وہ صبح گھر سے نکلے راستے میں تیمور نے کہا " تمہاری امی سے مل کے چلتے ہیں " اس نے گاڑی گھر کے باہر روکی
" تم اندر جاؤ میں پندرہ منٹ میں آتا ہوں" کہہ کے وہ چلا گیا وہ گھر گئی تو ماما نے سلام دعا کے بعد اس سے پوچھا
" تیمور نہیں آیا؟؟؟"
"آپ کو بڑی فکر ہے اس کی۔۔۔۔۔ کچھ کام سے گیا ہے آرہا ہے "
" ماہی وہ اےنا برا نہیں ہے جتنا تم سمجھتی ہو وہبہت اچھا ہے اور سب سے بڑی بات تم سے محبت کرتا ہے"
" محبت تو میں بھی کرتی تھی احتشام سے" اسے دھیان نہیں رہا اس نے " ہوں" کی جگہ " تھی" کا لفظ استعمل کیا تھا
" ماہی بھول جاؤ وہ تمہارا ماضی تھا اور تیمور تمہارا آج ہے اور وہی تمہارا مستقبل ہے اور احتشام سے کئی گنا اچھا ہے تقدیر کا لکھا من لو"
" میں تو مان گئی ہوں ماما پر دل نہیں مانتا" باہر سے آتے ہوئے تیمور نے اس کا جملہ بخوبی سنا تھا
" اسلام و علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ"
" وعلیکم السلام بیٹا میں ٹھیک ہوں تم سناؤ"
" اللٰہ کا شکر ہے آنٹی"
" بیٹھو بیٹا"
" نہیں آنٹی اب ہم چلیں گے آپ کو بتایا تھا نا"
" ہاں بیٹا خیریت سے جاؤ اور ہاں لڑتے نہ رہنا یہ پورا ہفتہ" انہوں نے دونوں کو نصیحت کی تو تیمور مسکرادیا
-------
" ہم جا کہاں رہے ہیں " راستے میں ماہ گل نے پوچھا
" پتا چل جائے گا ایسی بھی کیا بےقراری ہے" وہ اس کی طرف دیکھ کے بولا
" دیکھو" وہ اسے دیکھے ہی جا رہا تھا تو وہ بولی
" دیکھ ہی تو رہا ہوں"
" فلرٹ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔۔۔۔۔ فلرٹی انسان " وہ بھی ڈھیٹ بنا سے دیکھے ہی جا رہا تھا
" گاڑی بھی چلاؤ گے یا یہیں کھڑے رہنا ہے"
" تمہیں دیکھنے میں تنا مصروف ہوں کہ گاڑی چلانا ہی بھول گیا خیر" اس نے گاڑی اسٹارٹ کی
" تمہارا دماغ خراب ہے اسلام آباد سے کراچی گاڑی روکو" اس نے باہر لگے بورڈ پہ پڑھا تو وہ بولی
" کیا مسئلہ ہے کبھی کہتی ہو گاڑی چلاؤ کبھی کہتی ہو گاڑی روکو اب یہ گاڑی کراچی جا کے ہی رکے گی "
" پاگل ہو تم " اسے ٹینشن ہو رہی تھی اتنا لمبا سفر سوچ کے۔
-------
تیمور کو شوق تھا اس کے ساےھ تنہا سفر کرنے کا اس لیے اس نے اتنا لمبا سفر چنا شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے اس نے گاڑی نہیں روکی تھی بھوک کے مارے ماہ گل کا برا حال تھا
" کیا مجھےـسزا دینے کے لیے لائے ہو یا روزہ رکھوایا ہے مجھے جو ایک ہوٹل پہ بھی گاڑی نہیں روکی"
" بھوک لگ رہی ہے؟؟؟"
" انسان ہوں تو بھوک تو لگے گی نا تم پتا نہیں کون سی مخلوق ہے جسے نا بھوک لگتی ہے نا پیاس نا تھکتے ہو کافی پہ زندہ رہتے ہو" وہ بہت دن سے میں نوٹ کررہی تھی کہ وہ سہی سے نہ کھاتا تھا نا پیتا تھا ہاں کافی بے حساب پیتا تھا
" اوہ اتنی نظر رکھی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ کہیں محبت تو نہیں ہوگئی مجھ سے" اسے خوشی ہوئی کہ ماہ گل نے اس میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی اس نے ایک ہوٹل کے باہر گاڑی روکی اور دونوں چل دیے
