نہیں اب میں یہاں ایک پل بھی نہیں ٹھہر سکتی، تم چل رہی ہو یا میں اکیلے ہی جاوءں "مائشہ نے دھونس بھرےلہجے میں کہا -
"ٹھہرو، میں بھی چل رہی ہوں "جانتی ہو نہ میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی اس لئے نکھرےدکھاتی ہو "بالآخر اسے مائشہ کے ہم قدم ہونا ہی پڑا -
گھر پہنچتے ہی وہ سیدھا ہال سے اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھ رہی کہ تبھی ہال میں بیٹھی مریم بیگم سے سامنا ہو گیا -
"کیا بات ہے، بڑی سج دھج کر گئیں تھیں آج ، کہیں "فیئرول پارٹی" تو نہیں تھی کالیج میں "مریم بیگم جو ابھی صوبے پر بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھیں اسے نک سک تیار دیکھ کر پوچھ بیٹھیں جبکہ من ہی من چپکے سے ماشااللہ بھی کہہ دیا مبادا ان کی ہی نظر نہ لگ جائے -
"کفن پارٹی تھی "ایک تو ویسے ہی موڈ خراب تھا اوپر سے مریم بیگم کی بات، وہ جھلا ہی تو گئی تھی، بڑبڑاتے ہوئے سیدھا اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھ گئی تاکہ جلد سے جلد کپڑوں سے نجات پا سکے -
"توبہ ہے، یہ کالیج والے بھی نہ پتہ نہیں کون کونسی پارٹی رکھتے ہوئے " خیر مریم بیگم نے کہاں جانا تھا، اپنے خیالات کا اظہار کر کے اخبار کی طرف متوجہ ہو گئیں -
☆☆☆☆☆☆
رات میں عیشا کی نماز سے فارغ ہو کر مائشہ اپنے بیڈ روم میں ڈائجسٹ پڑھنے میں محو تھی کہ تبھی فون کی گھنٹی نے اپنی طرف متوجہ کر لیا -
"ہیلو "بڑے ہی بے دلی سے فون ریسیو کیا -
"ہیلو، مائشہ کل فجر کے وقت تم تیار رہنا، ہم صبح جا گنگ پر چل رہے ہیں "راحلہ نے اسے کل کے پلان کے بارے میں آگاہ کیا -
"یہ بیٹھے بٹھائے تمہیں جاگنگ پر جانے کی کیا سوجھی، اور اگر جانا ضروری ہے تو دن میں چلیں گے تمہیں تو پتہ ہی ہےاتنی صبح مجھ سے اٹھے نہیں جاتا "مائشہ نے بیزاری سے کہتے ہوئے کا ہلی کےسارے ریکارڈ توڑ دیئے -
"میری بھولی سہیلی تمہیں یاد ہے نہ اس دن سر ھود نے کیا کہا تھا کہ صبح جاگنگ کرنے والے لوگ انھیں پسند ہیں اور وہ خود بھی تو صبح جاگنگ پر جاتے ہیں اور انھوں نے ہمیں بھی تو جاگنگ پر جانے کی نصیحت کی تھی اس لئے کچھ بھی ہو کل صبح ہم جاگنگ پر جا رہے ہیں راحلہ نے حتمی لہجے میں کہا -
"تو وہاں جانے سے کیا ہو جائے گا "مائشہ برجستہ پوچھ بیٹھی -
"تو یہ ہو گا کہ ہو سکتا ہے وہ ہمیں وہاں دیکھ کر خوش ہو جائیں اور یہ سوچیں کہ ہم انکی بات کا کتنا اثر لیتے ہیں-میں بہانے سے وہاں سے پرے ہو جاوءں گی اور تم ان سے پیار بھری باتیں کرنا جس سے سر کو ایک مبہم سا اشارہ مل جاےءگا کہ تم ان میں انٹرسٹ لے رہی ہو، راحلہ نے اپنے دوسرے پلان کے بارے میں آگاہ کیا -
"تمہیں لگتا ہے ایسا کچھ ہوگا "مائشہ نے مشکوک ہوتے ہوئے پوچھا -
"ہاں -انشاءاللہ ضرور کچھ اچھا ہوگا "-اچھا فون رکھتی ہوں اللہ حافظ کہہ کر راحلہ نے فون رکھ دیا -
☆☆☆☆☆☆
"کیا بات ہے آج میرا بیٹا صبح صبح کیسے اٹھ گیا"ثاقب صاحب جاگنگ پر جانے کی تیاری کر رہے تھے تبھی پاس آتی مائشہ پر نظر پڑی تو پوچھ بیٹھے -
"ابو آج میں بھی جاگنگ پر چلوں گی " مائشہ نے جمائی پر قابو پاتے ہو ےء کہا -
