ارے پاگل ہوگئی ہو کیا؟ نہیں چاہئے مجھے بیٹا مجھے اپنی بیٹیاں بہت عزیز ہیں‘ میرے گھر کی رونق اور اجالا ہیں یہ۔ دیکھنا یہی بیٹیاں ہمارا نام کتنا روشن کریں گی۔میرے لیے اﷲ کا کرم ہے کہ اس نے مجھے صاحب اولاد کیا۔ یہ تو میرے رب کا مجھ پر کرم ہے کہ اس نے ہمارے لیے جنت کا آسرا بنادیا۔۔۔ اولاد کی قدر تو ان سے پوچھو کہ جو بے اولاد ہیں۔ جن کے گھروں میں ویرانی برستی ہے‘ جن کے آنگن بچوں کی قلقاریوں کے لیے ترستے ہیں‘ جو رو رو کر اﷲ سے اولاد مانگتے ہیں بیٹا اور بیٹی کے فرق سے بالا تر ہو کر صرف اولاد کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں سے اولاد کی اہمیت پوچھو‘ تب ہمیں احساس ہوگا کہ اﷲ نے ہم پر کتنا کرم کردیا کہ ہمیں بے عیب اولاد سے نوازا ہے۔ بچوںکے بغیر گھر قبرستان جیسالگتا ہے اور ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے گھر میں ہماری شہزادیوں کے قہقہہ گونجتے ہیں۔ ان کی شرارتیں اور معصومیت پر ہمارا دل خوش ہوتا ہے۔ ان کی پیاری پیاری بے مطلب باتوں سے محظوظ ہوتے ہیں اور آج کے بعد اگر تم نے پھر کبھی ایسی کوئی بات کی تو میں تم سے ناراض ہوجاؤں گا۔ دیکھو سیرت اور تزکیہ بھی کیوٹی گڑیا کو دیکھ کر کتنی خوش ہیں۔‘‘ الیاس صاحب نے نرمی سے سمجھاکر ناظمہ بیگم کی توجہ سیرت اور تزکیہ کی جانب کروائی تو ناظمہ بیگم بھیگی سی ہنسی ہنس دیں۔ مگر ایک خلش اور کسک ہنوز برقرار تھی۔
شبانہ بیگم نے خوب واویلا کیا۔ باقاعدہ بین کی شکل میں اپنے خیالات کی تلخ ترجمانی کی۔
’’ارے اﷲ جی۔۔۔ کیا میرے بھائی کی نسل یونہی ختم ہوجاؔئے گی؟ ارے نسل تو بیٹوں سے چلتی ہے۔ وہ ہی باپ کا نام آگے چلاتے ہیں مگر یہاں تو رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ گئیں ہیں۔ لو بھئی یہ باب تو اب یہیں پر ختم ہوگیا۔ ہائے ہائے ستارہ بھابی تم نے سچ کہا تھا جہاں پہلوٹی کی لڑکی ہوئی وہاں لڑکیوں کی لائن لگ گئی۔ چلو یہ بھی برداشت کیے جارہے تھے کہ شاید اب کی بار۔۔۔شاید اگلی بار۔۔۔ مگر یہاں تو یہ سلسلہ ہی ختم ہوگیا نہ کوئی آس رہی نہ کوئی امید۔۔۔ بیٹی سے شروع ہوکر بیٹی پر ہی سلسلہ ختم ہوگیا۔ نہ جانے کیسے نصیب لے کر آیا ہے میرا چھوٹا بھائی۔‘‘’’ارے آپا۔۔۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو۔۔۔ کیسی باتیں کررہی ہیں؟ اﷲ تعالیٰ کو جو منظور ہوتا ہے ہماری بہتری کے لیے ہوتا ہے۔ اس نے مجھے اس قابل سمجھا تب ہی میری گود میں بیٹیاں ڈال دیں‘ آپا بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ یہ ہماری سوچ ہے کہ ہم لوگ بیٹیوں کو بوجھ اور بیٹوں کو انعام سمجھتے ہیں۔ میری بچیاں رحمت ہیں مبارک اور خوش قدم ہیں دیکھیں تو گڑیا کے آنے سے پہلے میرا پروموشن ہوگیا۔ یہ انعام ہے میرے لیے بہت عزیز ہے مجھے اپنی بچیاں۔ ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کیجئے پلیز کہ ان کے معصوم ذہنوں پر کوئی منفی اثر پڑے۔‘‘ الیاس احمد نے بہن کے شور شرابے کو نرم اور مدلل لہجے میں ختم کروادیا۔
