خوش تو وہ بھی نہیں تھا اپنے فیصلے سے۔۔ پر وہ اس دل کا کیا کرتا جو اب کسی طور مانتا ہی نہیں تھا
کہتے ہیں نا کہ مرد کے دل میں اگر شک کا بیج پیدا ہو جائے تو وہ اپنی جڑیں مضبوط تو کرسکتا ہے پر ختم نہیں کرسکتا
علی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملا تھا غلط ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں تھا حالات ہی اپسے پیدا ہوگئے وہ بھی کیا کرتا
کتنی ہی دیر وہ سڑکوں پہ پھرتا رہا گھر آکے اس نے شاور لیا گویا اپنے اندر کی گھٹن کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کرنا چاہی پر وہ تو ویسی کی ویسی ہی تھی
اس نے اپنا سر ہاتھوں میں لے لیا
نہیں مجھ کو شکایت اب کسی سے
بظاہر خوش ہوں لیکن سچ بتادوں
میں اپنے آپ سے روٹھا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
بس اپنے آپ سے روٹھا ہوا ہوں
کتنی ہی دیر وہ یوں ہی بیٹھا رہا کہ دروازہ ناک ہوا اس نے پوزیشن تب بھی طینج نہ کی وہ ابھی کسی سے بھی بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا
" علی آجاؤ کھانا کھالو" دروازہ ناک کرکے لیلٰی اس کے کمرے میں داخل ہوئی علی کچھ نہ بولا
" علی" لیلٰی نے پھر کہا " افففففف ایک تو یہ مجنوں" لیلٰی دل ہی دل میں تپی لیکن لہجے میں مٹھاس بھر کے بولی
" علی آر یو اوکے؟؟؟" وہ چلتی ہوئی اس تک آئی
" کیا ہوا ہے؟؟؟" وہ بناوٹی پن سے بولی حالنکہ اچھی طرح جانتی تھی کہ کیا ہوا ہے اسے
" علی" لیلٰی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا علی چونکا پھر اس کا ہاتھ اپنے کندھے پہ دیکھ کے غصے کی ایک لہر اس کے رگ و پے میں دوڑ گئی
" ڈونٹ ٹچ می لیلٰی یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔۔۔ اور یہ تم کس سے پوچھ کے میرے روم میں آئی ہو" لیلٰی بھونچکا سی اسے دیکھ رہی تھی
" علی میں تو۔۔کھانے کے لیے بلانے۔۔۔"
"تم کھانے کے لیے بلانے آئی ہو؟؟؟ فاطمہ کہاں ہے جو تم آئی ہو۔۔۔۔۔چلو نکلو یہاں سے فورا" علی نے لہاظ برائے طاق رکھ کے کہا اور دروازے کی طرف اشارہ کیا
" علی یہ تم مجھ سے کس طرح بات کررہے ہو میں مہمان ہوں " لیلٰی نے کہا
" تو کیا مہمان ہر ایک کے کمرے میں یوں منہ اٹھا کے آجاتے ہیں۔۔۔۔۔ مہمان ہو تو مہمان بن کے رہو آئی سمجھ ۔۔۔۔۔ اور تمہیں پتا نہیں ہے کہ غیر آدمیوں کے کمرے میں یوں منہ اٹھا کے نہیں آتے ہیں" علی نے غصے میں اسے اچھی خاصی جھاڑ پلادی تھی لیلٰی کا چہرہ دھواں دھواں ہورہا تھا
-------
" پلیز۔۔۔۔۔۔" علی نے پھر دروازی کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب تھا " دفع ہو جاؤ"
لیلٰی تلملاتی ہوئی باہر نکل گئی۔
---------
یشل نے اپنے آپ کو پڑھائی میں بےحد مصروف کرلیا تھا
" ہائے بہنا" ابھی بھی وہ کتابوں میں سر کھپا رہی تھی کہ ارسلان بھائی کی آواز پہ چونکی
" کیسی ہو؟؟؟" انہوں نے مسکرا کے کہا
" ٹھیک۔۔۔۔۔" وہ مسکرائی پر آنکھوں میں اداسی کا ڈیرہ تھا
" لگ تو نہیں رہی ہو؟" وہ پھر بولے وہ کچھ بولنے لگی کہ ماما چلی آئیں
" ارے ارسلان بیٹا آپ کب آئے ۔۔۔۔۔"
" اسلام و علیکم چاچی بس ابھی آیا ہوں"
" وعلیکم السلام بیٹا بیٹھو نا" انہوں نے کہا
