فنڈ ریزنگ کا پہلا ایونٹ ٹھیک ٹھاک رہا... لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی... افق کا اسکور بھی اچھا رہا تھا... آئندہ کے لیے وہ اور پرامید ہو گئی... اسے معلوم ہو گیا تھا کہ اس کی مصنوعات میں وہاں کے لوگوں کی دلچسپی کا خاص مرکز کیا تھا اور کتنا زیادہ پسند کیا گیا اور کیا کیا کیا... یہ کھدر کے موٹے کرتے تھے... جن پر کام تو مشینی ہوا تھا... لیکن ان کے ڈیزائن ایسے تھے کہ لگتا تھا کہ ہاتھ سے بنائے گئے ہیں... مشینی کڑھائی میں یورپین ممالک ہر ملک سے آگے ہیں... اس لیے وہاں کے لوگ ان چیزوں میں خاص دلچسپی لیتے ہیں' جو کسی دوسری ثقافت کی نمائندہ ہو... ان کرتوں پر روایتی ٹانکوں کو مشین سے بنایا گیا تھا... کیونکہ ہر شخص وہ چیز لینا چاہتا ہے' جو کسی دوسرے کے پاس نہ ہو تو ایسے میں دوسرے ملکوں کی روایتی چیزیں دھڑا دھڑ فروخت ہوتی ہیں... ہندوستانی اسٹالوں پر بھی کم و بیش ایسی ہی چیزیں تھیں... لیکن رنگوں اور ڈیزائن میں فرق ایک چیز کو دوسری سے الگ کر رہا تھا... وہاں ان کا مقصد منافع نہیں' فنڈز تھے اور سب ہی چاہتے تھے کہ وہ اچھے فنڈز اکٹھے کر لیں... افق کو اچھا لگ رہا تھا این جی او کے لیے کام کرنا... مختلف طبقہ ہائے زندگی اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بےشمار امریکی' مشہور و معروف قانون دان' کھلاڑی' صحافی' اساتذہ' ڈاکٹر' وکیل' سینیٹرز اور بےشمار دوسرے لوگ رضاکار بنے ہوئے' اپنے اپنے طور پر کام کر رہے تھے... سامان کو اٹھانے اور صفائی کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے... جو دو رضاکار اس کے ساتھ تھے... ان میں سے ایک ساٹھ سالہ سرجن ڈاکٹر تھے... دوسرا رضاکار ایک نوجوان لڑکا تھا... جو ایک امیر باپ کا بیٹا تھا... ایسی صورت حال میں افق کا جذبہ اور بلند ہو گیا...
واپسی پر وہ فرزام کو ایک ایک بات بتاتی... پیر تک وہ مصروف رہی... اگلے دو دن اس کے پاس بہت وقت تھا... اس نے گھر کے لیے ضروری خریداری کی... فرزام کے دوست کی بیوی نمل اس کے ساتھ ہی تھی... اس نے زندگی میں کسی لڑکی کو لپ اسٹک کے لیے اتنا جنونی نہیں دیکھا تھا' جتنی وہ تھی... وہ شاپنگ مال میں' ٹیکسی میں بیٹھے ہوئے' ریسٹورنٹ میں آئس کریم کھاتے ہوئے آس پاس موجود خواتین پر نظریں گاڑے رکھتی..... ان کے ہونٹوں پر..... اگر خاتون دور ہوتی تو آنکھیں سکڑ لیتی... ورنہ ذرا سا قریب چلی جاتی... وہ اس حساب کتاب میں رہتی کہ چمکتی آنکھوں والی' سنہرے بالوں والی' گلابی رنگت والی لڑکی نے جو پرپل سی' ذرا سی ہلکی اور بےبی پنک سے ذرا سی گہری لپ اسٹک یا لپ گلوز لگایا ہے... وہ اس کے پاس ہے نا... اس کے ساتھ ساتھ چلتے وہ بتاتی جاتی...
"یہ جو نیلے اسکرٹ میں لڑکی گزری ہے نا... ہاں..... وہ..... وہ..... اس نے جو لپ اسٹک لگائی ہے' وہ میرے پاس ہے... اور جو وہ موٹی عورت نے لگائی تھی' وہ نہیں ہے..." اکثر وہ ان کے پاس چلی جاتی... پین سے ہاتھ پر برانڈ اور لپ اسٹک کا نمبر لکھتی اور "تھینک یو" کہہ کر پلٹ آتی...
