بی بی جی آپ بہت اچھی ہو‘ ہمارا کتنا خیال رکھتی ہو۔‘‘ کبھی کبھی سکینہ اسے دیکھ کر کہتی۔ ’’ورنہ تو لوگ نوکروں کو بہت حقیر سمجھتے ہیں۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ تزکیہ ہلکے سے مسکرا دیتی۔ ’’کیا نوکر انسان نہیں ہوتے۔ اس بات کی بھی پوچھ ہے سکینہ کہ ہم اپنے ماتحت کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔۔۔ اچھا چلو تم جلدی سے چکن نکالو میں سوپ بنادوں مما کے لیے۔‘‘ اس روز دن میں ابریز کی کال آگئی کہ ڈنر پر کشمالہ آئے گی اہتمام کروالینا۔
’’کیا ہوا بیٹی آج کچن میں کافی مصروف لگ رہی ہو؟‘‘ سلمیٰ بیگم نے غیر معمولی تیاری دیکھ کر پوچھا۔
’’جی مما۔۔۔ ابریز نے کہا ہے کہ ان کی کولیگ آج ڈنر پر آئے گی۔ شاید کشمالہ نام بتایا ہے۔‘‘ وہ آہستگی سے بولی۔
’’اچھا۔۔۔ اچھا ہاں کشمالہ ہوگی‘ بہت تیز مزاج اور ماڈرن لڑکی ہے یونیورسٹی سے ساتھ ہے وہ۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے سر ہلا کر کہا۔
کھانا پکا کر وہ مغرب کی نماز سے فارغ ہوئی تھی کہ ابریز آگیا۔ ہنستا مسکراتا اور انتہائی فریش موڈ کے ساتھ۔ اتنے عرصے میں آج پہلی بار ابریز اتنا مطمئن اور فریش لگ رہا تھا۔ کھڑکی سے تزکیہ نے دیکھا تھا۔ گھنی مونچھوں تلے خوب صورت مسکراہٹ۔ پہلی بار اسے یوں ہنستا دیکھا۔ کتنا اچھا لگ رہا تھا ابریز اور اس کے ساتھ وہ کشمالہ تھی۔ انتہائی ڈیپ گلے کی لوز شرٹ۔ دوپٹے سے بے نیاز جدید اسٹائل کے بالوں میں کاندھے پر شولڈر بیگ لٹکائے وہ کافی ماڈرن لگ رہی تھی۔ عام سی شکل و صورت والی۔ معمولی نقوش والی کشمالہ میں کوئی ایسی بات نہ تھی کہ ابریز جیسا انسان اس کے لیے اتنا پاگل ہورہا تھا۔ تزکیہ نے پلٹ کر خود کو آئینے میں دیکھا لائٹ پرپل ہلکے سے کام والا جدید انداز میں سلا ہوا سوٹ اسی کلر کا جارجٹ کا دوپٹہ ہلکا میک اپ‘ ہاتھوں میں میچنگ نازک سا برسلیٹ لمبے سیاہ بالوں کو میچنگ کیچر میں جکڑے وہ خود بہت پیاری لگ رہی تھی۔ کشمالہ سے لاکھ درجے بہتر۔
’’چھوٹی بی بی صاحب آگئے ہیں آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘ سکینہ کی آواز پر وہ چونکی۔
’’ہاں تم چلو میں آتی ہو۔‘‘ دوپٹہ شانوں پر پھیلاتے ہوئے تزکیہ نے جواب دیا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ تزکیہ پُراعتماد اندازمیں ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ کشمالہ انتہائی بے تکلفی سے کشن گود میں رکھے صوفے پر تقریباً نیم دراز تھی ابریز اس کے بالکل قریب ہی بیٹھا تھا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ کشمالہ نے معنی خیز انداز میں اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا۔ ابریز نے نگاہ غلط اس پر ڈالی۔
