"تمہاری ماڈلنگ کا کیا ہوا؟" رات کو چہل قدمی کرتے ایسے ہی عدن نے پوچھ لیا... ماریہ نے جھٹکے سے اس کے کندھے پر رکھا سر اٹھایا...
"تم نے کیوں پوچھا؟"
"ایسے ہی..." اور اس نے ایسے ہی پوچھا تھا... جیسے کوئی بھی بات کر لی جاتی ہے...
"دوبارہ مت پوچھنا..." پرانا تنا ہوا انداز واپس لوٹ آیا...
"ٹھیک ہے..." اس نے کہہ دیا... لیکن ٹھیک ہوا نہیں...
بیڈروم کا دروازہ بند کر کے وہ ڈرنک کرتی رہی... عدن کو تشویش ہوئی... بہت چاہا کہ وہ دروازہ کھول دے لیکن وہ انگلش میں گالیاں دینے لگی...
عجیب مصیبت تھی... عدن نے اسے بھاڑ میں ڈالا اور دوسرے کمرے میں جا سویا... اگلے دن اور اس سے اگلے دن بھی یہی ہوتا رہا... پھر ماریہ کی ماما آئیں... ماریہ ان کا فون نہیں اٹھا رہی تھی... تین دن سے وہ کمرے سے نکلی نہیں تھی... قریب جاتے ہی گالیاں دیتی... چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتی' چلّاتی' نہ جانے کیا کیا بکتی...
"تو تم مجھے بتاتے..." مام اس پر غصہ کرنے لگیں...
"جب میں ہینڈل نہیں کر سکا تو آپ......"
"میں کر لیتی' سمجھے تم! اس طرح اتنی تکلیف میں اسے اتنے دن رکھنے کی ہمت کیسے ہوئی... تم اس کے پاپا کو فون کر کے بتاتے..... تم تو کسی کام کے نہیں ہو..." وہ چلّا کر چلی گئیں...
"پاگل....... سنکی...... سارے..." اس نے یہ صرف سوچا' کہا نہیں....
مام' ماریہ کو زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے کر گئیں... نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس اس کے سیشن ہونے لگے... چند دنوں بعد عدن کہ بھی ملاقات کروائی گئی ڈاکٹر کے ساتھ کہ اسے ماریہ کے ساتھ کیسے رہنا ہے' کیا کہنا ہے... کیا نہیں کہنا' کس رویے کا اظہار کرنا ہے' کس کا نہیں کرنا' کون سی بات اسے ڈپریشن میں لے جائے گی اور کون سی احساس کمتری
میں...... اسے دورے پڑیں گے... وہ چلّانے لگے گی... ڈرنک کرنے لگے گی... ڈرگز کی طرف پھر سے آ جائے گی... اوراس سب کا ذمہ دار اس کا عدن ہو گا...
تین دنوں کے آٹھ گھنٹوں میں ڈاکٹر نے اس کا دماغ خوب چاٹا... ماریہ سے متعلق اس کی معلومات میں اور سے اور اضافہ ہوا...
کشمیر کی کلی' ازبک کی پری' خوب صورتی میں مس یونیورس' ایک کامیاب ماڈل نہیں بن سکی تھی... بے تحاشا خوب صورت ہونے کے باوجود اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک کامیاب ماڈل کے جو اس کا بوائے فرینڈ تھا ساتھ تعلق قائم نہیں رکھ سکی تھی... بوائے فرینڈ کی کامیابی کا گراف بڑھنے لگا... وہ ماڈلنگ سے کمرشلز اور پھر فلم تک جا
پہنچا... پھر اس کے لیے ایک گرتے ہوئے گراف کی ماڈل کی کوئی حیثیت نہ رہی... اگر وہ دنیا میں اکلوتی خوب صورت ہوتی تو شاید کوئی بات بھی بنتی...
اب یہ سچی محبت کے کھو جانے کا دکھ تھا کہ کیریر نہ بننے کا غم....... ماریہ نے انہی دنوں ڈرگز لینی شروع کی... سگریٹ' ڈرنک' سب کچھ وہیں سے آیا... شیخ بھی اسی بےراہ راوی کا نتیجہ تھا... ڈپریشن کے انہی دنوں میں اس نے بہت کچھ کیا... اسے دنیا گھمائی گئی... لیکن ہر بار اس نے نیا ہی کارنامہ انجام دیا...