اس کے وارڈروب میں اتنے کپڑے اور جوتے نہیں تھے' جتنے لپ اسٹک اور لپ گلوز کے باکس تھے... افق میک اپ نام کی چیز سے واقف نہیں تھی... نہ ہی اسے شوق تھا... لیکن نمل کے کہنے پر اس نے میک اپ کی کچھ چیزیں لے لیں... اس نے سوچا کہ وہ میک اپ کر کے فرزام کو حیران کر دے گی... اسے بھی معلوم ہو کہ وہ اس کے لیے کیا کچھ کر سکتی
ہے...
اسی دن شام کو وہ کاؤچ پر دراز ایک پرانی فلم دیکھ رہی تھی... قریب ہی چائے کا بڑا مگ رکھا تھا... ابھی تھوڑی دیر پہلے تک وہ نمل کے ساتھ خریدا ہوا میک اپ کا سامان لگا لگا کر دیکھ رہی تھی... اسے سب اچھا ہی لگا... ابھی اسے میک اپ کرنا نہیں آتا تھا... لیکن اگر وہ روز ہلکا سا کر لیا کرے تو فرزام کے آنے تک سلیقے سے کرنا آ ہی جائے گا...
چائے پیتے' فلم دیکھتے اس نے آج خرید کر لائے میگزینز میں سے ایک کو میز پر سے اٹھا لیا... یہ مقامی سطح پر شائع ہونے والا اردو میگزین تھا... نہ اسے فلم میں دلچسپی تھی' نہ ہی فی الحال میگزین میں... اسے فرزام کے فون کا انتظار تھا... اس نے فون کیا تو اس نے یہ کہہ کر بند کر دیا کہ "ابھی کرتا ہوں..." اور پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے اس کاابھی چل رہا تھا...
میگزین کی ورق گردانی کرتے اس کا ہاتھ ایک صفحے پر آ کر ساکت ہو گیا... ٹی وی اسکرین پر ہیروئن رو رہی تھی' چلا رہی تھی... لیکن اسے سنائی نہیں دے رہی تھی... اندھیرے کا ایک گہرا سیلاب اس کی آنکھوں میں سے ہو کر گزر رہا تھا... حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک پل کے تڑپ کر مر گئی... متلی اور سانس اکھڑنے کا شدید احساس ہوا... وا واش روم کی طرف بھاگی اور منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے... منہ صاف کرتی وہ دوبارہ لاؤنج کی طرف آئی تو اس میگزین کو گھورنے لگی جو اس کے اس طرح اٹھ کر جانے پر کاؤچ سے نیچے گر گیا تھا...
اس میگزین میں عدن تھا... اس شخص پر نظر پڑتے ہی نفرت سے ہی سہی' اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں... وہ پلٹ کر وہی افق بن گئی' جو ڈی ایچ اے سے غلام علی غلام کے ہاتھوں سے اپنی عزت بچا کر نکلی تھی...جس کے گلے میں چادر جھول گئی تھی اور جو سڑک پر جائے پناہ کے لیے بھاگی پھر رہی تھی...
اس کا خیال تھا کہ اس شخص سے آئندہ اگر کبھی ملی تو وہ اس پر تھوک دے گی... لیکن اب وہ کانپ رہی تھی... یہ اس کا وہ ماضی تھا... جس پر وہ بہت پشیمان تھی... تھوڑی دیر وہ ایسے ہی کھڑی کارپٹ پر گرے عدن کو دیکھتی رہی... پھر آگے بڑھ کر میگزین کو اٹھا لیا...
