"معاشرے میں شامل کچھ کہانیوں میں سے ایک کہانی "
تھکی ہاری شام ڈھلے اسکول سے واپس آئی تو خلاف معمول گھر میں غیر معمولی چہل پہل دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ تزکیہ اور تقدیس ڈرائنگ روم کی صفائی کر رہی تھیں۔ جب کہ اماں یقینا کچن میں مصروف تھیں کیونکہ اس وقت کچن سے اشتہا انگیز خوشبو آنے کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور تھا۔ سیرت کا منہ بن گیا کمرے میں چادر اور پرس پھینک کر وہ سیدھی کچن میں آگئی۔ اماں کباب فرائی کر رہی تھیں جب کہ سامنے سلیپ پر دہی بڑے اور پلیٹ میں سموسے رکھے تھے۔
’’اماں۔۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔۔؟‘‘ نہ سلام نہ دعا سخت لہجے میں سوال کیا۔
’’ارے بھئی یہ دہی بڑے‘ سموسے اور یہ ہیں کباب۔‘‘ انہوں نے باری باری اشارہ کرکے اطمینان سے جواب دیتے ہوئے گرم آئل میں کباب ڈالتے ہوئے کہا۔
’’اماں۔۔۔ آخر کیوں کرتی ہیں آئے دن کے یہ تماشے؟ آپ کو اندازہ بھی ہے کہ کتنی محنت سے پیسہ آتا ہے گھر میں اور آپ یوں آلتو فالتو میں پیسے ضائع کردیتی ہیں اور آپ کی محنت وہ الگ اور نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ آج پھر کچھ لوگ آرہے ہوں گے۔ نظروں نظروں میں مجھے جانچنے اور گھر کو پرکھنے کے لیے اور جی بھر کر مزے لے لے کر آپ کی محنت اور اباجی کے پیسوں کو چیک کرکے جاتے جاتے منہ ٹیڑھا کرکے بھی جائیں گے اور آپ ہیں کہ نہایت مستقل مزاجی سے بار بار اور ہر بار یہی کرتی ہیں دیکھ لیجئے گا اس بار بھی یہی ہونا ہے۔ سمجھی آپ۔۔۔؟‘‘
’’چپ کرو تم۔۔۔ پاگل ہوگئی ہو کیا؟ نہ سلام نہ دعا آتے ہی شروع ہوگئیں بنا فل اسٹاپ کے۔ جاؤ تم جا کر فریش ہوجاؤ۔‘‘ اماں نے تھوڑا تیز لہجے میں کہا تو وہ منہ بنا کر پیر پٹختی کچن سے باہر نکل گئی۔
/۔۔۔/۔۔۔/۔۔۔/
اماں بے چاری بھی کیا کرتیں اوپر تلے تین بیٹیاں تھیں۔ مسئلہ وہی رشتوں کا تھا کہ کوئی مناسب رشتہ آتا نہیں اور جو ان لوگوں کو مناسب لگتا کو یہ لوگ نامناسب لگتے۔ یوں بات نہ بنتی۔ الیاس صاحب کی فیملی میں ایک بڑے بھائی اور ایک بہن تھیں۔ والدین حیات نہیں تھے کوئی خاص لمبی چوڑی جائیداد ترکے میں نہیں ملی تھی۔ تین کمروں کا چھوٹا سا مکان ان کے حصے میں آیا تھا۔ الیاس صاحب سرکاری آفس میں جاب کرتے تھے۔
ناظمہ بیگم شادی کے بعد اسی گھر میں آئی تھیں۔ پرانی طرز کے بنے ہوئے اس مکان کو دونوں میاں بیوی نے مل کر بہت محبت اور محنت سے سنوارا تھا۔ دونوں میں حد درجہ اور ایک دوسرے کی عزت اور خیال رکھنے کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا یعنی محبت‘ ذہنی مطابقت اور میانہ روی کے ساتھ زندگی کی ابتداء اور ساری زندگی انہی اصولوں پر گزاری تھی۔