’’واہ بھئی واہ۔۔۔ بڑے اچھے نصیب لے کر آئی ہے ناظمہ بیگم کہ ایسا منہ مراد شوہر ملا ہے۔ ایک ہمارے میاں تھے انہوں نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ پہلا بیٹا ہی ہونا چاہئے ہم نے بھی ان کی خواہش پوری کردی۔‘‘ شبانہ بیگم تنک کر باآواز بلند بولیں تاکہ اندر کمرے میں ناظمہ تک آواز پہنچ سکے۔ لیکن شبانہ بیگم وقتی طور پر تو خاموش ہوگئیں مگر انہیں ہرگز یہ گوارہ نہ تھا کہ بھائی کا کوئی وارث نہ ہو۔
کچھ دن گزرے سیرت‘ تزکیہ اور تقدیس بڑی ہونے لگیں۔ ناظمہ بیگم بچیوں کی تربیت بہت اچھی طرح کر رہی تھیں انہیں پڑھانے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی مکمل تفسیر کے ساتھ تعلیم حاصل کر ا رہی تھیں گو کہ الیاس صاحب پر کام کا بوجھ زیادہ ہوگیا تھا مگر دونوں میاں بیوی مل کر محنت کر رہے تھے کہ بیٹیاں اچھی اور معیار ی تعلیم سے آراستہ ہو کر نام پیدا کریں۔
شام دھیرے دھیرے ڈھل رہی تھی۔ الیاس صاحب آفس سے آئے تو حسب معمول سیرت‘ تزکیہ اور تقدیس کے ساتھ بیٹھ کر پڑھائی کے بارے میں باتیں کر نے لگیں۔ بارہ سالہ سیرت‘ دس سالہ تزکیہ اور چھ سالہ تقدیس اپنے اپنے ٹیسٹ کے بارے میں بتارہی تھیں ساتھ ساتھ تقدیس اپنے اسکول اور ٹیچرز کی باتیں بھی مزے لے لے کر کرہی تھی۔ ناظمہ بیگم چائے پکا کر لائیں ساتھ میں بسکٹ اور نمک پارے بھی تھے۔
’’ارے واہ بھئی مزا آگیا۔‘‘ الیاس صاحب نے گرم گرم نمک پارے دیکھے تو مسکرائے سب لوگ مل کر چائے پی رہے تھے بہت اچھا ماحول تھا۔ ناظمہ بیگم بھی سبزی بناتے بناتے کسی بات میں حصہ لے لیتیں ورنہ بچیاں اباجی کے ساتھ ہی لگی رہتیں۔ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔
’’ابا جی پھوپو آئیں ہیں۔‘‘ تزکیہ نے دروازہ کھولا ان کے ساتھ کوئی عورت بھی تھی۔ تیس بتیس سال کی چہرے سے تیز اور میک اپ زدہ سی عورت جسے دیکھ کر الیاس صاحب اٹھ کر جانے لگے۔
’’نہیں نہیں الیاس فیروزہ پردہ نہیں کرتیں آجاؤ تم بیٹھ جاؤ بس تھوڑی دیر میں چلی جاؤں گی۔ یہاں بازار آئی تھی تو سوچا خیر خیریت لے لوں یہ خالد صاحب کی بہن کی نند ہیں آئی ہوئی تھیں تو ان کو بھی مارکیٹ لے آئی ساتھ میں۔‘‘ شبانہ بیگم نے تفصیلی بات کی تو الیاس صاحب نا چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئے۔
