بدنصیبی۔۔۔ بدنصیبی تو میری ہے ابریز۔۔۔ کہ میں تمہارا مقدر ٹھہری۔‘‘ دل میں اٹھتی آواز کو دباتے ہوئے وہ اٹھ کر الماری سے سادہ سوٹ نکالنے لگی۔
’’یا اللہ! کس طرح رہ پائوں گی یہاں؟‘‘ واش روم میں آکر وہ دوبارہ سے سسک پڑی۔ اسے یہ بات بھی سخت تکلیف دے رہی تھی کہ سلمیٰ بیگم کو موذی مرض ہے اور وہ کچھ دنوں کی مہمان ہیں۔ مما آپ میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ آپ کو اللہ کی طرف سے بیماری ملی آپ جانے والی ہیں اور میں بھی کچھ دنوں کی مہمان ہوں۔ آپ کو جسمانی مرض ہے اور میرے روح کے اندر کینسر سرائیت کر گیا ہے۔ میرے روم روم میں ذلت اور تحقیر کا ناسور پھیل گیا ہے۔ زہریلے الفاظ کے زہریلے نشتر لاعلاج کینسر کی شکل میں میری رگ رگ میں اتار دیئے گئے ہیں۔ میرا مرض تو لاعلاج ہے نہ کوئی طبیب ہے نہ کوئی حکیم۔ جو میری بے وقعتی کو میری پل پل کچلتی انا کو میرے روح کے شگافوں کو شفا دے سکے۔ کہاں سے لائوں گی اتنی ہمت۔ کیسے برداشت کروں گی یہ سب؟ یااللہ مجھے ہمت دے۔ مجھے حوصلہ اور برداشت دے میرے مالک کہ ایک مرتی ہوئی ماں کے سامنے اس کے بیٹے کا بھرم رکھ سکوں۔ مجھے ان حالات میں رہ کر جینے کا حوصلہ دے میرے مالک‘ آمین۔‘‘
’’ابریز حسن۔۔۔ تم بھی دیکھنا کہ میں کس طرح جی کر دکھاتی ہوں۔۔۔ ایک مرتی ہوئی ماں کے لیے کس طرح ڈبل فیس زندگی گزارتی ہوں؟ میں آپ کو ثابت قدم رہ کر دکھائوں گی۔ میں یہ ثابت کردوں گی کہ میں واقعی نیک اور شریف ماں باپ کی اولاد ہوں۔ میں آپ کو سچ مچ یہ دکھادوں گی کہ میری تربیت میں کہیں بھی کوئی کمی نہیں۔‘‘ بے تحاشہ بہنے والے آنسوئوں کو پانی کے ساتھ بہاتے بہاتے تزکیہ نے ہمت اور حوصلے کا فیصلہ کیا اور بڑے عزم کے ساتھ
خود کو آنے والے حالات کے لیے تیار کرلیا۔
تزکیہ واش روم سے باہر آئی تو ابریز منہ تک چادر تان کر سویا تھا یا نہیں کچھ اندازہ نہ ہوا۔ تزکیہ نے سارا زیور اٹھا کر الماری میں رکھا۔ ابریز کا دیا ہوا گنگن دائیں ہاتھ میں ڈالا۔ نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ تکیہ اٹھا کر صوفے پر آبیٹھی۔
’’آپا یار ابریز بھائی کے دوست بھی ان کی طرح بڑے ڈیشنگ ہیں ان سے کہہ کر کہیں میرا بھی معاملہ حل کروا دینا۔‘‘ یہ سرگوشی تقدیس کی تھی۔ اس کے لبوں پر زخمی مسکراہٹ آگئی۔
’’تقدیس میری جان۔۔۔ تیری بہنا ہی یہاں ان فٹ ہے۔ بھلا تجھے کہاں فٹ کروائے گی۔۔۔‘‘ تب ہی ابریز کا سیل فون بجنے لگا تزکیہ خیالات سے چونکی رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔ کس کی کال ہوگی؟ ابریز نے لپک کر سیل اٹھایا۔
’’جی جانو۔۔۔ بولو۔‘‘ تزکیہ سمجھ گئی کہ رات کے اس پہر کون ہوسکتا ہے۔