’’کشمالہ یہ ہیں میری مما کی بہو تزکیہ۔‘‘ ابریز نے خاصے مضحکہ خیز انداز میں اس کا بے تکا تعارف کروایا۔
’’ہاں جی میں مما کی بہو ہوں مسز تزکیہ ابریز حسین۔‘‘ تزکیہ نے ابریز کی جانب دیکھتے ہوئے نہایت پُراعتماد انداز میں ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے ابریز کی بات کو آگے بڑھایا اور کشمالہ کی جانب مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ کشمالہ ہلکے سے طنزیہ انداز میں ہنسی جب کہ ابریز کے چہرے کے بدلتے رنگ سے اس کی اندرونی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا تھا تزکیہ کا یوں اپنے رشتے کی وضاحت کرنا اسے سلگا گیا تھا۔
’’آپ لوگ باتیں کریں میں ڈنر لگواتی ہوں۔‘‘ اپنے جملے کا ری ایکشن ابریز کے چہرے پر دیکھ کر تزکیہ نے وہاں رکنا مناسب نہ سمجھا اور کھانے کا کہہ کر باہر آگئی۔
’’وائو یار۔۔۔مسز تزکیہ ابریز حسین کیا بھرم دے کر گئی ہیں تمہاری مسز۔‘‘ کشمالہ نے منہ کو ٹیڑھا کرکے مسز پر خاصا زور دیتے ہوئے تیکھے لہجے میں کہتے ہوئے ابریز کو گھور کر دیکھا۔
’’یار پلیز مائینڈ مت کرو۔ مسز تب بنے گی جب میں اسے وہ درجہ حیثیت اور مقام دوں گا۔۔۔ میرے لیے وہ صرف اور صرف میری مما کی پسند اور ان کی بہو ہے۔ آئی سمجھ؟‘‘ ابریز نے کشمالہ کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے وضاحت دی۔
’’تم نہیں کھائو گی؟‘‘ کشمالہ نے اسے واپس پلٹتے دیکھ کر سوال کیا۔
’’جی نہیں۔۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے‘ آپ لوگ کھائیں آرام سے اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو سکینہ کھڑی ہے سامنے‘ میں مما کے پاس ہوں ان کی دوا کا ٹائم ہوگیا ہے۔‘‘ وہ پُراعتماد لہجے میں کہتی ہوئی ایک اچٹتی سی نگاہ ابریز پر ڈال کر آگے بڑھ گئی۔
’’ارے تزکیہ۔۔۔ تم نے کھانا نہیں کھانا؟‘‘ سلمیٰ بیگم نے اس کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھا۔
’’نہیں مما بھوک نہیں ہے شام کو چائے کے ساتھ سموسہ کھا لیا تھا۔ طبیعت پر گرانی سی محسوس ہورہی ہے۔‘‘
’’ارے بھئی۔۔۔ پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔۔ سارا دن کچن میں گھسی کام جو کرتی رہی ہو۔ پہلے ہی کہا تھا کہ تم مت کرو اتنا کام۔ ابریز سے کہو کہ تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔‘‘
’’ارے مما۔۔۔‘‘ آپ تو ایسے ہی پریشان ہوجاتی ہیں کام سے کچھ نہیں ہوتا مجھے‘ اتنا کام کرتی تھی اپنے گھر میں یہاں تو کچھ کام ہی نہیں ہے۔ بس شاید گرمی کی وجہ سے ایسا ہوگیا۔ ابھی ٹھیک ہوجائوں گی۔ آپ کے پاس بیٹھ کر میں فریش ہوجاتی ہوں۔‘‘ سلمیٰ بیگم کے پاس بیٹھتے ہوئے ان کے ہاتھ تھام لیے۔