ناظمہ بیگم بہت تپاک سے ملیں۔ فوراً چائے لے آئیں بچیاں پھوپو کو دیکھ کر کھسک لیں کیونکہ ان لوگوں کو پھوپو ذرا بھی اچھی نہیں لگتیں تھیں نہ جانے کیوں سیرت‘ تزکیہ اور تقدیس سے ہمیشہ روڈ لہجے میں بات کرتیں۔ کبھی بھی پیار نہ کرتیں ان کو دیکھ کر ہی پھوپو کے تیوریوں پر بل پڑجاتے جب آتیں کسی نہ کسی بات پر ناظمہ بیگم کو چوٹ بھی کرتیں۔ سیرت اور تزکیہ اب ان کو دیکھ کر گھبراہٹ کا شکار ہونے لگتیں اور تقدیس بھی دونوں کے پیچھے پیچھے چھت پر چلی جاتی۔
ناظمہ بیگم کو فیروزہ کی حرکتیں کچھ عجیب سی لگیں۔ عجیب کھوجنے والی نظروں سے ناظمہ بیگم کا جائزہ لے رہی تھیں۔ ساتھ ساتھ الیاس صاحب کو بھی بغور دیکھے جارہی تھیں اور حیرت کی بات یہ کہ گھر بھی دیکھا اور کرائے داروں کے بارے میں بھی خاصی معلومات حاصل کیں۔ ناظمہ بیگم کو کچھ مشکوک ہی لگیں یوں کسی کے گھر پہلی بار آنا اور اس طرح سے ہرم معاملے کی کھوج اور ٹوہ لینا عجیب معیوب بات لگی تھی۔ تھوڑی دیر بعد شبانہ بیگم چلی گئیں اور ناظمہ بیگم نے قدرے تعجب سے میاں کی طرف دیکھا۔
’’الیاس احمد آپ نے اس عورت کی حرکتیں نوٹ کیں۔۔۔؟‘‘
’’نہیں یار مجھے تو بیٹھنا ہی عجیب سا لگ رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں مجبوراً آپا کی وجہ سے بیٹھا رہا کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے آئی ہیں ویسے بھی ان کو تو ہم لوگوں سے ناراض ہونے کا بہانہ چائیے۔ میں نے سوچا اٹھ کر جاؤں گا تو ان کو برا لگے گا۔‘‘ جواباً الیاس صاحب نے تفصیلی بات کی اور مجبوری کا اظہار کیا۔
ناظمہ بیگم بھی سر ہلا کر کچن کی جانب چلی گئیں۔ مغرب کی اذان ہونے لگی تھی۔ سیرت‘ تزکیہ اور تقدیس بھی نیچے آگئے تھے کیوں کہ ناظمہ بیگم کے ساتھ نماز مغرب ادا کرنی تھی۔ اور دوسرے دن شام کو شبانہ بیگم کی آمد کسی انہونی کا پیش خیمہ تھی۔ تینوں بچیاں حسب معمول کھیل رہی تھیں۔ ناظمہ بیگم نماز عصر سے فارغ ہو کر صحن میں لگی کیاریوں کی صفائی کر رہی تھیں۔ الیاس صاحب آفس سے آکر فریش ہونے کے بعد نیوز چینل دیکھ رہے تھے کوئی خاص نیوز تھی تب ہی ناظمہ بیگم نے بچیوں کو بھی باہر صحن میں روک رکھا تھا۔ آج کل سرکاری ملازمین کے بارے میں نئی نئی باتیں اور پابندیاں عمل میں لائی جارہی تھیں اور الیاس صاحب وہی دیکھ رہے تھے۔ شبانہ بیگم آئیں اور سیدھی کمرے میں الیاس صاحب کے پاس چلی گئیں۔
’’ارے آپا آپ۔۔۔؟‘‘ الیاس صاحب نے قدرے حیرت سے انہیں دیکھا۔ ویسے تو مہینوں خبر نہ لینے والی آج پھر کیوں آگئیں۔ یہ بات حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ تشویش ناک بھی تھی۔
’’ہاں بھیا۔۔۔ بس تم سے ضروری بات کرنی تھی تب ہی آگئی ہوں۔ کیا کروں بھیا تم میرے ماں جائے ہو میرے ماں باپ کی آخری نشانی‘ میرے لاڈلے بھائی جو میرے لیے بچوں کی طرح ہو۔ دل کھچتا ہے تمہاری طرف تڑپ ہوتی ہے تو چلی آتی ہوں تم کو تو فرصت نہیں ملتی۔‘‘ انہوں نے لمبی ٹھنڈی سانس بھر کر اپنی بات کا سلسلہ وہیں سے دوبارہ جوڑا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔
’’جی آپا آپ میرے لیے اماں کی طرح ہیں۔‘‘ الیاس صاحب نے سعادت مندی سے کہا۔
’’میں واری اپنے بھائی کے کتنی محبت کرتا ہے میرا بھائی ظاہر ہے اوپر تلے کی بیٹیاں دیکھتے دیکھتے کھیرا ککڑی کی طرح بڑھنے لگتی ہیں۔ سیرت کو دیکھو کتنی بڑی لگنے لگی ہے پھر تزکیہ اور تقدیس بھی ہاتھ کو آجائیں گی۔‘‘
’’جی آپا دعا کریں کہ اﷲ پاک میری بیٹیوں کا نصیب اچھا کرے اور مجھ میں اتنا حوصلہ‘ ہمت دے کہ میں ان تینوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ بیاہ دوں۔‘‘ الیاس صاحب نے کہا۔
’’ہاں ہاں بھئی دعائیں تو کرتی ہوں تم لوگوں کی نظروں میں بری سہی مگر ہوں تو تمہارا خون دل سے دعا کرتی ہوں مگر بھیا۔۔۔ کام صرف دعاؤں سے نہیں چلتا اﷲ تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ تم حرکت کرو میں برکت دوں گا۔ اب تو یہ ہمارا کام ہے ناں کہ ہم راستے تلاش کریں اپنی بہتری کے لیے سوچیں۔‘‘
__________
’’بالکل آپا۔۔۔ الحمدﷲ ناظمہ اور میں مل کر حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں بہتر تعلیم و تربیت اور اچھی طرح سے بچیوں کو اپنے اپنے گھروں کا ہوجانے کے لیے بس اﷲ پاک ہمیں سرخرو کردے آمین۔‘‘
’’دیکھو بھیا۔۔۔ تمہاری بات اپنی جگہ ٹھیک ہے مگر ایک بات ٹھنڈے دل اور دماغ سے سن لو میں تمہاری بہتری کے لیے ہی کہہ رہی ہوں۔‘‘ اس بار شبانہ بیگم تھوڑا آگے کھسک کر قدرے آہستگی سے بولیں۔
’’جی آپا۔‘‘ الیاس نے حیرانی سے بہن کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں کل فیروزہ کو لے کر آئی تھی تم نے دیکھا اسے۔ کیسی لگی تمہیں؟‘‘ شبانہ بیگم کی بات پر الیاس صاحب بری طرح چونکے۔
’’ک۔۔۔ ک۔۔۔ کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں آپا آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔‘‘
’’دیکھو الیاس میاں۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ تم بھی مالی لحاظ سے بہتر ہوجاؤ عبدالجبار بھائی کو دیکھو ماشاء اﷲ سے کیسا بزنس چمک گیا ہے چار چار بیٹوں کی بھی سپورٹ ہے ان کو ہم اﷲ کے فضل سے صاحب حیثیت ہیں ایک تم ہی ہو جو عام سی جاب کرتے ہو اوپر سے بیٹیوں کی ذمہ داری بھی ہے۔ یہ فیروزہ صبیحہ کی بیوہ نند ہے لاکھوں روپیہ ہے اس کے پاس اس کو دوسری شادی کے لیے بے شمار لوگوں نے درخواست کی ہے مگر وہ مانتی نہیں اور اب تمہیں دیکھ کر یہاں کے ماحول اور گھر کی حالت دیکھ کر اس نے تم سے شادی کرنے کی حامی بھرلی ہے اور بھیا میں نے بھی سوچا کہ تمہارا بھی بھلا ہوگا ان شاء اﷲ بیٹا ہوجائے گا اور مالی سپورٹ۔۔۔‘‘