ڈاکڑ اور اپنی ساس کے ساتھ آخری ملاقات میں اس کا جی چاہا کہ وہ جاتے ہی ماریہ کو فارغ کر دے... اتنی تھوکی ہوئی لڑکی وہ چاٹ رہا ہے... ذات کیا اتنی بد' عمل میں اتنی کمتر' اس رات وہ صبح تک بار میں بیٹھا رہا... اسے بہت کچھ یاد آ رہا تھا... آج اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنے بال نوچے... دولت کے ساتھ ہی سہی' لیکن اس نے کبھی ایسی زندگی کا نقشہ نہیں بنایا تھا...
وہ کیسی زندگی گزار رہا ہے... اپنی جوانی کے سنہرے دن کس کے ساتھ گزار رہا ہے... وہ کر کیا رہا ہے؟
"آپ نے یہ سب ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا؟" وہ خالص پاکستانی انداز میں اپنے سسرالیوں پر چڑھ دوڑنا چاہتا
تھا...
"کیا سب؟" ساس کی بھی فرعونوں جیسی گردن اکڑ گئی...
"اپنی بیٹی کے کرتوتوں کا..."
"تم نہیں جانتے تھے اسے؟"
"صرف اسے جانتا تھا..."
"تم اور تمہارے پاپا تو یہاں آتے رہتے تھے... تمہیں معلوم تھا ماریہ کا لائف اسٹائل... اس لب و لہجے اور اتنی اونچی آواز میں دوبارہ مجھ سے مخاطب نہ ہونا...... میں ماریہ کی ماں ہوں' تمہاری نہیں..."
"آپ کو اسے سمجھانا چاہیے..." ہنٹر کھا کر وہ سنبھل گیا...
"سمجھا لیا' اب تم سمجھاؤ' سنبھالو اسے..." انداز ایسا' جیسے تمہیں تنخواہ دیتے ہیں اپنی ڈیوٹی کرو...
"وہ میری نہیں مانتی' مجھے اس کی فکر ہے' میں اسے ایسے نہیں دیکھ سکتا..."
انہوں نے آنکھیں پھیلا کر ذرا کی ذرا اسے دیکھا... یہ وہی ہے جو ابھی کرتوتوں کی بات کر رہا تھا اور اب فکر کر رہا ہے...
"کوشش کر رہے ہیں ہم.... تم بھی کرو... کبھی کبھی وہ ڈسٹرب ہو جاتی ہے... ہو جاتا ہے ایسا' سب کے ساتھ' ہو جاتا ہے..." ساس سے ہار کر وہ پاپا کو فون کرنے لگا...
"وہ چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتی ہے... گالیاں دیتی ہے... میں نے کبھی کسی کے ایسے رویے نہیں دیکھے..."
"تو تم سامنے سے ہٹ جایا کرو سن!" وہی جناتی قہقہہ لگا...
"پاپا..... پلیز..."
"یار...... بچے ہو کیا تم؟"
"جنگلی ہے وہ..."
"جنگل کا کون سا ایسا جانور ہے جسے انسان نے پالتو نہیں بنایا... پنجرے میں لا نہیں بٹھایا..."
"سانپ نہیں پالنے میں نے..."
"تو بین بجاؤ' نچاؤ اسے..."
"وہ مجھے نچاتی ہے... میرا سکون تباہ ہو رہا ہے پاپا!"
"دور رہو اس سے' کرنے دو جو کرتی ہے..."
"اس کا باپ کہتا ہے... اس کا خیال رکھو... دور کیسے رہوں؟"
"اس گدھے کو الو نہیں بنا سکتے تم؟"
"وہ مجھے گدھا بنا رہا ہے..."
"عدن! لڑکیوں کی طرح رونا بند کرو' مرد بنو..."
اور وہ مرد بن گیا... ماریہ کا حال چال پوچھتا... بات کرنے کی کوشش کرتا' بات کر لی تو ٹھیک' ورنہ ادھر ادھر ہو جاتا' خود وہ اپنے معمولات میں سیٹ تھا... صبح اٹھتا' جوگنگ' ورزش کرتا' اپنا ناشتہ خود بناتا اور اسپتال آ جاتا' ماریہ سے کہیں زیادہ اسے اسپتال کی فکر تھی... رات کو دیر سے آتا... ماریہ کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوتا تو اسے دیکھ لیتا... ورنہ بند دروازہ دیکھ کر شکر ادا کرتا... اپنے کمرے میں آ کر سو جاتا... ماریہ کے دورے کی حالت طویل ہو کر ختم ہونے لگی تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی...