’’تم پاگل تو نہیں ہوگئیں؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے میں مر کر بھی تمہاری جگہ کسی کو نہیں دے سکتا۔۔۔ تمہیں تو سب کچھ پتہ ہے ناں یار اوکے۔۔۔ چلو تمہاری تسلی کے لیے ہم باتیں کرلیتے ہیں۔ آئی لو یو۔۔۔ آئی لو یو سو مچ۔۔۔‘‘ کتنی ڈھٹائی سے وہ کسی غیر لڑکی سے عشقیہ باتیں کررہا تھا۔ اسے اپنی چاہتوں کا یقین دلا رہا تھا۔ وعدے کیے جارہے تھے عامیانہ اور چھچھوری باتیں۔ صرف اور صرف کشمالہ کو اس بات کا ثبوت دے رہا تھا کہ آج کی اتنی اہم اور خوب صورت رات کو وہ تزکیہ کو اگنور کرکے کشمالہ کے ساتھ ہے۔ فجر کے وقت ابریز نے کال بند کی۔ تزکیہ کے تن بدن میں سنساہٹ سی اتر گئی۔ ساری رات تزکیہ نے بھی جاگ کر کانٹوں پر گزاری تھی۔ شادی کی پہلی رات تزکیہ نے اپنے شوہر کی وہ عاشقانہ گفتگو سنی جو اس نے اپنی محبوبہ سے کی۔ فجر کی اذانوں کے ساتھ ابریز نے کروٹ بدلی اور گہری نیند سوگیا۔ ساری رات ایک ایک پل تزکیہ نے اذیت میں گزاری تھی۔ ابریز کا ایک ایک لفظ کشمالہ سے میٹھے انداز میں کی جانے والی باتیں اس کے قہقہے اس کی حرکتیں کتنی اذیت ناک تھیں۔ کتنی تکلیف دہ تھی اس لڑکی کے لیے جو دل میں بے شمار خوب صورت جذبات وخیالات لے کر آئی تھی۔ جس کے دل میں اس رات کو لے کر میٹھے جذبے تھے۔ ارمان تھے خواہشات تھیں سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ گزشتہ رات تزکیہ کے لیے گویا قیامت کی رات تھی اور شاید آج کے بعد زندگی میں آنے والی ہر رات میں یہی عذاب یہی کرب اور یہی اذیت اس کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی۔ گویا کہ ہر رات اس کے لیے قیامت سے کم نہ ہوگی۔ ابریز گہری نیند میں تھا۔ تزکیہ نے اٹھ کر شاور لیا۔ سی گرین لائٹ کام والا سوٹ پہن کر بالوں کو سلجھایا لمبے بالوں کو کھلا چھوڑکر الماری سے نماز کا دوپٹہ اور جائے نماز نکالی۔ جائے نماز بچھاتے ہوئے بے دھیانی میں سوتے ہوئے ابریز کی جانب نگاہ اٹھائی کتنا پُرسکون مطمئن تھا وہ ٹھنڈی سانس لے کر جائے نماز بچھائی اور فجر کی نماز کے لیے کھڑی ہوگئی۔ نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے تو ڈھیر سارے آنسو آنکھوں میں چلے آئے۔
’’یا اللہ پاک مجھے ہمت دے حوصلہ دے۔ میں ثابت قدمی سے اس امتحان میں پوری اتر سکوں۔ میں صرف ایک مرتی ہوئی عورت کی ضرورت ہوں۔ مجھے اتنا حوصلہ دے کہ میں مما کے معیار پر پوری اتر سکوں۔ میری ذات سے ان کو کوئی دکھ کوئی تکلیف نہ ہو۔ آنسو متواتر آنکھوں سے بہتے رہے اور وہ دعائیں مانگتی رہی۔ نماز سے فارغ ہوکر بالوں کو سمیٹ کر کیچر میں جکڑا۔ رات بھر جاگنے اور مسلسل رونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ اور متورم ہورہی تھیں۔ نیند کا خمار بھی چھایا ہوا تھا۔ جائے نماز تہہ کرکے شیلف پر رکھی اور صوفے پر آکر لیٹی تو تھوڑی دیر میں نیند کی دیوی مہربان ہوگئی۔
دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ سامنے ابریز کھڑا بالوں میں برش کررہا تھا۔ ابھی ابھی باتھ لے کر آیا تھا۔ لائٹ گرے کرتے اور وائٹ شلوار میں نکھرا نکھرا بہت فریش لگ رہا تھا۔