الیاس صاحب کے بڑے بھائی عبدالجبار صاحب کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی جب کہ ان کی بہن کے شوہر دبئی میں تھے اور شبانہ بیگم بھی دبئی آتی جاتی تھیں۔ شبانہ بیگم کا ایک بیٹا فاران اور بیٹی سندس تھی۔ الیاس تینوں میں چھوٹے تھے۔ جب الیاس صاحب کے گھر شادی کے سال بعد ہی سیرت پیدا ہوئی تو بڑے بھائی عبدالجبار صاحب اور بھاوج ستارہ بیگم دیکھنے آئے۔ اس وقت شبانہ بیگم اپنے شوہر کے پاس دبئی میں تھیں انہوں نے بس کال پر ہی بیٹی ہونے ہر افسردگی کا اظہار کیا۔
’’عبدالجبار بھائی کے یہاں لگا تار تین بیٹے ہوئے۔ میرے یہاں بھی پہلا بیٹا ہے اور تمہارے ہاں بھی بیٹا ہوجاتا تو اچھا ہوتا۔‘‘ ستارہ بیگم نے بھی دیور کو مبارک باد دیتے ہوئے شوشا چھوڑا۔
’’مبار ک ہو الیاس میاں۔۔۔ مگر پہلوٹی کا بیٹا ہوجائے تو ذرا ہمت بندھ جاتی ہے۔‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ الیاس صاحب نے ناظمہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بلکہ میں تو بہت خوش ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے میرے گھر اپنی رحمت بھیجی۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو ستارہ۔۔۔؟ اس بات کی خوشی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بے عیب بچی دی ہے اﷲ پاک اس کی عمر دراز کرے۔‘‘ عبدالجبار صاحب کو بیوی کی بات اچھی نہیں لگی تھی۔
’’ہاں عبدالجبار احمد۔۔۔ بس اﷲ پاک نصیب اچھے کرے اور اس کی قسمت سے گھر میں خوش حالی اور بحالی پیدا ہو۔‘‘ ستارہ بیگم نے میاں کو گھور کر دیکھتے ہوئے تفاخر سے کہا ان کو اپنے تین تین بیٹوں پر بڑا ناز تھا اور وہ کچھ مغرور ہوگئی تھیں۔ الیاس صاحب نے ساتویں دن سیرت کا عقیقہ بھی کردیا۔ نام رکھ کر مٹھائی بھی تقسیم کردی وہ بہت خوش تھے کہ ان کے گھر رحمت آئی ہے۔
ناظمہ بیگم کی مصروفیت میں اضافہ ہوگیا تھا ان کو گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ شوہر کے چھوٹے چھوٹے کام کرنا اچھا لگتا تھا۔ سیرت ابھی دو سال کی ہوئی تھی کہ تزکیہ پیدا ہوگئی۔ تزکیہ کی پیدائش پر بھی الیاس احمد اتنے ہی خوش تھے جتنے سیرت کے پیدا ہونے پر خوش تھے۔
’’الیاس احمد۔۔۔‘‘ ناظمہ نے الیاس کو آواز دی جو تزکیہ کو گود میں اٹھا کر پیار کررہے تھے۔ الیاس احمد نے پلٹ کر سوالیہ نظروں سے بیوی کی طرف دیکھا۔
’’الیاس احمد۔۔۔ آپ خوش تو ہیں ناں؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔ میں خوش ہوں کیوں کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ جواب دے کر سوال کر ڈالا۔
’’میرا مطلب تھا کہ دو بیٹیوں کا بوجھ۔۔۔‘‘ لہجہ دھیما ہوگیا۔
’’پاگل ہوگئی ہو کیا۔ بوجھ کیا۔۔۔؟ یہ کیا فضول بات کردی تم نے؟ ارے یار میں تو شکر گزار ہوں رب کا اس نے دوسری بار مجھے رحمت سے نوازا ہے اور تم الٹی سیدھی اور فضول باتیں مت سوچا کرو۔‘‘ الیاس صاحب نے آگے بڑھ کر ناظمہ بیگم کو خود سے لگاتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ناظمہ بیگم نے پُر تشکر نگاہوں سے اپنے بے پناہ محبت کرنے والے شفیق شوہر کو دیکھا۔
