مہوش!!!! اشعر کے چلانے سے ثانیہ کا خیال ٹوٹ گیا اور اب وہ حال میں واپس آگئی تھی
قسمت بھی کبھی کہاں لا کر کھڑا کر دیتی ہے، جس کو آپ دیکھنے کی امید ہی چھوڑ بیٹھتے ہیں وہ آپ کے سامنے آجاتا ہے اور اب آپ اسے دیکھنا نہیں چاہتے وہ سوال نہیں پوچھنا چاہتے جو سالوں سے آپ کو سونے نہیں دے رہے تھے۔۔۔
آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ آپ کی وائف آپ بہتر ہیں ۔ ثانیہ بالکل اس کے بیڈ کے پاس چلی آتی ہے اور ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے اسے نارمل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔۔
ثانیہ تم؟ کیسی ہو؟؟ اشعر اب تھوڑا اٹھنے لگتا ہے لیکن دائیں ہاتھ پر لگنے والی چوٹ اس کو اٹھنے کی اجازت نہیں دیتی اور خون رسنے لگتا ہے۔۔
سر آپ کو ابھی سخت آرام کی ضرورت ہے۔ پلیز آپ اٹھنے سے پرہیز کریں۔ ثانیہ اس کے ہاتھ کا جائزہ لیتے ہوئے جواب بڑی مہارت اور صبر سے ادا کرتی ہے ۔
آپ کی وائف اب بالکل ٹھیک ہیں لیکن!!
ثانیہ اس حقیقت سے پردہ ہٹانے میں دقت محسوس کرتی ہے جو شاید کسی بھی شوہر کو بتانے کے لئے تکلیف دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
کیا؟؟
وہ اب کبھی ماں نہیں بن سکتیں اور آپ کا بچہ بھی ضائع ہوچکا ہے۔۔
ثانیہ کے لئے یہ بات بتانا بہت تکلیف دہ تھا اور آنسوؤں کا گولا تھا جو اس کے گلے میں پھنسنے لگا تھا اشعر کا ردعمل دیکھے بنا ہی وہ واپس اپنے روم میں آ گئ۔۔
* * *
اللہ تعالی اشعر نے میرے ساتھ جو بھی کیا لیکن میں نے اس کے لیے کبھی بد دعا نہیں کی تھی پھر آپ نے اس کے ساتھ اتنا برا کیوں کیا آنسو کا ایک ریلا تھا جو ثانیہ کے آنکھوں سے ادا ہوئے جا رہا تھا۔۔
ڈاکٹر ثانیہ میں نے ڈسکس کرنا تھا کہ۔۔۔
ارسل ابھی روم میں داخل ہوا ہی تھا کہ ثانیہ کو منہ رگڑتا دیکھ کر کھٹک گیا۔۔
ثانیہ تم رو رہی ہو ؟؟ ارسل کا دل دھک سے رک گیا۔۔
نہیں نہیں بس ایسے ہی تم بتاؤ کیا بول رہے تھے؟
جھوٹ کم سے کم مجھ سے تو نہ ہی بولو تم ۔۔
ارسل بالکل اس کے مقابل کھڑا ہوا اور ثانیہ کو بغور دیکھنے لگا۔۔
ارسل تم میرے اچھے دوست ہو لیکن یہ پرائیویٹ بات ہے تو میں نہیں بتا سکتی کچھ چیزیں ادا کرنے سے تکلیف میں اور اضافہ کر دیتی ہیں۔۔
ثانیہ مجھے پتا ہے تمہارا کوئی پرسنل اشو ہوگا لیکن کبھی بھی مجھے دل سے دوست مانو اور دل ہلکا کرنا ہو تو مجھے یاد کرنا میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا۔۔
ضرور۔۔
* * *
ثانیہ کیا دو منٹ بات ہو سکتی ہے؟ اشعر ڈسچارج ہونے سے پہلے ثانیہ کے پاس اس کے کیبن میں آتا ہے۔۔
جی سر کوئی ضروری بات یا کوئی کام آپ کو۔۔ ثانیہ کا رویہ بالکل نارمل تھا جیسے وہ ہر پیشنٹ کو ٹریٹ کیا کرتی تھی۔