’’محترمہ اگر نیند پوری ہوگئی تو اٹھ جائیں۔ مما نے بلوایا ہوگا۔‘‘ طنز یہ لہجے میں کہا تو تزکیہ جھینپ گئی۔
ناشتے پر سلمیٰ بیگم ڈھیروں لوازمات سجائے منتظر بیٹھی تھیں۔
’’السلام علیکم مما۔‘‘ تزکیہ نے قریب جاکر جھک کر انہیں سلام کیا۔
’’جیتی رہو جیتی رہو۔۔۔ شاد آباد رہو‘ اللہ پاک تمہیں بہت ساری خوشیاں نصیب کرے‘ سدا سہاگن رہو۔‘‘ سینے سے لگا کر محبت بھرے لہجے میں ڈھیروں دعائیں دیں ان کی محبت پر تزکیہ کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔
’’ارے مما۔۔۔ ایسی بھی کیا بے رخی بہو کو دیکھ کر بیٹے کو بھول گئیں ہمیں بھی کچھ دعائیں ملیں گی یا نہیں؟‘‘ ابریز نے شرارتی لہجے میں کہا تو سلمیٰ بیگم نے اس جھکے سر کو چوما اور ہنس دیں۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو سیرت اور تقدیس تزکیہ کو لینے آگئے۔
’’کیسی ہو تزکیہ؟ گھر اور ابریز کو دیکھ کر اس سے مل کر کیسا لگا؟‘‘ موقع دیکھ کر سیرت نے تزکیہ کو کریدا۔
’’بہت اچھا۔۔۔ بہت اچھے ہیں ابریز۔‘‘ تزکیہ نے دھیرے سے جواب دیا۔
’’شکر الحمدللہ! تم خوامخواہ ابریز کو لے کر ٹینشن کا شکار تھیں آپا۔۔۔‘‘ تقدیس نے بھی مطمئن انداز میں کہا۔
’’ہاں۔۔۔ بہت کیرنگ ہیں‘ بہت سوفٹ نیچر ہے ابریز کی‘ سوبر اور سینس ایبل۔‘‘ اپنے جھوٹ کو جاری رکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے مزید کامیاب ایکٹنگ کی‘ وہ خود بھی حیران تھی اتنی صفائی سے جھوٹ بولنا اس کی تربیت میں شامل تو نہ تھا۔ مگر حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے تھے کہ جہاں قدم قدم پر اسے اپنی انا کو مار کر اپنے مزاج اور تربیت کے خلاف جھوٹ بولنا تھا ڈرامے کرنے تھے۔ قول و فعل میں تضاد کے ساتھ زندگی گزارنی تھی تزکیہ کچھ گھنٹوں کے لیے میکے آگئی۔ آج دعوت ولیمہ تھی اور اسے جلدی واپس سسرال جانا تھا۔
دعوت ولیمے کا اہتمام شاندار ہال میں کیا گیا تھا۔ جب وہ ابریز کے ساتھ لائٹوں کی تیز روشنی میں ہال میں داخل ہوئی ابریز نے ہدایت کے مطابق اس کا نرم ونازک ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھاما تو اس کا ہاتھ کانپ گیا۔ ابریز کے ہاتھوں کا لمس اس کے وجود سے اٹھتی ہوئی Havoc کی دل فریب اور مسحور کن خوشبو سے تزکیہ کا نازک سا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔
’’کاش یہ لمحے یونہی امر ہوجائیں اسی طرح ابریز اس کا ہاتھ تھامے ساری زندگی چلتا رہے۔۔۔ کبھی نہ ختم ہونے والا یہ سفر یونہی جاری رہے۔‘‘
’’بھابی پلیز اسمائیل۔‘‘ فوٹو گرافر کی آواز پر تزکیہ خیالات سے چونکی اور گڑبڑا کر سامنے دیکھنے لگی۔
’’یار بھابی پر تم نے تو جادو کردیا تم سے نظر ہی نہیں ہٹ رہی ان کی۔‘‘ کسی دوست کی آواز پر ابریز نے زور دار قہقہہ لگایا۔