’’واقعی الیاس احمد آپ بہت پیارے انسان ہیں میں بہت خوش قسمت ہوں۔‘‘ ناظمہ بیگم نے کہا تو الیاس صاحب نے ناظمہ بیگم کا ماتھا چوم کر اپنی محبت کا مزید یقین دلایا اور ناظمہ بیگم نے مطمئن ہو کر آنکھیں موند لیں۔
ناظمہ کی صحت کافی گرگئی تھی سیرت دو سال کی تھی کہ تزکیہ پیدا ہوگئی یکے بعد دیگرے بچیوں کی پیدائش اور گھریلو ذمہ داریوں اور کام کی زیادتی سے صحت پر اثر پڑا تھا۔ الیاس صاحت کی جاب بھی کوئی اتنی اچھی نہیں تھی پھر حق حلال کی کمائی کو ترجیح دیتے تھے۔ گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ سیرت اور تزکیہ کے اخراجات بڑھ گئے تھے۔ اس لیے سب کو احسن طریقے سے مینج کرنا بہت دشوار ہوگیا تھا۔
جب کہ ان کے مقابلے میں عبدالجبار صاحب مالی لحاظ سے خاصے مستحکم تھے انہوں نے چھوٹا سا کاروبار شروع کیا تھا۔ جائز و ناجائز سے بالا تر ہوکر انہوں نے کاروبار کو خاصا چمکالیا تھا۔ شبانہ بھی مالی طور پر خاصی اسٹرونگ تھیں بس الیاس صاحب ہی سفید پوشی برقرار رکھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ ناظمہ بیگم بھی اپنی صحت کی پروا کیے بغیر برابر ساتھ نبھارہی تھیں۔ الیاس احمد کی اپنی بیٹیوں میں جان تھی۔ آفس سے آنے کے بعد وہ سارا وقت بیٹیوں کے ساتھ گزارتے سیرت یا تزکیہ تھوڑا سا بیمار ہوجاتیں تو ناظمہ بیگم کے ساتھ ساتھ خود بھی ساری ساری رات جاگتے رہتے۔
سیرت اب اسکول جانے لگی تھی۔ ناظمہ بیگم کی خواہش پر اسے اچھے اسکول میں داخل کروایا گیا تھا۔ شبانہ اور ستارہ وقتاً فوقتاً الیاس احمد کو بیٹے کی کمی کا احساس دلاتی رہتی تھیں اور کبھی کبھی ناظمہ بیگم کو بھی اس بات کا احساس ہوتا کہ واقعی ان کے گھر میں ایک بیٹا بھی آنا چاہئے تاکہ ان کی فیملی مکمل ہوجائے۔ کبھی وہ اپنی اس خواہش کا اظہار الیاس صاحب سے کرتیں تو الیاس صاحب مسکرادیتے اور دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے ناظمہ بیگم کو دیکھتے۔
’’ناظمہ سچ پوچھو تو مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں ہے اور نہ ہی مجھے اپنی فیملی نامکمل لگتی ہے مجھے تو اپنے چھوٹے سے آنگن میں گونجتی اپنی شہزادیوں کی ہنسی بہت بھلی لگتی ہے۔ ان کو دیکھ کر بڑا سکون ملتا ہے مجھے۔ ساری تھکن کافور ہوجاتی ہے۔ اﷲ پاک کی منشاء اور مرضی پر راضی ہوں اگر نصیب میں بیٹا ہوا تو بہت اچھی بات ہے۔ اور اگر نہ ہوا تو کوئی گلہ یا ادھورے پن کا احساس نہیں۔‘‘ ناظمہ بیگم سر ہلا کر چپ ہوجاتیں۔حسب معمول اس روز نماز فجر کے بعد ناظمہ بیگم کچن میں آگئیں۔ سیرت کے اسکول کی وین صبح جلدی آتی تھی۔ سیرت کو گہری نیند سے جگانا‘ ناشتہ کروا کر تیار کرنا مشکل اور دقت طلب کام تھا۔ سیرت کو جگانے میں تزکیہ بھی اٹھ جاتی تو الیاس بھی کچن میں ناظمہ کا ہاتھ بٹانے آجاتے۔ کبھی سیرت کا لنچ باکس ریڈی کردیتے تو کبھی اس کو ناشتہ کروادیتے۔ اس روز بھی تزکیہ جاگ گئی تھی اور رونے لگی ناظمہ بیگم نے جلدی جلدی سیرت کا بیگ اور لنچ بکس تیار کیا تب تک الیاس صاحب نے اسے ناشتہ کروادیا اور ناظمہ بیگم تزکیہ کے لیے فیڈر بنا کر جیسے ہی تیزی سے کمرے کی جانب جانے لگیں کہ زور کا چکر آگیا اور خود کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتے کرتے وہ زمین پر گرگئیں۔ الیاس دوڑ کر مضطرب ہوتے ان کی جانب پہنچے۔ ہاتھ پکڑ کر اٹھایا۔
’’کیا ہوا ناظمہ خیریت تو ہے۔۔۔ طبیعت خراب ہے کیا تمہاری؟ یہ لو پانی پیو۔‘‘ الیاس احمد پریشان ہوگئے تھے ناظمہ بیگم کو سنبھال کر بیڈ پر لیٹایا۔
’’جی جی ٹھیک ہوں میں۔۔۔ اچانک چکر آگیا تھا آپ پریشان نہ ہو۔‘‘ ناظمہ بیگم نے پانی پی کر الیاس احمد سے کہا۔
’’کیسے پریشان نہ ہوں؟ تم اپنا ذرا بھی دھیان نہیں رکھتیں۔ سارا دن کام میں مصروف رہتی ہو۔ کتنی کمزور ہوگئی ہو؟‘‘ الیاس صاحب واقعی گھبرا گئے تھے۔ تب سیرت کی اسکول وین کا ہارن بجا۔
’’تم لیٍٹی رہو آتا ہوں میں۔‘‘ الیاس صاحب نے سیرت کا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اماں اﷲ حافظ۔‘‘ سیرت نے کہا تو ناظمہ نے’’فی امان اﷲ‘‘ کہا۔ تزکیہ فیڈر پیتے پیتے سوچکی تھی۔
’’شام میں تیار رہنا اور دن میں کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جلدی آجاؤں گا ہم اسپتال چلیں گے۔ خدا نخواستہ کہیں بی پی کا مسئلہ نہ ہو۔‘‘ آفس جاتے ہوئے الیاس صاحب ہدایت کر گئے تھے اور ناظمہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتی رہی۔
جب شام کو ڈاکٹر نے ایک بار پھر ناظمہ کو ماں بننے کی نوید سنائی تو الیاس صاحب خوش تھے جب کہ ناظمہ بیگم گھبرا گئیں تھیں۔
’’مسز الیاس۔۔۔ آپ کو اپنا بہت خیال رکھنا ہوگا۔ آپ خاصی ویک ہیں اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ دوائیں‘ پرہیز اور کچھ اور احتیاط لازمی کرنی ہوگی۔‘‘ ڈاکٹر نے ڈھیروں ہدایت دے کر رخصت کیا۔
ناظمہ خاصی پریشان تھی۔ ابھی وہ دونوں بیٹیوں کے اخراجات کی وجہ سے ہی الیاس صاحب پر کافی بوجھ سمجھتی تھیں۔
’’کیا ہوا ناظمہ۔۔۔ تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ الیاس صاحب نے واپسی پر ناظمہ بیگم سے پوچھا۔
’’نہیں الیاس احمد خوشی تو ہوئی ہے۔ لیکن ابھی ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں تزکیہ کا ایڈمیشن بھی کروانا ہے سیرت کے تعلیمی اخراجات اچھے خاصے ہیں پھر دونوں کے ملا کر اچھے خاصے ہوجائیں گے۔ گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ میری دواؤں کا خرچہ بڑھ جائے گا اور پھر نئے ممبر کے اضافے سے مزید آپ پر کام کا بوجھ بڑھ جائے گا۔‘‘ ناظمہ بیگم متفکر لہجے میں بولیں۔
