وہ ٹھنڈی ہوا کا لطف لیتے ہوئے کافی سے انصاف کرنے میں مگن تھی۔یہ اس کی روٹین تھی ہسپتال سے آکر لان میں کافی لے کر بیٹھ جایا کرتی تھی اور ارد گرد کے ماحول سے اپنے دل کو سکون دیتی تھی۔۔۔
ثانیہ اندرآجاؤ پاپا بلا رہے ہیں۔۔
اندر سے رانیہ نے اسے آواز لگائی۔
آتی ہوں ! ثانیہ بجھے دل کے ساتھ اٹھ کر اندر کے لئے قدم اٹھانے لگی۔
بیٹا جاب کیسی چل رہی ہے؟ تم خوش تو ہو نا ؟ پاپا نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے بہت نرمی سے سوال کیا تھا..
جی پاپا الحمدللہ میں بہت خوش ہوں ! ثانیہ نے بڑے تحمل اور مسکراتے ہوئے پاپا کو مطمئن کر دیا تھا۔
* * *
آج کل ثانیہ ارسل کے بے وجہ اس کی طرف بڑھنے اور بات بات پر اس کی تعریف کرنے سے ٹارچر ہو رہی تھی۔۔۔
ڈاکٹر ارسل میں نے اس مریض کا صبح ہی چیک اپ کیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے مجھے لگتا ہے ہمیں اس کو ڈسچارج کر دینا چاہیے۔
ثانیہ ارسل کو پرسوں سے آئے ہوئے مریض کی رپورٹ بریف کرنے لگی۔۔۔
جی ڈاکٹر ثانیہ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میں ان کے گھر والوں سے بات کرتا ہوں۔ ارسل اس کے اس فیصلے پر مطمئن تھا۔۔
ڈاکٹر ثانیہ آپ اگر فری ہوں تو ہم کافی پی سکتے ہیں یہ ارسل کی عادت تھی وہ کہیں بھی کچھ کھانے یا پینے کے لئے جا رہا ہوتا توثانیہ کو بھی انوائٹ کرتا۔۔
میں ضرور چلتی لیکن میں ذرا رپورٹ فائنل کرنے میں ابھی بزی ہوں پھر کبھی چلیں گے۔۔ ثانیہ نے ہر بار کی طرح کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیا تھا۔
اوکے جیسے آپ کو ٹھیک لگے لیکن کافی ادھار رہی !!
* * *
آج گائز ہم سب نیولی ڈاکٹرز کو پارٹی دی گئی ہے آر یو گائز ریڈی؟؟ حسن کا نعرہ ہوا میں گونجا تھا سب ڈاکٹرز لنچ کرتے ہوئے اس کی طرف مڑے تھے۔۔۔
ڈاکٹر حسن آپ ذرا آرام سے یہ بات ہماری اطلاع میں نہیں دے سکتے تھے ابھی ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے رہ گیا۔۔۔ یہ ارسل تھا جواس کے اس طرح چلانے پر دنگ رہ گیا تھا۔۔
ارے بھائی پورا ایک سال ہوگیا ہم پانچوں کو یہاں جاب کرتے ہوئے آج جب اتنا کام لینے کے بعد انہیں ہمیں پارٹی دینے کا یاد آہی گیا ہے تو کیوں نہ جلدی سے اویل کیا جائے۔۔ حسن کا جوش ابھی بھی اپنی جگہ برقرار تھا۔۔
لنچ تو ہم کر چکے ہیں اب کہاں کچھ کھایا جائے گا یار!آپ کی بار منہ بسورتے ہوئے کہنے والا منصور تھا۔۔
ڈاکٹر منصور رات میں ہے ابھی نہیں آپ جگہ بنا لیے گا ۔حسن یہ کہتے ہی قہقہ مار کر ہنسا جس پر سب ہی ہنس دیے۔۔
اوکے رات میں ملتے ہیں میں اور ڈاکٹر افراء زرا ایمرجنسی وارڈ کا راونڈ لگا کر آتے ہیں۔۔
* * *
ثانیہ بیٹا بیٹھو مجھے آپ سے بات کرنی ہے ماما کے ہاتھ آج ثانیہ آہی گئی تھی۔
جی ماما!!
بیٹا اب تمہاری پڑھائی بھی مکمل ہو گئی ہے اور تم نے جاب میں بھی قدم جما لیے ہیں۔۔ ماما ثانیہ سے بات کرتے ہوئے تمہید باند رہی تھیں ۔۔
جی ماما !بات کیا ہے یہ تو بتائیں آپ۔۔
بیٹا اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو بتا دو ورنہ میں کوئی اچھا رشتہ دیکھ کر تمہاری شادی کرنا چاہتی ہوں..