’’اور خوامخواہ ابریز کو تنگ کیوں کروں مما۔ ایسی طبیعت تھوڑا خراب ہے۔ آرام سے باتیں کرنے دیں ان کو۔‘‘ تزکیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں کافی پرانی دوستی ہے دونوں کی۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے کہا۔
کچھ دیر میں ابریز کشمالہ کو چھوڑنے کے لیے چلا گیا۔ تزکیہ کاموں سے فارغ ہوکر سلمیٰ بیگم کو دوائیں اور دودھ دے کر اپنے کمرے میں آگئی۔ دل بہت برا ہو رہا تھا۔ کشمالہ عام سی شکل وصورت کی لڑکی تھی جس کو ابریز اس پر فوقیت دیتا تھا۔ کتنی آرام سے اور ڈھٹائی سے اس کے ساتھ گھومتا پھرتا اور ٹائم گزارتا تھا۔ مزے کی بات تھی کہ سلمیٰ بیگم کو بھی اندازہ نہ ہوتا تھا۔ عشاء کی نمازسے فارغ ہوکر وہ جائے نماز تہہ کررہی تھی کہ ابریز دندناتا ہوا آگیا۔
___________
’’تم میں کوئی ایٹی کیٹس کوئی طریقہ کوئی مینرز ہیں کہ نہیں۔۔۔ ہمارے ساتھ کھانا نہ کھا کر تم نے اپنی چھوٹی سوچ اور ذہنیت کا ثبوت دے دیا ہے اور بڑا شوق ہے تمہیں مسز ابریز بننے کا۔۔۔ سن لو کان کھول کر۔ تمہاری یہ حسرت حسرت ہی رہے گی کبھی بھی تمہاری حسرت پوری نہیں ہوگی اور نہ ہی میں تمہیں یہ بکواس کرنے کا حق دوں گا آئی سمجھ۔‘‘
’’آپ کون ہوتے ہیں مجھے حق نہ دینے والے مسٹر ابریز حسین۔ یہ حق مجھے اللہ پاک نے دیا ہے۔ رشتہ بنانے والا تو وہ ہے جس سے انکار کرنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتے آپ۔‘‘ پہلی بار تزکیہ نے ہمت کرکے کہہ دیا تھا۔
’’بند کرو بکواس۔۔۔ دعائیں دو مما کو انہوں نے عذاب مسلسل کی طرح میرے سر پر لاد دیا ہے تمہیں۔‘‘
’’یوں کفر نہ بولیں ابریز۔‘‘ اس بار تزکیہ کا لہجہ کانپ گیا تھا۔
’’میرے لیے تم بے کار غیر ضروری غیر اہم اور فالتو شے ہو جسے زبردستی میری زندگی میں شامل کیا گیا۔‘‘
’’اگر اتنی نفرت تھی تو منع کردیتے ناں مما کو۔ کیوں میری زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ مجھے کس بات کی سزا دے رہے ہیں آپ؟‘‘
’’مجبور تھا میں۔۔۔ مما کی زندگی میرے لیے زیادہ اہم تھی‘ مما کی خواہش پر سر جھکایا میں نے میں مما کو وقت سے پہلے نہیں مارنا چاہتا تھا۔ کاش تم۔۔۔ تم اپنی معصوم شکل لے کر ان کے سامنے نہ آتیں تو آج۔۔۔ آج میں بھی اپنی پسند کی زندگی اپنی مرضی سے خوشی سے گزار رہا ہوتا اور تم بھی کہیں کسی کے ساتھ ہوتیں۔ نہ جانے کون سی گھڑی تھی کہ مما کی نظر تم پر پڑی اور زندگی میری جہنم بن گئی۔‘‘ وہ بڑبڑاتا بکتا جھکتا واش روم میں گھس گیا تزکیہ اپنی تذلیل پر چپ چاپ کڑھتی رہی۔
سلمیٰ بیگم کی طبیعت نرم گرم چلتی رہی۔ مگر جب سے شادی ہوئی تھی اتنی شدید طبیعت خراب نہ ہوئی تھی اس شام سلمیٰ بیگم کی طبیعت کچھ ناساز تھی ابریز اور تزکیہ دونوں ہی ان کے روم میں ان کے پاس بیٹھے تھے۔ ابریز سلمیٰ بیگم کے پیر دبا رہا تھا۔ جب کہ تزکیہ ان کے دھلے ہوئے کپڑے تہہ کررہی تھی۔