’’ارے کیوں فکر کرتی ہو؟ بس اﷲ پر بھروسہ رکھو جس نے یہ خوشی دی ہے وہی سارے مسائل بھی حل کرنے والا ہے۔ اﷲ پاک کی رضا یہی ہے تو بجائے یہ کہ ہم اس خوشی کو متفکر ہوکر یا خدشات کے ساتھ لیں۔ ہمیں خوشی خوشی آنے والے مہمان کی تیاری کرنی ہے تم کسی قسم کی فکر یا ٹینشن مت لو کیوں کہ میں تمہیں پریشان یا بیمار نہیں دیکھنا چاہتا۔ اﷲ پر بھروسہ رکھو وہ سب کی فکر کرنے والا ہے۔‘‘ اور ناظمہ بیگم تشکر سے الیاس احمد کو دیکھنے لگیں۔
الیاس احمد نے اوور ٹائم کرنا شروع کردیا۔ جھاڑو پوچے کے لیے ملازمہ رکھ لی تاکہ ناظمہ بیگم پر کام کا بوجھ کم ہوجائے۔ شبانہ بیگم اور ستارہ بیگم کو پتہ چلا تو وہ لوگ مبار ک باد دینے آئیں۔ ساتھ ساتھ ستارہ بیگم نے کئی وظائف اور دعائیں بھی بتائیں۔
’’بیٹے کے لیے یہ پڑھو‘ یہ کھاؤ اور ہاں۔۔۔ اگر تم چاہو تو میرے ساتھ ایک بابا کے یہاں چلو بہت مانے ہوئے ہیں پیسے زیادہ لیتے ہیں مگر ان کے تعویز سے بیٹا ہی پیدا ہو تا ہے۔ دیکھ لینا اس بار تمہیں بھی بابا جی کی دعا سے بیٹا ہی ہوگا۔‘‘
’’ہیں سچ بھابی۔‘‘ سیدھی سادی ناظمہ بیگم نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔
’’اے لو بھئی۔۔۔! بھلا میں جھوٹ کیوں بولوں گی مجھے کون سا دو رکعت کا ثواب ملے گا۔ تمہاری اور الیاس کی صورت دیکھ کر مجھے ترس آتا ہے۔ بے چارے کتنی محنت کرتے ہیں اگر بیٹا ہوجائے گا تو ان کے لیے بھی سہارا بنے گا۔‘‘
’’جی جی بھابی۔۔۔ ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ میں الیاس سے پوچھ کر آپ کو بتاتی ہوں۔‘‘ ناظمہ بیگم جٹھانی کے بگڑے موڈ کو دیکھ کر جلدی سے بولیں۔ ناظمہ کی تو دلی خواہش تھی کہ اس بار بیٹا ہوجائے۔
__________
الیاس اس بار بھی کوئی کمی نہیں ہونے دے رہے تھے۔ ناظمہ کا حد درجہ خیال رکھتے‘ ہرچیز وقت سے پہلے لے آتے۔ اس وقت سیرت اور تزکیہ کو سلاچکے تھے۔ ناظمہ بیگم نے دونوں بچیوں کے بیگ سیٹ کئے اور خود بھی بیڈ پر آکر بیٹھ گئیں۔
’’کیا ہوا۔۔۔ تھک گئی ہو؟‘‘ الیاس صاحب نے بغور بیوی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں تو۔‘‘ ناظمہ بیگم جلدی سے بولیں۔
’’دوا پابندی سے لے رہی ہو ناں۔۔۔؟‘‘
’’جی سب ٹائم پر ہورہا ہے جناب آپ کی ہدایت کے مطابق۔‘‘ ناظمہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔
’’گڈ۔‘‘ الیاس صاحب بھی جواباً مسکرائے۔
’’الیاس احمد۔۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔‘‘ کچھ دیر بعد ناظمہ نے کہا۔
’’ہاں ہاں بولو۔۔۔ ایسی کون سی بات ہے کہ جسے کہنے سے پہلے میری اجازت درکار ہے؟‘‘ الیاس صاحب نے بغور ناظمہ کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’آج ستارہ بھابی آئی تھیں مبارک باد دے رہی تھیں اور دعائیں بھی دے کر گئیں ہیں اور۔۔۔‘‘
