جی جی بھابی ضرور آئیں گے۔‘‘ الیاس صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’حیرت ہوتی ہے الیاس احمد۔۔۔ سگے بھائی ہوکر بھی رشتے ایسے پردوں میں چھپا کر طے کئے جاتے ہیںکہ جیسے ان کو خطرہ لاحق ہو کہ کہیں ہم ان کے بیٹوں کو جھپٹ نہ لیں بتائو دعوت بھی بالکل غیروں کی طرح دی ہے۔ ہیں ہی کتنے لوگ۔ خاندان اتنا مختصر ہے۔‘‘
’’مگر سارا کھیل پیسوں کا ہے ناظمہ بیگم‘ پیسہ ہی ہے جو رشتوں کا احترام اور تقدس بھی بھلا دیتا ہے اور جہاں پیسے کو اہمیت دی جائے وہاں رشتے بھی بے معنی اور ناپائیدار اور کھوکھلے ہوجاتے ہیں برائے نام صرف مجبوری کیوں‘ یہ رشتے تو اللہ پاک بناتا ہے۔ اب یہ انسان ہی ہے جو رشتوں میں بھی دراڑیں ڈال دیتا ہے۔ خون سے زیادہ اہمیت اپنے اسٹیٹس کو دیتا ہے۔ اور ہمارے بہن بھائی دونوں ہی دولت کے مارے ہوئے اندھے لوگ ہیں۔‘‘ اس بار الیاس صاحب کا لہجہ دکھی ہونے کے ساتھ ساتھ کڑوا بھی تھا۔
’’سچ پوچھیں اماں تو میرادل بالکل نہیں چاہتا تایا ابا اور پھوپو کے گھر کی تقریب میں شرکت کرنے کا۔‘‘ تزکیہ نے منہ بنا کرکہا۔
’’نہیں بیٹا۔۔۔ بری بات ہوگی ہمارے نہ جانے سے لوگ غلط مطلب لیں گے۔‘‘ ناظمہ بیگم نے تزکیہ کو دیکھ کر نرم لہجہ میں کہا۔
’’ویسے ابا جی سچ میں مجھے تو لگتا ہے فخر بھائی اور اشعر بھائی کی گردنوں میں لوہے کی راڈیں فٹ ہیں۔ سر اٹھاکر دیکھتے بھی ہیں تو لگتا ہے کہ گردن میں تکلیف ہوگئی ہے اس قدر شاہانہ اور تفاخرانہ اندازہوتا ہے کہ دل کرتا ہے پکڑ کر گردن سے راڈ نکال کر سمندر میں پھینک دوں۔‘‘ تقدیس نے بے ساختگی سے کہا تو سب کو ہنسی آگئی۔
’’ارے بھئی ہمیں کون سا وہاں جاکر رہنا ہے بس رسماً شریک ہوں گے تھوڑی دیر کے لیے۔‘‘ الیاس صاحب نے کہا تو ناظمہ بیگم سمیت تینوں نے اثبات میں سرہلادیا۔
آج بھی دوپہر میں رشتہ لگانے والی خاتون خالدہ کی کال آئی تھی کہ شام کو کچھ خواتین سیرت کو دیکھنے آئیں گی۔ بس ناظمہ بیگم دوپہر سے ہی تیاریوں میں لگ گئیں تھیں تزکیہ اور تقدیس کو آرام بھی نہیں کرنے دیا تھا اور سیرت کو گھر میں داخل ہوتے ہی احساس ہوگیا تھا اور اسے ناظمہ بیگم پر غصہ آگیا اس نے پہلے بھی کئی بار کہا تھا۔
’’اماں یوں اتنا اہتمام مت کیا کریں‘ جس نے پسند کرنا ہوگا وہ ایک گلاس پانی پی کر بھی پسند کرے گا اور جس کو گھر گھر جاکر نوالے توڑنے کی عادت ہے وہ اپنی عادت سے باز نہیں آئیں گے۔‘‘
’’آپا چائے پی لو غصہ ختم کردو۔‘‘ تقدیس نے آکر سیرت کا شانہ پکڑ کر دھیرے سے کہا تو سیرت اسے دیکھنے لگی۔ سیرت زردہ لگ رہی تھی۔