’’آپا بس کریں یہ کیا فضول بات کر رہی ہیں آپ؟‘‘ اسی لمحے ناظمہ بیگم چائے کی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوئیں اور الیاس صاحب کی بات کے ساتھ ساتھ شبانہ آپا کا آخری نامکمل جملہ بھی ان کی سماعتوںمیں گونجا تھا۔
’’یہ بات آپ نے کیسے کی؟ کیا سوچ کر آپ اس عورت کو یہاں تک لائیں اور پھر مجھ سے بات کی؟ کیا آپ کو کبھی بھی لگا کہ میں پریشان ہوں یا میں ایسا چاہتا ہوں؟ مجھے مالی مدد کی ضرورت ہے؟ آپ نے مجھے اتنا بے غیرت سمجھ لیا ہے کیا؟ آپ کو ایسی بات سوچتے ہوئے بھی ذرا سا خیال نہ آیا؟‘‘
’’بس کرو میں تمہاری دشمن نہیں ہوں اور ایسا کون سا گناہ کرڈالا ہے۔ عمر سے زیادہ لگنے لگے ہو۔ ارے تم سے اچھے تو عبدالجبار بھائی لگتے ہیں تمہاری ہمدردی میں آکر اتنے پاپڑ بیل رہی ہوں۔ میرا کوئی فائدہ نہیں ہے اس میں۔‘‘
’’آپا اگر یہ میری بھلائی اور ہمدردی ہے تو خدا کے لیے مجھے آپ کی ہمدردی نہیں چائیے۔ اپنی ہمدردی اپنے پاس رکھیں اور آئندہ مجھ سے اس موضوع پر کوئی بات کرنے کا سوچئے گا بھی نہیں۔ مجھے میرا گھر میری بیوی اور میری بچیاں بہت عزیز ہیں اور یہی میری دنیا ہے میرے ذہن میں کبھی بھی کوئی خلش‘ پچھتاوا یا محرومی کا معمولی سا عنصر بھی نہیں آیا میں اپنی دنیا میں خوش اور مطمئن ہوں۔ نہ مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت ہے نہ مالی سپورٹ کی اور نہ بیٹے کی آئی سمجھ۔۔۔‘‘ اس بار الیاس صاحب ضبط کی حد پار کر چکے تھے۔
’’لو بھیا خون سفید ہوگیا ہے یہاں تو نہ جانے کیسے کیسے جادو سر چڑھ کر بول رہے ہیں ہمدردی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا ارے بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا گھر۔ اب کبھی جو تمہارے معاملے میں بولی تو نام بدل کر رکھ دینا میرا۔ رہو خوش اپنی دنیا میں۔‘‘ شبانہ بیگم کو تلووں سے لگی آگ سر پر جا کر لگی تھی وہ بکتے جھکتے کھڑی ہوگئیں۔ ناظمہ بیگم کو دیکھا تو غصہ مزید عروج پر آگیا۔ الیاس صاحب نے شرمندگی سے ناظمہ بیگم کے دھواں دھواں چہرے کی جانب دیکھا۔ پھر اٹھ کر ناظمہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر میں بٹھالیا۔
’’ناظمہ تمہیں بری لگی ہوگی آپا کی بات میں تم سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘
’’ارے نہیں الیاس احمد‘ آپ ایسا کہہ کر مجھے شرمندہ نہ کریں آپ تو میرے لیے واقعی قابل سجدہ ہیں۔ اﷲ پاک کا جتنا شکرادا کروں کم ہے کہ اس نے مجھے آپ مجھے حلیم‘ متقی اور محبت کرنے والا شوہر عطا کیا ہے۔‘‘ ناظمہ بیگم کی آنکھیں نم ہوگئیں تو الیاس صاحب نے ان کو سینے سے لگالیا۔