"ایم بی بی ایس ڈاکٹر عدن غلام علی (پاکستان)" اس تعارفی سطر کے نیچے مختصراً اس کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ درج تھا... یہ ایک آرٹیکل تھا... جسے ایک مقامی مسلمان صحافی نے شائع کیا تھا... یہ ان لوگوں کے بارے میں تھا... جنہیں بےگناہ یا بےحد معمولی الزامات لگا کر سالوں سے جیلوں میں قید کر رکھا تھا... ان پر دہشت گردی کا شبہ کیا گیا تھا اور سالوں سے وہ شبہ نہ تو تصدیق میں بدل رہا تھا اور نہ ہی مخالفت میں... آرٹیکل میں کل بیس ایسے لوگوں کا ذکر مکمل تعارف اور تفصیل کے ساتھ کیا گیا تھا... باقی اعدادوشمار الگ سے تھے... افق نے آرٹیکل کو ایک بار پڑھا اور عدن کے ساتھ ہوئے واقعے کو تین بار...
جب وہ بار بار اس کے ساتھ پیش آئے واقعے کو پڑھ رہی تھی تو شاید انجانے میں وہ اس کے باپ کے ہاتھوں ہوئی اپنی بےعزتی کا بدلہ لے رہی تھی... لیکن صرف ایسا بھی نہیں تھا... حیرت اور افسوس کی ایک تیز دھار اس کے اندر سے پھوٹ رہی تھی... وہ ایہ دم ایک ایسی کوری تختی بن گئی... جس پر "عدن" ہی ڈوب ابھر رہا تھا...
ڈوربیل بہت زوروشور سے بجنے لگی... اس بار وہ آواز پر چونکی...
"تم ٹھیک تو ہو افق؟" نمل نے چھوٹتے ہی پوچھا تو وہ اور گھبرا گئی کہ اس نے یہی کیوں پوچھا...
"فرزام کا فون آیا تھا... کہہ رہا تھا... تم دونوں میں سے کوئی بھی فون نہیں اٹھا رہیں... وہ کب سے فون کر رہا ہے...
"میں واش روم میں تھی..." اس نے جھوٹ بولا... لاؤنج کی طرف واپس آتے وہ اور پریشان ہو گئی... اسے قریب ہی رکھے موبائل کے چھ بار بجنے پر بھی پتا ہی نہ چلا... آخر کیوں؟ کس لیے؟
فرزام کو فون کیا... واش روم کا بتایا... وہ بات اس سے کر رہی تھی... دیکھ میگزین کو رہی تھی...
"تھک گئی ہو افق؟"
"نہیں تو..." جواب کے درمیان ذرا سا وقفہ آیا...
"تم آرام کرو..... پھر بات ہو گی..." وہ ناراض نہیں ہوا تھا... اس کی غائب دماغی پر خود ہی یقین کر لیا کہ وہ تھک گئی ہو گی...
وہ اٹھی اور لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر بیٹھ گئی... عدن کی تفصیل میں اس کے وکیل کا ذکر بھی تھا اور بیان بھی... سرچ انجن سے اس نے بوسٹن کے وکیل عبدالعزیز کو ڈھونڈ لیا...
افق کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے عدن سے متعلق اس آرٹیکل کو کیوں پڑھا... فرزام کی کالز کو کیسے مس کر دیا اور اب اس کے وکیل کو کیوں ڈھونڈا... افسوس کی لہر جو اس کے اندر سے اٹھی تھی... سب اسی کے زیراثر کیا... ایسا تو تھا ہی نہیں کہ وہ عدن کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی... اسلام آباد سی-ایم-ایچ کے باغ میں بیٹھ کر اس نے دعا کی تھی کہ زندگی میں یہ شخص ایک بار تو ضرور اسے ملے... بےشک افق کے ہاتھ میں کشکول ہو اور عدن کے ہاتھ میں خیرات...
وہ اس شخص سے ضرور پوچھے گی کہ عزت سے چھوڑ دینے کے لیے تو اس نے خود کہہ دیا تھا... اسے دھوکا دے کر بھاگنے کی ضرورت کیا تھی؟
وکیل عبدالعزیز کا نمبر ملایا...
"محبت ماریہ سے کرتا تھا... شادی بھی اسی سے کی... دھوکے کے لیے افق ہی کیوں؟ بیل جا رہی تھی...
"اگر وہ کبھی افق کی زندگی میں نہ آتا تو وہ اس کے گدھے باپ کے سامنے نہ جاتی..."
"لائیر عبدالعزیز اسپیکنگ.... واٹ کین آئی ہیلپ یو؟"
"ڈاکٹر عدن غلام علی کے وکیل آپ ہیں؟"
"یس!"