آج بھی وہ اس کی آنکھوں میں کھو گیا تھا اس کا بات کرنے کا انداز اب بدل چکا تھا اب وہ دھیمے بولتی تھی۔ قد کاٹھ بھی بدل چکا تھا اب تھوڑی لمبی معلوم ہو رہی تھی ۔ بال بھی ترشے ہوئے تھے۔۔ وہ خواب جو دونوں نے مل کر دیکھا تھا آج ثانیہ کا وہ روپ دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں تھی اب حالات دوسرے تھے اب یہ وہ ثانیہ ہرگز نہیں تھی جس سے وہ جو منہ میں آئے وہ بول دیا کرتا تھا اگر بیچ میں عزت اور کافی عرصہ آرے آ رہا تھا ۔۔
یہ میری وائف مہوش ہے۔۔ مہوش یہ میری بچپن کی دوست ثانیہ ہے۔ ہم بہت اچھے دوست تھے پتا ہے یہ بہت بولتی تھی اور کھاتی بھی بہت تھی لیکن اب دیکھ کر لگتا نہیں ہے نا اس نے زندگی میں کچھ کھایا بھی ہوگا ۔۔
السلام علیکم آپ کے بارے میں اشعر سے بہت سنا تھا آج آپ کو دیکھ بھی لیا۔۔ مہوش نے بہت گرم جوشی سے ثانیہ سے ہاتھ ملایا۔۔
وعلیکم السلام آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔۔
ثانیہ باقی کلاس فیلو کیسے ہیں اور کہاں کہاں جاب کر رہے ہیں اشعر بہت سالوں بعد مل کر اس سے سب پوچھنا چاہ رہا تھا۔۔
سب ٹھیک ہے ثانیہ سب کے بارے میں بریف کرنے لگی کہ کون کہاں جاب کر رہا ہے۔۔
اچھا ثانیہ ابھی میں چلتا ہوں یہ لو میرا کارڈ اور مجھ سے کانٹیکٹ کرنا اوکے پھر ملیں گے ۔۔
* * *
ثانیہ رانیہ کے لئے ایک اچھا رشتہ ایا ہے تم کہو تو بات آگے بڑھائیں؟
امی مجھ سے کیا پوچھنا رانیہ سے پوچھیں اگر اس کو پسند آئے تو ضرور بات چلائیں۔۔
* * *
ارسل کیسے ہو ثانیہ نے پیچھے سے آ کر اس کو تقریبا ڈرا ہی دیا تھا۔۔۔
ہاں جی میڈم آپ نے جان لینے کا سوچ ہی لیا ہے؟؟
مطلب؟؟
ارسل کی عادت تھی ذومعنی بات کرکے اسے الجھا دیتا تھا۔
سوچ رہی تھی کہ جانے سے پہلے ملتی جاؤں تم سے۔۔
جانے سے پہلے مطلب؟؟ ارسل پوری طرح اس کی جانب مڑ چکا تھا اور اس کے جواب کا منتظر تھا۔۔
جی جناب میرا ایک سال کا کانٹریکٹ تھا یہاں پر جو کل پورا ہو جائے گا۔۔
یار پہلے نہیں بتا سکتی تھی تم کے صرف ایک سال کے لئے یہاں کام کر رہی ہو اور اب کیا ارادہ ہے کہاں جاؤں گی؟
میرا آغا خان میں پرمیننٹ ہوگیا ہے جو میں چاہتی تھی سو اب مجھے وہاں سے کالز آ رہی ہیں ۔۔
واوو ارسل خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔۔ ٹریٹ؟؟؟
ضرور کل سب کو دے رہی ہوں ۔۔
اور سنو غائب نہ ہو جانا تم۔۔ ملتی رہنا کانٹیکٹ میں رہنا ضرور۔۔
ہاں جی ضرور ثانیہ مسکرا اٹھتی ہے۔
جو بات لبوں پر لا نہ سکے اس پر غور ضرور کرنا
شاید کوئی انتظار میں ہو آپ کے ایک اشارے کے۔۔
اس کا جواب ابھی ثانیہ کے پاس نہیں تھا شاید اب بھروسہ ہی نہیں رہا تھا کسی پر یا دل تھا جو کرنے ہی نہیں دے رہا تھا ثانیہ اور ارسل کو دیکھے بنا صرف چلتی ہی چلی گئی شاید آئندہ واپس نہ مڑنے کے لیے اب بس چلنا چاہتی تھی بغیر جواب دیے بغیر شکایت کیے بس چلنا چاہتی تھی کب تک شاید وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔۔۔
* * *
بس بھی کر دو کتنے رٹے مارو گی۔۔ اشعر راستے میں ثانیہ کے مسلسل زور زور سے ریوائز کرنے سے چڑ رہا تھا۔۔۔