’’اور کیا۔۔۔؟‘‘ الیاس صاحب نے ترچھی نظروں سے بیگم کو دیکھا۔ ’’ناظمہ جو بات ہے کھل کر کہو یوں تذبذب کا شکار کیوں ہو۔۔۔؟‘‘ الیاس صاحب ناظمہ کے رویے سے جھنجھلا کر بولے۔
’’بھابی کہہ رہی تھیں کہ کوئی بابا جی ہیں اگر ان سے تعویز لے لیا جائے تو لازمی بیٹا ہوتا ہے۔۔۔؟‘‘
’’چپ کرو ناظمہ۔۔۔‘‘ الیاس صاحب نے ہاتھ اٹھا کر مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ ’’یہ کیسی فضول باتیں کر رہی ہو تم۔۔۔؟ ہم کون ہوتے ہیں اﷲ کے کاموں میں دخل دینے والے۔ بھلا کس کی مجال کہ اﷲ پاک کی مرضی کو بدل سکے۔ اﷲ کی مصلحت میں داخل اندازی کرنے کا کسی میں حوصلہ ہوسکتا ہے؟ مجھے حیرت ہے کہ تم نے ستارہ بھابی کی یہ بات مان لی اور ان کی باتوں میں آگئی ہو۔ بے شک تمہیں بیٹے کی خواہش ہے‘ ہر عورت کو ہوتی ہے کیا میری دعا نہیں ہے؟ لیکن ہم اﷲ پاک سے دعا کرسکتے ہیں اس کے آگے سوال کرنا ہمارا حق ہے وہی ہماری سننے والا ہے‘ ہم اس سے ہی مانگ سکتے ہیں۔ وہی ہماری تجوریوں کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھرتا ہے ہمارے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو‘ ہمارے لبوں پر مچلتی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشنے والی وہی ذات ہے۔ جو رحیم اور کریم ہے جو عطا کرنے والا ہے تو پھر ہم کیوں کسی اور کے آگے دست سوال کریں؟ اسی سے مانگو جو بانٹنے پر آئے تو ہماری اوقات سے زیادہ عطا کردیتا ہے؟ جو بھرنے پر آئے تو ہماری جھولیوں کو بھردیتا ہے۔ آئندہ مجھ سے ایسی بات مت کرنا۔‘‘ الیاس صاحب بات ختم کرکے کروٹ بدل کر لیٹ گئے۔ یہ ان کے موڈ بگڑنے کی نشانی تھی۔
ناظمہ بیگم ان کی بات پر چپ رہ گئیں۔ اس دن کے بعد ناظمہ نے پھر ایسی کوئی بات الیاس صاحب کے سامنے نہیں کی لیکن شدتوں سے بیٹے کی خواہش اور دعائیں کر رہی تھیں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا الیاس صاحب آمدنی میں اضافے کی کوشش کر رہے تھے اس کے لیے انہوں نے کمیٹیاں ڈال کر اوپر ایک پورشن بنا کر کرائے پر دے دیا تھا۔ ناظمہ بیگم کی طبیعت بھی خاصی خراب چل رہی تھی۔ دو بچیوں کے کام اور الیاس صاحب کے لاکھ مدد کرنے کے باوجود گھر کے کام اور پھر ان کی وہی ٹینشن بھی تھی۔ اس بار وہ خدا سے بیٹے کو مانگ رہی تھیں۔
شبانہ بیگم خاص طور پر جب بھی آتیں کوئی نہ کوئی بات کر جاتیں کہ الیاس صاحب کے ساتھ ساتھ ناظمہ بھی تاسف سے انہیں دیکھتے رہ جاتے۔ ستارہ بیگم بھی کچھ نہ کچھ بولتی رہتی اور ناظمہ بیگم سوچ میں پڑجاتیں۔ اﷲ اﷲ کرکے ٹائم پورا ہوا اور الیاس صاحب ناظمہ بیگم کو لے کر اسپتال پہنچے۔ شبانہ بیگم اور ستارہ بیگم بھی پہنچ گئیں۔
