یہاں سے اس کی زندگی کا نیا بابا کھلا انہیں یہاں آئے ایک ہفتہ ہوا تھا ان کا بلکل دل نہیں لگ رہا تھا نئی نئی جگہ تھی نئے نئے لوگ۔۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔
آنٹی حلیمہ بہت اچھی خاتون تھیں وہ ان کا بہت دھیان رکھ رہی تھیں کبھی کبھی وہ کہتیں کہ
" مجھے ایسا لگتا ہے میرے خاموش گھر میں جیسے پھر سے رونق آگئی ہے" ان کی پر شفقت طبیعت کی وجہ سے وہ لوگ ان سے جلدی گھل مل گئے
اس دن یشل ان کے ساتھ کچن میں کام کروا رہی تھی کہ وہ بولیں
" تم اتنی طپ کیوں رہتی ہو؟؟؟ حالانکہ تمہارے بھائی بہن تمہارے برعکس پھر بھی بولتے ہیں "
" آنٹی سچ بتاؤں تو میرا دل ہی نہیں چاہتا اب بولنے کو ۔۔۔۔۔ کچھ بچا ہی نہیں ہے میرے پاس خوش ہونے کو یا بولنے کو سب تو کھو بیتھی ہوں میں" وہ دکھ سے بولی
" نہیں بیٹا ایسا نہیں کہتے یہ تو سراسر ناشکری میں کاؤنٹ ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ جب ہم سب کھو دیتے ہیں نا تب بھی ہمارے پاس ایک چیز ہوتی ہے وہ ہے امید۔۔۔۔۔ جب تک ہم میں امید کی کرن ہے ہم تب تک زندہ ہیں ہماری زندگی اس ایک امید پہ تو ڈیپینڈ کرتی ہے۔۔۔۔۔ امید کے بغیر جینا تو موت کے برابر ہے بیٹے" وہ اسے اپنے پرشفقت انداز میں سمجھانے لگیں
" تو پھر آنٹی میرے اندر تو امید کی کوئی کرن ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔ تو کیا میں۔۔۔۔۔" اس نے بات ادھوری چھوڑ دی
" بالکل نہیں۔۔۔۔۔ کون کہتا ہے کہ تم میں امید کی کرن نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم اس امید کے سہارے ہی تو یہاں آئی ہو کہ اپنی زندگی پھر سے شروع کرو گی بتاؤ کیا ایسا نہیں ہے؟" وہ خاموش رہی پھر بولی
" آنٹی میں امید پہ نہیں لوگوں لوگوں کے رویوں سے ہار کے آئی ہوں۔۔۔۔۔ مجبور تھی میں" وہ افسردہ ہوئی
"ہونہوں۔۔ تم ہار کے نہیں آئیں تم لوگوں کے تلخ رویون کی وجہ سے آئی ہو۔۔۔۔۔ اور اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم ان سے ہار کے آئی ہو تو سمجھ لو کوئی جیت نہیں سکتا جب تک ہارنے والے پیدا نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ زندگی میں ہار جیت تو چلتی ہی رہتی ہے اور پھر ہار اتنی بھی بری چیز نہیں ہے۔۔ یہ پھر سے ہمیں اٹھنے میں اور پھر سےکچھ کرنے۔۔ اور بہتر کرنے کی ہمت دیتی ہے۔۔۔۔۔ یشل بیٹا ہر حال میں اللٰہ کی اس پاک ذات کا شکر کرو کہ اتنے برے حالات میں بھی اس نے تمہیں اکیلا نہیں چھوڑا"
" جی آنٹی آپ ٹھیک کہتی ہیں" وہ بولی
" ہمممم۔۔ گڈ۔۔ اور سنو میرے ساتھ کل میرے اسٹور پہ چلو گی ویسے بھی تم گھر پہ رہ کے بور ہو جاؤ گی اور فضول کی سوچیں تمہارے ذہن میں آئیں گی۔۔۔۔۔ تم میرے پاس جاب کرلو ویسے بھی مجھے ضرورت ہے اس کے لیے میں تمہیں سیلری بھی دوں گی۔۔ تم اپنے پیرنٹس کے پیسوں سے گھر خرید ہی رہی ہو پر اسے چلانا اپنے پیسوں سے ۔۔ ان پیسوں کو بچاؤ اور اپنی اور اپنے بہن بھائی کی پڑھائی میں لگاؤ۔۔ انہیں اپنے پیروں پہ کھڑا کرو۔۔ اور ہاں اپنی پڑھائی دوبارہ اسٹارٹ کرو"
