آج کے بعد چاہے جو ہو جائے مجھے نہی بھیجنا نمونے کو بلانے کے لئے نا میں جائو گی
زینب ماں کے پاس آ کر بڑ بڑانے لگی۔۔۔
اب کیا کہہ دیا اس نے تم دونوں ہر وقت بچوں کی طرح لڑتے رہتے ہو گھر آئے مہمان کا ہی احساس کر لیا کرو۔۔۔
امی یہ مجھے نہیں عمر کو بولے مجھے صارم کے سامنے ڈیڑھ من کی دھوبن بولا اس نے
میں کدھر سے ڈیڑھ من کی ہو اتنی سمارٹ سی تو ہو اتنا بول کے زینب گول گول گھومنے لگی
جیسے ہی اس کی نظر سامنے پڑی صارم ناشتے کے لئے نیچے آ چکا تھا اور زینب کو بڑی فرصت سے دیکھ رہا تھا
جب آ گئے تھے نیچے تو بول دیتے میں ناشتا لا دیتی بیٹھ کر ٹکر ٹکر کیا دیکھ رہے ہو
زینب نے عمر کا غصہ صارم پر نکالا۔۔
زینب میں دیکھ رہی ہو تمہاری بدتمیزی صارم سے اچھے سے بات کیا کرو
نجمہ بیگم نے اسے ٹوکا۔۔
اوہ ہو امی آپ نے ہی تو بولا تھا اور صارم صاحب نے خود بھی کہ وہ ادھر فیملی ممبر کی طرح رہنا چاہتے ہیں
تو انہیں اندازہ ہو ہی گیا ہو کہ ہم کیسے رہتے ہیں
مطلب ہر وقت ہنسی مزاق چلتا ہے ہمارا کیوں صارم تمہیں اچھانہیں لگتا ہمارا مزاق۔۔۔
جج----جی اچھا لگتا ہے صارم نے لڑکھڑاتے ہوئے کہا پتہ نہیں کیوں زینب کے سامنے آتے ہی اس کا دل کچھ بولنے کو
نہیں کرتا تھا بس سننا چاہتا تھا یا دیکھنا چاہتا تھا۔۔
پھر بھی تمیز کے دائرے میں رہا کرو میں آخری بار بول رہی ہو تم سے زینب نجمہ بیگم نے غصے سے کہا ۔۔۔
ٹھیک ہے میں کچھ بولوں گی ہی نہیں جا رہی ہو اپنے کمرے میں کھلائے آپ اپنے چہیتوں کو
زینب غصے سے پائوں پٹخ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔
ارے بات صارم اسے روکنے لگا کہ نجمہ بیگم نے بیچ میں ہی ٹوک دیا
یہ ناشتا کرو تم بیٹا وہ ایسی ہی ہے مان جائے گی۔۔
ہاں صارم بھائی آپ نہی سوچے آپی کا وہ ایسی ہی ہے عمر نے بھی صارم کا گلٹ کم کرنے کی کوشش کی
کیوں کے اسے صارم کے چہرے پر شرمندگی صاف نظر آ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اچھا صارم نے مایوسی سے کہا کیونکہ اب اس سے بھی کچھ نہیں کھایا جانا تھا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
تم کیا لینے آئے ہو ادھر
زینب نے صارم کو اپنے روم میں دیکھ کر کہا۔۔۔۔
آپ آج سارا دن روم سے نہی نکلی تو میں نے سوچا پتہ کر لو آپ کی طعبیت تو ٹھیک ہے۔۔۔
جی اللہ کاشکر ہے ٹھیک ہو میں میرے ماں اور بھائیوں کو تو میری فکر نہیں بھوک سے پیٹ میں درد ہو رہا
اسد کے بچے سے بولا بھی تھا چپکے سے کچھ کھانے کو دے جائے پر اس نمونے کو کیا پڑی ہے میری۔۔
اسد تو باہر چلا بیٹ لے کر
آپ بولے تو میں لا دیتا ہو کچھ باہر سے کیا لائو صارم نے بہت میٹھے لہجے میں پوچھا۔۔۔
تم کیوں لا کر دو گے تمہاری وجہ سے تو میں بھوکی بیٹھی ہو اور تم سے لے کر کھا لو اس سے اچھا میں بھوکی رہ لو