’’دیکھو آپا تمہاری بات اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے مگر اپنے ارد گرد بھی تو دیکھو ناں وہ گلی کے کونے پر جو بلقیس آپا رہتی ہیں ان کی عمر دیکھی ہے اب تو ان کی شادی ہونا بھی ناممکن ہے لیکن پھر بھی آ ج بھی کہیں رشتے کا آسرا ہوتا ہے تو وہ پارلر جاکر ڈھیروں پیسہ خرچ کرتی ہیں ان کی اماں بوڑھی ہوکر بھی بھاگ بھاگ کر آنے والوں کا سواگت کرتی ہیں محض ایک آس پر۔۔۔ تم تو الحمدللہ ہر لحاظ سے اچھی ہو اماں بے چاری کو کیوں منع کرتی ہو ان کو کرنے دیا کرو وہ جو بھی کریں۔۔۔ میری پیاری آپا غصہ تھوک دو اور جلدی سے نہا کر فریش ہوجائو‘ میں نے تمہارے کپڑے پریس کرکے رکھ دیئے ہیں اماں کو دکھی نہ کرو ۔۔۔‘‘ تزکیہ کی آواز بھیگنے لگی۔ سیرت نے سر اٹھا کر تزکیہ کی طرف دیکھا سیرت کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔
’’اللہ تعالیٰ تمہیں بہت ساری خوشیاں دے آپا۔‘‘ تزکیہ نے آگے بڑھ کر سیرت کو گلے لگالیا۔
’’بس کرو‘ زیادہ اماں بننے کی ضرورت نہیں‘ آتی ہوں فریش ہوکر۔‘‘ سیرت نے خود پر قابو پاتے ہوئے مصنوعی غصے سے کہا تو تزکیہ مسکرادی۔
خلاف توقع اس بارآنے والی خواتین نے ایک نظر دیکھتے ہی گھر سلیقہ اور سیرت سے بات کرتے ہی فیصلہ سیرت کے حق میں دے دیا اور شگون کے طور پر کچھ پیسے بھی سیرت کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔ اماں نے حیرت سے اور خوشی سے آنے والوں کے مثبت رویے کو دیکھا۔
’’اب آپ لوگ بھی جلدی سے آکر ابصارکو دیکھ لیں۔‘‘ جاتے جاتے لڑکے کی والدہ نے سیرت کو پیار کرکے ناظمہ بیگم کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
’’جی جی ضرور۔‘‘ ناظمہ بیگم خوش دلی سے بولیں۔
’’ارے واہ بھئی مزا آگیا۔‘‘ سیرت کو درمیان میں لے کر تزکیہ اور تقدیس بھنگڑا ڈالنے لگیں۔ سیرت زیرلب مسکرانے لگی۔
اتوار کی چھٹی تھی الیاس صاحب اور ناظمہ ابصار کے گھرگئے گھر بھی اچھا خاصا تھا۔ ابصار خوش شکل اور خوش اخلاق نوجوان تھا۔ جاب بھی معقول تھی ضروری فارملیٹیز کے بعد ابصار کے حق میں فیصلہ دے دیاگیا۔ ابصار کی والدہ کو شادی کی جلدی تھی اس لیے زور وشور سے تیاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ اچھی خاصی تیاری تو ناظمہ بیگم نے پہلے سے ہی کر رکھی تھیں اس کے علاوہ بھی بیسیوں کام تھے تزکیہ اور تقدیس بھی خوب تیاریاں کررہی تھیں سہیلیوں کے ساتھ مل کر خوب گانے گاتیں‘ شور ہنگامے اور سارے ارمان نکالے مسرت اور دعاؤں کے سنگ سیرت رخصت ہوگئی۔ سیرت کی رخصتی پر سب ہی آبدیدہ تھے مگر سب سے زیادہ الیاس صاحب روئے تھے ان کو اپنی بیٹیوں سے بے حد محبت تھی مگر دوسری جانب مطمئن بھی تھے کہ ایک بیٹی کو احسن طریقے سے اپنے گھر کا کردیا تھا ایک بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونے پر اللہ پاک کا شکر ادا کررہے تھے۔