" چاچی یہ یشل کو دیکھیں کتنی پڑھاکو ہوگئی ہے مجال ہے جو کتابے بند کرکے بھائی سے بات ہی کرلے" اس نے کتابیں لے کے بیٹھی یشل کو دیکھ کے کہا
" یشل بیٹا جاؤ کتابیں رکھو اور بھائی سے تو باتیں کرو" عطیہ چاہتی تھیں وہ جلد سے جلد نارمل ہو جائے اس کی یہ حالت ان سے دیکھی ہی نہیں جاتی تھی
یشل بکس رکھنے گئی ت عطیہ ارسلان سے بولیں
" بیٹا اسے سمجھاؤ زندگی ایسے نہیں گزرتی۔۔ یہ تو ایسے اپنے آپ کو گھلا رہی ہے اپنا نقصان کررہی ہے"
" چاچی آپ بےفکر رہیں میں بات کرتا ہوں یشل سے آپ ٹینشن نا لیں " ارسلان نے انہیں تسلی دی
" مجھے امید ہے کہ وہ تمہاری بات ضرور سمجھے گی" عطیہ بولیں
ارسلان یشل کے پاس بیٹھا اس سے باتیں کررہا تھا کہ باتوں باتوں میں ارسلان بولے
" تمہیں معلوم ہے دنیا میں سب سے قیمتی چیز کیا ہے؟"
" ہممم۔۔۔۔" یشل نے ہاں میں سر ہلایا
" بتاؤ؟"
" انسان کی زندگی میں سب سے قیمتی چیز زندگی ہے"
" یہ کیسا الجھا ہوا جواب ہے" ارسلان بھائی نے پوچھا تو یشل بولی
" جیسی زندگی ہے ویسا ہی جواب ہے"
" بالکل نہیں ۔۔۔۔۔ زندگی کو الجھا ہوا ہم خود بناتے ہیں یشل"
" تو پھر آپ ہی بتائیں کہ زندگی کیا ہے؟"
" مجھ سے پوچھو تو زندگی کی سب سے بہترین اور قیمتی چیز خواب ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ اگر خواب نہ ہوں تو زندگی جینے کے لائق نہیں ہوتی"
" اور جن کے خواب ہی ٹوٹ جائیں تو وہ کیا کرے مر جائے"
" بالکل نہیں۔۔۔۔۔ خواب ٹوٹتے ہیں تو نئے سرے سے ہم انہیں بن بھی لیتے ہیں اور ان خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ہاں کچھ خواب پورے نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم زندگی سے منہ موڑ لیں یا ان ٹوٹے ہوئے خوابوں کو یاد کرکے ہم اپنے اچھے دن بھی گنوا دیں۔۔۔۔۔ یشل زندگی ہمیشہ جینے کا نام ہے اسے گزارو مت نئے سرے سے خواب دیکھو اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرو"
"یہ بہت مشکل ہے ارسلان بھائی" یشل دکھ سے بولی
" مشکل ہے پر ناممکن نہیں۔۔۔۔۔ تم کسی ایک کی یاد میں اتنے سارے محبت کرنے والوں کو دکھ دے رہی ہو یشل سوچو تمہارے پیرنٹس کس اذیت سے گزرے ہیں پچھلے دنوں جب تم ہاسپٹل میں تھیں" وہ دھیرے دھیرے اسے سمجھا رہے تھے
" تم ان کا تو سوچو گڑیا"
"ارسلان بھائی ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں جس نے مجھے چھوڑ دیا میں اس کے پیچھے ابھی تک بھاگ رہی ہوں اور اپنے سے محبت کرنے والوں کو تکلیف ہی تو دے رہی ہوں" اس نے دل میں سوچا
" آئی ہوپ تم میری بات سمجھ رہی ہوگی" ارسلان بھائی نے کہا تو اس نے مسکرا کے سرہلادیا
" انشآاللٰہ دیکھنا تمہارے نصیب میں اس سے بھی اچھا اور بہتر کوئی ہوگا" انہوں نے مسکرا کے کہا تو یشل خاموش ہوگئی کیا کہتی کہ
ضرورت اچھے کی نہیں ہوتی اس کی ہوتی ہے جس سے محبت ہو۔۔۔۔۔۔
--------
لیلٰی تلملاتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی غصے سے اس کا برا حال تھا علی نے آج اس کی اچھی خاصی انسلٹ کی تھی