زینب نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔۔۔
دیکھے مجھے نہیں پتہ آپ مجھ سے پہلے دن سے ہی ناراض کیوں ہیں
اگر میری کوئی بات بری لگی ہے تو میں معافی چاہتا ہو
اور آپ بولے تو میں ہوسٹل شفٹ ہو جاتا ہو آپ لوگ میری وجہ سے گھر کا ماحول خراب نا کرے ۔۔۔
صارم کی باتیں سن کر زینب کو لگا کہ صارم اچھا لڑکا ہے عہ بلاوجہ دل میں غصہ رکھتی ہے
دیکھوں مجھے تم سے کوئی مسلہ نہیں بٹ تمہاری ماں مطلب میری پھوپھو پر غصہ ہے مجھے
پاپا کے جانے کے بعد وہی سگہ رشتہ تھی ہمارے پاس پر انہوں نے کبھی مڑ کر خبر نہیں کی
اور جب مطلب پڑا تو بھائی اور بچے یاد آ گئے ۔۔۔
میں مانتا ہو ماما کی غلطی ہے میں چلا جائوں گا اور آپ کا نام نہیں آئے گا
آپ بس ناراض نہی ہو صارم نے منت والے انداز میں کہا
اسے زینب کا بھوکا رہنا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
ارے واہ تم تو بڑے سمجھدار ہو عمر جتنے ہو پراس میں عقل نہی تم میں ہے
ٹھیک ہے تم رہوں ادھر ہی پر عمر اسد کی نہی میری سائیڈ سے بولو منظور ہے۔۔
جج---جی صارم کی زبان لڑکھڑانے لگی اسے تو لگا تھا زینب اسے گھر سے نکل جانے کو بولے گی
بٹ وہ اسے کیا بول رہی تھی۔۔
چلو تو پھر ملائو ہاتھ زینب نے ہاتھ آگے کیا اب سے ہم دوست۔۔۔۔
جسے صارم نے بڑی گرمجوشی سے تھام لیا۔۔۔۔۔
اب چھوڑ بھی دو جب صارم نے کافی دیر تک ہاتھ نہیں چھوڑا تو مجبورن زینب کو اسے کہنا پڑا۔۔۔
اوہ سوری ۔۔
جی میں سمجھ سکتی ہو تمہیں تو یقین بھی نہیں ہو رہا ہو گا کہ زینب نے اپنا دوست بنا لیا تمہیں
زینب نے ہنس کر بولا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
صارم جب میں کالج سے آئو گی تو ریڈی رہنا میں تمہیں لاہور گھمائو گی۔۔۔
ہیں------یہ کب ہوا عمر نے حیرت سے دونوں کودیکھا۔۔۔۔۔۔
جب سے بھی ہوا ہو تم سے مطلب اپنے کام سے کام رکھوں زینب نے اسے پہلے گھور کر دیکھا پھر جواب دیا۔۔
عمر میری اور زینب کی دوستی ہو گئی ہے صارم نے بڑے فخر سے کہا۔۔
اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے نجمہ بیگم نے زینب کی طرف بہت پیار سے دیکھا۔۔
اور عمر اسد تم دونوں میری بات کان کھول کے سن لو اب ہم بھی دو ہو گئے ہیں سو سچ سمجھ کے پنگا لینا
زینب نے وارنگ والے انداز میں کہا۔۔۔۔
کیا مطلب صارم بھائی اب آپ ہمارے دوست نہیں رہے آپی کی سائیڈ ۔۔۔
ہاں عمر میں زینب کی طرف سے ہو اب پارٹی بدل لی میں نے ۔۔۔۔۔
توبہ آپنے تو پھپھے کٹنی عورتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا بھائی کتنی جلدی پارٹی بدل لی
عمر نے طنزیہ کہا۔۔۔۔
اوئے عمر کے بچے میرے دوست کو پھپھے کٹنی نا بول یہ تجھ پر سوٹ کرتا ہے
اور اسد کے بچے تم شرم نام کی کوئی چیز ہے یا نہی۔۔