"کیا وہ واقعی بےگناہ ہے؟"
"پہلے اپنا تعارف کروائیں لیڈی!"
"کیا وہ دہشت گرد ہے؟"
"آپ کا نام لیڈی.....؟"
"کتنی سزا ہو گی.....؟ رہا ہو گا بھی کہ نہیں....؟ کیا وہ سچ مچ دہشت گرد ہے؟"
"آر یو مس افق.....؟"
"مس افق........ مس افق........ مس افق...."
فرزام کے فلیٹ میں اس فقرے کی بازگشت گونجنے لگی... فون افق کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا... وہ اسے کیسے جانتا تھا..... سات سمندر پار... ایک انجانا شخص... جس سے آج اس کی پہلی بار بات ہو رہی تھی... وہ اس کا نام لے رہا
تھا...
"آر یو دیئر مس افق......؟" وہ یقین ہی کر بیٹھا تھا کہ وہ افق ہی ہے...
خاموشی کا وقفہ جاری رہا...
"آر یو اوکے.....؟"
آخرکار اس نے مری مری آواز میں "یس" کہا... "آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟"
"تو آپ مس افق ہی ہیں.... میرا اندازہ ٹھیک ہی تھا... پچھلے چار سالوں سے میں نے ایک ہی نام لاکھوں بار سنا ہے..... افق..... افق...... افق.... اسے کہو' میرے لیے دعا کرے... مجھے آزاد کروا لے..... افق ملی؟ کہاں ہے وہ......"
فون اس کے ہاتھ سے گر گیا اور اس کی بیٹری الگ ہو گئی... منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے اپنی چیخ کو روکنا چاہا...
یہ کیا ہو رہا ہے؟ عدن تو دھوکے باز ہے... اسے تو اس پر تھوکنا ہے..... اس کا گریبان پکڑنا ہے..... پھر...... یہ سب...... اتنے سال وہ اسے یاد کرتا رہا ہے... اس کا نام لیتا رہا ہے..
منہ پر ہاتھ رکھے وہ بیٹھی رہی...... ذرا دیر بعد آس پاس دیکھنے لگی' جیسے سپنا ٹوٹ گیا ہو...... یا سپنے میں ہو اور بلک بلک کر التجا کر رہی ہو کہ یہ خواب ہی ہو اور بس.....
"او خدایا!" اس نے سر کو تھام لیا... آنسو آنکھوں سے رواں ہو گئے... اب یہ آنسو کس احساس کے تحت تھے... افق اس کا فیصلہ ابھی نہیں کر سکتی تھی... بہت دیر تک وہ ایسے ہی بیٹھی رہی... فون کی بیٹری اس میں واپس ڈال کر فون آن کیا... عبدالعزیز کا ایک میسج موجود تھا...
"میرے آفس میں آ کر ملیں..." ساتھ ہی آفس کا پتا بھی لکھا تھا... اس نے افق کو آفس میں آنے کے لیے کیوں کہا اور وہ کیوں جائے؟ کس لیے؟ وہ نہیں جائے گی..... اسے نہیں جانا چاہیے..... وہ کیوں نہ جائے؟ اسے کیوں نہیں جانا چاہیے؟
سوالات آگے پیچھے اس کے اندر باہر بن رہے تھے...
نیلا کرتا' جینز اور جوگرز پہن کر بیگ کو کندھے پر لٹکا کر وہ دروازے کو لاک لگا کر نیچے آ گئی...
افق نے عدن کا اعتبار کیا تھا... اس کی مدد لینے ڈی ایچ اے اس کے باپ کے پاس پہنچی تھی... یہ دو بڑی غلطیاں
تھیں... لیکن اس بار وہ ایک فاش غلطی کرنے جا رہی تھی...
......... .................. .........
"مجھے صرف تجسّس تھا... میں اس لیے یہاں آئی ہوں..." وہ آ تو گئی تھی... مگر اب پچھتا رہی تھی... وہ ایک اچھی بھلی زندگی گزار رہی ہے... اس کی بلا سے عدن دہشت گرد ہی سہی...
"آپ صرف تجسّس مٹانے کے لیے آئی ہیں؟" ایک کہنہ مشق وکیل نے اس کی بودی دلیل کو مزے سے ایک طرف کر دیا...
