صارم بیٹا پھر گئے تھے تم ماموں کے گھر بات ہوئی زینب سے
صارم جیسے ہی گھر آیا شبانہ نے اس سے پوچھا۔۔۔
ہوں گیا تھا بہت تھک گیا ہو امی پھر بات ہو گی صارم نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔۔۔
تو پریشان لگ رہا ہے بتا کیا کہا زینب نے۔۔
انکار کر دیا اس نے نہی مانی وہ نفرت کرتی ہے وہ مجھ سے ہم سب سے
پتہ نہی اتنی بدگمان کیوں ہو گئی مجھ سے اور وہ مجھ سے صدیوں فاصلے پر لگ رہی مجھے
جو وہ کبھی ختم نہی ہونے دے گی میں اسے آزاد کر ایا ہو ہر فیصلے میں
اور کوئی اسے مجبور نہی کرے گا میں نے ممانی جان کو بھی بول دیا ہے
کہ زینب جیسے چاہتی ہے آپ ویسا کر لے میں نہی چاہتا وہ اور نفرت کرے مجھ سے
اور آپ بھی اب اس ٹاپک پر کوئی بات نہیں کرنا میں ریسٹ کرنا چاہتا ہو
بہت تھک گیا ہو اتنا بول کے وہ تھکے ہوئے قدموں سے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔
نہیں میں اپنے بیٹے کو ہارنے نہی دو گی زینب کو اس کی محبت ہر یقین کرنا ہو گا
یہ سب میری وجہ سے خراب ہوا میں اسے ٹھیک کرو گی شبانہ نے ایک عزم سے سوچا
اسے صارم کی تھکی چال دیکھ کے بہت تکلیف ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
زینب اب تمہیں کیا مسلہ ہے جیسا تم چاہتی تھی ویسا ہو رہا ہے چلا گیا صارم زینب کے اندر
سے آواز آئی
پھر بھی میں خوش کیوں نہی ہو ایسے کیوں لگتا کہ جیسے میں نے غلط کر دیا
نہی میں نے کچھ غلط نہی کیا وہ خود ہی سوچتی خود ہی نفی کرتی اپنے جملوں کی
خود سے الجھ رہی تھی جب نجمہ بیگم اس کے پاس آ کر بیٹھی
کیا سوچ رہی ہو زینب۔۔
ہاں________کچھ نہی اس نے چونک کے جواب دیا۔۔۔
کوئی تو بات ہے بہت دنوں سے تم چپ چپ ہو اب تو تمہیں خوش ہونا چاہے
صارم ہار گیا اور تمہاری ضد انا جیت گئی۔۔
امی ایسے تو نا کہے میری کوئ ضد اور انا نہی تھی اور جب سے میں نے صارم کو انکار کیا ہے
مجھے خود کچھ عجیب سا لگ رہا آپ بتائیں امی میں نے ٹھیک کیا نا
میں اتنی پریشان اندر سے خالی کیوں ہو گئی ہو
زینب نے اندر کی گرہ ماں کے سامنے رکھی ان سب بہن بھائیوں کی بچپن سے عادت تھی
ماں سے ہر بات کرنے کی۔۔
نجمہ بیگم اس کی بات سن کر مسکرائی اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا
تو کیا تم چاہتی ہو کہ صارم واپس بلا لے۔۔
میں نے ایسا کب کہا پر مجھے اس کا دل توڑ کے اچھا نہی لگا امی وہ بہت اچھا ہے
بس پھوپھو کی وجہ سے میں نے اس سے بدتمیزی کی اور وہ مجھ سے چھوٹا ہے لوگ کیا کہے گئے۔
تم لوگوں کی فکر نا کرو۔۔
ارے شبانہ تم دونوں ماں بیٹی نے سامنے دیکھا تو شبانہ آئی تھی۔۔