’’ابریز بیٹا۔۔۔ کاروبار کیسا چل رہا ہے؟‘‘ سلمیٰ بیگم نے پوچھا۔
’’الحمدللہ مما سب بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ ابریز نے جواب دیا۔
’’بس اب ایک ہی خواہش ہے میری۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے دھیرے سے کہا۔
’’جی مما۔‘‘ ابریز ہمہ تن گوش ہوا۔
’’بس پوتا یا پوتی کو اپنی گود میں دیکھ لوں تو مجھے سکون مل جائے گا۔‘‘ تزکیہ کی نظریں بے ساختہ ابریز کی جانب اٹھ گئیں۔
’’ان شاء اللہ مما بس آپ جلدی سے اچھی ہوجائیں آپ یوں لیٹی ہوتی ہیں تو میرا دل کسی کام میں نہیں لگتا۔‘‘ ابریز نے سنبھل کر جلدی سے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی۔ تزکیہ اپنے کمرے میں آگئی۔ دل بہت اداس اور بوجھل ہورہا تھا۔ شادی کو چار ماہ ہوچکے تھے۔ مما بے چاری منتظر تھی کہ ان کے آنگن میں بھی ننھی منھی قلقاریاں گونجیں‘ ان کی گود میں بھی ننھا منا سا مہمان آجائے۔ تزکیہ کے لبوں سے ہلکی سی سسکاری ابھری۔’’مما اللہ پاک آپ کو لمبی زندگی دے لیکن میں تو خود یہاں مہمان ہوں۔ آپ کی زندگی تک میرا رابطہ میرا واسطہ اس گھر سے اور اس گھر کے مکینوں سے ہے۔ آپ کے بیٹے نے کون سا مجھے اپنی بیوی سمجھا ہے۔ کون سا شرعی حق دیا ہے مجھے۔ صرف دو بول ہی تو مجھے اس کی زندگی میں لے آئے۔ میں اس کے لیے غیر ضروری اور ناپسندیدہ ترین ہوں میری کوئی وقعت ہے نا ضرورت۔ میں توصرف اور صرف آپ کے لیے۔ آپ کی وجہ سے یہاں ہوں۔ یہ کیسا بندھن ہے؟ کیسا رشتہ ہے جس میں‘ میں بندھ گئی ہوں۔ نہ چھٹکارا مل سکتا ہے ناں اپنی حیثیت منوا سکتی ہوں۔‘‘ درد حد سے بڑھنے لگا تھا اگر خدانا خواستہ کل کو مما کو کچھ ہوجاتا ہے تو۔۔۔ ط۔۔۔طلاق کا تحفہ لے کر کس منہ سے واپس جائوں گی؟ اباجی اماں کیسے برداشت کر پائیں گے۔۔۔ تقدیس کی شادی کیسے ہوگی؟ طلاق کا جواز کیا بتائوں گی؟ ایک سمجھوتہ ایک مرتی عورت کی خوشی‘ ایک بیٹے کا اپنی ماں کے لیے کیا گیا سودا۔۔۔ بے شمار سوالات ذہن میں کلبلانے لگے۔ دماغ مائوف ہونے لگا۔
’’یا اللہ تجھ سے ہی سکون ہمت اور حوصلے کی بھیک مانگتی ہوں پروردگار مجھے ہمت عطا کر۔‘‘ درد جب حد سے بڑھ جاتا ہے سارے راستے بند اور حالات مخالف نظر آتے ہیں۔ امید کے سارے در بند ہوجاتے ہیں۔ تب خالق کائنات کی ذات ہی یاد آتی ہے اس سے ہی ہمت حوصلے اور صبر کی بھیک مانگی جاتی ہے۔ اسی در سے دعائیں شرف قبولیت پاتی ہیں‘ حوصلوں میں یقین پیدا ہوتا ہے اور ہمتیں لوٹ آتی ہیں تب انسان آگے کی راہ پر چلنے کے قابل ہوتا ہے۔ تزکیہ کا درد بھی جب حد سے سوا ہوجاتا وہ بھی صرف اور صرف اپنے رب سے کرم کی بھیک مانگتی۔