" جی آنٹی" وہ مسکرائی
"تو پھر کل سے تیار رہنا۔۔ا وکے"
" اوکے"
زندگی آسان نہیں ہوتی
اسے آسان بنایا جاتا ہے
کچھ صبر کرکے کچھ برداشت کرکے
اور بہت کچھ نظرانداز کرکے
---------
یہ یشل والوں کے جانے کے ایک دن بعد کی بات ہے
رابعہ ہاشم احمد اور انعم آج یشل والوں کے گھر پہ آئے سوچا تھا آج یشل کو کنوینس کرلیں گے شادی پہ پر۔۔۔۔۔
پر جب گیٹ کے پاس آئے تو بڑے سے تالے نے ا نکا منہ چڑایا
" یہ لوگ کہاں گئے؟" احمد بولے
" ارے کسی سے پتا تو کرو ہیں کہاں یہ بچے" رابعہ بولیں احمد نے سر ہلایا اور پاس سے گزرتے ایک آدمی سے پوچھا
" بھائی یہ لوگ کہاں گئے ہیں گھر بند ہے؟"
" ارے یہ لوگ تو کل ہی امریکہ چلے گئے اور وہی شفٹ ہوگئے ہیں۔۔۔ اکیلے تو تھے بیچارے اچھا ہے اپنی زندگی پھر سے شروع کریں گے" وہ بتا کے چلا گیا وہ لوگ تلملاتے گھر واپس آگئے
" غضب خدا کا کیسے آوارہ بچے نکلے۔۔ ماں بپ کی قبر کی مٹی تک خشک نہ ہونے دی انہوں نے اور نکل پڑے سیر سپاٹوں پہ" وہ گھر آتے ہی شروع ہوگئیں
" سہی کہہ رہی ہیں آپا ۔۔۔۔۔ انہوں نے تو بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا ہمیں" انعم بولی " ارے آپ لوگ تو سگے چاچا پھپو تھے۔۔ پر آج کل کے بچے رشتوں کو کیا سمجھیں"
" بڑی اچھی تربیت کی ہے وقار نے اپنے بچوں کی۔۔۔ ہونہہ ۔۔۔۔ بڑا فخر تھا اسے اپنے بچوں پہ" ہاشم بولے
" جب دیکھو اپنی اولاد کی تعریفوں کے پل باندھتا رہتا تھا ہونہہ۔۔۔۔۔ ہوتا ابھی زندہ تو بتاتی میں اسے۔۔ کہ اس کے بچے کیسے منہ زور ہوگئے ہیں" رابعہ کا غصہ کسی طور کم نہیں ہورہا تھا
" ہائے میری کروڑوں کی دولت۔۔۔۔۔ یہ بدبخت بچے لے گئے" رابعہ اپنا سر پکڑ کے افسوس سے بولیں جہسے ان کی دولت پہ ڈاکہ ڈل گیا ہو
" اب بس بھی کردیں آپا۔۔۔۔۔ آپ بھی جانتی ہیں کہ وہ دولت تو بس آپ کے خوابوں تک آپ کی تھی اب تو آنکھیں کھول لیں" احمد نے کہا تو وہ انہیں گھور کے رہ گئیں
--------
" سب شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ چل رہی تھی پندرہ دن ہوگئے تھے انہیں مشعل اور مصطفٰی نے اپنی پڑھائی پھر سے اسٹارٹ کردی تھی صرف یشل ہی تھی جو پڑھائی چھوڑے جاب کرنے میں مصروف تھی انہوں نے اپنا ایک چھوٹا سا گھر لے لیا تھا کل انہوں نے وہاں شفٹ ہو جانا تھا
" بیٹا آپ کی کوالیفیکیشن کیا ہے؟" جہانزیب انکل نے چائے پیتے ہوئے پوچھا وہ زیادہ تر اپنے اپنی ڈیوٹی پہ ہاسپٹل ہوتے تھے بہت کم شام میں چائے پہ ساتھ ہوتے
" انکل میں نے ایف ایس سی کیا ہے اور اسی سال یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا لاء کررہی تھی میں" وہ بتانے لگی
" تو اب کیا ارادہ ہے؟" انہوں نے پوچھا
" ابھی تک کچھ سوچا نہیں ہے انکل" وہ بولی
" تو بیٹا سوچو یہ جاب تو عارضی سی ہے"
" جی انکل" وہ بولی
" آپ نے ایف ایس سی کس سبجیکٹ میں کیا ہے؟"
" انکل پری میڈیکل میں"