"ایک بار تم نے مجھے کہا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو..." اتنا عرصہ پہلے کی بات اسے یاد تھی...
"ہاں کہا تھا..."
"اب بھی کرتے ہو؟" اس نے پوچھا..... اور اس وقت وہ ہنسی تھی...
عدن گڑبڑا گیا... ہاں ہی کہنا پڑا...
"نہیں' تم نہیں کرتے..." وہ ہسٹریائی ہنسی' بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی اٹھا کر اس کی طرف لہرائی... "نہیں کرتے نا؟" ہاتھ گود میں گرا لیا...
"تم تو میرے شوہر ہو بس..... قابل شوہر.... بس..."
وہ تاسف اور گہرے دکھ سے بولی... کچھ پل چپ رہی... پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر پگلی سی ہنسی ہنسنے لگی' پھر جھٹ سے عدن کی شرٹ کے کالر کو دونوں ہاتھوں میں لے لیا...
"عورت ہوں...... پاگل نہیں ہوں... کتنی ہی بےحس ہو جاؤں' محبت کی حس رکھتی ہوں..." وہ کالر کو جھنجھوڑنے
لگی...
"چھوڑو مجھے..." پھر دورہ پڑا... اس نے دل میں سوچا...
"نہیں چھوڑتی..."
"ماریہ!" وہ نرمی سے بولا... کالر آزاد کروا کر اسے اپنے سینے سے لگایا...
ماریہ نے کہا کہ وہ عورت ہے... لیکن پاگل نہیں... لیکن سینے سے لگا کر وہ اسے بتا دے گا کہ وہ پاگل ہے یا نہیں' صرف چند ہی جملوں میں...
"محبت نہ کرتا تو تم سے شادی کرتا؟" پہلا جملہ...
"تم پر پل پل مرتا ہوں... مر مٹنا چاہتا ہوں اور تم....." دوسرا جملہ...
"اور میں.....؟" اس نے بہت معصومیت سے پوچھا...
"تمہیں نہ جانے کیا ہو جاتا ہے..." وہ جیسے بہت دکھی تھا اس کے لیے...
"کیا ہو جاتا ہے عدن؟" اس کی طرف بہت آس سے دیکھا...
"میں تو ٹھیک ہوتی ہوں... خراب تو دوسرے ہو جاتے
ہیں..."
"میں دوسرا نہیں ہوں... تمہارا شوہر ہوں..."
"میرے ہو تم؟"
"ہاں! صرف تمہارا..."
"صرف میرے؟" بہت پیار سے پوچھا گیا...
"صرف تمہارا..." بےحد پیار سے کہا گیا...
محبت کے نام کی بین بجا کر عدن نے اسے سلا ڈالا...
وہ بہل گئی' ٹھیک نظر آنے لگی' صبح اٹھ کر اس کے ساتھ جوگنگ کے لیے جاتی... بھاگتے ہوئے ٹانگوں میں اپنی ٹانگ اڑا کر اسے منہ کے بل گرا دیتی... وہ چلّاتا... وہ بھاگ
جاتی... رات کو وہ سوتا تو فل والیوم میں میوزک لگا کر خود دوسرے کمرے میں بھاگ جاتی... اس کے کپڑے اور گاڑی کی چابی چھپا دیتی... گھر میں وہ آگے آگے بھاگتی... وہ پیچھے پیچھے بھاگتا...
پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ڈیڈ کا گھر تھا... آج کل ناشتا وہ ان کے ساتھ کرنے لگے تھے... اس کے ڈیڈ اس کے لاڈ کرتے... اس کی پلیٹ بھرتے' اس کے ہاتھ کی ہتھیلی کو ہونٹوں سے لگاتے اور اس کے بالوں کو ذرا سا کھینچتے...
"گھوم پھر کیوں نہیں آتے تم لوگ..." بیٹی ذرا سا سنبھلی تو ٹرپ آفر کیا جانے لگا...
"آفر اچھی ہے..." ماریہ نے جوس کا ایک گھونٹ بھر کر کہا...