سلمیٰ بیگم کی طبیعت اب اکثر خراب رہنے لگی۔ جب ان کو وومٹ ہوتی تو وہ اتنی تکلیف میں ہوتیں کہ تزکیہ ان کی تکلیف پر تڑپ جاتی۔ اس کی آنکھیں بھیگنے لگتیں۔ اس لمحے ڈاکٹر کو گھر پر ہی بلوایا جاتا۔ تزکیہ مستقل ان کے ساتھ ہی رہتی۔ ذرا سی بھی کراہیت یا گھن محسوس نہ کرتی۔ ان کی صفائی کا بے حد خیال رکھتی۔ اس روز بھی سلمیٰ بیگم کی طبیعت کافی خراب تھی۔ آج ابریز بھی گھر پر تھا تزکیہ نے سلمیٰ بیگم کا منہ دھلوایا‘ ان کے کپڑے چینج کروا کر بالوں میں کنگھا کیا۔
’’تزکیہ بیٹی میرا ایک کام کروگی؟‘‘ تزکیہ سلمیٰ بیگم کے لیے پورج بنا کر لائی تو انہوں نے آہستگی سے پوچھا۔
’’جی مما ضرور آپ بولیں۔‘‘ تزکیہ نے جلدی سے کہا اور ان کو پورج کھلانے لگی۔
’’بیٹی۔۔۔ میرے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کردینا۔ جب تم صبح صبح اپنے کمرے میں پڑھتی ہو تو تمہارے کمرے کے پاس سے آتے جاتے میں نے سنی ہے مجھے تمہاری آواز لہجہ اور انداز بہت اچھا لگتا ہے دل میں اتر جاتی ہے تمہاری آواز۔‘‘
’’جی مما آپ پہلے یہ کھالیں پھر میں پڑھتی ہوں۔‘‘ تزکیہ نے کہا۔
’’تزکیہ ایک بات تو بتائو؟‘‘ انہوں نے بغور تزکیہ کو دیکھتے ہوئے ایک گہری نظر اس پر ڈالی۔
’’تم خوش تو ہونا بیٹی؟‘‘ تزکیہ ان کے سوال پر بری طرح چونکی۔ بے ساختہ نظر ابریز کی جانب اٹھ گئی ابریز بھی تھوڑا سا گڑبڑا گیا۔
’’ارے مما یہ سوال کیوں کیا آپ نے؟‘‘ وہ بے ساختہ ہنس دی۔ وہ ایک لمحے میں خود کو سنبھال چکی تھی گزشتہ چار ماہ کے عرصے میں وہ خود پر کنٹرول کرنا اپنی فیلنگ کو اپنے اندر ہی دبا کر رکھنا۔ اپنا اندر ظاہر نہ کرکے بظاہر نارمل رہنا اچھی طرح سیکھ لیا تھا۔
’’میرا مطلب یہ ہے کہ تمہیں کوئی شکایت کوئی کمی کوتاہی محسوس تو نہیں ہوتی؟‘‘ ایک لمحے کے لیے رک کر سلمیٰ بیگم نے گہری نظریں پہلے ابریز پھر تزکیہ پر ڈالیں۔’’ارے نہیں مما۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ ایسے سوال کیوں کررہی ہیں۔ میں۔۔۔ میں تو بہت خوش ہوں مما کہ آپ میرے ساتھ ہیں اور پھر ابریز میرا اتنا خیال رکھتے ہیں اور آپ۔ آپ تو کتنی پیاری ہیں۔ محبت سے گندھی ہوئی نرم مزاج دھیما لہجہ اور شفیق‘ میں اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے مما اور پتہ ہے میرا بس چلے تو میں‘ بیسٹ ساس آف دی سینچری کا ایوارڈ آپ کو دے دوں۔ آئی لو یو سو مچ مما۔ آپ کے بنا میں کچھ نہیں۔‘‘ آخری جملہ کہتے اس کی آواز بھرا گئی۔