"ارے واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے پھر میں چلتا ہوں بیٹا تم فریش ہوکر جلدی سے آجاوء "ثاقب صاحب کہتے ہوئے باہر نکل گئے تبھی فون کی گھنٹی بج اٹھی -
ہیلو -مائشہ نے جھٹ فون ریسیو کیا -
ہیلو مائشہ تیار ہو؟ میں باہر کھڑی ہوں جلدی آوء کہہ کر راحلہ نے فون جلدی سے رکھ دیا -
"یہ فرحت بخش ہوا روح کو کتنی ٹھنڈک پہنچا رہی ہے -دل ہی خوش ہو گیا آج تو -وہ دونوں سڑک پر چل رہی تھی تبھی مائشہ نے ایک لمبی سا نس لیتے ہوئے تازگی اپنے اندر اتاری -
"ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو لیکن قدم تھوڑی جلدی جلدی بڑھاو اگر اسی رفتار سے چلیں گے نہ تو رات تک پہنچے گے " کہہ کر راحلہ دوڑنے کے انداز میں چلنے لگی، مائشہ کو بھی نا چار اسکا ساتھ دینا پڑا
دونوں ہانپتے ہانپتے اس پارک تک پنہچی جہاں ھود روز جاگنگ کرنے آتا تھا-ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے راحلہ کی نظر ھود پر پڑی جو کہ دور سے دوڑتے ہوئے ادھر کی ہی طرف آرہا تھا -
"مائشہ دیکھو ادھر سر آرہے ہیں -جلدی چلو"راحلہ نے عجلت میں کہتے ہوئے مائشہ کو کھینچا اور دوڑنے کے انداز میں آگے چل پڑی-
"اسلام وعلیکم سر "قریب پہنچنے پر راحلہ نے سلام کیا جبکہ اس بار کی طرح اس بار بھی مائشہ خاموش تماشائی بنی رہی -
"مس راحلہ آپ لوگ یہاں "-ھود نے سلام کا جواب دیتے ہوئے بڑی خوشگوار حیرانی سے پوچھا-
"جی سر آپ نے کہا تھا نہ صبح کی فریش ہوا انسان کے صحت کے لئے فائدے مند ہو تی ہے -اسی لیے آج ہم یہاں آئے ہیں "-راحلہ نے اس کی بت یاد دلاتے ہوئے کہا -
"ہاں یہ تو بہت اچھی بات ہے "ھود نے مسکراتے ہوئے کہا -
"اور آپ جانتے ہیں میں تو آہی نہیں رہی تھی یہاں -اتنی صبح صبح کون اٹھے -پر مائشہ نے میری ایک نہ سنی اور مجھے زبردستی کھینچ لائی"راحلہ نے مائشہ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے تعریفی انداز میں کہا -جبکہ اس بات پر ھود کے منہ کا زاویہ بگڑچکا تھا -
"مائشہ آپ کو یہاں پر لائی ہے "؟ ھود نے حیرانی سے پوچھا -
"جی سر اسے تو آ پ کی ہر بات ازبر رہتی ہے -" اسی لئے تو یہ مجھے یہاں پر لا ئ ہے،" پر آپ کو کیا ہوا سر " راحلہ نے حیرانی سے ھود کے بگڑتے موڈ کو دیکھا -
"ایسی حر کتیں ان محترمہ سے ہی توقع کی جاسکتی ہے، ھود نے آنکھوں سے مائشہ کی طرف اشارہ کیا جبکہ اس کمنٹ پر مائشہ حیرانی سے ھود کو دیکھنے لگی -
"میں سمجھی نہیں سر "راحلہ نے ایک نظر مائشہ پر ڈالتے ہوئے نا سمجھی کے عالم میں پوچھا -
"سخت زہر لگتی ہیں مجھے ایسی لڑکیاں جو مردوں کی طرح منہ اٹھائے جاگنگ پر چل پڑتی ہیں -اگر تازی ہوا ہی لینی ہے تو بندہ چھت پر بھی جاسکتا ہے یا پھر لان میں -اس طرح بے شرم بن کےمردوں کے بیچ میں گھومنا کہاں کی سمجھداری ہے" -ھود نے بڑے ہی ناگوار لہجے میں کہا -
"پر سر آپ ہی نے تو ہمیں صلاح دی تھی جاگنگ پر جانے کی "-راحلہ نے اسکی بات دہراتے ہوئے صدماتی لہجے میں کہا -