ہاں میں اپنی روٹھی بیٹی کو منانے آئی ہو کیسے ہیں آپ سب بھابھی۔۔
ہم ٹھیک تم سنائو بھائی صاحب صارم کیسے ہیں۔۔
ٹھیک ہے صارم بہت اداس تھکا تھکا رہنے لگا ہے۔۔
آئو نا بیٹھو اور زینب پھوپھو کے لئے چائے پانی کا انتظام کرو۔۔۔
روکو زینب وہ اٹھنے لگی تو شبانہ نے اسے بازو سے ہکڑ کر پاس بیٹھا لیا
میں چائے پانی کچھ نہیں لو گی مجھے بس تمہیں منانا ہے میں اپنے بیٹے جو زندہ کاش کی طرح پھر رہا ہے
نہی دیکھ سکتی وہ گھٹ گھٹ کے مر رہا ہے بچا لو اسے وہ نہی رہ سکتا تمہارے بغیر
میری غلطیوں کی سزا اسے مت دو بہت پیار کرتا ہے یا شاید پیار سے آگے کا کوئی جزبہ ہے
اس نے مجھے منع کیا تھا آنے سے اس سے چوری آئی ہو تمہیں منانے معافی مانگنے
شبانہ نے زینب کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔۔
ارے پھوپھو یہ کیا کر رہی ہے زینب نے ان کے ہاتھ تھام لئے۔۔۔
معافی معانگ رہی ہو تم سے تم مجھے نہیں بھی کرنا چاتی تو نا کرو بس صارم کے لئے مان جائو۔۔
میں نے معاف کیا ہے سب کو اور ٹھیک ہے میری طرف سے ہاں ہے۔۔۔
تم۔ سچ سچ کہہ رہی ہو شبانہ نے اسے گلے لگا لیا۔۔
جی میں سچ کہہ رہی ہو بہت دنوں سے کشمکش میں تھی اور امی صیح کہتی ہے معاف کرنے میں بھلائی ہے۔۔
ارے جیتی رہ میری بچی نجمہ اور شبانہ دونوں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔
اچھا میں چلتی ہو اپنے مجنوں بیٹے کو خوشخبری سنائو۔۔۔
ارے ایسے کیسے بیٹھوں کچھ کھا پی کے جائو میں ایسے نہی جانے دو گی
نجمہ نے روکا اسے۔۔۔
ارے تم۔ فکر نہی کرو بہت جلد آئو گی پوری فیملی کے ساتھ زینب کا ہاتھ مانگنے
پھر جو مرضی کھلا دینا۔۔
اور ہاں زینب دنیا والوں کی فکر کرنے کی ضرورت نہی صارم تم سے دیکھنے بڑا ہی لگتاہے
اور دنیا والے ہم۔ سے کبھی خوش نہی ہو سکتے یہ ہمارا فیملی میٹر ہے دنیا کا اس سے کوئی تعلق نہی
جب ہمیں کو اعتراض نہی اور آئیندہ ایسی بات سوچنا بھی نہی بس اب میں چلتی ہو اللہ حافظ۔۔
زینب تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے بیٹی شبانہ کے جا نے کے بعد نجمہ نے اسے پیار کیا
مجھے پتہ تھا میری بیٹی اچھا فیصلہ کرے گی۔۔
جی امی میں بہت کشمکش میں تھی اور جب پھوپھو نے معافی مناگی ہاتھ جوڑ کے
تو وہ جملے خود ہی میرے منہ سے نکل گے اور میں دل سے خوش ہو
زینب بہت مطمئن ہو گئ تھی۔۔
جیتی رہوں۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
جی کون۔۔
جی کی کچھ لگتی میں صارم بات کر رہا ہو۔۔
صارم آپ کیسے ہیں پھوپھو انکل سب کی سنائو۔۔