ابریز خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ سلمیٰ بیگم نے اس کو سینے سے لگا کر ماتھا چوم کر ڈھیروں دعائیں دے ڈالیں۔ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر تزکیہ قرآن پاک لے آئی سلمیٰ بیگم کے بیڈ کے پاس کرسی پر بیٹھ کر تلاوت کرنے لگی۔ تزکیہ کی خوب صورت اور خوش الحان آواز صحیح تلفظ کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی کا خوب صورت انداز ماحول میں پُرنور سا سرور طاری ہوگیا۔ سلمیٰ بیگم آنکھیں بند کئے مکمل انہماک کے ساتھ سورہ یسٰین کی تلاوت سن رہی تھیں جب کہ ابریز بھی خاموشی کے ساتھ اس کی جانب متوجہ تھا۔ تزکیہ دنیا سے بے خبر مکمل طور پر سورہ یسٰین کے ایک ایک لفظ کی گہرائی میں گم تھی۔ اس نے تلاوت ختم کی تو سلمیٰ بیگم نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
’’تزکیہ بیٹی مجھ سے ایک وعدہ کرو۔‘‘ قرآن پاک جزدان میں رکھتے ہوئے وہ سلمیٰ بیگم کی آواز پر ان کی جانب دیکھنے لگی۔
’’جی مما۔۔۔ آپ حکم کریں؟‘‘ تزکیہ جلدی سے بولی۔
’’تزکیہ مجھ سے وعدہ کرو کہ مجھے کچھ بھی ہوجانے کے بعد تم روزانہ یہاں پر اسی جگہ بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کروگی۔ میرے بعد میرے کمرے کو ویران مت کرنا۔‘‘
’’مما پلیز۔۔۔ آپ یہ کیسی باتیں کررہی ہیں؟ اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے‘ میں۔۔۔ میں آپ کو ہر روز سنائوں گی۔ آپ کے سامنے بیٹھ کر اور آپ سنیں گی۔ مگر پلیز ایسی باتیں مت کریں۔‘‘ تزکیہ باقاعدہ رونے لگی۔ سلمیٰ بیگم کی آنکھیں بھی بھر آئیں ان کو اپنی طبیعت کا اندازہ تھا۔ ابریز بھی ان کے پاس آگیا اور ان کے ہاتھ تھام کر بولا۔
’’مما ایسا مت کہیں تزکیہ یونہی آپ کو قرآن پاک سنایا کرے گی ویسے بھی وہ آپ کے ساتھ آپ کے پاس ہی تو رہتی ہے ناں۔ تزکیہ چلو اچھی سی چائے بنوا کر لائو ہم یہیں بیٹھ کر چائے پئیں گے مما کے ساتھ۔‘‘ ماحول یک دم سے اداس ہوگیا تو ابریز نے ماحول کو بدلنے کے لیے لہجے کو بشاش بناتے ہوئے تزکیہ کو مخاطب کیا۔
’’جی ابھی لاتی ہوں۔‘‘ تزکیہ آنکھیں پونچھتی ہوئی روم سے باہر چلی گئی۔
’’ابریز سچ کہوں تو مجھے کبھی کبھی دکھ ہوتا ہے کہ بچی کو ہم وہ نہیں دے سکے جو دینا چاہئے تھا۔ جو اس کا حق تھا۔‘‘ سلمیٰ بیگم کی آواز پر ابریز نے گھبرا کر آنکھیں پھیلا کر انہیں دیکھا۔
’’دیکھو تم لوگ نہ کہیں گھومنے پھرنے جاتے ہو نہ ہنی مون پر جاسکے۔ جب سے آئی ہے بس میرے ساتھ ہی مصروف ہوکر رہ گئی ہے۔ نہ کوئی فرمائش نہ گلہ نہ ہی کبھی اس کے چہرے پر تھکن یا بیزاری نظر آتی ہے۔ میری وجہ سے وہ تو میکے بھی نہیں جاتی۔ ابریز تم۔۔۔ تم بہت خوش نصیب ہو کہ تمہیں تزکیہ جیسی بیوی ملی اور میں بہت لکی ہوں کہ مجھے تزکیہ جیسی بہو ملی۔ آج کے دور میں ایسی بچیاں کہاں ملتی ہیں؟ بیٹا ہمیشہ اس ہیرے کی قدر کرنا‘ کوشش کرنا کہ اسے کوئی دکھ نہ دو اس کے ساتھ۔‘‘
