اف اللہ آپی یہ کیا بنایا ہے آپ نے مارنے کا ارادہ ہم معصوموں کو۔۔۔
عمر کے بچے میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں ایک تو سارا دن چولہے کے آگے اتنی گرمی میں کھڑے ہو کر تم منحوسوں کے لئے بریانی بنائی
اور باتیں دیکھوں کیسے سنا رہے ہو اتنا کہہ کر زینب وہی زمین پر بیٹھ کر رونے لگی۔۔
اف ایک تو ہماری آپی اللہ کے فضل و کرم سے ڈرامہ نہی پوری فلم ہے اسد نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔۔
اچھا ٹھیک ہے جائو تم دونوں مجھ سے بات نہیں کرو زینب نے اپنے آنسو صاف کئے اور روم میں جانے لگی۔۔
ارے آپی ہم تو مزاق کر رہے تھے آپ نے سچ سمجھ لیا دونوں بھائیوں نے زینب سے لاڈ سے پوچھا۔۔
اچھا مزاق تھا یہ تو چلو کھائو بیٹھ کر زینب نے کھانے کی طرف اشارہ کیا۔۔
اچھا کھا رہے ہیں آپ بھی آ جائو دونوں نے برے برے منہ بناتے ہوئے بیک وقت کہا۔۔۔
ارے زینب پانی پلا باہر تو بہت گرمی ہے ۔۔۔
جیسے ہی وہ کھانے کے لئے بیٹھنے لگے نجمہ بیگم کی آواز آئی۔۔۔
شکر ہے امی آپ آ گئی ورنہ آپ کی بیٹی کا پورا پورا ارادہ تھا ہم معصوموں کو مارنے کا۔۔
تم دونوں پھر شروع ہو گئے ۔۔
زینب نے غصے سے کہا۔۔۔
تم تینوں اپنی چونچیں بند کرو زینب مجھے پانی پلا۔۔
ماں کے غصے سے ڈر کر عمر اور اسد کھانا کھانے لگے زینب ماں کے لئے پانی لے آئی۔۔
امی آپ جلدی نہیں آ گئی مجھے تو لگا شام تک آئے گی۔۔
ہاں وہ ایک دو گھروں میں اور بھی جانا تو تھا پھر نہیں گئی تم کل کالج سے واپسی پر پیسے لیتی آنا ۔۔
مجھے نہیں اچھا لگتا خود ان میڈموں کو نہیں پتہ کپڑے لے جاتی ہیں تو سلائی دینا یاد نہیں رہتا ان کو۔۔
زینب نے ہمیشہ کی طرح غصہ دکھایا ۔۔۔
اچھا منہ بند کر اپنا موقع چاہیے تجھے بولنے کا نجمہ بہگم نے اسے ڈانٹ کر چپ کروایا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕
زینب سب سے بڑی ہے اس سے چھوٹا عمر اور پھر اسد زینب bsc عمر fsc کر رہا ہے اور اسد میٹرک کا سٹوڈنٹ ان کے والد فاروق صاحب ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھے دل کے مریض تھے
کچھ عرصہ پہلے ان کا انتقال ہو گیا یہ سب بہت بری طرح سے ٹوٹ گئے
لیکن زندگی کی ایک تلخ حقیقت پیٹ ہے جسے ہر حال میں کھانے کو چاہے
اس لئے وہ سب ایک دوسرے کا سہارے بنتے ہیں اور جلد ہی عمر اور اسد کی شرارتوں سے سب زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔۔
فاروق صاحب کی پنشن آتی ہے اور نجمہ بیگم کے پاس سلائی کا ہنر ہے جس سے وہ گھر کی گاڑی چلا رہی ہے۔
بچے چاہے جتنے شرارتی لیکن ماں کا گھر کے اخراجات کا اچھے سے اندازہ ہے زینب اور عمر بچوں کو ٹیوشن دے کر پڑھائی کاخرچا نکال لیتے ہیں ۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕
اماں ابھی ہم کون ساامیر کبیر ہے جو وہ آپ کا رشتے دار ہمارے گھر رہے گا
زینب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔
بس زینب تو ایسا کیوں سوچتی ہے مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں وہ میرا ہی نہی تم سب کا کزن ہے پھوپھو کابیٹا ہے تمہاری۔۔۔۔
تو کیا کرے ویسے تو کبھی کسی کو خیال آیا نہیں ہمارا ابو کے بعد سب مطلب کے ہیں ۔۔
زینب بس کر اور اوپر والا کمرہ بچے کے لئے سیٹ کر دے ۔۔۔
لو بچہ کدھر سے ہو گیا مجھے تو یاد بھی نہیں پتہ نہی کدھر سے نکل آتے ہیں یہ رشتے دار ۔۔۔
ارے عمر کی کلاس میں ہے اسی کے کالج میں ایڈمیشن لیا ہے اس نے۔۔۔
اچھا بابا مجھے نہیں سننی تعریفیں جا رہی ہو کب آنا ہے اس نمونے نے۔۔۔
زینب آخری بار بول رہی ہو اب کوئی بکواس نہی کرنا کل شام تک آجائے گا اور دل بڑا کرنا سیکھو۔۔۔