’’ارے نہیں یار۔۔۔ میں نے کہاں جادو تو انہوں نے ہم پر کردیا ہے۔ ہم پر تو کیا۔۔۔ ہماری مما پر بھی۔‘‘ آخری جملہ سرگوشی کے انداز میں کانوں میں کہا۔
’’اوئے بس کر دے یار۔۔۔ اور یہاں دھیان دے۔‘‘ مووی میکر جو کہ دوست بھی تھا شوخ آواز میں بولا تو سب کا قہقہہ ابھرا۔ تزکیہ بری طرح جھینپ گئی ابریز مسکرا دیا۔
رات کو ایک بار پھر وہ اسی گھٹے ہوئے کوفت زدہ ماحول میں اسی اذیت ناک مرحلوں سے گزرنے کے لیے اسی دشمن جاں کے ساتھ خواب گاہ میں تھی۔ اس ماحول میں سانس لینا بھی مشکل لگتا۔ ایک ایک لمحہ صدیوں کی صورت میں گزرتا۔
ایک دو تین دن گزرے حالات معمول پر آئے تو تزکیہ نے گھر کا جائزہ لیا۔ بڑے سے رقبے پر بنا ہوا جدید طرز کا یہ گھر جس کے بڑے آہنی گیٹ سے داخل ہونے پر درمیان میں راہ داری تھی سرخ فرش والی چوڑی راہ داری کے دونوں سمت لان تھے ایک جانب پیڑوں کے ساتھ بینچز بنے تھے دوسری جانب پلاسٹک کی کرسیوں اور میز کو گارڈن میں سیٹ کیا ہوا تھا۔ دیوار کے ساتھ ساتھ کیاریوں میں عشق بیچاں موتیا اور رات کی رانی کی بیلیں تھیں جن سے دیواریں بھی چھپ گئی تھیں۔ راہ داری سے گزر کر گھر کے اندرونی حصے میں داخل ہونے کے لیے خوب صورت لکڑی کے کام سے مزین بڑا سا دروازہ تھا جو لائونج میں کھلتا تھا۔ لائونج میں داخل ہوتے ہی سیدھی جانب بڑا سا ڈرائنگ روم جس کی نفاست اور قمتی شو پیسز کو دیکھ کر تزکیہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ آگے دونوں جانب بیڈ رومز بنے تھے۔ ایک سلمیٰ بیگم کا ایک ابریز کا۔ اور دو ایکسٹرا تھے۔ جب کہ نوکروں کے لیے مزید آگے چل کر گھر کے پچھلے حصے میں کمرے بنوائے گئے تھے۔ بڑا سا کچن جس میں ضرورت کے علاوہ غیر ضروری اشیاء بھی موجود تھیں۔ بوڑھی ملازمہ حاجرہ کے علاوہ چھوٹے موٹے کاموں کے لیے بھی نوکر موجود تھے گو کہ سلمیٰ بیگم بیڈ پر نہ تھیں بظاہر اتنی بیمار بھی نہ لگتیں مگر کبھی اچانک سے طبیعت بگڑ جاتی ان کے لیے پرہیزی کھانا پکتا جو سکینہ پکاتی تھی۔
___________
وہ اس روز ناشتے سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں گئیں دوا لے کر لیٹیں تو ان کی بھی آنکھ لگ گئی۔ تزکیہ نے ان کے کمرے کی تھوڑی بہت صفائی کی چیزوں کو ترتیب دے کر کچن میں آگئی۔ گھر مکمل طور پر نوکروں کے حوالے تھا۔ ظاہر ہے وہ سب کچھ تو نہیں ہوتا جو ایک خاتون خانہ اپنی مرضی اور پسند کے مطابق کرتی ہے تزکیہ کو کچن میں کوئی خاص صفائی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ برتنوں کی الماری بھی بے ترتیب تھی۔ مصالحوں کے ڈبے گندے ہورہے تھے مائیکروویو اندر سے گندا ہورہا تھا۔ تزکیہ نے سکینہ کو بلوا کر پہلے کچن کی صفائی کرنے کے لیے کہا اور خود بھی ساتھ لگ گئی۔