جہاں ابصار محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا تھا وہیں اس کی والدہ بھی بہت سیدھی سادی اور خیال رکھنے والی خاتون تھیں سیرت جب خوشی خوشی آتی اور مسکراتے ہوئے واپس سسرال لوٹتی تو الیاس صاحب اور ناظمہ بیگم ڈھیروں شکر ادا کرتے۔ ابصار تزکیہ اور تقدیس کو بھائی کی کمی نہ ہوتے دیتا اور بہنوں کی طرح خیال رکھتا اسی طرح الیاس صاحب اور ناظمہ بیگم کی دل سے عزت کرتا۔ سیرت رات کو رکنے کے لیے بہت کم آتی تھی کیونکہ پیچھے ابصار کی والدہ اکیلی رہ جاتیں اس لیے اکثر شام کو آجاتی۔ چاروں مل کر خوب ہنگامہ کرتے۔ کیرم بورڈ اور لوڈو کی بازیاں لگتیں۔ الیاس احمد اور ناظمہ بیگم ان لوگوں کو دیکھ کر مسکراتے رہتے۔ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے کہ اللہ پاک نے ان کے آنگن میں کتنی خوشیاں اور رحمتیں بھیج دی تھیں۔
وقت تھوڑا سا آگے بڑھا۔ سیرت ایک پیارے سے بیٹے کی ماں بن گئی۔ خوب خوب خوشیاں منائی گئیں اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا گیا۔ تزکیہ نے بی ایس سی کرلیا اب ناظمہ بیگم تزکیہ کے لیے رشتہ تلاش کرنے لگیں۔ کافی دن بعد سیرت رہنے کے لیے آئی تھی اس کی ساس کسی رشتے دار کے پاس گئی ہوئی تھیں تو انہوں نے جاتے جاتے تاکید کی تھی کہ تم بھی دو دن اپنی امی کے گھر رہ آئو۔ سیرت رہنے کے لیے آئی تو تزکیہ اور تقدیس بے حد خوش ہوئیں۔ منے کے ساتھ خوب مستیاں ہورہی تھیں۔ سیرت کو اماں کے ہاتھ کے پراٹھے پسند تھے اس لیے آج ناشتے میں آلوکے پراٹھے ناظمہ بیگم نے پکائے تھے ناشتے کے بعد سب بیٹھے لنچ ڈیسائیڈ کررہے تھے الیاس صاحب بھی گھر پر تھے۔
’’ آپا آج اپنے ہاتھوں کا پلائو پکار کر کھلا ئو بہت دن ہوگئے ہیں۔‘‘ تقدیس نے سیرت سے کہا تو سیرت مسکرائی۔
’’اوکے میں پکاتی ہوں۔‘‘ سیرت نے کہا تب ہی فون کی گھنٹی بجی الیاس صاحب نے آگے بڑھ کر فون اٹھایا۔
’’اچھا۔۔۔؟ کب ٹھیک ہے میں آتا ہوں۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔‘‘ وہ بے حد گھبرائے ہوئے جلدی جلدی جملے ادا کررہے تھے۔
’’ابا جی کیا ہوا؟‘‘ ان کے چہرے کی بدلتی رنگت اور پریشانی دیکھ کر تینوں بیٹیاں قریب آگئیں۔
’’شبانہ آپا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ وہ اسپتال میں ہیں‘ میں اسپتال جارہا ہوں۔‘‘ الیاس صاحب نے بے حد گھبرائے ہوئے تھے۔
’’ارے ارے دومنٹ رکیے۔۔۔ میں بھی چلتی ہوں آپ کے ساتھ۔‘‘ ناظمہ بیگم نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
’’جلدی سے تیار ہوکر آجائو۔‘‘ الیاس صاحب نے کہا وہ بہت پریشان تھے آخر کو بڑی بہن تھیں۔
’’بس میں نے کیا تیار ہونا ہے۔‘‘ ناظمہ بیگم نے کھونٹی سے چادر اتار کر اوڑھتے ہوئے کہا اور ان کے ساتھ ہوگئیں۔ اسپتال کے کوریڈور میں خالد صاحب‘ فاران اور اس کی بیوی نویدہ مل گئے۔ خاصے پریشان تھے