ہو آ جائے گا کل شام تک زینب بڑبڑاتے ہوئے کمرہ ٹھیک کرنے چلی گئی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
دیکھوں سب کو مجھے بھول کر اس لنگور کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں اگر اب مجھ سے دونوں نے بات کی دیکھنا کیا حال کروگی میں
زینب خود میں ہی جل بھن رہی تھی جب سے اس کا کزن آیا تھا اسد اور عمر اس کے ساتھ بیٹھے تھے ۔۔
ارے زینب آپ ادھر کیوں کھڑی ہے آپ بھی آ جائے صارم بھائی تو بہت اچھے ہے۔۔
لگتا ہے زینب کو ہمارا آنااچھا نہیں لگا صارم نے کہا۔۔
نن---نہی ایس کوئی بات نہیں میں تو ایسے ہی کچن میں کام کر رہی تھی زینب نے جلدی سے بات بنائی کیوں کے نجمہ بیگم کی گھوری وہ دیکھ چکی تھی
اسی لئے جلدی سے ان لوگوں کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔۔
صارم نے بہت غور سے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔
آپ کیا کرتی ہے صارم نے زینب سے پوچھا۔۔
میں bsc کر رہی ہو زینب نے منہ بنا کر جواب دیا۔۔۔
صارم نے دلچسپی سے زینب کو دیکھا۔۔۔
صارم یار یہ ہماری آپی بہت مزے کے کھانے بناتی ہے ابھی دو دن پہلے اتنی لذیز بریانی کھلائی کے کیا بتائو
عمر نےطنزیہ کہا۔۔۔
امی زینب نے شکایتی نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔۔
عمر تنگ نہیں کرو بہن کو ۔۔۔
ارے صارم بھائی آپ بھی بچ کے رہنا آپی ہی لگی آپ کی بھی عمر نے شرارت سے کہا۔۔۔
ارے میری کیوں آپی ہوئی صارم کے یکدم سے منہ سے نکلا۔۔۔
وہ سب صارم کی طرف دیکھنے لگے
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
اور مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہر کسی کی آپی بننے کا----اس سے پہلے کے کوئی صارم سے کچھ کہتا زینب نے غصے سے کہا تن فن کرتی روم سے نکل گئی۔۔
ارے صارم بیٹا ناراض نہی ہونا یہ پاگل ہے پتہ ہی نہی چلتا اسے کے کیا بولنا ہے کیا نہی
نجمہ بیگم نے وضاحت دی۔۔۔
ارے ممانی جان آپ بے فکر ہو جائے مجھے برا نہی لگا زرا بھی اب میں بھی اس گھر میں رہوں گا
تو عادت ڈالنی چاہے مجھے کہ سب کے ساتھ گھل مل کے رہوں ۔۔۔
ارے جیتا رہے میرا بچہ نجمہ بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
اچھا بیٹا تم آرام کر لو کل سے کالج بھی جانا ہے۔۔۔
اوکے جی میرا کمرہ ۔۔
عمر جائوں بھائی کو روم دکھائو۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
میں نے ایسا کیوں بولا کہ زینب میری آپی نہیں دیکھا جائےتو عمر نے ٹھیک کہا تھا
پھر مجھے اچھا کیوں نہیں لگا
عمر صارم کو روم میں چھوڑ کر چلا گیا تھا اور صارم تب سے سوچوں میں گم تھا
کہ اسے کیاہو گیا تھا جو ایسے بولا زینب اسے بہت اپنی اپنی لگی تھی بچپن میں ہی کہیں دیکھا تھا اسے
اور اب دیکھا تھا پر ایک انجانا سا رشتہ محسوس کر رہا تھا وہ زینب کے ساتھ دیکھتے ساتھ ہی لگ رہا تھا
وہ کسی ڈور میں بندھ گیا ہے
اور اس رشتے کا انجام کیا ہو گا اس کے بارے میں اس نے کچھ نہیں سوچا تھا
اف اللہ اگر کسی کو پتہ چلا تو کیا کہے گے زینب کو تو میں پہلے ہی پسند نہیں آیا شائد
کہیں گھر سے ہی نا نکال دے
خود ہی سوچ کرخود ہی مسکرا رہا تھا۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
صبح وہ ریڈی ہو کر نیچے آیا تو زینب عمر اسد تیار تھے ناشتے کے ساتھ نوک جھوک جاری تھی ان کی
صارم ان کی باتوں پر مسکرانےلگا۔۔
ارےصارم بھائی آپ ریڈی ہے جلدی آئے ماما کے ہاتھ کا مزے دار ناشتہ کرے
ورنہ ہماری آپی کے ہاتھوں کے جلے ہوئے پراٹھے کڑوی چائے پینی پڑے گی
عمر نے صارم کو ناشتے کے لئے بلایا ساتھ ہی زینب کی ٹانگ کھینچی ۔۔۔۔