عدن کا خیال تھا کہ وہ نہیں جائے گی... کیونکہ وہ سنجیدہ نظر نہیں آ رہی تھی... لیکن وہ سنجیدہ ہی تھی... اس نے پلان کر لیا تھا اور کیا خوب پلان کیا تھا...
عدن کو لگا کہ اس نے کوئی غار اور دہانہ نہیں چھوڑا... اس ٹرپ وہ اتنی سنجیدگی سے ان سب کا جائزہ لیتی رہی جیسے ان پر کتاب لکھ رہی ہو... عدن میں موج مستی کا عنصر زیادہ تھا... اسے کھنڈرات سے ایسی کوئی دلچسپی نہیں تھی...
کسی زمانے میں اسے شوق ہوا تھا اجڑی عمارتوں کو دیکھنے کا...چند ماہ اس نے دل لگا کر دیکھیں بھی....
پھر......
وہ جاپانی زیرِزمین ٹرین سے لطف انداز ہونا چاہتا تھا اور ماریہ نے اسے ریڈوڈ جنگل میں چلنے والی گھٹیا سی سیاحتی ٹرین میں بٹھا دیا... یہ ٹرپ اس کے باپ کی طرف سے تھا تو مرضی بھی باپ کی بیٹی کی ہی چلنی تھی... اس کا ٹرپ تو خاک ہوا... ماریہ البتہ تروتازہ ہو گئی...
"ڈیڈ ٹھیک کہتے ہیں..." بہت دنوں بعد اس نے یہ جملہ دہرایا...
"تمہارے جیسے شوہر مزے سے بندھے رہتے ہیں..... نہ جاتے ہیں' نہ جانے دیتے ہیں' سر جھکائے مانے جاتے ہیں..."
بہت ذہین تھی... اسے قائل ہونا پڑا... شاید ڈیڈنے یہاں بھی کچھ کہا تھا... دنیا میں کسی ایک مرد کی تو وہ سنتی تھی مگر..... وہ مرد اس کا باپ تھا... اس لیے نہیں وہ مرد اس سے ہر حال میں محبت کرتا تھا اس لیے.... ہر انسان کو ایک ایسے ہی انسان کی ضرورت ہوتی ہے' جو ہر حال میں اس سے محبت کرے اور گندے سندے راستوں میں صرف ایک محبت کا ہی راستہ ہوتا ہے گند سے نکال باہر کرتا ہے... اب یہ اس محبت کے فلسفے اوراساس پر ہے کہ وہ گند کسے سمجھتا ہے...
......... .................. .........
اسپتال کا سارا منافع عدن کی جیب میں ہی جاتا تھا... اس کا اکاؤنٹ دن بدن بڑھ رہا تھا... غلام علی غلام کے ساتھ اس نے ایک فیکٹری میں حصہ داری کر لی...
"اپنے سسر کے برابر ہو جاؤ تو مانوں..." وہ اسے ہمیشہ بڑا ٹارگٹ ہی دیتے تھے... سو میٹر کی ریس اس نے جیتی تو انہوں نے کہا...
"پہلے نمبر پر تو کوئی بھی آ جائے گا' کوئی ریکارڈ بناؤ کہ کوئی توڑ نہ سکے...
جناب آغا عباس حیدر... اس کے سسر!
جس کا اپنا ایک ذاتی طیارہ تھا... امریکہ میں پھیلی ہوئی اسٹورز کی چین تھی... آس پاس کے ملکوں میں گھر اور اپارٹمنٹ تھے اور عدن کے باپ کے پاس صرف تین فیکٹریاں تھیں' جو مختلف مشینی آلات بناتی تھیں... صرف پاکستان کے دو شہروں میں بنگلے تھے... ایک فارم ہاؤس تھا' بس....
ایک فیکٹری پر مقدمہ چلتا رہا تھا... اس مقدمے نے ان کی ساکھ خراب کر دی تھی... پیسہ الگ پانی کی طرف لگ رہا تھا... طرح طرح کے لوگوں کو خریدا جا رہا تھا... بے نقص منصوبہ تھا آگ لگانے کا... بیمہ کمپنی کے تفتیشی جاسوسوں نے پکڑ لیا... غلام علی غلام نے الٹا بیمہ کمپنی پر مقدمہ کر دیا... بیمہ کمپنی بھی سینہ ٹھونک کر میدان میں اتر آئی...