’’بس مما۔۔۔ آپ کا سانس پھولنے لگا ہے۔‘‘ ابریز نے ان کو جذب کے عالم میں دیکھا تو جلدی سے ان کو ٹوک دیا۔
’’بہت خوش ہے مما وہ اور اگر آپ کی خدمت کرتی ہے تو بقول آپ کے اس کی نیچر میں ہے اور اللہ پاک اس کو اس کی جزا دے گا۔ آپ بس دعا دیتی رہیے گا اور زیادہ سوچا مت کریں اس نے آپ سے کہا ہے ناں کہ وہ خوش ہے۔‘‘ ابریز حسن کا آخری جملہ باہر سے آتی ہوئی تزکیہ نے بھی سن لیا۔’’ہاں ابریز حسن بہت خوش ہوں میں۔‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی۔
کچھ دن اور آگے گزرے۔ اس دن سلمیٰ بیگم کی طبیعت قدرے بہتر تھی تزکیہ ان کو لے کر لان میں آگئی تھی۔ وہ چائے پی رہے تھے کہ ابریز بھی آگیا۔
’’السلام علیکم مما۔ ماشاء اللہ آج تو کافی فریش لگ رہی ہیں آپ؟‘‘ وہ سلمیٰ بیگم کو دیکھ کر خوشگوار لہجے میں کہتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا۔ تزکیہ اس کے لیے بھی چائے نکالنے لگی۔
’’وعلیکم السلام۔ الحمدللہ صبح سے کافی فریش محسوس کررہی ہوں۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ابریز تم سے ایک بات کہنے کا سوچ رہی تھی۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے چائے کا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’جی مما بولیے۔‘‘ ابریز نے چائے کا سپ لے کر ان کو غور سے دیکھا۔
’’میں۔۔۔ میں سوچ رہی تھی کہ تزکیہ کو ڈاکٹر روحانہ کے کلینک لے کر چلی جائوں۔‘‘
’’مگر کیوں مما‘ کیا ہوا ہے تمہیں تزکیہ؟‘‘ ابریز نے حیرت سے پہلے سلمیٰ بیگم کو پھر تزکیہ کو دیکھا۔
تزکیہ بھی حیرانی سے سلمیٰ بیگم کو دیکھ رہی تھی وہ سمجھ نہ پائی تھی کہ سلمیٰ بیگم کو یہ کیا ہوا ہے اور انہوں نے ایسا کیوں کہا۔
’’دراصل بیٹا۔۔۔ تمہاری شادی کو آٹھ ماہ ہوچکے ہیں اور میں منتظر ہوں کہ کب دادی بننے کی نوید سنوں تو اس لیے۔‘‘
’’ارے مما۔۔۔!‘‘ ابریز سٹپٹا گیا‘ تزکیہ کے چہرے کا رنگ بھی اڑنے لگا اس نے بے ساختہ ابریز کی جانب دیکھا۔
’’یہ اللہ پاک کی مرضی ہے مما‘ آپ فکر کیوں کرتی ہیں۔‘‘ ابریز گڑابڑا کر جلدی سے بولا۔
’’افوہ۔۔۔‘‘ یہ مما کو کیا سوجھی وہ یک دم پریشان ہوگیا۔ تزکیہ سے وہاں بیٹھا نہ گیا مبادا سلمیٰ بیگم اس کے چہرے سے کوئی اندازہ لگالیں ابریز کے لیے سلمیٰ بیگم کی بات کافی پریشان کن تھی۔
اس روز سلمیٰ بیگم کو ضرورت کی کچھ چیزیں منگوانی تھیں تزکیہ خود ہی بازار کے لیے نکل گئی۔ سلمیٰ بیگم نے کہا تھا کہ ابریز کو کال کرکے بول دو وہ آفس سے آتے ہوئے لے آئے گا مگر ابریز نے کال اٹینڈ نہیں کی فون مسلسل بزی جارہا تھا۔ اس لیے تزکیہ خود ہی نکل آئی۔ سپر اسٹور سے مطلوبہ چیزیں لے کر تزکیہ جیسے ہی پلٹی سیڑھیاں اترتے اترتے دفعتاً تزکیہ کی نظر سامنے اٹھی۔