ابریز جو چپ چاپ دروازے کے پاس کھڑا اس کی باتیں سن رہا تھا اس نے اپنا سر تھام لیا اور چپ چاپ اپنے کمرے کی جانب لوٹ گیا۔ ابریز کے چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ دل عجیب سا ہونے لگا۔ تزکیہ نے ہر ہر طرح سے مما کو سنبھالا۔ جھوٹ تک بولا۔ شاید میں نے مما کے ساتھ۔۔۔ تزکیہ کے ساتھ غلط کیا۔ تزکیہ کی باتوں سے وہ وقتی طور پر الجھن کا شکار ہوگیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ویسے ہی وہ آج بے چین اور الجھا ہوا تھا اوپر سے تزکیہ کی باتوں سے مزید الجھ گیا۔
کشمالہ سے بات کرنا چاہی مگر پھر اس نے کال نہیں اٹھائی۔ وہ شاور لے کر گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر سے باہر نکل آیا تاکہ کشمالہ کے گھر جاکر دیکھے کہ آخر اس کے ساتھ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگیا۔ اس کے گھر کا گیٹ کھلا ہوا تھا وہ سیدھا اندر آگیا سامنے ہی کشمالہ کا کمرہ تھا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا۔ یوں تو ان دونوں میں اتنے بے تکلفی تھی کہ آزادانہ آنا جانا رہتا مگر ابریز ناک کرنے کے لیے جیسے ہی آگے بڑھا اندر سے آتی مردانہ اور کشمالہ کی آوازو پر ایک لمحے کو رکا۔ اپنا نام سن کر وہ ٹھٹھک گیا۔ یہ کون تھا جس کے ساتھ کشمالہ بیڈ روم میں بیٹھ کر باتیں کررہی تھی؟ ساتھ میں اونچے قہقہے بھی لگائے جارہے تھے۔
’’آغا تم پاگل ہوگئے ہو کیا؟ تمہارے آگے بھلا ابریز کی کیا حیثیت؟ ہاں یہ الگ بات ہے کہ تمہارے آنے سے پہلے میں نے اسے دل بھرکر الو بنایا اور خوب عیش کیے حتیٰ کہ شادی ہونے کے باوجود وہ صرف اور صرف میرا ہی رہا۔ اس کی ہر رات میرے ساتھ باتیں کرتے گزری ہے۔ اب جب کہ مجھے تم جیسا دولت مند اور کنورا لڑکا مل گیا ہے تو میں پاگل ہوں کہ اس شادی شدہ آدمی سے رابطہ رکھوں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ شادی شدہ ہو کر بھی۔۔۔؟‘‘ قبل اس کے کہ وہ قہقہہ لگا کر اپنا جملہ مکمل کرتی ابریز دھاڑ سے دروازے پر لات مار کر کمرے میں داخل ہوگیا۔
’’تم۔۔۔‘‘ کشمالہ اس کو دیکھ کر بری طرح سٹپٹا کر کھڑی ہوگئی۔
’’یہ کیا حرکت ہے کوئی مینرز آتے ہیں تمہیں اور دروازہ ناک کئے بغیر کیسے اندر گھس آئے؟‘‘ گھبراہٹ اور بوکھلانے کے باوجود کشمالہ نے بدتمیزی سے کہا۔
’’مینرز۔۔۔ تم مجھے مینرز سکھائو گی مکار چالاک لڑکی۔‘‘ ابریز غصے سے پاگل ہورہا تھا۔ اس کی کنپٹیاں سلگ رہی تھیں۔ بے عرتی کے احساس سے آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔
’’چلو تم نے خود ہی سن لیا۔ تو اب یہاں کیوں کھڑے ہو۔‘‘ کشمالہ بے غیرتی اور ڈھٹائی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے نخوت سے بولی۔
’’تم کتنی چالاک نیچ اور جھوٹی سوچ کی مالک ہو کشمالہ۔۔۔ اور میں۔۔۔ میں کتنا پاگل اور بے وقوف کہ تمہاری باتوں میں آکر معصوم پاک باز اور شریف لڑکی کے ساتھ زیادتیوں کی حد کر ڈالی۔ تم ایک گری ہوئی عورت ہو۔ دل چاہتا ہے کہ تم جیسی ناگن کا گلا دبا دوں تاکہ تم آگے کسی اور کو اپنے زہرسے نہ ڈس پائو۔‘‘ ابریز غصے سے چلاتا ہوا اس کی جانب بڑھا۔