--------
کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھو کے آئی تیمور اپنے سیل پہ بزی تھا اس نے کھانا روم میں منگوالیا تھا اس نے یہاں وہاں نظر دوڑائی
" ٹاول کیاں ہے؟؟؟"
" ٹاول کا تو پتا نہیں پر تمہارے لیے دامن بھی حاضر ہے"
" شٹ اپ بچپن میں کیا چھچھورپن کےانجیکشن لگے تھے۔۔۔۔۔ہر وقت فلرٹ"
وہ بال سلجھانے لگی وہ اس کء پیچھے جا کے کھڑا ہوا
" اید میں دنیا کا پہلا مرد ہوں جو اپنی بیوی کے ساتھ فلرٹ کررہا ہے ورنہ تو لوگ دوسروں کی بیویوں کے ساتھ فلرٹ کرتے ہیں" وہ مڑی
" تو یہ شوق بھی پورا کرلو۔۔۔۔۔ ہٹو سامنے سے۔۔۔۔۔ میرے منہ نا لگو"
" میں تمہارے منہ لگا ہی کب ہوں حالانکہ شادی کے بعد میرا کئی دفعہ دل چاہا کہ تمہارے منہ لگوں" ماہ گل نے غصے سے اسے پیچھے دھکیلا
" پاگل ہے یہ آدمی" وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر چلی گئی
--------
کراچی میں تیمورنے ایک گیسٹ ہاؤس بک کیا تھا کھانا انہوں نے راستے میں ہی کھا لیا تھا وہکراچی پہنچے دونوں ہی تھکے ہوئے تھے سو سو گئے دوسرے دن اٹھے فریش ہو کے ناشتہ کے لیے بیٹھے تو وہ بولا
" یہاں ہر چیز موجود ہے پھر بھیاگر کوئی چیز چاہیے ہو تو بتادینا اور ہاں تیار ہو جانا شام میں ہم سی ویو چلیں گے" اسے ساحل سمندر بہت پسند تھا اور ماہ گل کو بھی وہ پہلی بار کراچی آئی تھی
شام میں وہ لوگ سی ویو گئے ماہ گل تیمور میں اب دلچسپی لینے لگی تھی یہ تیمور جانتا تھا وہ اب اس کے ساتھ خوش رہتی تھی یہ بھی وہ جانتا تھا
دونوں گیلی گیلی ریت پہ چل رہے تھے تیمور کو اس کے ساتھ چلنا بہت اچھا لگ رہا تھا وہ بہت خوش تھا اور یہی حال ماہ گل کا بھی تھا وہ خود حیران تھی اپنی فیلنگز پہ۔۔۔۔۔ اور ایک دم اسے احتشام یاد آیا ان دونوں نے بھی تو یہاں آنے کا سوچا تھا پر آج کون تھا۔۔۔۔۔ اور پھر اسے اس کا وہ دھوکا یاد آیا اس کے ساتھ اس کی آنکھوں میں نمی ابھری جسے وہ چھپا گئی پر تیمور دیکھ چکا تھا
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے دونوں کھڑے ہواؤں اور لہروں کی آوازوں کو محسوس کررہے تھے دونوں۔ہی خاموش تھے سورج آہستہ آہستہ ڈوب رہا تھا سس خاموشی کو ماہ گل۔کی آواز نے توڑا
" ڈوبتا ہوا سورج ہمیشہ اداس کردیتا ہے"
" اونہہ ہوں۔۔۔۔۔ غلط۔۔۔۔۔ ڈوبتا ہوا سورج یہ درس دیتا ہے کہ خاتمہ خوبصورت بھی ہوسکتا ہے"
" ہاں ہو سکتا ہے پر اکثر لوگوں کو اداس کردیتا ہے" وہاس کی فیلنگ سمجھ رہا تھا
" چلیں " ماہ گل بولی
" ہاں چلو" اور چل دیے
---------
اگلے دن وہ نہا کے نکلی بال ڈرائے کرتے ہوئے وہ تیمور سے بولی جو کب سے اسے ہی دیکھ رہ تھا
" ہم۔واپس کب جائیں گے؟؟؟"
" میرے خیال سے ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں اور ابھی ہمیں آئے دوسرا دن ہے میں تمہیں پورا کراچی گھما کے لےکے جاؤں گا"
