سب صبحوں کا تاج ہوئی
رحمتِ عالم کو
جس شب معراج ہوئی
٭
دل شہرِ مدینہ ہو
نُورِ محبت سے
روشن ہر سینہ ہو
٭
اپنے مولا کے حضور
تُو خود میں اکیلا ہے
تیرے دم سے مگر
سنسار کا میلہ ہے
تُو خالقِ ۔اعلیٰ۔ ہے
”جو ہر نام سے اور
ہر رُوپ سے بالا ہے“
تاریک تھی ، ۔کالی تھی
تیرے مدثر نے
جب دنیا ۔اُجالی تھی
پھیلے تھے اُجالے سے
کملی والے کے
پرُ نوُر حوالے ۔سے
سب صبحوں کا تاج ہوئی
رحمتِ عالم کو
جس شب معراج ہوئی
القلم گواہی سے
لفظ چمک اٹھے
تھے ،۔نوُرِ سیاہی ۔سے
(نوٹ:پنجابی میں روشنائی کو عام طورپر سیاہی کہا جاتاہے)
اس درجہ کشادہ ہے
شہرِ علم کا دل
بے حد سے زیادہ ہے
٭
کچھ کچھ ہوا۔ اندازہ
طے نہ ہوا ہم سے
جب علم کا ۔دروازہؓ
٭
نکلی ہے یہ دل سے دعا
فیضِ محمد سے
ربّ۔۔ ز د نی ۔۔علما
٭
٭
ہمت اور طاقت دے
عہدِ یزیدی میں
شبیرّی شجاعت۔ دے
٭
نفر ت کے اندھیروں کو
توڑ مِرے مالک
ظلمات کے گھیروں کو
٭
دنیا پہ کرم کر دے
پیار کی سینوں میں
پھر روشنیاں بھردے
٭٭٭