’’اے مسٹر۔۔۔‘‘ اچانک سامنے وہ ادھیڑ عمر کا عام سی شکل کا آدمی آگیا جو اب تک چپ چاپ بیٹھا تماشہ دیکھ رہا تھا۔
’’اپنا غصہ اور اپنا ایٹی ٹیوڈ اپنے پاس رکھو کیونکہ اب یہ تمہاری محبوبہ نہیں میری ہونے والی بیوی ہے۔‘‘ ابریز نے نفرت بھری نگاہ کشمالہ پر ڈالی اور پلٹ کر دروازے کو ٹھوکر مارتا ہوا باہر نکل گیا۔
دماغ بری طرح سلگ رہا تھا کشمالہ کتنی گھٹیا اور نیچ نکلی۔ وہ صرف اورصرف دولت کی پجارن تھی مجھ سے زیادہ پیسے والے شخص کو پاکر سب کچھ بھول گئی۔ میں نے تو سچے دل سے اسے چاہا اسے پیار کیا اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنانے کو تیار تھا۔ میں نے اس کی محبت اس کی ادائوں میں آکر تزکیہ جیسی شریف نیک اور خاندانی لڑکی سے حد درجہ زیادتی کر ڈالی۔ اس کے جذبات کو اس کی فیلنگ کو کچل ڈالا۔ اسے ذلت اور حقارت کے سوا دیا ہی کیا ہے؟ قدم قدم پر اس کی تذلیل کی۔ اس کو اس کے حقوق سے محروم رکھا اور وہ‘ وہ اس نے ہر ہر قدم پر گھر کی بھلائی چاہی۔ محبت خلوص اور ہمدردی کے ساتھ گزارا ایک ایک پل اس نے صرف اور صرف تڑپ تڑپ کر گزارا۔ اذیت اور کرب کے ساتھ گزشتہ آٹھ نو ماہ میں ایک بار بھی کوئی گلہ کوئی شکوہ نہ کیا۔ میری ہر زیادتی ہر ظلم کو برداشت کرتی رہی جب کہ وہ جانتی تھی کہ اس کا یہ عارضی ٹھکانہ ہے۔ اس کو یہاں سے ذلت کا داغ لے کر لوٹ جانا ہے اس کے باوجود بھی اس نے کبھی کوئی بدتمیزی ہٹ دھرمی یا ضد نہیں کی۔ چپ چاپ روبوٹ کی طرح میرے اشاروں پر ناچتی رہی۔ اپنا اندر اور باہر چھپا کر لوگوں کے سامنے جینا‘ آسان نہیں ہوتا مگر۔۔۔ مگر اس نے ایسا کیا۔ اللہ پاک میں۔۔۔ میں نے کتنا بڑا ظلم کردیا ایک معصوم لڑکی کو ناکردہ گناہ کی اتنی بڑی اور اذیت ناک سزا دے دی۔ گزشتہ آٹھ نو ماہ سے ہر رات۔۔۔ ہر رات اس کو رلایا۔ یا اللہ میں اس قابل بھی نہیں کہ جاکر اس سے معافی مانگ سکوں۔ وہ۔۔۔ وہ کل چلی جائے گی۔ مجھے چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میری زندگی سے نکل جائے گی۔ اتنی بے وقعت ہوکر آخر کب تک۔ کب تک وہ یہاں رہ سکتی ہے اور پھر میں نے ہی تو اس کی حد بتائی تھی۔
اس کا ذہن مائوف ہورہا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوچکی تھیں۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوا تو تزکیہ اپنے کمرے میں تھی اور الماری سے کچھ نکال رہی تھی۔ وہ نڈھال سا کرسی پر ڈھے گیا۔
’’مسٹر ابریز حسن۔۔۔ آپ اس سوٹ کیس کی تلاشی لے سکتے ہیں میں یہاں سے کچھ لے کر نہیں جارہی۔ ہاں وہ قرآن پاک جس کو مما سنا کرتی تھیں اور وہ نماز کا دوپٹہ جو مما نے مجھے دیا تھا یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں میں اپنے ساتھ اپنے پاس رکھنا چاہوں گی۔‘‘ تزکیہ نے لہجے کو سخت بنانا چاہا مگر اس کی آواز میں لرزش تھی۔ ابریز نے آنکھیں اٹھا کر تزکیہ پر گہری نظر ڈالی سرخ انگارہ آنکھیں جن میں نمی جھلک رہی تھی۔ تزکیہ نے جلدی سے نگاہ ہٹائی۔