میں نے کیا کیا ہے آپی اسد نے منمناتے ہوئے کہا۔۔۔
تم کر بھی کچھ نہی سکتے کل میں نے کچھ بولا تھا تمہیں لانے کو۔۔۔
اچھا امی میں لیٹ ہو رہا ہو میں جا رہا اسد نے نکلنے کی کی اسے پتہ تھا زینب دو لگانے سے زرا گریز نہیں کرے گی۔۔
دیکھ بھاگ گیا چلاک لومڑی زینب نے پیچھے سے چمچ پھینکا تب تک اسد دروازہ پار کر گیا۔۔۔۔۔
بس کر زینب کیوں بھائیوں کے پیچھے پڑی رہتی ہے نجمہ بیگم نے اسے ٹوکا۔۔
اچھا ہم بھی چلے چل بھائی عمر نے صارم کومخاطب کیا اور باہر کو نکل گیا۔۔۔
اچھا صارم ریڈی رہنا بہت مزہ آئے گا زینب نے صارم کو پیچھے سے آواز دے کر کہا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
اف امی ہم تھک گئے رات گئے جب وہ چاروں باہر سے آئے تو نجمہ بیگم ان کا انتظار کر رہی تھی
اتنا لیٹ مجھے پریشانی ہو رہی تھی وہ بچوں کو ڈانٹنے لگی۔۔۔
ارے میری پیاری ماں فکر نہیں کرے اب ہم صیح سلامت گھر آ گئے ہیں
زینب لاڈ سے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دی۔۔
اچھا ہٹوں پیچھےاور صارم بیٹا آپ بتائو مزہ آیا انہوں نے خاموش کھڑے صارم کو مخاطب کیا۔۔
ارے امی بہت آیا صارم کی وجہ سے ہی لیٹ ہوئے زینب اور یہ نئے نئے دوست بنے ہیں
تو دونوں مجھے اور اسد کو اکیلا چھوڑ کر پتہ نہیں کدھر کدھر کی خاک چھانتے رہے ہیں
عمر نے جلے دل سے کہا
کیونکہ زینب نے اسے اور اسد کو ایک جگہ ویٹ کرنے کا بولا اور صارم کو ساتھ لے پیٹ پوجا کر آئی
اور یہ دونوں بھوکے ہی رہ گئے زینب نے کل کا بدلہ لیا جب وہ ناراض تھی تو دونوں میں سے کسی نے نہی منایا تھا۔۔
زینب بری بات بیٹا باہر بھی تم لوگ یہی کچھ کرتے ہو
دیکھنے والے بھی کہتے ہو گئے کیا تربیت کی ہے ان کے والدین نے۔۔
ارے امی کسی نے کچھ نہیں کہا میں سونے جا رہی ہو آپ کے دونوں شہزادے بیٹے بھوکے ہیں کچھ کھلا دے ان کو
زینب کھلکھلاتی ہوئی اوپر چلی گئی ۔۔۔
اچھا جائوں منہ ہاتھ دھو لو سالن تو بنا ہوا ہے میں روٹی ڈالتی ہو اور صارم بیٹا تم بھی آ جائو ۔۔
نہیں آنٹی میں تو کھا کر آیا ہو سوری اسد عمر وہ زینب کو میں نے بولا بھی تھا کہ کچھ لے جائے۔۔
ارے سوری کی ضرورت نہیں بیٹا زینب ایسی ہی ہے لاپرواہ تم جائو ریسٹ کرو۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
صارم روم میں آنے کے بعد چینج کیا اور بیڈ پر لیٹ گیا پر آج کی رات نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی
اسے بار بار وہ پل یاد آ رہا تھا جب زینب اس کا ہاتھ پکڑ کر لے گئی تھی
زینب کتنی پیاری ہے اور اس کی آنکھیں کیسے جھیل سی گہری ہے
اور میں ڈوب رہا ہو ان میں آہستہ آہستہ
مجھے پتہ ہے شائد اسے اچھا نا لگے بٹ میں کیا کرو میرے بس میں نہیں
وہ مجھے عمر کی طرح ٹریٹ کرنے لگی ہے اگر اسے پتہ چلے کے میں کیا سوچ رہا ہو تو کیا ردعمل ہو گا