_________
’’پریشان مت ہوں خالد بھائی اللہ بہترکرے گا۔‘‘ الیاس صاحب بہنوئی کے پاس بیٹھ گئے۔ ناظمہ بیگم نے فاران کو تسلی دی۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے آکر بتایا کہ اب طبیعت بہتر ہے تو سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔
ناظمہ بیگم کی آنکھیں نم ہوگئیں کہ اللہ پاک نے کرم کردیا تھا۔ ساری زندگی آپا شبانہ نے بھائی بھاوج کو اہمیت دی تھی نہ بڑے ہونے کا کوئی رشتہ نبھایا تھا۔ ہمیشہ کمتر اور کم حیثیت جانا‘ بیٹیوں کی پیدائش کا قصوروار اور الیاس صاحب نے ہمیشہ رشتے کے حساب سے بہن کی عزت کی ان کو ان کا مقام دیا۔ سارا دن ہی دونوں میاں بیوی نے اسپتال میں گزار دیا کھانے پینے کا ہوش بھی نہ تھا۔ شام تک شبانہ بیگم کی حالت قدرے بہتر ہوگئی۔ رات ہونے لگی تھی اب مسئلہ تھا کہ شبانہ بیگم کے پاس رات کون رہے گا کیونکہ بہو نے تو صاف انکار کردیا تھا کہ وہ رات کو جاگ نہیں سکتی ویسے بھی دن بھر کی تھکی ہوئی ہے۔ تب ناظمہ بیگم جلدی سے بولیں۔
’’ارے خالد بھائی۔۔۔ آپ کیوں فکر کرتے ہیں میں رہ لوں گی۔ آپ سب لوگ گھر جائیں آرام کریں سارے دن کے تھکے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ہاں چلیں یہ ٹھیک ہے صبح ہم آجائیں گے۔‘‘ فاران نے جلدی سے کہا۔ الیاس صاحب نے ستائشی نظروں سے بیوی کی جانب دیکھا تو شبانہ نے سر ہلایا۔ سیرت اور تقدیس نے سنا کہ اماں رکیں گی تو ان کو غصہ آگیا۔
’’ساری زندگی پھوپو نے ہمارے اور اماں کے ساتھ کیا کیا؟ آج ہماری اماں نے خدمات پیش کردیں۔‘‘ تزکیہ جو ابھی ابھی ناظمہ سے فون پر بات کرکے آئی تھی اب دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
’’آپا ٹھیک ہے کہ پھوپو نے ساری زندگی ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے مگر اماں بتا رہی تھیں کہ ان کی حالت ٹھیک نہیں اور نویدہ بھابی نے تو باقاعدہ چڑچراہٹ شروع کردی تھی اتنی بے زاری اور بدتمیزی سے چند گھنٹے گزارے کہ اماں کو برا لگا۔ ان کے آگے فاران بھائی تو بالکل بھیگی بلی بنے رہتے ہیں اماں کہہ رہی تھیں کہ سچ مچ پھوپو پر بہت ترس آرہا ہے‘ اس وقت وہ بہت بے بس اور مجبور ہیں دیکھو تو اللہ پاک کیسے کیسے حالات پیدا کرتا ہے کہ آج ہماری اماں ہی ان کی خدمت کررہی ہیں۔‘‘ تزکیہ نے بات مکمل کرکے دونوں بہنوں کو دیکھا تو سیرت اور تقدیس کے چہروں کا رنگ بھی بدلنے لگا۔
دوسرے دن صبح تینوں بہنیں کچن میں ناشتہ تیار کررہی تھیں۔ آج سیرت کو سسرال بھی واپس جانا تھا۔
’’ ابا جی۔۔۔ اماں کب تک آئیں گی؟‘‘ تقدیس جو کبھی بھی اماں سے دور نہ ہوئی تھی ایک رات اماں کے بغیر گزار کر وہ اداس ہورہی تھی۔
’’بس بیٹی میں ناشتے کے بعد جائوں گا نویدہ آجائیگی اسپتال تو ناظمہ کو لے آئوں گا۔‘‘ الیاس صاحب نے کہا۔ تب ہی ابصار بھی آگیا۔