"یہ سچ ہے..." وہ اس کا طنز سمجھ گئی...
"سچ کے بارے میں آپ بھی جانتی ہیں.... لیکن کیا آپ عدن کی مدد نہیں کریں گی.....؟"
"میں....؟" اس لفظ مدد کا تو اسے گمان بھی نہیں تھا کہ اسے کہا جائے گا اور اس سے یہ سوال پوچھا جائے گا...
"آپ پہلی خاتون ہیں... دراصل کوئی پہلا انسان ہے' جو اس کیس کے سلسلے میں میرے پاس آیا ہے..."
"ان کی وائف....؟"
"ان دونوں کی علیحدگی ہو چکی ہے..."
"عدن کا خاندان؟" وہ لفظ فادر استعمال کرنا نہیں چاہتی تھی...
"وہ یہاں نہیں آ سکتے... اس کے فادر نے کوشش کی تھی... انہیں ویزا ہی نہیں دیا گیا..."
فادر کے نام پر ایک آسمانی بجلی اس میں سے ہو کر گزری...
"میری جب بھی اس سے ملاقات ہوتی ہے... اس کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے.. "کیا افق ملی.....؟ کہاں چلی گئی وہ؟" مس افق! اسے آپ ہر بہت یقین ہے کہ آپ اس کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہیں... آپ دوست ہیں اس کی..."
افق نے گھور کر اسے دیکھا... وہ خاموش سا ہو گیا...
"میں نے بہت سی این-جی-اوز اور قانونی اداروں کو خطوط لکھے ہیں.. لیکن کسی کی طرف سے کوئی تعاون نہیں ملا... اس کا کیس اتنی سست روی کا شکار ہے کہ اگر فیصلہ اس کے حق میں ہو بھی گیا تو سالوں لگ جائیں گے... آپ عدن کی مدد کریں گی مس افق؟"
پھر وہی سوال... افق بری طرح سے چڑ گئی... "میں کیوں...؟"
"آپ اس کی مدد کرنا نہیں چاہتیں....؟" اس نے آرٹیکل پڑھتے ہی وکیل کو ڈھونڈ نکالا تھا... اس کے پرسنل نمبر پر فون کیا تھا... اس کے آفس آگئی تھی اور اب مدد کے نام پر اتنا چڑ رہی تھی... "ہاں' نہ" نہیں کر رہی تھی...
"جس نفسیاتی کیفیت سے وہ گزر رہا ہے... اسے یقین ہے کہ صرف آپ ہی اسے آزاد کروا سکتی ہیں.... آہ اس کی امید ہیں... اس کا یقین ہیں... اس کا ماننا ہے کہ آپ سب کچھ کر سکتی ہیں..."
"غلط ماننا ہے..." افق کی آواز تیز ہو گئی...
"اس نے کہا... آپ اس کے لیے دعا کریں گی..."
"اللہ ہر بےگناہ پر رحم کرے..."
"اس سے چھوٹی سی غلطی ضرور ہوئی ہے... لیکن وہ دہشت گرد نہیں ہے..."
"اللہ ہی بہتر جانتا ہے..."
"جو جانتا ہے' اسے بتانے کے لیے وہ خود زمین پر نہیں آتا... بندوں کو ہی سچ اور جھوٹ ثابت کرنے کی کوششیں کرنی کوتی ہیں..."
"تو پھر یہ آپ کا کام ہے..." مطلب افق نے انکار کر دیا...
"آپ کس کام سے میرے پاس آئی ہیں؟" بہت تحمل سے پوچھا گیا...
وہ دونوں اس کے آفس میں ایک طرف رکھے صوفوں پر آمنے سامنے بیٹھے تھے...
"ایسے ہی..." وہ آکر' وہاں بیٹھ کر' یہ سوال سن کر پھر پشیمان ہوئی...
اس سوال اور انداز پر افق نے کوئی اور ردعمل نہیں
دکھایا... وہ اٹھ کر جانے ہی والی تھی...