"ہاں پر اب وہ پرانی بات ہے -بہت سی باتوں کی طرح میرے خیالات بھی چینج ہو چکے ہیں" -یہ کہہ کر ھود وہاں رکا نہیں سیدھا آگے کی طرف بڑھ گیا جبکہ راحلہ نے ڈرتے ڈرتے مائشہ کی طرف دیکھا جو ان کے جاتے ہی اس پر جھپٹ پڑی-
"میں تمھارا منہ توڑ دوں گی" -مائشہ پاگلوں کی طرح اس پر جھپٹی جبکہ راحلہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر دو قدم دور جا کھڑی ہوئی مبادا وہ اس پر عمل ہی نہ کر ڈالے -
"دیکھو مائشہ اس بار میں ایک دھانسو آئیڈیا سوچوں گی جس کی وجہ سے سر ھود تم پر لٹو ہوجائیں گے، راحلہ نے اسے قابو کرنے کی کوشش کی جبکہ اس بات پر تو وہ اور بپھر گئی-
"میں تمھارا خون پی جاوءں گی اگر تم نے اب اور کچھ منہ سے نکالا تو "-مائشہ غصے سے پیر پٹک کر گھر کی طرف چل پڑی جبکہ پیچھے سہمے کھڑی راحلہ اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی-
☆☆☆☆☆☆
اگلی صبح بہت ہی بوریت بھری اور بیزار کن ثابت ہوئی تھی -کیچن میں ٹیبل پر بیٹھے ہوئے چائے کی سپ لیتے ہوئے مائشہ کے کانوں میں بس ھود کی آواز گونج رہی تھی-
"یا اللہ اتنی بےعزتی تو شاید میرے سات پشتوں کی نہیں ہوئی ہوگی جتنی میری ہوئی ہے، اسے اپنی بےعزتی بھلائے نہیں بھولی جا رہی تھی -
"ارے بیٹا تم اٹھ گئی -کتنی دیر سے میں تمہارے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھی "کیچن میں داخل ہوتے ہوئے مریم بیگم نے ایک نظر چائے پیتی مائشہ پر ڈال کر بہت خوشگوار لہجے میں کہا -
"کیا بات ہے امی بہت خوش نظر آرہی ہیں آپ" مائشہ نے انہیں مسکراتے ہوئے دیکھا تو پوچھ بیٹھی-
" خوشی کی ہی تو بات ہے بیٹا -آج رات راشد اور اسکے گھر والے آرہے ہیں شادی کی تاریخ پکی کرنے، اسی دن کا تو انتظار ہوتا ہے ماوءں کو" خوشی مریم بیگم کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی -جبکہ مریم بیگم کی بات پر چائے کا چھوٹا چھوٹا گھونٹ لیتی مائشہ کو اچھو لگ گیا -
"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں امی؟ مائشہ نے مارے صدمے کے چائے ایک طرف رکھ کر مریم بیگم کو بے یقینی سے پوچھا -
"ہاں بیٹا میں نے سوچا جانے پہچانے لوگ ہیں تو چھان بین کیسی، نیک کام میں دیر نہیں کرنا چاہیے -اسلئے آج ہی ان لوگوں کو بلایا ہے -ہوسکتا ہے چھوٹی سی منگنی کی رسم ہی ادا ہوجائے" مریم بیگم شاید سارا پلان پہلے ہی کرچکی تھیں -
"لیکن امی اتنی جلدی بھی کیا ہے اور انگوٹھی کہاں سے خریدیں گی اتنے شارٹ نوٹس پر، منگنی کی رسم تو بعد میں بھی ادا کی جاسکتی ہے نہ "مائشہ منگنی کی رسم سن کر ہی دہل گئی -
"ارے نہیں بیٹا، انگوٹھی تو ابھی تمھارے ابا مارکیٹ سے جا کر خرید لیں گے، ابھی گھر کی صفائی کر وانی ہے، بازار سے کھانے کے سامان منگوانے ہیں - بہت کام ہے سر پر ابھی وہ کچھ اور کہتی کہ فون کی گھنٹی نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا، عجلت بھر ے لہجے میں کہتے ہوئے مریم بیگم باہر نکل گئی، جبکہ مائشہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے - سارا دن وہ بیڈ پر منہ دے اپنی بر بادی پر آنسو بہاتی رہی -