’’ٹھیک ہے ہم لوگ جاتے جاتے پھوپو کو دیکھتے ہوئے چلے جائیں گے۔‘‘ سیرت نے کہا۔
’’اگر کوئی مسئلہ ہے توکوئی بات نہیں سیرت میں آکر لے جائوں گا تمہیں۔‘‘ ابصار نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے کہا۔’’جی ابصار بھائی پلیز‘ ایک دو دن کے لیے آپا کو چھوڑ دیں ناں۔‘‘ تقدیس نے کہا تو ابصار نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
الیاس صاحب اسپتال پہنچے تو ناظمہ بیگم کے ساتھ خالد صاحب بھی تھے۔ پتہ چلا کہ نویدہ ابھی سو رہی ہے اٹھ کر ناشتہ کرکے آئے گی۔ ناظمہ بیگم کافی تھکی ہوئی لگ رہی تھیں ساری رات جاگتی رہیں ویسے بھی ان کو بی پی کی شکایت بھی تھی۔ پھر ٹائم گزرتا رہا اور نویدہ کا کوئی پتہ تھا نہ ہی فاران آیا۔ کوئی کال بھی اٹینڈ نہیں کررہا تھا۔ خالد صاحب خاصے شرمندہ لگ رہے تھے یہی حالت شبانہ بیگم کی بھی تھی۔ وہ ویسے ہی شرمندگی محسوس کررہی تھیں کل صبح سے ناظمہ بیگم ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوئی تھیں۔ دن کا ایک بج گیا تو الیاس صاحب نے کہا۔
’’ناظمہ چلو تم گھر جاکر تھوڑا آرام کرلو۔‘‘
’’نویدہ آجائے گی تھوڑی دیر تک تب تک میں بھی تو ہوں شبانہ کے پاس۔‘‘ خالد صاحب نے بھی کہا۔
’’نہیں خالد بھائی آپا کے پاس کسی عورت کا ہونا ضروری ہے۔‘‘
’’ناظمہ تم تھک گئی ہو اب تمہیں آرام کرنا چاہئے۔ میں ٹھیک ہوں اب تم گھر جاکر آرام کرلو۔‘‘ شبانہ بیگم نے نجیف آواز میں ناظمہ بیگم سے کہا۔
’’نہیں آپا میں ٹھیک ہوں آپ فکر نہ کریں۔‘‘ ناظمہ بیگم نے کہا تب ہی فاران آگیا۔
’’بیٹا نویدہ نہیں آئی؟‘‘ اسے اکیلا دیکھ کر خالد صاحب نے پوچھا۔
’’جی پاپا۔۔۔ اس کے سر میں درد ہے میڈیسن لے کر سو رہی ہے وہ نہیں آسکتی۔ رات بھر اس کی نیند ڈسٹرب رہی۔‘‘ فاران کے دو ٹوک جواب پر شبانہ بیگم کا چہرہ یک دم پھیکا پڑ گیا۔
’’بیٹا تمہاری ممانی بھی رات بھر جاگتی رہیں ہیں ان کو بھی آرام کی ضرورت ہے‘ گھر چھوڑ کر کل صبح سے یہاں پر ہیں۔‘‘ خالد صاحب کا لہجہ تھوڑا تلخ ہوا۔
’’ارے نہیں بھائی صاحب ایسی کوئی بات نہیں گھر میں بچیاں ہیں کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ مجھے تو جاگنے کی عادت بھی ہے دو چار دن کی بات ہے ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ ناظمہ بیگم نے جلدی سے کہا تو الیاس صاحب کے ساتھ ساتھ خالد صاحب نے بھی ستائشی نظروں سے دیکھا جب کہ شبانہ بیگم کے چہرے پر ندامت کے ساتھ ساتھ احسان مندی بھی تھی۔