"آپ دونوں پاکستانی ہیں... مسلم ہیں... وہ آپ کو جانتا ہے تو آپ بھی اس کو جانتی ہوں گی... پاکستانی کمیونٹی میں سے کوئی اس کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا... آپ لوگوں میں مدد کرنے کا جذبہ ہی ختم ہو گیا ہے... میرے پاس ایسے تین اور کیسز تھے... وقفے وقفے سے تینوں ختم ہو گئے... کمیونٹی نے' این جی اوز نے اس کی بہت مدد کی... کچھ اور بڑے نام سامنے آئے... دو کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا' ایک کا سربیا سے... کیا سب پاکستانی سو رہے ہیں؟ کیا سب مسلم سو رہے ہیں؟ کیا آپ دونوں میں اتنا سا تعلق بھی نہیں ہے کہ آپ....."
"میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے..." وہ درمیان میں ہی بولی...
"انسان تو ہیں آپ دونوں... تعلق نہیں ہے... انسانیت کا رشتہ تو ہے... پانچ سال سے وہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے... دو بار خودکشی کی کوشش کی ہے... نفسیاتی دورے پڑتے ہیں اسے... خود کو زخمی کر لیتا ہے... دیواروں سے سر ٹکراتا
ہے... چلاتا ہے... روتا ہے... چند ہفتوں بعد زخمی ہو کر وہ اسپتال ضرور جاتا ہے اور اس پر بھی وہ جب مجھے ملتا ہے تو کیس کا نہیں' آپ کا پوچھتا ہے... وہ اس امان کے بارے میں بات کرتا ہے' جسے افق جانتی ہے... اس کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے تو کریں... شاید تھوڑا ہی بہت ہو... اگر پاکستانی کمیونٹی کو اس بارے میں بتا سکتی ہیں تو بتایئے... انہیں جگائیں... اس سانحے کو سب کی نظروں میں لائیں... انسانیت کے ناتے... رحم کے ناتے... چیرٹی ہی سمجھ کر... خدا کے لیے..."
افق یہ سب ایسے سن رہی تھی... جیسے اپنی کسی بیماری کے بارے میں ہدایات سن رہی ہو... ایسی بیماری جس کا اسے علاج کروانا ہی نہیں... رات بھر وہ خواب میں ڈرتی رہی تھی... سالوں پہلے اس کی یہ حالت تب ہوئی تھی... جب وہ عدن کے باپ کے ہاتھوں سے بچ نکلی تھی... اسی رات سوتے میں اس نے دل خراش چیخیں ماریں اور دورے سی کیفیت میں آ گئی تھی... اماں' جمال' اسد سہم کر اٹھ بیٹھے... اماں اس کے ہاتھ پاؤں سہلانے لگیں... جمال پانی کے لیے بھاگا... اسد ڈر کے مارے رونے لگا...
وہ دورہ دھوکے اور بےعزتی کے نام پر پڑا تھا... اس کے اندر آگ لگی ہوئی تھی... چھوٹے سے گھر میں باتھ روم میں جا کر اس نے اپنی چیخیں دبائی تھیں... رات گئے اس کی آنکھ لگی تو خواب میں وہ دھاڑیں مارتی رہی تھی... اس کی حالت دیکھ کر اماں پسینے میں نہا گئیں... اٹکی اٹکی سانسیں لینے لگیں... افق نے باقی ماندہ چیخوں کا دم گھوٹ دیا... اس نے اپنی ماں کی حالت کو دیکھا اور لب سی لیے ورنہ جس طرح اس کے باپ کے مرنے پر اس کی پھوپھی نے بین ڈالے تھے... ٹھیک اسی طرح وہ بھی بین ڈالنا چاہتی تھی... اس کی اگلی سسکی اس کی اماں کی جان لے لے گی... اس دن کے بعد سے افق اپنے وجود میں قید ہو گئی... کیا اسے قید کی سزا نہیں ہوئی تھی تب.....؟
اس کا جرم محبت تھا اور سزا کے نام پر اسے بہت کچھ بھگتنا پڑا تھا..... محبت کے نام پر اس نے بھیانک سزا
کاٹی...
"کیا آپ ہماری مدد کریں گی؟" اس سے پھر پوچھا جا رہا تھا...