" مممم۔۔۔۔۔۔ گڈ تو پھر آپ لاء پڑھ کے کیا کرو گی آپ کی جگہ تو میڈیکل لائن ہے"
" جی انکل بٹ مجھے شوق تھا اس لیے"
" بیٹا لاء کی تو آج کل زیادہ ویلیو نہیں ہے آپ ایم بی بی ایس کرو اس سے آپ کا مستقبل سنور جائے گا۔۔۔۔۔آپ تو ماشآاللٰہ ذہین بھی لگتی ہو آپ کا تو ایزیلی ایڈمیشن یو جائے گا"
" اور رہی جاب تو وہ تو آپ شام میں بھی کرسکتی ہیں۔۔۔۔۔ آپ کیا کہتی ہیں ؟"
" بلکل۔۔ ٹھیک کہا آپ نے۔۔ یشل آپ ایم بی بی ایس کی تیاری کرو بیٹا " انہوں نے کہا پتا نہیں کیوں وہ چاہ کے بھی ا نکی بات ٹال نہیں سکتی تھی
" ٹھیک ہے آنٹی"
------
یشل جا چکی تھی اسے پتا چلا تو اسے شاکڈ لگا
وہ چلی گئی کیا اب وہ اسے کبھی دیکھ پائے گا۔۔۔۔؟؟؟ اس کے رگ و پے میں اداسی اترنے لگی
" افففف میں پھر اسے سوچ رہا ہوں " اس نے سر جھٹکا پر دل کی حالت وہی رہی
تو یہ طے تھا ان کا بچھڑنا۔۔۔۔۔۔۔
" تو وہ میرے دل میں آئی ہی کیوں۔۔۔۔" وہ اپنے آپ سے بولا اور سر کو اپنے ہاتھوں میں گرا لیا
یار فریدا اتھے کی وسنا
جتھے یار نظر ہی نا آوے
وہ تو اب بالکل نارمل رہنے کی کوشش کررہا تھا پھر اس کے جانے کا دکھ کیوں۔۔۔۔۔
ان دنوں وہ بہت ڈسٹرب تھا لیلٰی جب دیکھو اس کے آس پاس منڈلاتی رہتی اوپری اوپری سہی پر اس کی دلجوئی کرتی۔۔۔۔۔ کبھی اس پہ وہ چیختا کبھی ڈانٹتا پھر آہستہ آہستہ اس نے یہ بھی چھوڑ دیا اور خاموش رہنے لگا اب وہ لیلٰی کو کچھ نہ کہتا اور یہ ہی بات لیلٰی کے لیے خوش آئیند بات تھی
-----------
ڈوبتے کو تو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے لیلٰی اسے وہی تنکا لگتی اس بات سے بے خبر کے اس کی دنیا تباہ کرنے والی وہی ہے۔۔۔۔۔ وہ زیادہ سے زیادہ لیلٰی کے ساتھ رہنے لگا لیلٰی اپنی باتوں سے اس کا ذہن کچھ دیر کو بٹا دیتی تھی پر ایک خالی پن پھر بھی اس کے دل میں رہتا
۔ ---------
میرا لہجہ میری باتیں
بہت ہی عام ہیں لیکن
میں جزبے پاک رکھتی ہوں
محبت خاص رکھتی ہوں
وہ ڈائیری لکھ رہی تھی پتا نہیں کیوں کہ آج علی اسے بہت یاد آرہا تھا کس سے شئیر کرتی اپنی فیلنگز
" علی آپ کہتے ہو کہ میں بھول جاؤں آپ کو۔۔۔۔ کیسے بھول جاؤں علی آپ نے تو اپنی محبت ہی نہیں ڈالی میرے دل میں بلکہ آپ کی عادت تک ہوگئی ہے مجھے"
" میں تو بہت ایمانداری سے آپ کی طرف بڑھی تھی پھر آپ کو کہاں میری محبت میں بےایمانی کا انصر نظر آگیا" اس کی آنکھیں آج پھر نم ہوئیں
" اتنی جلدی بھلا دیا مجھے علی آپ نے"
کوئی تم سے پوچھے کون ہوں میں
تم کہہ دینا کوئی خاص نہیں
ایک دوست ہے کچا پکا سا
ایک جھوٹ ہے آدھا سچا سا
اک خواب ادھورا پورا سا
اک پھول ہے روکھا سوکھا سا
اک سپنا ہے بن سوچا سا
اک اپنا ہے اندیکھا سا
اک رشتہ ہے انجانا سا
حقیقت میں افسانہ سا
کچھ پاگل سا دیوانہ سا
بس اک بہانہ اچھا سا
جیون کا ایسا ساتھی ہے
جو دور ہو تو کچھ پاس نہیں
کوئی تم سے پوچھے کون ہوں میں
تم کہہ دینا کچھ خاص نہیں!!!!!
اس نے ڈائیری لکھی اور بند کردی