قدم قدم پر شبانہ بیگم نے ناظمہ بیگم کی تذلیل کی تھی۔ طنز کا نشانہ بنایا‘ ہر موقع پر انہیں بیٹیاں پیدا کرنے اور بھائی پر بوجھ ڈالنے کے طعنے دیتی رہیں‘ مگر آج وہی ناظمہ بیگم جو ہمیشہ سے ان کی دل جلی باتوں کا شکار رہیں۔ کتنی خوش اسلوبی اور محبت سے ان کا خیال رکھ رہی تھیں اپنی نیند اور چین حرام کرکے ماتھے پر شکن تک نہ لائیں مسکراتے ہوئے اپنی خدمات پیش کررہی تھیں۔ تب شبانہ بیگم کو اپنی زیادتیاں اپنی تنک مزاجی یاد آگئی۔ ان کو شرمندگی ہورہی تھی۔ ان کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے۔’’اچھا ٹھیک ہے ناظمہ‘ میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لے آتا ہوں۔‘‘ الیاس صاحب نے کرسی اٹھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں الیاس میاں‘ آپ رہنے دیں میں فاران سے کہہ کر منگوالوں گا۔‘‘ خالد صاحب جو پہلے ہی ناظمہ بیگم کی ہمدردی سے متاثر تھے جلدی سے بولے۔
’’اچھا آپا۔۔۔ میں چلتا ہوں شام کو پھر چکر لگائوں گا۔‘‘ الیاس صاحب نے شبانہ کے قریب جاکر ملائمت سے کہا تو شبانہ بیگم نقاہت سے سرہلاکر رہ گئیں۔
لگا تار تین دن تک ناظمہ بیگم اسپتال میں رہیں۔ مسلسل جاگنے بے آرامی اور نیند نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بی پی ہائی ہوگیا۔ نویدہ تو بس آتی تو کچھ دیر کے لیے پھر کچھ نہ کچھ بہانہ کرکے واپس چلی جاتی فاران بھی کچھ نہ کہتا طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو شبانہ بیگم نے زبردستی ان کو گھر بھیج دیا کہ تم اپنا چیک اپ کرائو اور دوا لو۔ ناظمہ بیگم گھر تو چلی گئیں دوا بھی لے لی مگر ان کا دل گھر میں بالکل نہیں لگا۔ ابھی شبانہ بیگم کی طبیعت اس قابل نہیں تھی کہ انہیں یوں چھوڑا جاتا ایک عورت کا ساتھ ہونا ضروری تھا خالد صاحب تو ساتھ رہتے مگر وہ خود بیچارے بھی بی پی کے مریض تھے شوگر بھی ہائی رہتی وہ خود بیمار رہتے تھے۔
’’الیاس احمد۔۔۔ مجھے آپا کی بہت فکر ہورہی ہے۔ میں اب بہتر ہوں میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔‘‘ شام کو الیاس احمد اسپتال جانے کے لیے تیار ہوئے تو ناظمہ بیگم نے کہا۔
’’ارے نہیں ناظمہ۔۔۔ خدانخواستہ تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو الگ پریشانی ہوجائے گی۔ اللہ مالک ہے اللہ بہتر کرے گا۔‘‘ الیاس صاحب نے بیوی کی جانب پرستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں خود آرام کی ضرورت ہے ناظمہ۔‘‘
’’اباجی۔۔۔ اماں کو آرام کہاں۔۔۔ جب سے آئی ہیں پھوپو کے لیے پریشان ہیں‘ ان ہی کی باتیں کیے جارہی ہیں ڈھنگ سے سوئی بھی نہیں۔‘‘ تزکیہ نے جو ابھی کمرے میں آئی تھی درمیان میں بولی۔
’’ہاں بیٹی۔۔۔ شاباش ہے تمہاری ماں پر کہ وہ اتنا صاف دل رکھتی ہیں۔ گزشتہ زیادتیوں کو بھلا کر جس محبت سے انہوں نے آپا کا خیال رکھا ہے میرا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔‘‘ الیاس صاحب نے ناظمہ بیگم کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اعتراف کیا۔