امی دیکھ لو اپنے نمونے کو کسی دن مرے گا یہ میرے ہاتھوں ۔۔۔۔۔۔
اف آپی آپ کتنی ظالم ہے ماما کی بہو کو شادی ہے پہلے ہی بیوہ کرنے کا ارادہ ہے توبہ توبہ
ماما دیکھے آپ کی بیٹی کے ارادے کتنے خطرناک ہے۔۔۔
زینب بیٹا صبح صبح ایسی باتیں منہ سے نہیں نکالتے اور عمر تم بھی منہ بند رکھوں لیٹ ہو رہے ہو
نجمہ بیگم نے ان دونوں کو چپ کروانے کی ناکام کوشش کی۔۔۔
توبہ امی آپ تو میری شادی ہوئی نہیں اور بیٹی کے ساتھ مل گئی یہ نہیں ہوا کہ اسے ڈانٹ دے
مجھے مفت میں ہی ڈانٹ رہی ہے بیٹے کو مارنے کا پلان بنا رہی ہے۔۔۔
ہاں منہ دھو رکھوں تم سے شادی کرے گا کون نمونے لگتے ہو پورے کارٹون کہی کے۔۔
زینب نے اسے منہ چڑایا۔۔۔۔
صارم یہ سب دیکھ کر مسکرا رہا تھا وہ اکلوتا بیٹا تھا اپنے والدین کا
اسے یہ سب دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔۔
اچھا بس کرو چلو زینب وین آ گئی تمہاری ۔۔۔
ابھی تو میں جارہی ہو عمر کے بچے چھوڑوں گی نہیں تمہیں واپسی پر ریڈی رہنا
زینب عمر کو منہ چڑاتی کالج کے لئے نکل گئی۔۔۔۔
چلے بھائی ہم بھی چلے عمر اور صارم بائیک پرکالج کے لئے نکل گئے
اور اسد نزدیک ہی سکول میں جاتا تھاپیدل۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
زینب میں نے مشین لگا دی ہے کپڑے نکال کے اور ڈال دینا آج سنڈے تھا
عمر لوگ سو رہے تھے زینب ابھی اٹھی تو اسے ماں کاموں میں مصروف نظر آئی
تو دل کو کچھ ہوا
امی آپ کتنا کام کرتی گھر کا سلائی کا ہمارے سارے کام آپ کو تو چھٹی کا دن بھی نہیں ملتا
زینب نے لاڈ سے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دی۔۔۔
ارے میری جان میں کاموں سے نہیں تھکتی بلکہ تھکاوٹ اتر جاتی ہے میری کام کرنے سے۔۔
توبہ ہے امی آپ تو دنیا سے نرالی ماں ہے اچھا بتائے میں کیا کرو۔۔۔۔
ارے ابھی بولا ہےکہ کپڑے نکال کہ اور ڈال دینا اور لڑکوں کو بھی اٹھا دو
ناشتہ بنانے لگی ہو میں۔۔۔۔
اچھا امی آپ ناشتہ دیکھ لے میں کپڑے دیکھ کر اٹھاتی ہو ان کو بھی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
اف عمر اٹھ جائو امی نے سارا کام کر لیا ہے اب تمہارا رہ گیا ہے بازار سے سامان وغیرہ لانا ہے
ارے اٹھو میں فضول میں بول رہی ہو کیا
اب اگر نہیں اٹھے تو یہ پانی والا جگ تمہارے اوپر ہو گا
زینب نے پانی والا جگ اٹھا کر دھمکی دی پر سامنے والے پر کوئی اثر نا ہوتا دیکھ کر
اس نے چادر کھینچی اور بنادیکھے پانی ڈالنے لگی اس کا پائوں سلپ ہوا اور پانی والے جگ سمیت سوئے وجود پر گری
اور جب اس کی نظر سامنے پڑی عمر کی جگہ صارم کو دیکھ کر اس کی آنکھیں باہر کو آنے لگی
اور صارم کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیا ہے بیچارہ نیند میں تھا
تم ادھر کیا کر رہے ہو اوپر اٹھنے کے بجائے زینب اس سے غصہ ہونے لگی
صارم کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا بولے زینب کو اتنا نزدیک پا کر
وہ بولنے لائق نہیں بچا تھا ۔۔
ارے آپی آپ اوپر اٹھے گی تو بچارہ جواب دے گا ڈیڑھ من کی دھوبن اوپر پڑی ہے
اسے تو سانس بھی نہی آ رہی ہو گئی
عمر واش روم سے نکلا اور ساری سچوئشن سمجھ کر بولا۔۔۔
اور سوری زینب کو یکدم احساس ہوا تو جھٹ سے کھڑی ہو گئی
اور صارم نے اپنی مسکراہٹ دبائی ۔۔۔
یہ ادھر کیا کر رہا ہے مجھے لگا تم ہو گے
زینب نے کھسیا کر کہا۔۔۔۔۔
ہم دونوں نے مووی دیکھی اور صارم میرے پاس سو گیا اسد کو ہم نےصارم کے روم میں بھیج دیا
اب جائوں ہم آ رہے ہیں ۔۔۔
تمہیں تو میں دیکھ لو گی مجھے دھوبن بولا زینب نے عمر کو گھور کر دیکھا اور باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