’’مجھے ایک گلاس پانی پلادو۔‘‘ نہ لہجے میں حاکمیت تھی اور نہ ہی سختی۔۔۔ تزکیہ نے اس بار غور سے ابریز کی جانب دیکھا اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ بدن بھی کپکپاہٹ تھی۔ آنکھوں میں بھاری پن اور بوجھل پن نمایاں تھا۔ چہرے پر بھی سرخی تھی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ قریب آئی پانی دیا تو بے ساختہ ہاتھ ابریز کے ہاتھ سے ٹچ ہوگیا۔
’’آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔‘‘ تزکیہ اس کی حالت دیکھ کر ایک دم گھبرا گئی۔ ابریز نے گلاس تھامنا چاہا مگر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا اس پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔
’’ہاجرہ جلدی سے ڈاکٹر کو فون کریں ابریز کی طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘ تزکیہ نے گھبرا کر پہلے ابریز کو سنبھالنے کی کوشش کی اور پھر چیخ کر ہاجرہ کو آواز لگائی۔
بخار کافی تیز تھا ڈاکٹر نے انجیکشن لگایا اور ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے کا کہا۔ ابریز غنودگی کی کیفیت میں ہی تھا تزکیہ سب کچھ بھول بھال کر اس کے پاس بیٹھ کر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے لگی۔ مسلسل پٹیاں رکھنے سے بخار کی حدت میں کمی آئی تو ابریز نے آنکھیں کھولیں۔ سکینہ چائے اور سلائس لے آئی کیونکہ کچھ کھلا کر دوا بھی دینی تھی۔ شام سے رات ہوگئی۔ تزکیہ وقفے وقفے سے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق بخار چیک کرتی رہی۔ ساری رات ایک پل کے لیے بھی نہیں سوئی وہ جیسا تھا جو بھی تھا اس کا شوہر تھا سب سے بڑی بات کہ اکیلا تھا۔ اس کو اس وقت تزکیہ کی ضرورت تھی۔ صبح ابریز کی حالت کچھ بہتر ہوئی۔ تزکیہ نے اس کے لیے سوپ تیار کیا اور تھوڑی دیر بعد کمرے میں آئی تو ابریز تکیے کے سہارے بیٹھا تھا۔ ایک رات میں وہ کتنا کمزور اور مضحمل لگ رہا تھا۔ تزکیہ نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔
’’میں نے ہاجرہ کو ضروری ہدایات دے دی ہیں۔ آپ بھی بہتر ہیں۔ یہ میری فطرت کا حصہ اور میری تربیت میں شامل تھا کہ جس کی وجہ سے میں رات کو یہاں آپ کے پاس رکی۔ اب آپ کو میری ضرورت نہیں ہے اس لیے اب میں آپ کے گھر اور آپ کی دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جارہی ہوں۔ میں آپ کے ساتھ گزارے اذیت ناک وقت کو یہیں دفن کرکے صرف وہ اچھی یادیں لے کر جارہی ہوں جو مما کے ساتھ گزاری ہیں۔‘‘ پُراعتماد لہجے میں کہتے ہوئے سر پر دوپٹہ کو پھیلاتے ہوئے واپس پلٹی۔ ابریز جو چپ اس کی باتیں سن رہا تھا ایک لمحے میں بیڈ سے اتر کر اس کے پاس آگیا۔
’’تم۔۔۔ تم بھی مجھے چھوڑ کر چلی جائو گی؟‘‘
’’جی ابریز حسن کیونکہ بقول آپ کے میں یہاں مما کی وجہ سے ان کے لیے آئی ہوں اور ان کی زندگی تک یہاں پر ہوں اور اب۔۔۔ اب مما کو گزرے ہوئے بھی دس بارہ دن ہوگئے۔ اب کیا جواز بنتا ہے میرے یہاں رہنے کا۔‘‘ نہ جانے کہاں سے اتنا اعتماد آگیا تھا۔