"ارے بیٹا تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ؟ رات میں جب مریم بیگم تیار ہوکر مائشہ کے کمرے میں گئی تو وہ بیڈ پر منہ دے پڑی تھی -
"کیا تیار ہونا ضرور ی ہے امی؟ مائشہ بھرائے ہوئے لہجے میں کہتے ہوئے اٹھ بیٹھی -
"تو کیا تم ماسی والے حلیوں میں لڑکے کے ہاتھوں آنگھوٹھی پہنوگی؟ اسکی بات مریم بیگم کا موڈ پھر بگڑ گیا -
"اچھا ٹھیک ہے جاتی ہو ں - براسا منہ بناتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی، بے دلی سے تیار ہو کر باہر آئی تو ثاقب صاحب کسی سے فون پر مصروف نظر آ ئے جبکہ مریم بیگم مہمانوں کے انتظار میں بیٹھی بار بار گھڑی پر نظر یں دوڑارہی تھیں -
ایک پل کے لئے تو اس کے دل نے بغاوت کی' کر دے انکار اگر تجھے راشد پسند نہیں مت کر یہ منگنی - مائشہ نے گھبرا کر مریم بیگم کی طرف دیکھا جو کسی بات پر ہنس رہی تھی جبکہ ثاقب صاحب بھی مسکراتے ہوئے نظر آےء -
"نہیں میں ایسا کچھ نہیں کر سکتی -کتنے خوش اور مطمئن نظر آرہے ہیں وہ کیسے میں ان کے لبوں سے مسکراہٹ چھین سکتی ہوں اور غلطی میری ہی ہے میں نے ہی ہیرا ٹھکرا یا ہے اسی لئے رب کائنات نے میری قسمت میں کوئلہ لکھ دیا -اب ساری زندگی مجھے اسی قلق کے ساتھ گذارنی ہ"، نمی نے حلق میں پھندا ڈال کر چہرے کو مزید سرخ کر دیا تھا -آنکھوں میں بے شمار پانی جمع ہو نے لگا تبھی دروازے پر ہونے والی بیل پر وہ چونکی -
"لگتا ہے مہمان آگئے ہیں -مریم بیگم اور ثاقب صاحب مہمانوں کے استقبال کے لئے آگے بڑھ گئے جبکہ وہ آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے کیچن کی طرف بھاگی -
کیچن میں پہنچتے ہی اسکا سارا ضبط چھوٹ گیا اور بڑی شدتوں سے رو دی -وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر رورہی تھی، آنسو آنکھوں سے متواتر بہے جا رہے تھے تبھی پیچھے سے دستک ہوئی -
"ارے رے یہ کیا؟ اتنی خوبصورت آنکھوں پر اتنا ظلم"
وہ جو روتے ہوئے بار بار اپنی ہتھیلی کی پشت سے اپنے سرخ عارض سے آنسوؤں کے نشان مٹارہی تھی چونک کر پیچھے مڑی تو حیران رہ گئی -
ھود بازوں کو ایک دوسرے میں باندھے دروازے سے ٹیک لگاے بڑے دلنشین انداز میں کھڑا مسکرارہا تھا -اور وہ جو روتے ہوئے بار بار اپنے آنسوؤں کو خشک کر رہی تھی اسے سامنے دیکھ کر اور شدتوں سے رو دی اور وہ جو اسے سرپرائز دینے کی غرض سے آیا تھا اسکے رونے پر بوکھلا سا گیا -
"مائشہ چپ ہو جاوء پلیز رووء تو مت "-ھود اب اسکے بازوں کو سہلاتے ہوئے چپ کروانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ وہ مسلسل رونے میں مصروف تھی -
"اگر کسی نے بھی مجھے تمہارے اتنے قریب دیکھ لیا تو سوچو کیا عزت رہ جاے گی اور کیا سوچیں گے وہ ہمارے بارے میں "ھود نے دوسرا حربہ آزمایا اور اسکا اثر بھی فوری طور پر ہوا -وہ ایک جھٹکے سے اس سے کافی فاصلے پر جا کھڑی ہوئی جبکہ وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا -
"سوری "اپنی خجالت مٹا تے ہوئے بڑے ہی حیران نظروں سے اسے دیکھا -
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو کیا بہت زیادہ اسمادٹ لگ رہا ہوں؟ ھود نے شرارت بھرے لہجے میں کہتے ہوئے ایک آنکھ دبائی تبھی وہ سٹپٹا کر اسکی آمد کا مقصد پوچھ بیٹھی "-آپ اور یہاں "