ماما پھر وہی بات آپ کو پتہ ہے مجھے شادی فی الحال نہیں کرنی مجھے ابھی اور آگے جانا ہے آپ رانیہ کے لئے کوئی ڈھونڈ لیں ۔۔
ثانیہ ہر بار تمہارا یہی ایکسکیوز ہوتا ہے بیٹا ۔۔۔۔ ماما ثانیہ کے ہر بار منع کرنے اور شادی میں کوئی دلچسپی نہ لینے سے پریشان تھیں ۔۔
ماما میں شادی کروگی نہ۔۔ آپ تھوڑا سا انتظار کر لیں ثانیہ ماما کے گال پر پیار کرکے اپنے روم میں جا چکی تھی ۔۔۔
* * *
ڈاکٹرثانیہ جلدی کریں ایمرجنسی کیس ہے ڈاکٹر ارسل آپ کو بلا رہے ہیں۔۔۔ یہ ایک نرس تھی جو ایک ایکسیڈنٹ کیس کو بریف کرتی چلی گئی تھی۔۔
جی ڈاکٹر ارسل کیا پوزیشن ہے؟؟ ثانیہ ایمرجنسی وارڈ پہنچ گئی تھی..
دو میاں بیوی ہیں بیوی کی کنڈیشن سیریس ہے جب کہ آدمی کو ہلکی پھلکی چوٹیں آئی ہیں۔۔
اوکے میں فاسٹ ایڈ کی تیاری کرتی ہیں۔ اگر آئی سی یو منتقل کرنا پڑا تو وہاں کے لیے ڈاکٹرز تیار کریں آپ ۔۔
اوکے۔۔۔ ڈاکٹر ارسل ڈاکٹرثانیہ کی ہدایت پر عمل کرنے لگا۔۔۔۔
* * *
اشعر!!! لڑکے کا چہرہ دیکھتے ہی ثانیہ کو زور کا جھٹکا لگا تھا۔۔
ڈاکٹر آپ ان کی کچھ لگتی ہیں؟؟؟ نرس ثانیہ کی حالت دیکھ کر سوال کیے بنا نہ رہ سکی۔۔
نہیں صرف جانتی ہوں انہیں۔ آپ پٹی کرنا شروع کریں۔۔
* * *
ان کو ہوش آیا ثانیہ نے وارڈ میں داخل ہوتے ہی سوال کیا تھا۔۔
جی نہیں اب تک تو نہیں ڈاکٹر!نرس اب تک کی کنڈیشن بتانے لگی۔۔
اوکے آپ باقی وارڈز کا چکر لگا کر بی پی چیک کرلیں ۔۔ میں یہاں ہوں۔۔
جی ڈاکٹر ثانیہ۔۔۔
* * *
ثانیہ اٹھ بھی جاؤ!!! معمول کے حساب سے آج بھی ثانیہ اشعر کے میسج سے ہی اٹھی تھی۔
ہاں اٹھ چکی ہوں ۔۔ ثانیہ نے ادھ کھلی آنکھوں سے میسج بھیجا تھا اور تیار ہونے بھاگی تھی۔۔
اوءے دیکھو پھر لیٹ ہوتے ہوتے بچے ہیں کل سے خود آنا تم میں نہیں لاؤں گا۔۔اشعر پوے راستے ثانیہ کو سناتے ہوئے آیا تھا اور اب یونیورسٹی میں گھس کر بھی سنایا جا رہا تھا۔۔۔
ہاں ڈاکٹرصاحب مجھے پتا ہے ڈاکٹر بننا تمہارا ایم ہے اور کوئی اس کے بیچ میں نہیں آسکتا ہزار بار بتا چکے ہو تم مجھے۔۔ ثانیہ اس کی ڈانٹ سے تنگ آ گئی تھی۔
ہاں جلدی کرو سر امتیاز کی کلاس میں پانچ منٹ رہتے ہیں بس۔۔۔۔ اشعر اب بھی مسلسل بولے جا رہا تھا۔۔
* * *
کینٹین چلیں یار فزیالوجی کی کلاس نے تو پکا ہی دیا قسم سے۔۔۔ ثانیہ نے ارم کا ہاتھ پکڑ کر کینٹین کی دور ہی لگا دی تھی۔۔۔
اشعر کو تو لے لیتی یار ۔۔ارم اشعر کو چھوڑ جانے پر ثانیہ سے بول رہی تھی ۔۔۔
دفع کرو اسے تو کوئی اور کلاس لینی ہوگی کھبتی۔۔ ثانیہ صبح والی لڑائی کو یاد کرکے چڑھ کر بولی۔
مطلب پھر لڑائی ہوئی ہے ارم نے سر ہی پیٹ لیا تھا۔
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم لوگ اشعر ان کے سر پر کھڑے ہوکر دھاڑا۔۔
کیوں کہ جناب جو ایک گھنٹے بعد والی کلاس ہے نہ وہ نہ مس ہو جائے آپ کی چیئر پر ہی ٹکے رہتے۔۔ ثانیہ نے بھی بدل اتارنا ضروری سمجھا ۔۔
اچھا فری مت ہو۔۔ کیا منگوایا ہے؟؟؟ اشعر ایسا ہی تھا بول بال کر بھول جایا کرتا تھا۔ ۔