یہ سب اس کی شادی سے پہلے ہوا تھا... بعدازاں....... مقدمے کو کسی نہ کسی طرح ختم کروایا... فیکٹری کو نئے سرے سے کھڑا کیا... اسی فیکٹری کا آدھا مالک عدن تھا جس نے اپنے حصے کے سارے پیسے اسپتال کے منافع سے دیے تھے...
جب کبھی ماریہ پر دورے پڑتے تھے... جی تو اس کا چاہتا کہ مار مار کر اس کا حال برا کر دے... لیکن ایسی مار اس کا اپنا حال بدترین کر دے گی... اب وہ اپمے سسر کو پیچھے رکھنا چاہتا تھا تو اسے ماریہ کو آگے رکھنا ہی تھا... ابھی ماریہ کو مارنے کا وقت نہیں آیا تھا... شام کو اسی کے لیے وہ گھر جلدی چلا جاتا... وہ اس کے لیے کوکنگ بھی کر لیتی تھی... اس کے کپڑے ترتیب سے ہینگ کر دیتی تھی... اس کے نخرے بھی اٹھا لیتی تھی... وہ بھی لاڈ کر لیتا' لیکن اس سب کے دوران بھی وہ اس کے لیے امتحان بنی ہوتی...
عدن حسن پرست تھا اور کتنا بھی حسن پرست تھا' عورت میں شرافت کا قائل تھا...
وہ اندر سے ایک گھسا پٹا روایتی مرد تھا... نیک سیرتی کا تمنائی' شرافت اور حیا کا دلدادہ' قدر کرے' نہ کرے' تعریف کرے' نہ کرے' پر تمنائی ضرور تھا... کالج میں اس نے ایک سے بڑھ کر ایک حسن کے عجوبے سے دوستی کی' فلرٹ کیا' لیکن ان عجوبوں کے قریب ہوتے ہی وہ انہیں مختلف فہرستوں میں درج کر لیتا... یہ فلرٹ کے لیے' یہ صرف دوستی کے لیے' یہ ہائے ہیلو کے لیے... یہ صرف مسکرا کر دیکھنے' کبھی کبھار بات کرنے کے لیے... یہ ذرا ذائقہ بدلنے کے لیے' یہ ہلڑ بازی کے لیے' یہ بور ہوتے وقت فون پر بات کرنے والی...
ان میں سے ایک بھی "یہ شادی کے لیے' والی فہرست میں نہیں آئی تھی... امیر سے امیر ترین بھی نہیں.... ایک' دو نے اسے بہت شوق سے اپنے خاندانوں سے ملوایا' لیکن وہ ان سے مل کر بھی پرے پرے ہی رہا... ایسا بھی کڑا وقت اس پر نہیں آیا تھا کہ سیکنڈ ہینڈ کتابیں لے کر پڑھے اور اسے دوم پر کچھ پسند بھی نہیں تھا... نہ انسان' نہ حیوان' نہ چیزیں' نہ درجے...... اس کا ہر پیمانہ اول تھا... عورت کے پیمانے پر ایک اول اسے ملا تھا... لیکن دولت کے نمبر پر اس کے پاس آخری نمبر بھی نہیں تھے اور یہی اول اسے اکثر یاد آ جاتا...
جب وہ گرے ہوئے نمبروں والی ماریہ کو بوسے لیتے ڈرنک کرتے' ناچتے اور دوڑنے کی حالت میں دیکھتا... اس کے منہ سے گندی گندی گالیاں سنتا تب بھی...
بس اسی لیے عدن نے ماریہ کو ایک نقطہ ہی بنا لیا تھا' تا کہ جب چاہے اسے کاغذ سمیت پھاڑ کر پھینک دے...
جسمانی طور پر وہ کچھ ایسی پیچیدگیوں کا شکار تھی کہ آئندہ چند سالوں تک وہ ماں نہیں بن سکتی تھی... عدن کے پاس یہی چند سال تھے... اسے گرے ہوئے نمبروں والی سے گرا ہوا بچہ نہیں چاہیے تھا... لیکن ساتھ ساتھ وہ جانتا تھا کہ اگر ماریہ کے جی میں آئی تو وہ ہر پیچیدگی کو بالائے طاق رکھ کر ماں ضرور بن جائے گی لیکن ابھی ان کے درمیان بچے کا کوئی ذکر نہیں تھا...
