوں..... اسلامک سینٹر گیا تھا..."
"کیسے کاغذات؟" اس نے درمیان میں ہی ٹوک دیا...
"طلاق کے...." کتنے آرام سے اس نے کہہ دیا... نہیں اتنے آرام سے بھی نہیں کہا... قیامت دونوں طرف ہی آئی تھی...