’’مگر تم تو۔۔۔ تم اچھی لڑکی ہو۔ سب کا خیال رکھنے والی۔ سب کی مدد کرنے والی۔ پھر ایک بیمار اور اکیلے شخص کو چھوڑ کر کس طرح جاسکتی ہو؟‘‘ زندگی میں پہلی بار ابریز نے اس لہجے میں یوں بے چارگی سے سوال کیا تھا۔ تزکیہ نے نگاہ اٹھا کر غور سے اسے دیکھا۔ بلیک لائینگ کے ٹرائوزر وائٹ ملگجی سی ٹی شرٹ بکھرے بالوں بڑھی ہوئی شیو اور بخار کے اثر سے کمزور چہرہ وہ بہت ٹوٹا ہوا بہت بکھرا ہوا لگ رہا تھا۔ ایک لمحے کو تزکیہ گڑبڑائی مگر پھر فوراً ہی سنبھل گئی۔
’’جی تھی تزکیہ کبھی ایسی مگر وہ تزکیہ مرچکی ہے اب تزکیہ کو صرف اپنے لیے جینا ہے کیونکہ جس کے لیے وہ یہاں آئی تھی وہ تو ہے نہیں۔ آپ میرا راستہ چھوڑ دیں آپ تو بہت خوش ہوں گے کہ آپ جو چاہتے ہیں وہ آسانی سے پورا کرسکتے ہیں۔ آپ اپنی پسند اپنی محبت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر لاسکتے ہیں۔ کوئی تکلیف کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی آپ کو۔ آپ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘
’’پلیز تزکیہ۔۔۔ میں مانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا۔ جو کچھ تمہارے ساتھ کیا وہ ناقابل برداشت ہے اور میں نے جس گھٹیا لڑکی کے لیے تم جیسی لڑکی کی قدر نہیں کی وہ ذلیل اور نیچ نکلی اسے مجھ سے زیادہ دولت مند آدمی مل گیا۔ اس نے مجھے دھوکا دیا مجھے ہرٹ کیا۔۔۔ میں اپنے تمام تر گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔ بہت شرمندہ ہوں تم سے نظریں ملانے کے بھی قابل نہیں ہوں۔‘‘
’’اوہو۔۔۔‘‘ تزکیہ نے ہونٹوں کو سکیڑا۔۔۔ ’’یہ تو اللہ کی طرف سے ہوا ہے ابریز حسن۔ اس سے معافی مانگیں میں نے کبھی کوئی بد دعا نہیں دی۔‘‘ وہ منہ پھیر کر کھڑی ہوگئی۔
’’پلیز تزکیہ میں ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی مانگتا ہوں۔ اپنی زیادتیوں کی اپنی غلطیوں کی معافی مانگتا ہوں۔ بہت شرمندہ ہوں تم سے۔ تمہارے خیال میں‘ میں وہاں سے ٹھکرائے جانے کے بعد تمہارے پاس آیا ہوں۔۔۔ تو بس اتنا ہی کہوں گا۔ صرف اور صرف تم سے معافی کا طالب ہوں آگے تمہاری مرضی ہے تزکیہ کہ تم مجھے معاف اور مجھ پر اوپر احسان کرکے میرے ساتھ رہو یا نہ رہو۔ کیونکہ میں واقعی خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ تم جیسی ہیرا لڑکی مجھ جیسے مطلب پرست آدمی کے ساتھ رہے۔ سچ میں‘ میں کم ظرف اور چھوٹا انسان ہوں لیکن وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کوئی کوتاہی کوئی غلطی نہیں کروں گا۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑے سامنے کھڑا تھا۔ سوالی بن کر۔
تزکیہ میرے گھر کو‘ مما کے گھر کو تمہاری ضرورت ہے پلیز‘ تمہارے بنا یہ گھر مما کا گھر ویران ہوجائے گا۔ تزکیہ یہ میرا نہیں ہمارا گھر ہے۔ اس گھر کو تم جیسی لڑکی کی ضرورت ہے تزکیہ۔ جسے مما نے پسند کیا تھا یہ مما کی خواہش بھی تھی ہم دونوں کو مل کر بابا کے مما کے گھر کو آباد رکھنا ہے تزکیہ۔ میں ٹوٹ گیا ہوں۔ تزکیہ مما کا گھر بکھرنے لگا ہے۔ کیا تم اسے سمیٹو گی نہیں۔۔۔ کیا ہم مل کر اس کو بکھرنے سے بچا نہیں سکتے؟‘‘ وہ سر تاپا سوال عاجزی کی علامت تھا۔