’’ارے بی بی آپ بس حکم کریں بڑی بی بی کو پتہ چل گیا تو غصہ کریں گی۔‘‘ سکینہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔
’’ارے نہیں مما کو خبر بھی نہیں ہوگی اور ہاں آج مما کے لیے سوپ اور دلیہ بھی میں ہی بنائوں گی۔‘‘ تزکیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا بی بی آپ کی مرضی۔‘‘ سکینہ کو تزکیہ بہت اچھی لگتی تھی اتنی نرم اور سوفٹ انداز میں بات کرتی کہ بات دل میں اتر جاتی تھی۔ بات مکمل کرکے تزکیہ جیسے ہی پلٹی پیچھے سلمیٰ بیگم کھڑی تھیں۔
’’ارے مما آپ؟‘‘ تزکیہ نے گڑبڑا کر کہا اور خوامخواہ ہی شرمندہ ہونے لگی۔ سلمیٰ بیگم مسکرائیں۔
’’میرے کمرے میں آئو تزکیہ۔‘‘ کہہ کر وہ واپس مڑ گئیں۔
’’کہیں مما کو غصہ تو نہیں آگیا؟‘‘ وہ دل میں خدشہ لیے دوسرے لمحے ہی ان کے کمرے میں موجود تھی۔
’’بیٹھو یہاں۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے بیڈ کی طرف اشارہ کرکے کہا تو وہ پاس آبیٹھی۔
’’جی مما؟‘‘ تزکیہ نے سوالیہ نظروں سے سلمیٰ بیگم کی جانب دیکھا۔
’’بیٹی۔۔۔ میں تمہیں گھر کے کاموں کے لیے نہیں بلکہ اپنی بیٹی بنا کر یہاں لائی ہوں اس گھر پر راج کرنے کے لیے لے کر آئی ہوں اور تم نے چند دن بعد ہی گھریلو کام کاج میں حصہ لینا شروع کردیا۔ یہ نوکر کس لیے ہیں؟‘‘ سلمیٰ بیگم نے اس کو دیکھتے ہوئے شفیق لہجے میں کہا۔
’’جی مما۔۔۔ میں جانتی ہوں لیکن میں کیا کروں مجھے تو عادت ہے ناں گھر کے کام کرنے کی۔ اگر کام نہ کروں تو بے چینی ہونے لگتی ہے۔ ایک ہفتے میں میں خود کو سست محسوس کرنے لگی ہوں۔ مجھے اچھا لگے گا مما کہ گھر کے چھوٹے موٹے کام میں خود کروں آپ کے چھوٹے چھوٹے کام کرکے مجھے خوشی محسوس ہوگی مما۔ جیسے میں اماں ابا کے کام کرتی تھی۔‘‘ تزکیہ نے معصوم لہجے میں کہا اور سلمیٰ بیگم کا دل بھر آیا۔
’’چلو بھئی جیسے تمہاری مرضی۔ جو تم کو اچھا لگے اب یہ گھر بھی تمہارا ہے اور گھر والے بھی۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے اس کی پیشانی چوم کر محبت بھرے لہجے میں کہا تو تزکیہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔’’گھر والے۔۔۔ گھر والے کہاں مما۔ صرف آپ ہیں۔ میری اور وہ بھی چند دن کی مہمان۔ اور میں بھی۔۔۔ میں بھی آپ کی زندگی تک ہوں۔ پھر نہ یہ گھر میرا رہے گا اور نہ گھر والے۔‘‘ اس کا دل بھر آیا تھا۔
’’جی مما اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے آپ ہیں تو سب کچھ ہے۔‘‘ تزکیہ نے لہجے کو نارمل بناتے ہوئے مسکرا کر کہا تو سلمیٰ بیگم بھی زیرلب مسکرا دیں۔ پھیکی اور بے جان مسکراہٹ۔