* * *
کل کیوں نہیں آئیں تھی تم ؟؟اشعر نے اس کے چیئر پر بیٹھے ہی پوچھا۔۔۔
بخار ہو گیا تھا تیز اس لیے چھٹی کرنی پڑی تھی۔ ثانیہ کی حالت اس کی بات کی ضمانت دے رہی تھی
میسج بھی کیا جا سکتا ہے ایک کہ نہیں آ سکتی ہو تو دوسرا بخار کیوں ہوا تھا؟ کیا کھایا تھا؟
عجیب ہو سانس بھی نہیں آرہا تھا مجھے میسج کیسے کرتی میں؟ ثانیہ ہمیشہ کے طرح منمنائی۔۔
ہاں تو لڑک کیوں نہیں گئی؟؟ اشعر نے غصے سے آنکھیں گھمائیں۔
یار چھوڑو کل کے گول گپے ایسے مست تھے کیا بتاؤں تمہیں پوری دو پلیٹ کھائی میں نے۔ ثانیہ کا انداز ایسے چٹخارے لے کر بتانے کا تھا کہ اشعر کی اور تپ گئی ۔۔
تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی موسم بدل رہا ہے تمہیں کچھ ہوگیا تو میرا کیا ہوگا سوچا ہے
اشعر جذبات میں آکر آج کتنے دن سے دل میں لیے بعد بول پڑا۔۔
کیا ؟؟ ثانیہ ایک دم سنجیدہ ہو کر اشعر کو یک ٹک دیکھنے لگی۔۔
ثانیہ ہم بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں ایک ساتھ پڑھتے آئے ہیں میں تمہارے لئے دل میں فیلنگز رکھتا ہوں ۔۔ اشعر اس سے آنکھیں ملائےبنا بس بولے ہی جا رہا تھا۔۔
اوپر دیکھو !! ثانیہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں
اشعر اتنی دیر کیوں لگا دی یہ بات منہ پر لانے میں تم نے؟؟ اب کی بار حیران ہونے کی باری اشعر کی تھی
کیا تمہیں پتا تھا کیا؟؟ وہ شرمندہ سا ہو گیا
اور نہیں تو کیا لڑکیوں کی حس بہت تیز ہوتی ہے اشعر صاحب ثانیہ مسکرانے لگی۔۔۔
تیز عورت پہلے نہیں بتا سکتی تھی میں ڈرتا رہا۔ اشعر نے اس کے سر پر چپت لگائی۔
اوئے عورت کس کو بولا تم نے؟؟؟ ثانیہ کھانے کو آنے لگی۔۔
آئی لو یو ثانیہ۔۔۔۔۔۔۔
بھئی اب میں جواب نہیں دوں گی۔۔ ثانیہ اتراتے ہوئے بولی۔۔۔
دیکھنا ایک دن بول ہی دو گی اشعر بھی اس کی طرح اترانے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔
سر آگئے ہیں پڑھ لو کچھ ڈاکٹر صاحب ۔۔ ثانیہ کی عادت تھی جب بھی اشعر کو چڑانا ہوتا اس کے نام سے پہلے ڈاکٹر لگا دی تھی۔۔
* * *
ارم یار کوئی لڑکا ہے جو مسلسل میسج کر رہا ہے ۔ ہمیں دیکھنا ہوگا۔۔۔ ثانیہ مسلسل میسج آنے پر پریشانی کا اظہار کرنے لگتی ہے۔۔۔
یار مجھے لگتا ہے ہمیں اگنور کرنا چاہیے۔ ارم کو اس مسئلہ کا کوئی حل سمجھ نہیں آرہا تھا۔
یار اس نے کہا ہے کہ وہ ہماری یونیورسٹی کا ہی ہے میں نے یہی سوچا ہے کہ میں کل اس سے مل کر بات کروں گی ۔۔
تم پاگل ہو گئی ہو اشعر کو پتہ چلا تو وہ ہوگا مجھے لگتا ہے تمہیں اس لڑکے کے منہ نہیں لگنا چاہیے۔۔
ارے یار اس کو کون بتائے گا تم کیوں اتنا ڈر رہی ہو اس سے مل کر دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ ہے کون؟ اور پھر اس کو اچھا مزہ چکھانے کا پلان بنایا ہوا ہے ۔۔
ثانیہ تم غلط پنگا لے رہی ہو ۔۔۔ ہ مجھے بالکل اچھا پلین نہیں لگ رہا ہے ۔۔ ہمیں اس میسج کو اگنور کر دینا چاہیے۔۔
بس میں نے اس کو بول دیا ہے وہ کینٹین کے پیچھے آ جائے گا...