میں ابھی کسی کو پتہ نہی لگنے دو گا پہلے کچھ بنوں گا پھر زینب کا ہاتھ مانگوں گا
وہ پہلے ہی امی سے ناراض ہے مجھ سے بھی نا ہو جائے
یہی سب سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕
کتنی جلدی ٹائم گزر گیا پتہ بھی نہیں چلا آج صارم نے چلے جانا تھا اس کی fsc ہو گئی تھی انٹری ٹیسٹ بھی کلئیر کر لیا تھا
آگے اسے میڈیکل کی فیلڈ میں جانا تھا ایڈمیشن بھی ہو گیا تھا میڈیکل کالج میں
اب اس نے ہاسٹل میں رہنا تھا
عمر انجینرنگ کی طرف جا رہا تھا اسد بھی کالج میں آ گیا تھا اور زینب آگے msc میں ایڈمیشن لیا تھا کالج سے یونیورسٹی کا سفر طے ہو گیا تھا
نجمہ بیگم بہت خوش تھی اپنے بچوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر۔۔۔۔
صارم تم ہمارے پاس ہی رہ لو پہلے کی طرح ہاسٹل رہنے کی کیا ضرورت ہے
زینب کی بات پر صارم مسکرانے لگا
مسکرا کیوں رہے ہو میں نے کوئی لطیفہ تو نہی سنایا زینب نے چڑ کر کہا
اسے اچھا نہی لگ رہا تھا صارم جا رہا تھا ۔۔
کچھ یاد آگیا تھا اس لئے مسکرایا صارم نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔۔
بتائو مجھے کیا یاد آیا۔۔۔
ارے صارم کو یاد آیا ہو گا جب وہ آیا تھا رہنے تم نے کتنا رولا ڈالا تھا اور اب اداس ہو رہی ہو جا رہا ہے تو۔۔۔۔
ہاں رولا تب ڈالا تھا جب دوست نہی تھا ابھی صارم میرا بیسٹ فرینڈ ہے تم دونوں نمونے مجھے تنگ ہی کرتے ہو
بس صارم میری سائیڈ لیتا ہے اور اب یہ بھی نہی ہو گا زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔
زینب پلیز ایسے تو نا کرو میں جانہی سکوں گا صارم کو تکلیف ہوئی تھی اس کے آنسو دیکھ کر
اس نے بہت مشکل سے یہاں سے جانے کا فیصلہ کیا تھا وہ چاہتا تھا کسی قابل بن جائے پھر زینب کے سامنے آئے۔۔
اچھا میں ٹھیک ہو چلو ہمیں جانے سے پہلے آئس کریم کھلا کر لائو زینب نے فرمائش کی۔۔۔
اچھا چلو صارم فورن کھڑا ہو گیا ۔۔
وہ چاروں باہر چلے گئے اور نجمہ بیگم زینب کے بچگانہ رویے کو سوچ کرمسکرانے لگی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
تم آتے جاتے رہنا بیٹا جب دل کرے ہماری یاد آئے تو دوڑے چلے آنا یہ گھر تمہارا بھی ہے
نجمہ بیگم نے صارم کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔
جی ضرور صارم نے سعادت مندی سے کہا۔۔۔
عمر اسد سے ملنے کے بعد جب اس نے زینب کو اللہ حافظ بولا تو وہ بھاگ کر اس کے گلے لگ گئی
اور رونے لگی میں تمہیں بہت مس کرو گی ملنے آئو گے ۔۔۔
ہاں آئو گا صارم سے آگے بولا نہی گیا گلے میں آنسوئوں کا پھنداسا اٹک گیا۔۔
چلتا ہو اللہ حافظ بول کر وہ نکل گیا
کچھ دیر اور رکتا تو اس کے بھی آنسو بہنے لگتے اور وہ کوئی غلطی نہی کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