" مجھی کہیں نہیں گھومنا گھر جانا ہے ہاں بس تمہارے پاس ایک بہانہ ہے مجھے چپکا کے رکھنے کا "
" ایسے تو نہ کہو ابھی میں نے تمہیں اپنے ساتھ چپکایا ہی کہاں ہے" وہ اسے نظروں کے حصار میں لی کے بولا
" تم سے تو بات کرنا فضول ہے فلرٹی انسان۔۔۔۔۔ پہلے ہی میں پریشانی اور الجھن میں ہوں"
" اپنے دل میں کیوں اتنی الجھنیں اور پریشانیاں رکھتی ہو اپنے دل میں اتنی جگہ دی یوئی ہے وہاں کیوں نہیں رہتیں"
" تم بس چلو یہاں سے"
" اتنا زن مرید نہیں ہوا کہ تمہارے کہنے سے اٹھ جاؤں اپنی مرضی سے آیا ہوں اپنی مرضی سے جاؤں گا" وہ اٹھ کھڑا ہوا " میں تھوڑی دیرمیں آتا ہوں پھر باہف چلیں گے تم میرء لیے کافی بنا جے رکھنا"
" کافی مائے فٹ" وہ جا چکا تھاا وہ تھوڑی دیر لان میں چلی گئی جب واپس آئی تو دیکھا تیمور اپنا سیل لے جانا بھول گیا تھا ماہ گل کا سیل چارج پہ لگا تھا تو اس نے تیمور کا سیل اٹھا لیا پاسورڈ لگا تھا اس نے سوچا اور اپنا نام لکھا پاسورڈ نہیں کھلا اس نے پھر سوچا اور ماہی لکھا تو پاسورڈ کھل گیا وہ سیدھا گیلری میں گئی اس کی عادت تھی سیل میں سب سے پہلے گیلری چیک کرتی تھی تھی تو غیر اخلاقی حرکت پر اس نے سوچا وہ تو بیوی ہے اس کی اور گیلری اوپن کی
ویڈیو کے فولڈر میں جا کے اس نے ایک ویڈیو پہ کلک کیا اور اس کے بعد اس کی سانس ہی رک گئی وہ ویڈیو احتشام اور اس لڑکی کی ہی تھی اس کے ذہن میں سارے واقعات گھومیں
تیمور کا دور جانے کا وعدہ پھر وعدے سے مکرنا گن پوائنٹ پہ نکاح
" اوہ خدا یعنی تیمور یہ یہ سب جانتا تھا اور مجھے اس سے بچانے کے لیے اس نے مجھ سے نکاح۔۔۔۔۔ اس نے مجھے کیوں نہیں بتایا" وہ رو رہی تھی
کہتے ہیں کہ جب فرشتے روح نکالتے ہیں تو اس کی آواز نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ کیا کبھی تم نے دل ٹوٹنے کی آواز سنی ہے وہ بھی نہیں ہوتی
تیمور آدھے رستے سے واپس آیا تھا سیل لینے جب وہ آیا تو دیکھا وہ رو رہی تھی اور ہاتھ میں اس کا سیل تھا وہ سارا معاملا سمجھ گیا
وہ اس کے پاس آکے بیٹھا " کیا ہوا ماہی؟؟؟"
" دور ہو جاؤ مجھ سے گھٹیا انسان۔۔۔۔۔ یہ یہ کیا ہے؟؟؟"
" یہ سچ ہے ماہی آئی سویر یہ سچ ہے"
" میں جانتی یوں کہ یہ سچ ہے"
" تم تم کیسے؟؟؟" وہ حیران ہوا تو ماہ گل نے سارا واقعہ اسے کہہ سنایا
" پر۔۔۔۔۔ پر تم نے کیا کیا اس کا سچ چھپایا مجھ سے اس سے زیادہ دھوکے باز تو تم ہو"اس نے تیمور کا گریبان پکڑ کے اسے جھنجھوڑا
" ماہی بےشک میرا طریقہ غلط تھا پر ارادہ نہیں۔۔۔۔۔ اگر تمہیں پتا چلتا تو تمہیں دکھ ہوتا اور میں تمہیں اس اذیت سے بچانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ آئی لو یو ماہی آئی رئیلی لو یو میں کیوں تمہیں اس اذیت میں دکھیلتا کیوں اس شخص کے حوالے کرتا جو تمہاری ناقدری کرتا اس نکاح کی اذیت اس اذیت سے بہت کم ہے جو تمہیں اس وقت برداشت کرنی پڑتی پلیز مجھے معاف کردو" مای گل یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی کیا اتنی محبت تھی اسے اس نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا سچ کہتے ہیں محبت خواب کی صورت ہی ہے جس کی تعبیر حسین سے حسین تر ہے