اشعر یہ ٹاپک بھی آئے گا؟؟؟ یا اللہ خیر یہ تو مس صنوبر نے اچھا بھی نہیں پڑھایا تھا۔۔۔ میں کیسے لکھوں گی پیپر میں آج۔۔
میڈم !!مس صنوبر نے بہت اچھا پڑھایا تھا بس تم تھوڑا دھیان دے دیتی تو۔۔۔ اور یہی ٹاپک نہیں تین اور بھی ایڈ کروائے ہیں پچھلے ہفتے۔۔۔
اشعر بالکل مطمئن گاڑی چلاتے ہوئے ثانیہ کا خون خشک کر گیا تھا۔۔۔۔۔
واٹ؟؟؟؟ اور یہ تم مجھے اب بتا رہے ہو جب پیپر میں صرف ایک گھنٹہ رہ گیا ہے۔۔۔
مجھے لگا ارم نے تمہیں بتا دیا ہو گا۔۔ اشعر اب پریشان ہو گیا تھا۔۔
میں ارم کو دیکھتی ہوں۔۔۔ اب ثانیہ غصے سے آگ بگولہ ہو گئی تھی۔۔۔
* * *
اشعر آج کا پیپر تو اتنا اچھا ہوا ایک تو تم آگے بیٹھے تھے تھوڑی ہیلپ بھی ہوگئی دوسرا تم نے پڑھایا ہی اتنا اچھا تھا کہ سب ہی کلیئر ہو گیا تھا۔۔۔ ارم خوش خوش اشعر سے باتیں کرتی ثانیہ کی طرف آرہی تھی۔۔
ثانیہ پیپر کیسا ہوا؟؟ اب دونوں ثانیہ کی چیئر کے پاس آ چکے تھے جو منہ بنائے باکس میں پنز رکھ رہی تھی۔۔
تم سے مطلب؟؟ تم دونوں کا تو اچھا ہو گیا نا۔۔ثانیہ اب بیگ اٹھائے باہر کے لئے قدم بڑھانے لگی تھی ۔۔
ارے اسے کیا ہوا؟؟؟؟؟؟ ارم ایک دم پریشان ہو گئی تھی۔۔
مس صنوبر کے ٹاپس نہیں بتائے تھے تم نے اسے؟؟
ہیں؟ مجھے لگا تم بتا دو گے۔۔ارم کی پریشانی میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔۔
سنو ثانیہ اس دن جب ہم تمہیں بلا رہے تھے پڑھنے کے لئے اس دن ہی ہم یہ ٹاپس ڈسکس کر رہے تھے لیکن تمہیں تو دعوت میں جانا تھا ۔۔۔اب ارم کو یاد آنے پر ثانیہ پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔
ہاں تو بعد میں نہیں بتا سکتے تھے؟؟ اس دن کی دعوت تو چھوڑ بھی نہیں سکتی تھی ایسا کھانا تھا ثانیہ پیپر بھول کر اس دن کی دعوت کا سوچ کر چٹخارے لینے لگی تھی۔۔
کیا ہوگا اس لڑکی کا ؟؟؟اشعر کو اب اس پر غصہ آنے لگا تھا۔
کچھ نہیں ہوگا میرا اتنا تو لکھ لیا ہے کہ پاس ہو جاؤں گی باقی کا فائنل میں دیکھیں گے۔۔۔۔ چلو سموسے کھانے چلتے ہیں مجھے بھوک لگی ہے۔۔ یہ بول کر ثانیہ کینٹین کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔ جبکہ اشعر اور ارم ایک دوسرے کو دیکھتے ہی رہ گئے تھے ۔۔۔
* * *
واہ پورے 6 مہینے بعد تمہیں آخر یاد آہی گیا کہ کوئی ارسل بھی تھا یہ ایک طنز کا طریقہ تھا جس میں وہ پوری طرح فیل ہی تھا۔۔
ہاں یار بہت بزی ہو گئی ہوں ۔۔ خیر یہ چھوڑ میری بہن کی شادی ہے اور تمہیں ہر فنکشن میں ضرور آنا ہے۔۔۔۔
واہ مبارک ہو ضرور آپ نے کہہ دیا بس اب تو ضرور آئیں گے۔۔۔
* * *
ایک تو میری چیزیں پتہ نہیں کہاں رکھ دی ہیں مل کر ہی نہیں دے رہیں ۔۔ کل تو لائیں تھیں امی ایئر رنگز۔۔ بیگ میں رکھی تھیں میں نے ۔۔۔ اففففف خدایا بیگ ہے یا سرنگ۔۔۔۔ شکر مل گئی۔۔۔ جو فضول چیزیں ہیں نکال دیتی ہوں بس۔۔۔ کارڈ!!! اشعر کا کارڈ ۔۔۔۔ اس دن تو پڑھا ہی نہیں تھا۔۔۔
Ashar And Builders..