جب تم نے سب کچھ سوچ لیا ہے تو پھر مجھ سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے خیر میں تمہارے ساتھ نہیں جانے والی ابھی بتا دوں۔۔۔
اوکے بابا مت جانا میں نے پورا پلان بنایا ہے ...ثانیہ من ہی من میں اپنے پلان پر دل کھول کر ہنس پڑی ۔۔
* * *
.تم!!!!! ثانیہ تھوڑی دیر تک پلک نہیں جھپک سکی تھی۔۔۔۔
السلام علیکم ثانیہ میڈم!!!
شہروز تم باز نہیں آئے اپنی گھٹیا حرکتوں سے ثانیہ ایک دم غصے سے شہروز کی طرف بڑھی۔۔
ثانیہ بھولا نہیں ہوں تمہارا وہ تھپڑ میں۔۔۔ شہروز کی آنکھیں اب غصے میں لال ہو رہی تھیں
بھولنے کے لیے مارا بھی نہیں تھا۔۔ ثانیہ کا غصہ بھی آسمان پر تھا۔
ثانیہ اس دن تو بہت لوگوں میں تم جیت گئی تھی لیکن اب دیکھتا ہوں تم کیا کرتی ہو۔۔۔
اپنا منہ دھو رکھو! تمہارے ساتھ تو میں وہ کروں گی جو تمہاری سات نسلیں یاد رکھیں گی۔۔۔
اچھا کر کے دکھاؤ۔۔۔۔
شہروز میرا ہاتھ چھوڑو ثانیہ اب غصے کے مارے زور آزمائی کرنے لگی تھی ۔۔۔
اب نہیں! بہت سے بدلے ہیں جو تم سے چکانے ہیں۔۔
چٹاخ ایک زور کا تھپڑ تھا جس نے ثانیہ کو زمین پر گرا دیا تھا۔۔۔
ثانیہ!!! ارم نے فورا زمین سےثانیہ کو اٹھایا۔۔۔۔
دوسری طرف جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔ اشعر نے شہروز پر تھپڑوں کی بارش شروع کردی تھی.۔۔
آخر کار بہت سے لڑکوں کی مدد سے دونوں کو چھڑوایا گیا۔۔
ارم اس سے بول دو اپنی شکل نہ دکھائے مجھے اشعر غصے میں لال ثانیہ سے نظریں ملائے بنا گزر جاتا ہے۔۔
ثانیہ میں نے کہا تھا نہ انجام برا ہوگا اب رونے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔
یار شہروز نے پچھلی بار کا بدلہ لیا ہے۔۔۔ آپ مجھے بتاؤ اشعر کو کیسے مناؤ۔۔۔۔ ثانیہ اب اشعر کو لے کر پریشان تھی۔۔
بہن وہ بہت غصے میں ہے ابھی اس کو تھوڑا ٹائم دو۔۔۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو میں کل اس سے بات کرتی ہوں۔۔
ناراض ہو؟؟ ثانیہ پیچھے سے آ کر اشعر کی برابر والی سیٹ پر بیٹھ جاتی ہے۔۔۔
تم سے مطلب؟؟ اشعر اپنا اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھا۔۔
ایم سوری مجھے نہیں پتا تھا کہ معاملہ اتنا بگڑ جائے گا۔۔
تمہیں پتا ہی کب ہوتا ہے ؟؟ ثانیہ ہر چیز اتنی آسان نہیں ہوتی جتنی تمہیں لگتی ہے۔۔
اچھا اب مان تو رہی ہونا اپنی غلطی۔۔۔
بہت بڑا احسان ہے ہماری سانسوں پر۔۔۔ تمہیں آخری وارننگ ہے اگر اب تم نے یہ حرکتیں نہ چھوڑی تو بہت برا ہوگا۔۔ تمہیں احساس ہے وہ تمہیں کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن نہیں ثانیہ تو ٹارزن ہے نہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔۔
ہی ہی ہی۔۔۔ ویسے ڈانٹتے ہوئے اور بھی پیارے لگتے ہو.۔۔۔
اچھا چلو فری نہ ہو۔۔۔ میں اب بھی تھوڑا تھوڑا ناراض ہو۔۔۔
اوہوو۔۔۔ تو کیسے مانیں گے آپ؟؟؟
ایک برگر وہ بھی تمہارے پیسوں سے!!
چلیں قبول ہے!! ثانیہ ہنس کر اشعر کی طرف دیکھتی ہے۔۔۔