تیور نے اس کے آنسو صاف کیے اور سسے ساتھ لگا لیا
---------
شام میں تیمور کافی بنا رہا تھا اور وہ بیٹھی ہوئی تھی
" تیمور تم کیوں کافی بنا رہے ہو لاؤ میں بنادوں"
" اوہ۔۔۔۔۔ یہ سن کے کہیں میں مر ہی نہ جاؤں " وہ ہنسی
" اب تم طنز کرو گے مجب پر"
" نہیں تو میں تو یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ میں تم سے اچھی بنا سکتا ہوں" تھوڑی دیر بعد تیمور اور وہ کافی پینے لگے
" ہمممم۔۔۔۔۔ ناٹ بیڈ" وہ بولی
" میں نے کہا تھا نا میں تم سے اچھی بنا سکتا ہوں"
" ہاں ہاں مان لیا اب کیا ہاتھ چوموں تمہارے"
" لو چومو" تیمور نے ہاتھ آگے بڑھائے
" ایسی باتوں پہ بڑا خوش ہوتے ہو تم" اس نے اس کے ہاتھ جھٹکے اور مسکرا کے منہ پھیر لیا
" ایک بات پوچھوں؟؟؟"
" جی جی"
" کافی تمہاری پہلی محبت ہے نا؟؟؟"
" جی بجا فرمایا"
" اچھا میں یا کافی؟؟؟"
تیمور نے اسے گھورا پھر کافی اٹھائی شڑر شڑر پی اور بولا
" ہاں تو کیا کہہ رہی تھیں تم"
" بہت چالاک ہو تم"
" پہلی بار کدی عورت نے سچ کہا ہے"
" تمہاری اتنی ہمت کہ تم مجھے عورت بولو"
" میری اتنی جرأت کہاں یہ لقب تو تمہیں حکومت نے دیا ہے"
" مطلب؟؟؟"
" مطلب تمہارا این آئی سی" وہ مطلب سمجھ کے ہنس دی اس آدمی کے پاس ہر بات کا جواب تھا وہ کافی پی کہ اٹھی
" سنو"
" تم ہنستی رہا کرو کیونکہ تم ہنستی ہوئی اچھی لگتی ہو" وہ مسکرادی
--------
آج ان کو آئے چھٹا دن تھا وہ دوبارہ سمندر پہ گئے ریت پہ چلتے ہوئے ماہ گل اس سے بولی
"پتا ہے تیمور تم برے نہیں ہو وہ حالات برے تھے جب تم مجھے ملے تھے" وہ خاموش رہا تو وہ بولی
" ایک اور بات کہوں؟؟؟" تیمور نے ہاں۔میں سر ہلایا
" جب تم خاموش ہوتے ہو تو دنیا میں مجھے سب سے مہنگی تمہاری خاموشی لگتی ہے" وہ مسکرایا
" مجھے معلوم تھا بٹ میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا تھا"
" افففف۔۔۔۔۔ میں کتنی بےوقوف ہوں"
" تم بےوقوف نہیں ہو میں چالاک زیادہ ہوں" اس نے منہ موڑ لیا تو وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گیا
" سو۔۔۔۔۔ سو سوری یار"
" اٹھو سب دیکھ رہے ہیں" وہ اٹھا
" میں تم سے محبت کرتا ہوں کیا میری بن کے رہو گی"
" میں تمہاری ہی ہوں میں نہیں جانتی مجھے تم سے کتنی محبت ہے پر میں جب تک زندہ ہوں تمہاری ہی ہوں" تیمور مسکرا دیا
" تھینک یو تھینک یو میری ماہی" وہ اس کا ہاتھ تھام کے بولا وہ مسکرادی۔
محبت خواب کی صورت
نگاہوں میں اترتی ہے کسی مہتاب کی صورت
ستارے آرزو کے اس طرح سے جگمگاتے ہیں
کہ پہچانی نہیں جاتی دلِ بیتاب کی صورت
محبت خواب کی صورت