ابریز نے اسے حق زوجیت دیا بھی نہیں بظاہر وہ ابریز کی بیوی تھی جس کو دنیا کے سامنے وہ تفریح بھی کرواتا۔ محبت بھری باتیں بھی کرتا۔ خیال بھی رکھتا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کرتا اور جب اپنے کمرے میں ہوتا تو بالکل مختلف اکھڑ بدتمیز بدمزاج اور سنگ دل ابریز بن جاتا۔ جس کی آنکھوں میں صرف اور صرف نفرت ہوتی۔ جس کے چہرے پر تفافر ہوتا۔ اکھڑپن اور حاکمیت ہوتی۔ جس کی باتوں میں طنز اور بدتمیزی ہوتی ایک ایک لفظ میں زہر ہوتا اور تزکیہ چپ چاپ اس کا ہر ظلم ہر زیادتی برداشت کرتی۔ اپنا نصیب سمجھ کر سر جھکا کر صرف اور صرف اپنے رب کے آگے جی بھر کے اپنے دکھ بیان کرتی اس سے ہی ہمت اور برداشت کی بھیک مانگتی۔
تزکیہ خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی جیسے تیسے اسی ماحول میں اور ان حالات میں جینا تو تھا۔ وہ سلمیٰ بیگم کو جوس پلا رہی تھی کہ ابریز آفس سے آگیا۔
’’السلام علیکم مما! کیسی ہیں آپ؟‘‘ حسب معمول سیدھا سلمیٰ بیگم کے کمرے میں ہی آیا۔
’’الحمدللہ بیٹا۔۔۔ تزکیہ کے آجانے سے میرے اندر جیسے توانائی اتر آئی ہے۔ میرے گھر میں اجالا کردیا ہے اس نے تو‘ ہر وقت میرے پاس‘ میرے ساتھ رہتی ہے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ ہم بہت خوش نصیب ہیں بیٹا کہ ہمارے گھر تزکیہ جیسی بچی آئی ہے۔ اللہ پاک تمہاری جوڑی سلامت رکھے شاد آباد رہو‘ آمین۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے سچے دل سے تعریف کرکے دعائیں بھی دے ڈالیں۔
’’اجالا کیسا اجالا۔۔۔ مجھ سے پوچھو کہ تمہارے آنے سے میری زندگی میں تو تاریکی پھیل گئی ہے۔ ہر ہر پل اذیت ناک ہے میرے لیے۔ اور خدا نہ کرے کہ میری جوڑی تمہارے ساتھ بنی رہے کیونکہ میرے لیے تو صرف اور صرف کشمالہ ہی میری زندگی ہے۔ چاہے مما کو جتنی پٹیاں پڑھا دو۔ ان پر اپنی فرماں برداری اور خدمتوں کے جادو چلائو۔ تم صرف ان کو ہی بے وقوف بنا سکتی ہو۔ میرے دل میں تمہارے لیے کبھی بھی محبت یا پیار نہ ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔‘‘
تزکیہ چائے لے کر کمرے میں آئی تو آتے ہی ابریز نے زہرخندہ جملے اس کی جانب اچھالے اور ہاتھ سے چائے کی پیالی لے کر زور سے ٹیبل پر رکھی۔ تزکیہ ان سنی کرکے پلٹ کر الماری سے کچھ نکالنے لگی۔ وہ الماری بند کرکے واپس پلٹی تب تک ابریز گرم گرم چائے حلق سے اتار چکا تھا۔ تزکیہ نے ہاتھ آگے بڑھایا چھبتی ہوئی نظر تزکیہ پر ڈالی اس کے ہاتھ سے کپڑے لیے اور واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
’’تزکیہ بیٹی۔۔۔ کافی دن ہوئے تم اپنی اماں کی طرف نہیں گئیں دو تین دن کے لیے چلی جائو۔‘‘ رات کے کھانے پر سلمیٰ بیگم نے پلیٹ میں سالن نکالتی تزکیہ کو مخاطب کیا۔
’’نہیں مما اس کی کیا ضرورت ہے اور بات تو ہوجاتی ہے میری۔‘‘ پلیٹ سلمیٰ بیگم کے سامنے رکھتے ہوئے تزکیہ نے سپاٹ لہجے میں کہا’بیٹی سارا دن گھر میں رہتی ہو‘ کاموں میں الجھی رہتی ہو ذرا باہر بھی جایا کرو۔ تم تو کہیں بھی نہیں جاتیں لڑکیاں تو شاپنگ کی دیوانی ہوتی ہیں۔ تم کیسی لڑکی ہو؟‘‘ سلمیٰ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جی مما پوچھ لیں اپنی بہو سے کب سے کہہ رہا ہوں کہ شام کو کہیں آئوٹنگ پر چلتے ہیں۔ مووی دیکھیں گے شاپنگ کریں گے مگر۔۔۔ مگر آپ کی لاڈلی صاف انکار کردیتی ہے۔‘‘ ابریز کے سفید جھوٹ پر تزکیہ نے آنکھیں پھاڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