وہ خود سے پوچھنے لگی کہ اسے اس کی مدد کیوں کرنی چاہیے... وہ اسے چھوڑ گیا... اسے بھی ایسا ہی کرنا چاہیے... اس کی مدد اس پر فرض نہیں ہے... دنیا میں اور بھی لاکھوں انسان اسی کی طرح ہیں... ہر شخص اپنے نصیب کے مطابق ہی دکھ اٹھاتا ہے... جیسے وہ اپنے نصیب کے میٹھے پھل اکیلے اکیلے کھاتا ہے... عدن نام کا باب اس نے اپنی زندگی سے پھاڑ پھینکا ہے... اب وہ اس شخص کا نام بھی کہیں شامل کرنا نہیں چاہتی...
"مجھے افسوس ہے کہ آپ مجھے کوئی جواب نہیں دے رہیں... جس شخص نے سالوں آپ کا انتظار کیا... اسے یہ جان کر بہت مایوسی ہو گی..."
"آپ اسے میرے بارے میں نہیں بتائیں گے..."
"ظاہر ہے..... میں ایک مایوس شخص کو اور مایوس کیوں کروں گا؟"
افق وہاں سے اٹھ آئی اور بےمقصد سڑکوں پر چہل قدمی کرتی رہی... دوپہر کے کھانے کے لیے گئی اور آرڈر دے کر اٹھ گئی... وہ بیٹھنا چاہ رہی تھی' کھڑے ہونا یا چلنا... اس وقت اسے معلوم نہیں تھا... وہ یہ کام بیک وقت کر رہی تھی... بےمقصد گھومتے پھرتے وہ گھر آ گئی... صبح ناشتا بھی نہیں کیا تھا... دن میں صرف جوس لے کر پیا تھا اور اب بھی کھانے کے بجائے وہ کاؤچ پر ڈھیر ہو گئی...
دماغ میں آٹھ سالوں کے خاکے پرزے پرزے ہو کر اڑ رہے
تھے... جھپک جھپک سب آ جا رہا تھا... گھر کا لینڈ لائن فون بجنے لگا... دو گھنٹے سے وہ کاؤچ پر لیٹی تھی... شام گہری ہو رہی تھی... گھر کے اندر اندھیرا ہو رہا تھا... کوئی لائٹ بھی اس نے روشن نہیں کی تھی...
"تمہارا فون کیوں بند ہے؟"
"اوہ! چارج نہیں کیا تھا..."
"تم ٹھیک ہو؟"
"بالکل..."
"کہاں تھیں تم؟"
"میں سو رہی تھی..."
"سارا دن سوتی رہی ہو؟ اس سے پہلے کہاں تھیں؟"
"میں شاپنگ کرنے گئی تھی..."
"کیوں گئیں؟" فرزام کو غصہ آ گیا...
"تمہیں میسج بھی کیا تھا افق! تم کیوں گئیں؟" اس کی جھنجھلاتی آواز بلند ہوئی اور پھروہ خاموش ہو گیا... "چلو ٹھیک ہے... اب تو تم گھر میں ہی ہو... نمل بھابھی کے پاس چلی جانا... فارغ ہو کر ان ہی کے پاس چلی جایا کرو... بور نہیں ہو گی..."
"میں تیار ہو کر چلی جاتی ہوں..." اس نے پوچھا ہی نہیں کہ وہ اسے باہر جانے سے کیوں روک رہا تھا...
افق نے موبائل آن کیا... وکیل کے آفس میں جانے سے پہلے اس نے خود ہی اسے بند کر دیا تھا تا کہ پاکستان سے یا فرزام کی کال نہ آجائے اور اس کے منہ سے نکل جائے کہ وہ کہاں آئی ہے اور کس کے پاس..... اور کیوں ہے...
"رات میں نیند میں ڈر گیا... خواب تھا شاید... خواب مجھے یاد نہیں... لیکن اس خواب اور ڈر کا تعلق تم سے تھا... میں نے خود ہی یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ کہیں تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچنے والا ہو... میری تسلی کے لیے تم ذرا احتیاط سے رہنا... گھر سے تو باہر جانا ہی نہ... نمل بھابھی کے چلی جانا بس...."