"اب ظاہر ہے منگنی میری ہے تو میں ہی آوءں گا راشد تو آنے سے رہا "
آپ کی منگنی مگر کس سے؟ مائشہ نے ناسمجھی کے عالم میں پوچھا -
" تم سے اور کس سے "ھود کے لبوں پر بڑی ہی جاندار مسکراہٹ تھی -
"مجھ سے؟ "اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ ھود کو بڑی پیاری اور معصوم سی لگی اسکی سادگی اور معصومیت دیکھ کر اس کا دل عش عش کر اٹھا -
"مگر وہ کیسے اور وہ راشد بھائی اور انکی فیملی؟ میں شاید پاگل ہی نہ ہوجاؤں؟" اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے اسکے ساتھ - "تھوڑا صبر سے کام لو میں سب سمجھا تا ہوں "
"جب آنٹی نے راشد کے پروپوزل کے بارے میں تمہیں بتا یا تو حسب معمول تمھارا پارہ پھر سے ہائی ہوگیا اور تم اسے بھی ریجیکٹ کر نا چاہتی تھی لیکن تم آنٹی کو انکار نہیں کرسکی تھیں وعدہ جو کیا تھا اسلئے جب تم نے روتی بسورتی صورت بناتے ہوئے اپنے دل کی ساری بات راحلہ سے کہہ دی اب چو نکہ راحلہ تمہارے مقابلے میں زیادہ سمجھدار تھی اسلئے سیدھی میرے پاس چلی آئی اور ساری بات بتادی - اب چو نکہ میں نے امی کے سامنے پہلی بار بھی تمھارا ہی نام لیا تھا پر تمھارے انکار پر میں نے یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ شاید اللہ کو یہ منظور نہیں تھا پر دوسری بار قدرت کی اس مہربانی پر میں حیران رہ گیا میں نے سوچا چلو ٹھیک ہے ایک موقع اور دیتے ہیں محترمہ کو پر میں نے بھی ٹھان لی تھی اس بار محترمہ کو آسانی سے معافی نہیں ملے گی -
"آپ اور راحلہ ملے ہوئے تھے اور مجھے خبر نہیں ہو نے دیا اور راحلہ وہ تو ایسے پوز کرتی تھیں جیسے میری کتنی بڑی غم خوار ہے " مائشہ تو مارے صدمے کے گنگ ہو گئی یقین نہیں آرہا تھا کہ راحلہ اسکے ساتھ ایسا کرسکتی ہے -
"ایسا اس نے میرے کہنے پر کیا تھا ورنہ وہ تو مان ہی نہیں رہی تھی میں نے ہی اس پر دباؤ ڈالا تھا اور ویسے بھی میں تمہیں اتنی آسانی سے بخشنے والا تو نہیں تھا اتنے دنوں تک تم نے مجھے ذہنی تناوء میں رکھا آخر کو بدلہ بھی لینا تھا"؛ ھود نے شرارت سے دیکھا -
"ٹھیک ہے آپ نے جو کیا سو کیا اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر راحلہ، اس نے کس بات کا بدلہ لیا" - ھود کی وضاحت پر جہاں مائشہ ہلکی پھلکی ہوگئی وہیں پر راحلہ کی بے وفائی پر اسکا خون کھول کر رہ گیا -"
"او ہو بھئ اس میں اس بیچاری کا کیا قصور ایسا اس نے صرف میرے کہنے پر کیا تھا اب غلط فہمیاں نہ پالو اپنے دل میں اسکے لئے" اس نے راحلہ کے متعلق اسکی بدگمانی دور کرنے کی کوشش کی جس کی حیرانی کم ہونے کا نام نھیں لے رہی تھی -
"اور امی انھوں نے بھی مجھے کسی بات کی بھنک نہیں پڑنے دی - ایک بار پھر یاد آنے پر وہ پوچھ بیٹھی -