’’ناظمہ میں بھی بہت لکی ہوں کہ مجھے تم جیسی نیک‘ شریف‘ سلیقہ شعار اور پرخلوص اور قناعت پسند بیوی ملی ہے میری بچیاں بھی خوش نصیب ہیں کہ وہ تمہارے زیر سایہ ہیں۔‘‘ ناظمہ بیگم نے پرسکون ہو کر مسکراتے ہوئے الیاس صاحب کی جانب دیکھا اور الیاس صاحب بھی مسکرادیئے۔
اس روز کے بعد شبانہ بیگم ان کی بچیوں سے خار کھانے لگیں۔ طنز کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ الیاس صاحب اور ناظمہ بیگم اپنی بچیوں کے ساتھ خوش اور مطمئن تھے گوکہ موجودہ مہنگائی اور اخراجات کو سنبھال کر چلانا خاصا مشکل کام تھا مگر دونوں میاں بیوی نے مل کر ثابت قدمی سے زندگی کے کئی ماہ و سال محنت کرتے گزار دیئے۔
سیرت عام سی شکل کی تھی رنگ بھی تھوڑا دبتا ہوا تھا جب کہ تزکیہ اور تقدیس اچھی خاصی گوری اور خوب صورت تھیں۔ سیرت نے بی اے کرکے اسکول میں ٹیچنگ کرلی تھی۔ تزکیہ انٹر میں تھی اور تقدیس آٹھویں کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ تینوں لڑکیاں ناظمہ بیگم کی محنت اور توجہ سے انتہائی سگھڑ اور سلیقہ شعار تھیں ہر کام میں ماہر‘ ہمدرد اور پرخلوص تھیں۔ الیاس صاحب کو اپنی بیٹیوں پر ناز تھا۔ اب ناظمہ بیگم اور الیاس صاحب چاہتے تھے کہ سیرت کی شادی ہوجائے اس سلسلے میں رشتے بھی آئے لیکن ہر کوئی ظاہری خوب صورتی اور جہیز کی لمبی چوڑی مانگ لے کر آئے اور یہاں پر تو دونوںچیزیں ہی نہیں تھیں۔
دوتین خواتین نے سیرت کے بجائے تزکیہ اور تقدیس کو پسند کرلیا تھا۔ ناظمہ بیگم نے تزکیہ اور تقدیس کو رشتے والیوں کے سامنے آنے سے منع کردیا۔ اور سیرت بار بار ریجیکٹ ہونے پر اب جھنجھلانے لگی تھی۔ اسے ناظمہ پر بھی غصہ آنے لگا تھا کہ وہ کیوں ان خواتین کے لیے اتنا اہتمام کرتی ہیں۔ محنت سے کمائے گئے پیسوں کو یوں بے تکی اور فضول خواتین پر ضائع کرتی ہیں۔
/۔۔۔/۔۔۔/۔۔۔/
عبدالجبار صاحب کے چار بیٹے تھے مگر ان کو کبھی بھی یہ خیال نہ آیا کہ غریب بھائی کی کسی بیٹی کو بہو بنا کر اس کا بوجھ ہی ہلکا کردیں۔ بھلا کیسے کرسکتے تھے ان کا اسٹیٹس کافی اونچا تھا۔ کاروبار وسیع ہوگیا تھا۔ اچھا گھر‘ گاڑی اور نوکر چاکر تھے وہ بھلا کم حیثیت بہو کو کیسے برداشت کرلیتے۔ اسٹیٹس اور پیسے نے رشتوں کو دور کردیا تھا۔ وہ اپنے دولت کے نشے میں مگن تھے۔ جب کہ شبانہ بیگم بھی اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ لکھ پتی میاں کے ساتھ عیش کر رہی تھیں ان کے بیٹے فاران کی شادی ہوچکی تھی۔ بہو انتہائی بدتمیز اور تیز تھی جب کہ بیٹی بھی شادی کے بعد دبئی شفٹ ہوچکی تھی۔ روز اول کی طرح آج بھی شبانہ بیگم کو ناظمہ بیگم اور ان کی بیٹیوں سے اﷲ واسطے کا بیر تھا انہیں الیاس احمد کے کاندھے پر بھاری بوجھ لگتی۔ جب کہ الیاس صاحب کے گھر کا ماحول بہت خوش گوار تھا۔ آپس میں سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ایک دوسرے کا خیال رکھتے۔