" ہمت کیسے ہوئی اس کی مجھے اتنا کچھ سنانے کی سمجھتا کیا ہے وہ اپنے آپ کو۔۔۔۔۔ یشل کی یادوں میں مجنوں ہی بن گیا ہے ہونہہ۔۔۔۔۔ اتنی تذلیل تو آج تک میری کسی نے نہیں کی اور یہ علی۔۔۔۔۔" غصے سے اس کا چہرہ لال ہ رہا تھا
" لیلٰی آجاؤ یہاں کیوں بیٹھی ہو؟" فاطمہ نے اسے آواز دی
" یہ تم اپنے بھائی سے نہیں پوچھتی ہو۔۔ گھر آئے مہمان کے ساتھ کوئی ایسا رویہ رکھتا ہے" لیلٰی تو ویسے ہی کڑھ رہی تھی فاطمہ آئی تو اسے سنانے لگ گئی
" ہوا کیا ہے کیا کہا ہے بھائی نے"
" یہ تم اسی سے پوچھو" اتنے میں شہلا بھی چلی آئی
" کیا ہوا؟"
" آپی علی نے میری بہت انسلٹ کی ہے حالانکہ آپ نے ہی مجھے کہا تھا نا کہ علی کو کھانے کے لیے بلالوں"
" واٹ علی نے انسلٹ کی تمہاری " شہلا مڑیں اور اپنئ ساس کو مخاطب کرکے بولیں
" دیکھ رہیں آپ امی علی نے میری بہن کی بےعزتی کی ہے میں نے ہی اسے کہا تھا کہ علی کو کھانے کے لیے بلا لائے" شور کی آواز پہ علی بھی روم سے باہر آیا
" علی میں کیا سن رہی ہوں تم نے لیلٰی سے بدتمیزی کی ہے۔۔ میں ایسا تو نہیں سمجھتی تھی تمہیں" علی خاموش کھڑا تھا لیلٰی کو لگا وہ اس سے معزرت کرے گا اپنے رویے کی پر۔۔۔۔۔
" امی پلیز یہ مہمان ہیں ایک طرح سے۔۔ اور جو میں نے انہیں کہا وہ اتنا غلط بھی نہیں ہے کہ غیر مردوں کے کمرے میں منہ اٹھا کے نہیں آجاتے ۔۔" لیلٰی کو ایک بار پھر سب کے سامنے اپنی انسلٹ ہوتی ہوئی فیل ہوئی
"بہرحال آئیندہ سے فاطمہ آئے مجھے بولنے جو بھی بولنا ہے۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے اور مجھے کوئی ڈسٹرب بھی نہ کرے" وہ بول کے پھر اپنے روم میں چلا گیا۔
------
علی نے گھر میں سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ یشل کا نام کوئی نا لے نا اس سے کوئی رابطہ رکھے
علی کی امی اور بہنوں کو یقین ہی نہیں تھا کہ یشل ایسی ہو سکتی ہے وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھیں انہیں یہ کسی کی سازش لگتی تھی
علی کے منع کرنے باوجود علی کی بہنیں اور امی اس سے ہر ٹائم رابطے میں رہتے تھے جس کا انہوں نے علی کو بھی نہیں بتایا تھا
-----------
اس دن کے بعد سے وہ زندگی کی طرف آنے لگی تھی پھر سے ہنسنے بولنے لگی تھی وقار اور عطیہ اسے ایسے دیکھ کے بے حد خوش تھے اور وہ اپنے پیرنٹس جو دیکھ کے
پر اسے کیا پتا تھا اس کی یہ خوشیاں بھی عارضی ہیں
یہ صبح دس بجے کا وقت تھا یشل یونی گئی ہوئی تھی اس سے چھوٹی سیکنڈ نمبر والی بہن کالج گئی تھی اور سب سے چھوٹا مصطفیٰ اس گیا ہوا تھا امل اور غزل نے آج چھٹی کرلی تھی وہ گھر تھیں
یشل آج جلدی یونی سے گھر کے لیے نکل گئی تھی پتا نہیں کیوں دل اتنا گھبرا رہا تھا وہ جیسے ہی گھر کے قریب پہنچی تو دیکھا بہت سے لوگ اس کے گھر کے پاس جمع تھے کچھ لوگ گھر کے اندر تھے اس کا دل گھبرایا تیزی سے چلتے ہوئے وہ گھر کے قریب پہنچی تو کسی کی آواز اس کے کان میں پڑی
" بڑی ہی دردناک موت ہوئی ہے سلینڈر پھٹا ہے گھر میں۔۔ چاروں میں سے کوئی بھی نہیں بچا۔۔ یہاں تک کے چہروں کی شناخت مشکل ہو رہی ہے۔۔ بیچارے تینوں بچے جائیں گے کہاں اتنا ہنستا بستا گھر تھا وقار بھائی کا"
یشل کے پیروں کے نیچے سے ذمین ہی نکل گئی ایسا لگا جیسے آسمان پھٹا ہو اس کے اوپر وہ سن کھڑی رہ گئی۔