تو اشعر نے ڈاکٹریٹ چھوڑ دی تھی پرانی یادیں پھر اپنی طرف کھینچ رہیں تھیں جو اسے کانٹوں کی طرح چبھتی ہیں۔۔۔۔
* * *
اللہ کی قسم یار مس کنول نے کوئی دشمنی نکالی ہے کوئی اتنے نمبر کاٹتا ہے کیا بھلا۔۔۔ بس یہی پیپر تھا جو میرا سب سے اچھا ہوا تھا۔۔ ثانیہ کا مارکس دیکھ کر غصہ سے برا حال تھا ۔۔بس جو منہ میں آ رہا تھا بڑبڑائے جا رہی تھی۔۔
خدا کا خوف کرو تم لڑکی! 95 ہیں !! اور کیا مس کی جان لو گی ؟؟؟ارم اب اپنے 75 دیکھ کر اس پر بھڑک پڑی تھی۔۔
اس منحوس کے 99 ہیں ۔۔ طلب کیسے؟؟ کیا پڑھتا ہے وہ جو میں نہیں پڑھتی۔ اب ہر وقت اس کی طرح کتاب میں تو نہیں گھسی رہ سکتی میں۔
اور ثانیہ کتنے نمبر آئے تمہارے؟؟ اشعر اپنی ہنسی چھپا کا سنجیدہ ہو کر پوچھنے لگا تھا۔۔ جبکہ اس کی پوری بات وہ پیچھے سے سن چکا تھا۔۔
95 آئے ہیں۔۔ ثانیہ نے منہ بسورتے ہوئے اپنے مارکس بتائے جس پر اشعر کو دل کھول کر اس پر پیار آیا تھا ۔۔
کوئی بات نہیں پارٹنر پھر اچھے آجائیں گے چلو کافی پینے چلتے ہیں۔۔
ہاں چلو ثانیہ کو خوش کرنے کے لئے صرف کھانے پینے کی چیز کا نام لینا ہوتا ہے اور وہ خوش۔۔ اشعر کو ثانیہ کو منانے کی ہر ٹرک آتی تھی۔
* * *
اب ایک معمول سا بن گیا تھا اشعر کا ثانیہ کو یونیورسٹی لے جانا۔ بچپن کے دوست اور ہمسایہ ہونے کی وجہ سے گھر والوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔۔وقت گزرتا گیا ان کی محبت بڑھنے لگی اور بات گھروں تک بھی آ گئی۔۔سب خوش تھے کہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو سنبھال بھی سکتے ہیں۔۔
* * *
دیکھو ایک سال ہوگیا ہے اور تم نے آج تک اظہار نہیں کیا ایسا ہوتا ہے کیا بھلا۔۔ میں بھی سننا چاہتا ہوں کہ تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو ۔۔اشعر ثانیہ کے منہ سے سننے کے لیے اب ترس رہا تھا اور ثانیہ تھی کہ خوش ہوتی تھی اس کو تنگ کر کے۔۔
نہیں بولوں گی نہیں بولوں گی۔۔ اظہار منہ سے تھوڑی ہوتا ہے۔ دیکھو میری آنکھیں ، دل، ہر چیز تم سے محبت کی ضمانت دیتی ہے ۔۔ایک سال نہیں اشعر یہ محبت پرانی ہے۔ ایک سال تو صرف تمہیں اظہار کیے ہوئے ہیں ۔ سچ بولوں تو میں تم سے بہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بولوں گی ہاہاہا۔۔۔۔
تمارے تو اچھے بھی بولیں گے اور اگر تمہیں یہی فلسفی باتیں کرنی ہے تو میں جا رہا ہوں اور نہیں آؤں گا واپس۔۔
اچھا نہ کل پکا تمہارے گارڈن میں آؤں گی اور اظہار کروں گی۔۔
* * *