بس کرو اتنی عزت میں تم ہی رہنا چاہتا ہو صارم۔ نے شوخی سے کہا
جب سے اسے شبانہ نے بتایا تھا زینب نے ہاں کر دی وہ ہوائوں میں تھا
اور باقی امی ابو بھی ٹھیک ہے۔۔
اچھا زینب نے اچھا بول کہ چپ ہو گئی اسے صارم۔ سے جھجھک سی ہو رہی تھی۔۔
اچھا ایک بات بتائو میری باتوں میں کیا اثر نہی تھا جو تم۔ ماما کی باتوں پر مانی ہو۔۔
ایسی بات نہی ہے وہ بس۔۔۔۔
وہ بس کیا آگے بھی بولو۔۔
جب سے تم گئے تھے میں بہت پریشان تھی سمجھ نہی آ رہا تھا میں نے صیح کیا یا غلط
عجیب سی کشمکش تھی عجیب دوراہے پر تھی میں اور تمہاری باتوں نے مجھ پر اثر کیا تھا
تب ہی ہاں کی میں نے سوچا کوئی میری خاطر جنگلوں کی خاک چھاننے نا نکل جائے
زینب نے آخر میں شرارت سے کہا وہ بہت ہلکا محسوس کر رہی تھی۔۔
اوہ تو مجھ پر احسان کر رہی مجھے نہی چاہیے احسان واپس لو اسے 😏😏
ارے احسان نہی بس ترس کھا رہی ہو😂😂
مجھے تمہارا ترس بھی نہی چاہیے 😏😏😏
اچھا تو کیا چاہیے زینب نے معصومیت سے پوچھا😌😌
محبت کے بدلے محبت چاہیے مجھے بولو منظور ہے 😍😍
میں کیا بولو ایسے بولنے سے محبت ہو جائے گی زینب نے اسے تنگ کرنے کے لئے کیا۔۔۔
ہاں ہو جائے گی اگر بولنے سے محبت ہو نا جائے تو پھر کہنا صارم۔ نے شوخی سے کہا کتنے دنوں
بعد وہ پرسکون ہوا تھا۔۔
اچھا سنو زینب نے شرماتے ہوئے کہا۔۔
جی ہم تو سن۔ رہے ہیں آپ کچھ اچھا سا سنائو۔۔
میں کچھ نہی سنا رہی فون رکھ رہی مجھے نہی پتہ تھا تم۔ تو پورے لوفر بن گئے ہو 😏😏😏
اگر تم۔ نے فون رکھا تو میں گھر آ جائو گا ممانی کے سامنے پوچھوں گا
اب شرافت سے بول دو محبت ہو گئ ہے تمہیں مجھ سے۔۔
میں نے ہاں کیا کی تم مجھے دھمکیاں لگا رہے ہو۔۔
ہاں یہی سمجھ لو اور جلدی بولو۔۔
اچھا بولتی ہو___________________________وہ مجھے تم سے محبت والی فیلنگ آرہی ہے اتنا
بول کے اس نے کھٹاک سے فون رکھ دیااور مسکرانے لگی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕
بنوں کی آئے گی بارات بنوں جائے گی سسرال
یہ گلیاں یہ چوبارے دیکھو زینب یہاں آنا نا دوبارہ
تم لوگوں کی میں نے ٹانگیں توڑ دینی دفع ہو جائوں میرے روم سے
آج صارم اور اس کی فیملی آ رہی تھی باقاعدہ رشتہ لے کر عمر اور اسد زینب کو تنگ کر رہے تھے
گانوں کی ٹانگیں توڑ رہے تھے۔۔۔
ویسے آپی ہم آپ کو مس بلکل نہی کرے گے آپ بھی نا کرنا اتنا بول کے وہ روم سے بھاگ گئے۔۔
اور زینب مسکرانے لگی اب اسے اور فخر ہو رہا تھا اپنے فیصلے پر سب بہت خوش تھے
اور وہ بھی دل سے خوش تھی سب پرانی باتوں کو بھلا کر کیوں کہ اسے محبت ہو گئی تھی__________________
ختم شدہ 💕💕💕💕💕💕💕