’’نہیں۔‘‘ تزکیہ کا لہجہ اٹل اور فیصلہ کن تھا۔
’’ٹھیک ہے تزکیہ۔‘‘ وہ راستے سے ہٹ گیا تزکیہ نے قدم بڑھائے۔
’’تزکیہ جانے سے پہلے ایک بات سن لو کہ تمہارے بنا میرا گھر‘ میرا کمرہ اور میرا دل قبرستان کی طرح ہوگا اور قبرستان میں زندہ لوگ نہیں رہتے اور میں بھی اب تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ پائوں گا۔ کیا کروں گا زندہ رہ کر اور کس کے لیے زندہ رہوں نہ مما ہیں اور اب تم بھی۔۔۔ میں تمہارے بنا مر جائوں گا تزکیہ سچ۔‘‘ تزکیہ تڑپ کر پلٹی کس قدر بے بسی بے چارگی اد اسی ابریز کے چہرے پر نمایاں تھی۔
اس کی خوب صورت آنکھوں میں شرمندگی اور ندامت کے آنسو تھے۔ کتنا ٹوٹا ہوا۔۔۔ کس قدر بکھرا ہوا لگ رہا تھا وہ۔ تزکیہ کا دل تڑپا۔ ابریز حسن اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا جس کو تزکیہ نے ٹوٹ کر چاہا تھا۔ بے اعتنائیوں اور کج ادائیوں کے باوجود بھی وہ دل کے کونے کونے میں دھرنا دے کر بیٹھا تھا۔ وہ کتنا بے بس اور شرمندہ تھا تزکیہ بے ساختہ اس کے پاس چلی آئی۔ اس کے چوڑے سینے میں منہ چھپا کر سسک پڑی۔
’’اللہ نہ کرے ابریز کہ آپ کو کچھ ہو۔ آپ کو کچھ ہوا تو میں بھی زندہ نہ رہ پائوں گی۔‘‘ بظاہر سخت بننے والی اندر سے کتنی کمزور اور نرم تھی۔ ابریز نے پوری قوت سے اسے بھینچ لیا آنسو بے تحاشہ اس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں پر بہنے لگے خود کو برداشت کی آخری حدوں پر لاکر وہ خود بھی بری طرح بکھر چکی تھی۔ زندگی نئے موڑ پر آگئی تھی۔
’’تزکیہ تم بہت عظیم لڑکی ہو اور میں ایک حقیر اور چھوٹا انسان جو انجانے میں اندھیروں میں منزل تلاش کرنے جارہا تھا اور بے وقوف کو یہ خبر بھی نہیں تھی کہ روشنی اور منزل تو اس کے پاس تھی۔ اس کے ساتھ تھی اور میں ناقدری میں ذلالت کی حدیں پار کررہا تھا۔ تم نے مجھے معاف کردیا ناں؟‘‘
’’جی ابریز۔‘‘ روتے روتے معصومیت سے سر ہلا کر بولی تو ابریز کو اس پر ٹوٹ کر پیار آگیا۔
’’بہت برے ہیں آپ۔‘‘ ابریز کو والہانہ انداز میں دیکھتا پاکر تزکیہ نے دھیرے سے کہا۔
’’ہاں مگر اب یہ برا انسان تمہیں اچھا بن کر دکھائے گا اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ ابریز نے جھک کر اس کے کان میں آہستہ سے کہا۔
’’ابھی تو تمہارے اس جھوٹ کو بھی سچ ثابت کرنا ہے جو تم نے مماسے کہا تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ تزکیہ نے حیران ہوکر آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
’’ہاں وہی جو تم نے مما سے کہا تھا اور میں نے سن لیا تھا۔ آئی لو یو مائی ڈیئر۔‘‘ ابریز نے تزکیہ کو سینے سے لگا کر اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔ تزکیہ نے بے خود ہوکر اس کی بانہوں میں خود کو سمولیا۔
ختم شد