ناظمہ بیگم نے ساری زندگی ہی کم آمدنی اور سلیقے سے گھر چلایا اب سیرت کی تنخواہ بھی آنے لگی انہوں نے کفایت شعاری سے بڑی بڑی کمیٹیاں ڈال لی تھیں تاکہ بیٹیوں کی شادی پر ہونے والے اخراجات کے لیے بروقت مناسب پیسوں کا بندوبست ہوسکے اور سیرت کے لیے رشتے کی تلاش کے لیے ایک خاتون سے بات کی تھی جو مناسب رشتے دکھاتی تھیں۔
بچیاں ماں باپ کے ساتھ دوستانہ ماحول اپنائے ہوئے تھیں آپس میں مل جل کر رہتیں تھیں۔ اس روز بھی تینوں بیٹیاں الیاس صاحب کے ساتھ کیرم کھیل رہی تھیں۔ خوب زور شور سے حسب عادت تقدیس بے ایمانیاں کر رہی تھی۔ اور تزکیہ با آواز بلند احتجاج کررہی تھی۔ ناظمہ بیگم پاس بیٹھی ان لوگوں کی بحث و تکرار سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔ تب ہی ستارہ بیگم آگئیں۔ بچیوں نے ادب سے سلام کیا مگر تائی کو دیکھ کر تینوں کا منہ بن گیا ان لوگوں کو تائی اماں بھی بالکل اچھی نہیں لگتی تھیں۔ ہر وقت اپنی امارت کا رعب جھاڑتی ہوئی اور شان تفاخر سے باتیں کرتی ہوئی دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والی یہ خاتون ذرا بھی اچھی نہ لگتیں۔
جب بھی آتیں اپنی نئی گاڑی‘ کاروبار یا پھر کاروباری حوالے سے شیخیاں بگھارنے ہی آتیں ایسے میں سیرت‘ تزکیہ اور تقدیس کو ان سے چڑ ہونے لگتی کہ امیر ہیں تو اپنے گھر کی ہیں ہمیں کون سا فائدہ دے رہی ہیں جو اپنی امارت کے قصے سنا سنا کر ہمیں امپریس کرتی ہیں۔ وہ اس بار اپنے چوتھے بیٹے کی شادی کا کارڈ لے کر آئی تھیں۔
’’لو بھئی ہم نے احمد میاں کی شادی طے کردی ہے۔‘‘ ناظمہ بیگم کے ساتھ ساتھ الیاس صاحب بھی چونکے۔ یوں اچانک سے نہ رشتے کا پتہ چلا نہ کسی اور رسم کا۔ یوں غیروں کی طرح لاکر کارڈ تھمادیا۔
’’اﷲ مبارک کرے بھابی کہاں سے لارہی ہیں آخری بہو۔۔۔؟‘‘ ناظمہ بیگم نے کارڈ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہارے بھائی صاحب کے بزنس پارٹنر ہیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی ماشاء اﷲ امریکہ میں پڑھ کر آئی ہے۔ خوب صورت اور ماڈرن بھی ہے۔ ہم سے بھی اچھا گھر ہے ان کا۔‘‘ ستارہ بیگم نے آنکھیں پھیلا کر فخر سے کہا۔
’’شادی بھی بڑے والے وہ بند اے سی ہال ہیں نہ جانے کیا کہتے ہیں اس کو ’’بن کوٹ‘‘ اور ولیمہ ہم نے یہاں کے سب سے اچھے بن کوٹ میں رکھا ہے۔ پورے ہزار مہمانوں کا ہے ضرور آنا الیاس میاں۔‘‘ ایک ایک لفظ میں غرور جھلک رہا تھا۔
تزکیہ اور تقدیس بن کوٹ پر نا مشکل ہنسی روک پائیں۔
’’اچھا میں چلو ں ڈھیر سارے کام پڑے ہیں گھر پر تمہارے بھائی نے خاص طور پر کہا ہے ضرور آنا۔‘‘ جاتے جاتے ایک بار پھر احسان جتانے والے انداز میں کہا۔