"آنٹی اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں وہ تو آج صبح ہی میرے کہنے پر امی نے آنٹی کو ساری بات بتائی اور آنٹی کی تو خیر پہلی چوائس ہی میں تھا اسلئے بخوشی راضی ہوگئیں رہی بات راشد کی تو آنٹی نے فون پر ان لوگوں کو منع کردیا تھا - میں نے ہی ان سب کو تمھیں کچھ بھی بتانے سے روک دیا تھا اور میرے پلان کے مطابق ہم سب نے ہی تمہیں سرپرائز دینا تھا مگر تمھاری رونی صورت دیکھ کے مجھے پہلے ہی تمہیں سب کچھ بتانا پڑا اب جب میں باہر جاوئگا تو ساری خواتین مجھ پر چڑھ دوڑیں گی،
اچھا اب میں چلتا ہوں باقی باتیں بعد میں ہوں گی، سب میری غیر حاضر ی کو محسوس کر رہے ہوں گے " اس پر اعتبار و محبت کی چند گھڑیاں نچھاور کر کے وہ رکا نہیں عجلت میں باہر کی طرف نکل گیا جبکہ مائشہ یقینی اور بے یقینی کی کیفیت میں کھڑی رہ گئی -
"کیا بات ہے، ابھی تک رونے دھونے کا سیشن چل رہا ہے کیا، اور ہماری بنو رانی ابھی تک مانی کہ نہیں -"مائشہ جو ابھی تک حیران و پریشان کی کیفیت میں کھڑی تھی راحلہ کی آواز پر چونک کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں وہ نک سک سی تیار کھڑی اسے شریر نظروں سے دیکھ رہی تھی جبکہ پیچھے سے ماریہ بھی بہت ہی خوبصورت ملبوس میں ہاتھوں میں گفٹ لئے نمودار ہوئی -
"اوہ تو تم آہی گئی آخر اب تو تمھاری خیر نہیں، آج تمھارا قتل میرے ہی ہاتھوں ہونا ہے ، میں تمھاری جان لے لوں گی" -اس پر نظر پڑتے ہی ایک بار پھر سے مائشہ کو اسکی بےوفائی اور اپنی بچکانہ حرکتییں یاد آگئی اسکے ساتھ ہی وہ اس پر جھپٹی جبکہ وہ بہت ہی پھرتیلے انداز میں اسکے پہنچنے سے قبل ہی یہ کہتے ہوئے بھاگ کھڑی ہوئی کہ پہلے'اپنی جان 'کےہاتھوں انگوٹھی تو پہن لو بعد میں میری جان لیتی رہنا -اسکے جاتے ہی مائشہ کی نظر اب ماریہ پر گئی جو دونوں کی باتوں سے کسی حد تک محظوظ ہورہی تھی -"اور تم بھی شامل تھیں اس پلان میں کم از کم تم سے یہ امید نہیں کی جاسکتی تھی "
"یقین مانو میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی یہ خالص سر ھود اور راحلہ کا پلان تھا تم تو جانتی ہو کچھ دنوں کے لئے میں گاؤں گئی ہوئی تھی -آج صبح ہی ہاسٹل پہنچی ہوں تبھی راحلہ کی کال آئی اور اس نے اپنے پلان کے بارے میں بتایا میں تو سن کے حیران ہی رہ گئی اتنے دنوں تک میں تھی تب تو کچھ نہیں ہوا اور میرے جاتے ہی کیا کچھ ہوگیا -
وہ جو اس سے شکایت کا ارادہ رکھتی تھی، ماریہ کو الٹا اس سے شکایت ہوگئی اپنے پیارے دوستوں کی اوٹ پٹانگ حرکت دیکھنے سے محروم جو ہوگئی تھی-
"لو میں بھی کیا بات لے کر بیٹھ گئی اس وقت "ماریہ نے ماتھے پر ہلکا سا چپت رسید کیا -
"میرے خیال سے اب ہمیں باہر چلنا چاہیے سب ہی منتظر ہوں گے ورنہ ایسا نہ ہو پھر سے سر ھود آجائیں تمہیں منانے کے لئے "کہتے ہی اس نے مائشہ کو چھیڑا جس کا چہرہ لال گلنارہو گیا تھا -
اسکے قدم اب ماریہ کے ہمراہ ہال کی جانب بڑھ رہے تھے جبکہ دل خدا کی اس عظمت پر سجدے میں جھکا بار بار خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اللہ نے اسے کتنے مخلص اور جاں سے بڑھ کر محبت کرنے والوں سے نوازا ہے، وہ لبوں پر ایک مخصوص قسم کی مسکراہٹ لئے ہال کی طرف رواں دواں تھی جہاں اسکے اپنے منتظر تھے، جہاں ڈھیر ساری خوشیاں منتظر تھی، جہاں محبت منتظر تھا-
-ختم شد -