’’اچھا اماں چلیں ایسا کرتے ہیں کہ دن میں پھوپو کے پاس میں رہوں گی اور رات کو آپ چلی جایا کریں اس طرح آرام بھی مل جائے گا اور ٹائم بھی پاس ہوجائے گا۔ کچھ دنوں کی تو بات ہے۔‘‘ تزکیہ نے حل پیش کیا۔
’’گڈ آئیڈیا۔‘‘ الیاس صاحب نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’دیکھا بیگم ہماری بچی بھی کتنی سمجھ دار ہے کتنا اچھا حل نکالا ہے۔ یہ بہتر ہے ناں؟‘‘ ناظمہ بیگم مسکرا دیں۔ دوسرے دن صبح الیاس صاحب تزکیہ کو لے کر اسپتال آگئے۔
’’السلام علیکم پھوپو‘ آپ کیسی ہیں؟‘‘ تزکیہ شبانہ بیگم کے قریب آگئی۔
’’وعلیکم السلام‘ جیتی رہو۔۔۔ الیاس اس بچی کو کیوں لے کر آگئے ہو پریشان ہوگی۔ دن میں خالد تو ہوتے ہیں میرے پاس۔‘‘
’’پھوپو کیسی باتیں کررہی ہیں پریشانی کیسی؟ ویسے بھی اماں کہہ رہی تھیں آپ بہت بولتی ہیں اسی لیے جب تک میں رہوں گی صرف میں بولوں گی اور آپ سنیں گیئں ویسے بھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے میں آپ سے اچھی اچھی باتیں کروں گی کہ آپ کا مائینڈ فریش ہوجائے گا۔‘‘ تزکیہ نے شبانہ بیگم کے سر پر ہاتھ رکھ کر بالوں کو سہلاتے ہوئے مزاحیہ لہجے میں کہا تو شبانہ بیگم کی آنکھیں بھر آئیں۔ انہوں نے تزکیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے قریب کرکے ماتھے پر بوسہ لیا یہ وہ بچیاں تھیں جن کو ساری زندگی پھوپو کا پیار نصیب نہیں ہوا تھا۔
’’اللہ پاک تمہیں بھی خوشیاں دے شاد رکھے۔‘‘ انہوں نے دعا دی۔
’’آمین ثم آمین۔‘‘ تزکیہ مسکرائی اور خالد صاحب کی جانب پلٹی۔ ’’پھوپا جان آپ بھی اب گھر جائیں‘ بالکل پُرسکون ہوکر شام تک آرام کریں پھر آجائیے گا آج میں اور پھوپو سارا دن خوب گپ شپ لگائیں گے۔‘‘
’’اچھا گڑیا۔۔۔‘‘ خالد صاحب مسکرا دیئے کتنی پیاری اور معصوم بچی ہے دل ہی دل میں سوچا۔
یہ سیمی پرائیوٹ روم تھا۔ درمیان میں خاصی کھلی جگہ تھی اور دیوارکے ساتھ بیڈ لگے تھے ساتھ ہی المایاں اور کرسیاں پڑی تھیں۔ دوپہر میں اس بیڈ پر ایک خاتون آگئیں ان کے ساتھ ایک لڑکا تھا۔ ادھیڑ عمر کی سوبر اور اچھی فیملی کی خاتون لگ رہی تھیں۔ الیاس صاحب اور خالد صاحب بھی گھر چلے گئے جاتے جاتے تاکید کر گئے کہ’’ اگر خدانخواستہ طبیعت ذرا سی بھی بگڑے تو فوراً کال کردینا۔‘‘
’’ارے آپ لوگ فکر نہ کریں دیکھنا میں کیسے پھوپو کو فٹ فاٹ کردوں گی اصل دوا تو پھوپو کو ابھی تک ملی ہی نہیں۔‘‘ تزکیہ اتراتے ہوئے بولی تو دونوں ہنس دیئے۔
دونوں کے جانے کے بعد اس نے شیلف کا جائزہ لیا۔ ضرورت کی چیزیں موجود تھیں ساتھ ہی ناریل کے تیل کی شیشی بھی رکھی تھی۔ دوسرے بیڈ پر لیٹی خاتون نیند میں تھیں۔کبھی کبھی آنکھ کھول کر دیکھ لیتیں پھر آنکھیں بند کرلیتیں۔ تزکیہ نے بھی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