تیرہ ماہ کی شادی شدہ زندگی کی چارج شیٹ سے غلام علی غلام صاحب مطمئن تھے... عدن کے اکاؤنٹ سے پیسہ ان کے اکاؤنٹ میں جاتا تھا... وہاں سے فیکٹری میں لگتا... منافع اکہرے سے دہرا اور دوہرے سے تین گناہ بڑھنے لگا...
"تم ایک اور اسپتال کیوں نہیں بنوا لیتے؟" ماریہ خوش تھی... زندگی سیٹ تھی تو پاپا نے بروقت مشورہ دیا... اس نے وقت نکال کر اپنے سسر سے ان کے آفس میں ملاقات
کی... انہوں نے نہ تائید کی' نہ انکار کیا' وہ بولتا رہا' وہ سنتے رہے... جیسے "سر! آپ کے شوز پالش کر دیے ہیں..."
اور سر..... سر اٹھا کر "ہوں" بھی نہیں کہتے...
چند ہفتوں بعد اسے معلوم ہوا کہ ماریہ کے نام ایک پراپرٹی لی گئی ہے... چند ہفتے اور گزرے تو اس کے سسر اسے اسپتال لگانے لے گئے... عدن کو اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ کاغذات ماریہ کے نام ہیں... اسے منافع سے غرض تھی... آگے کے اس کے پلانز بھی بہت کمال کے تھے... وہ کسی تیسرے شخص سے (دراصل خود) اپنے سسر کے اسٹورز میں شیئرز لے گا... وہ ان ہی کے پیسوں سے ان ہی کے کاروبار میں گھس جائے گا...
اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنے کے لیے ماریہ نے یونیورسٹی جانا شروع کر دیا... وہ ہسٹری میں ماسٹرز کر رہی تھی... جب اس کا تعلیمی سلسلہ چھوٹا تھا... اب ذہنی طور پر وہ کچھ بہتر ہوئی تو دوبارہ ایڈمیشن لے لیا... عدن دوسرے اسپتال کو بھی سیٹ کرنے لگا... میڈ گھر کو دیکھتی... بوسٹن میں سب ٹھیک تھا... پاکستان میں بھی سب ٹھیک تھا...
بات وہاں سے بگڑ گئی... جب وہ ماریہ کے ساتھ ایک تقریب میں چلا گیا... آج کل ماریہ بہت کم پارٹیز میں جاتی تھی... اس کی دوستوں نے اصرار کیا تو وہ اسے ساتھ لے کر آ
گئی... وہ دونوں اور اس کی دو دوستیں ساتھ ساتھ کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ایک دوست نے اس کے کان کے پاس منہ لا کر کچھ کہا... ماریہ نے ذرا سا گردن کو خم دے کر پیچھے دیکھا...
عدن نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا... لیکن ہجوم میں اسے تو کچھ نظر نہیں آیا...
"ہو رہی ہو گی کسی کے ملبوس یا جیولری کی بات..."
اس نے خیال نہ کیا مگر ماریہ کی جیسے حالت غیر ہو
گئی... وہ رنگ بدلنے لگی... کچھ ہی دیر میں وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی... اوپن ایر میں سکڑتے سمٹتے ہجوم میں اس نے کئی بار نظریں گھما کر اسے دیکھنا چاہا... لیکن وہ اسے نظر نہیں آئی... اس کی دوستیں بھی غائب ہو گئیں... وہ ٹہل ٹہل کر اسے ڈھونڈنے لگا... لیکن وہ نظر نہیں آئی... اس نے فون کیے لیکن وہ کال کا جواب نہیں دے رہی تھی... بہت دیر بعد اس کا میسج آیا...
"میں اپنی دوستوں کے ساتھ ہوں' تم چلے جاؤ..."
"تم ہو کہاں؟"
"تمہیں اس سے کیا؟" بھڑکتا ہوا جواب آیا تو وہ گھر آ گیا... چند گھنٹوں بعد اسے بھی آ جانا تھا لیکن وہ نہیں آئی' اگلے دن شام تک نہیں... اس کا فون بھی بند تھا... اس نے اس کی مام کو فون کر کے بتا دیا... اب وہ اس کا کوئی الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتا تھا...
"وہ اپنی فرینڈ کے ساتھ ہے... طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اسی کے ساتھ چلی گئی..." ازبک مام نے نہ جانے کس کا فرینڈ کو فون کر کر کے اس کا پتا کیا اور اسے بھی بتا دیا...