’’دیکھیں مما۔۔۔ اب مجھے گھور کر بھی دیکھ رہی ہے کہ میں نے آپ سے شکایت کردی۔ میری بات نہیں مانے گی تو آپ سے ہی بولوں گا ناں۔‘‘ انتہائی معصومیت سے سلمیٰ بیگم کی طرف دیکھ کر ہنسا۔ تزکیہ اس کی ایکٹنگ پر ششدر رہ گئی۔
’’چپ کرو ابریز۔۔۔ تنگ مت کرو میری بچی کو۔ ذرا سی بات پر پریشان ہوجاتی ہے یہ۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے اس کو دیکھ کر ابریز کی سرزنش کی۔
’’مما۔۔۔ آپ کو تو ہمیشہ اس کا ہی خیال رہتا ہے۔ بڑی جادو گرنی ہے یہ لڑکی اس نے آکر سچ مچ آپ پر جادو کردیا ہے۔‘‘ بظاہر ہنستے ہوئے بہت گہری بات کہہ گیا تھا۔ تزکیہ چپ تھی۔
’’نہ بھئی نہ یہ تو بہت پیاری بچی ہے۔ بس کل شام کو تم آفس سے آکر اسے پہلے آئوٹنگ پر لے جانا پھر شاپنگ اور آخر میں ڈنر کرکے گھر آنا۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’اوکے باس۔‘‘ ابریز سینے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا جھکا اور شگفتہ انداز میں کہا تو تزکیہ نے مسکرانے اور شرمانے کی کامیاب ایکٹنگ کی۔
٭٭٭۔۔۔٭٭٭
تزکیہ نے خود کو ماحول میں ڈھال لیا تھا۔ دن بھر سلمیٰ بیگم کے آمنے سامنے رہتی۔ صبح نماز کے وقت وہ جاگتی۔ بظاہر اس کے پاس اس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی آج تک درمیان میں صدیوں کا فاصلہ تھا۔ بند دروازے کے پیچھے اسے جس اذیت سے رات بھر گزرنا پڑتا وہ تزکیہ ہی جانتی تھی۔ ابریز تو لیٹتے ہی کشمالہ سے کال پر محو گفتگو ہوتا۔ کبھی کبھی جب تزکیہ کی برداشت دم توڑنے لگتی تو وہ صوفے سے اٹھ کر ملحقہ کمرے میں آجاتی۔ بے شمار آنسو اس کے گالوں کو بھگونے لگتے۔ ایک بیوی کے لیے اس سے زیادہ اذیت کیا ہوگی کہ اس کا شوہر اسے قطعی نظر انداز کرکے رات بھر اپنی محبوبہ سے عشقیہ باتیں کرے فحش اور بے باک جملوں کا تبادلہ ہو۔ وہ صبح پہلی اذان کے ساتھ ہی اٹھ جاتی۔ نماز پڑھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتی سات بجے کے بعد روم سے باہر آجاتی۔ ٹھیک آٹھ بجے سلمیٰ بیگم کی دوا کا ٹائم ہوتا۔ سات بجے وہ سکینہ کے ساتھ مل کر مما کے لیے ہلکا سا ناشتہ تیار کرتی ان کو ناشتہ کروا کر دوا کھلاتی۔ دودھ کا گلاس دیتی تب تک ابریز بھی اٹھ کر تیار ہوکر باہر آجاتا۔ سلمیٰ بیگم کی موجودگی میں زبردستی دل نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ابریز کے ساتھ تھوڑا سا ناشتہ کرلیتی۔ ابریز ناشتہ کرکے آفس چلا جاتا اور تزکیہ چھوٹے موٹے کاموں میں سکینہ اور ہاجرہ کا ساتھ دینے لگتی۔