فرزام کا میسج پڑھ کر کل سے اب تک اسے پہلی بار سکون کی سانس آئی... اپنے شوہر کے اتنے فکرمند ہونے پر اس کا دل بھر آیا... وہ اس میسج پر ہاتھ پھیرنے لگی... دلوں میں سب سے پیارا دل فرزام کا تھا اور اس دل کی مالک وہ
تھی... اس نے عدن کے خوف سے بچنے کے لیے' اس کے لیے جوگ لے لینے کے ڈر سے فرزام سے شادی کی تھی...... اور کون تھا جو فرزام کو پسند نہیں کرتا تھا اقر وہ اسے سب سے زیادہ پسند کرتی تھی... اس نے اس کا نفسیاتی علاج کیا تھا... اسے پراعتماد بنایا تھا... اسی نے اسے سکھایا تھا کہ لوگوں سے ڈرنا چھوڑ دے اور یونیورسٹی میں اس نے کسی بھی لڑکے سے ڈرنا چھوڑ دیا تھا... وہ بہانے بہانے سے اس سے باتیں کرنے آتے تھے اور وہ بڑے طریقے سے انہیں سیدھا راستہ دکھا دیتی تھی...
فرزام اس کی ذہنی تعمیر میں حصہ دار تھا... وہ اس کے غریب ہونے' چھوٹے گھر کی ہونے پر اسے کچھ جتاتا نہیں تھا... اس نے کبھی بھول کر بھی عدن کا نام اس کے سامنے نہیں لیا تھا... دونوں کا بہت ہی خاص قریبی رشتہ تھا اور دونوں ہی اس خاص رشتے کے ساتھ ایک دوسرے کے لیے بہت خاص تھے...
تیار ہو کر وہ نمل کے پاس آ گئی' ڈنر اسی کے ساتھ کیا اور رات میں تین عدد نیند کی گولیاں کھا کر سو گئی...
اگلی صبح عبدالعزیز کا میسج موجود تھا... وہ اسے دوبارہ ملنے کے لیے بلا رہا تھا... افق نے میسج ڈیلیٹ کر دیا... آج اسے بہت سے کام تھے... اسے این جی او جانا تھا... انہیں اگلے ایونٹ کے لیے بریفنگ دی جانا تھی...
دوسرے ہفتہ کا ایونٹ بھی شاندار رہا... اور مجموعی طور پر کافی منافع ہوا... اس کا اسکور اس بار بھی اچھا ہی تھا... سب کے لیے مشترکہ تالیاں بجوائی گئیں... فرداً فرداً ان کی تعریف کی گئی... مسٹر جین اس کے پاس بھی آئے... وہ پچاس پچپن سالہ چھ فٹ کے سفید فام امریکن تھے... سب سے ایسے باتیں کرتے... جیسے وہ ان کے شاگرد اور سامنے والا ان کا استاد محترم ہے... اتنی عاجزی تھی کہ سارا وجود ہی جھکا ہوا تھا... ہاتھوں پیروں کی انگلیاں بھی...
"کیا آپ کو امریکی جیلوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہاں کتنے بےگناہ لوگ قید ہیں؟"
وہ اس کی تعریف کر رہے تھے اور وہ اچانک سے ہی ان سے یہ سوال کر بیٹھی... مسٹر جین کی آنکھوں کا رنگ بدلا جیسے وہ جانتے تھے کہ یہ صرف ایک سوال نہیں ہوتا... مختلف ملکوں کے دوروں کے دوران ان سے ایسے سوال پوچھ ہی لیے جاتے تھے... خاص طور پر نوجوان تو ان کی جان کو آ جاتے ہیں... صرف اس لیے کہ وہ خود ایک امریکی ہیں اور کسی بھی گورے کو دیکھ کر انہیں لگتا ہے کہ یہ بھی گوانتاناموبے کے ظالموں میں سے ایک ہے... اگر نہیں ہے تو اس ڈھانچے کا حصہ تو ضرور ہی ہے اور اگر یہ بھی نہیں تو چلو' وہ امریکی تو ہے نا جو اپنے علاوہ ہر مذہب اور قوم سے نفرت کرتا ہے... لیکن وہ ایک ایسی این جی او کے فعال کارکن تھے' جو تھرڈ ورلڈ کے لیے کام کرتی ہے... وہ صرف انسانیت کے لیے کام کرتے تھے اور اس میں ان کا کوئی ذاتی فائدہ شامل نہیں تھا...