اس کی طبیعت کو وہ جانتا تھا... رات کو واپس آئی تو وہ پوچھے بنا رہ نہیں سکا... وہ الماری کھولے کپڑے نکال نکال کر دیکھ رہی تھی' جیسے سنا ہی نہیں کپڑے ساتھ لگا لگا کر دیکھتی رہی... عدن کا جی چاہا کہ گردن سے پکڑ کر اسے زمین پر پٹخ دے...
"میں کچھ پوچھ رہا ہوں..."
"کیوں پوچھ رہے ہو؟"
"بیوی ہو تم میری..." اتنی مشرقی بات مغربی بیوی کے سامنے...
"تم بھی میرے شوہر ہو' میں نے تو کبھی نہیں پوچھا..."
دانت پر دانت جما کر آواز کو دبا کر وہ بولا... "تو پوچھ لیا کرو..."
"اگر پوچھا تو بتانا بھی پڑے گا..." ایک تو یہ باپ بیٹی چالاک بہت تھے... ہر چیز کی حد بندی کیے بیٹھے تھے...
"تم نہ بھی پوچھو تو تمہیں یہ بتانا ہی پڑے گا تم کہاں تھیں کل رات' ڈرنک کرتی رہی ہو اپنی حالت دیکھو کس کے ساتھ تھیں تم؟"
اب وہ سیدھی ہوئی "بتاؤں" آواز میں تمسخر بھی تھا اور اتراہٹ بھی "ریکس کے ساتھ تھی..."
"تمہارا وہی ماڈل بوائے فرینڈ.....؟"
"کمال کی یادداشت ہے تمہاری..." تالی بجانے جیسا انداز...
"تم اس سے ملیں؟"
"کیوں نہ ملتی... دو سال بعد ملاقات ہوئی تھی...
"رات بھر......" عدن کا سر گھوم گیا... وہ آزاد خیال ہے' لاپروا ہے' ڈھیٹ ہے' پر اتنی...... وہ نہیں جانتا تھا' جو کچھ شادی سے پہلے کیا... وہ اس پر ڈھیٹ بن گیا... بے غیرت ہی سہی... مگر ابھی وہ زندہ تھا... اس کی موجودگی میں اسے نہ کوئی ڈر نہ لحاظ... جو اصل تکلیلف تھی عدن کو' وہ یہی تھی کہ اس کی کوئی وقعت ہی نہیں... دو قدم بڑھا کر ایک زوردار تھپڑ اس کے سفید گال پر مارا اتنی زور سے کہ وہ بل کھا کر نیچے گری... ہونٹ سے خون کی ایک باریک لکیر نکلی...
"بے غیرت....... ذلیل!" کچا چباتی آواز...
فرش پر گرے سر اٹھا کر اس نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا...
"میری بیوی ہو کر تم رات بھر کسی اور کے ساتھ رہیں..."
ٹانگوں کو سمیٹ کر وہ اٹھی اور کمرے سے نکل گئی... دوسرے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا... عدن غصے سے بل کھاتا ٹہلنے لگا... اب وہ اس عورت کے ساتھ اور نہیں رہے گا... بہت ہو گیا..... ذلیل.....
سائرن بجنے لگا.. عدن نے توجہ نہ دی... سائرن کی آواز قریب آتی گئی... ماریہ کمرے سے نکلی... لپک کا داخلی دروازہ کھولا... دو پولیس آفیسرز اندر آئے... ماریہ نے عدن کی طرف اشارہ کیا اور تیز تیز بولنے لگی... آفیسر نے بڑھ کر اسے ہتھکڑی لگائی...
"ماریہ! اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا... میاں بیوی کے جھگڑے گھروں میں نہیں رہتے... یہ امریکا ہے "میں تیرا لباس تو میرا لباس" یہاں یہ نہیں چلتا... طاقت کے بے دریغ اور غلط استعمال پر یہاں حدیں لگا دی جاتی ہیں مار کھا کر چھپ کر رویا نہیں جاتا...
ماریہ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھ گئی... ایک ٹانگ جھلانے لگی...
"چور مچائے شور..." اردو کا یہ فقرہ اسے بروقت یاد آیا... اس کے نزدیک چور صرف ماریہ تھی...
......... .................. .........