مسلسل ذہنی دباؤ اور سوچنے کی وجہ سے ناظمہ بیگم کا بی پی کافی ہائی ہوگیا تھا۔ ساتھ میں سانس لینے میں بھی کافی دشواری پیش آرہی تھی۔ الیاس صاحب بچیوں کو لے کر اسپتال کے کوریڈور میں پریشان بیٹھے تھے۔ بہن اور بھاوج بھی پاس ہی بیٹھی تھیں۔ ڈاکٹر لبنیٰ بھی خاصی متفکر تھیں۔ آخر کار ایمرجنسی میں آپریشن کی نوبت آگئی کیونکہ ناظمہ بیگم کی حالت لمحہ بہ لمحہ بگڑتی جارہی تھی۔ ڈاکٹر لنبی ناظمہ بیگم کی طبیعت کے حوالے سے غیر مطمئن تھیں۔ الیاس صاحب چاہتے تھے کہ بس ناظمہ بیگم کو بچانے کی کوشش کی جائے کسی بھی صورت میں ہر حال میں یہی کوشش کی جائے۔ آگے جو اﷲ کی رضا۔ ڈاکٹر کو کہہ کر الیاس صاحب باہر بیٹھ کر صرف ناظمہ بیگم کی زندگی کی دعائیں کررہے تھے کافی دیر بعد ڈاکٹر لبنیٰ باہر آئیں۔ الیاس صاحب اس کی جانب لپکے۔
’’مبارک ہو الیاس صاحب۔۔۔ اﷲ پاک نے ایک بار پھر آپ کے یہاں رحمت بھیجی ہے۔‘‘
’’شکر الحمدﷲ ڈاکٹر مگر ناظمہ۔۔۔ ناظمہ کیسی ہے؟ اس کی طبعیت تو ٹھیک ہے ناں؟‘‘
’’جی جی الیاس صاحب ویسے تو ناظمہ کی حالت بہتر ہے اور اب اﷲ کے کرم سے ان کی جان کو بھی کوئی خطرہ نہیں بے بی اور وہ دونوں ٹھیک ہیں لیکن۔۔۔؟‘‘ ڈاکٹر لبنیٰ کہتے کہتے رک گئیں۔ ان کے چہرے پر عجیب سا تاثر تھا۔
’لیکن۔۔۔لیکن کیا ڈاکٹر صاحبہ۔۔۔؟‘‘ الیاس صاحب نے بے قراری سے پوچھا۔ ستارہ بیگم اورشبانہ جو پہلے ہی بیٹی کا سن کر منہ بنائے بیٹھی تھیں وہ بھی تجسس سے ڈاکٹر لبنیٰ کو دیکھنے لگیں۔
’’الیاس صاحب۔۔۔ ناظمہ کی حالت اور آپ کی ہدایت کے مطابق ہمیں ناظمہ کا آپریشن کرنا پڑا اور اس کے لیے جو بہتر تھا ہم نے کیا۔۔۔ لیکن وہ آئندہ ماں نہیں بن سکتی۔‘‘
’’ہائے اﷲ یہ کیا ہوگیا۔۔۔؟‘‘ شبانہ بیگم نے سینے پر ہاتھ مار کر بین کیا۔
’’ہائے اﷲ الیاس میاں کے نصیب میں اولاد نرینہ نہ رہی۔‘‘ یہ بین ستارہ بیگم کی طرف سے تھا۔
’’بھابی۔۔۔ آپ لوگ کیسی باتیں کر رہیں ہیں۔ اﷲ پاک نے ہمیں اولاد سے تو نوازا ہے اور ہمیں اس قابل جانا تب ہی ہماری جھولی میں رحمتیں ڈال دیں ہیں۔‘‘ الیاس صاحب کو بہن اور بھاوج کی بات سخت ناگوار گزاری تھی۔ شام کو ناظمہ بیگم مکمل طور پر ہوش میں آئیں۔
’’مبارک ہو ناظمہ ہماری بیٹی ماشاء اﷲ سے بہت پیاری ہے تم ٹھیک ہو ناں؟‘‘
’’الیاس احمد۔۔۔ مجھے معاف کردیں۔‘‘ ناظمہ بیگم کانپتے ہاتھوں میں الیاس صاحب کا ہاتھ تھام کر نحیف لہجے میں بولیں ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’ارے ارے۔۔۔ یہ کیا فضول حرکت ہے؟ معافی کس بات کی اور خوشی کے موقع پر ایسی رونی صورت کس لیے؟‘‘ الیاس احمد نے ناظمہ کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’الیاس احمد۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ اب ماں نہیں بن سکتی۔۔۔ ہمارے گھر میں بیٹا پیدا نہیں ہوسکتا۔‘‘ ناظمہ بیگم سسک پڑیں۔