" علی میں بھی چلوں؟؟؟" علی تیار ہو کے نکل ہی رہا تھا کہ لیلٰی پیچھے پیچھے آگئی
" لیلٰی میں یشل کے ساتھ ڈنر پہ جا رہا ہوں سو تمہارا جانا بنتا نہیں ہے" علی نے کہا تو لیلٰی جی جان سے جل گئی
" علی ویسے بھی کل تو تم چلے جاؤ گے یہ ٹائم تم ہناعے ساتھ ہی اسپنٹ کرلو" آواز میں مٹھاس پیدا کی
" لیلٰی اتنے دن تم سب کے ساتھ ہی تھا میں بلکہ آج کا سارا دن۔۔۔۔۔ چلتا ہوں یشل ویٹ کررہی ہو گی" کہہ کر وہ چلا گیا لیلٰی پاؤں پٹخ کے رہ گئی اور شہلہ کے پاس چلی آئی جو کپڑے تہہ کررہی تھی
" سمجھتا کیا ہے علی خود کو۔۔۔۔۔ میں بھی دیکھتی ہوں یہ محبت کتنے دن چلتی ہے" وہ غصے میں بڑبڑا رہی تھی
" کیا ہو گیا ہے اب" شہلا نے پوچھا
" وہ علی خود کو سمجھتا کیا ہے آپ کو پتا ہے آج علی اس یشل کو ڈنر پہ لے کر گیا ہے اس یشل کی ہمت کیسے ہوئی میرے علی کو مجھ سے چھیننے کی" وہ زور زور سے چلانے لگی شہلا نے کمرے کا دروازہ جلدی سے بند کیا تاکہ اس کی آواز باہر نہ جانے پائے
" آہستہ بولو لیلٰی گھر میں اگر کسی کو پتا چل گیا نا کہ میں نے یہاں تمہیں کیوں بلایا ہے تو سب میرا جینا حرام کردیں گے"
" اور اب تم اس یشل کو کیوں بلیم کررہی ہو حالانکہ یہ موقع تم نے خود علی کو دیا ہے کتنا کہا تھا کہ اس کے ساتھ رہا کرو پر نہیں "
" تو مجھے کیا پتا تھا اتنا معصوم نظر آنے والا علی اتنا چالاک ہو گا میرے لیے تو کبھی ٹائم نکالا نہیں اور اس یشل کو ڈنر پہ لے جایا جا رہا ہے" وہ تو پاگل ہی ہو گئی تھی
" تو کچھ کرو نا تم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھنے اور کڑھنے کا کیا فائدہ اس یشل نام کا کانٹا جو تمہارے رستے میں آیا ہے اسے ہٹانے کا کوئی راستہ سوچو" شہلا نے کہا
" ہممم سہی کہہ رہی ہیں آپ آپی اب تو جلد سے جلد کچھ کرنا ہی ہو گا" لیلٰی نے کہا
-----------
ایک دم سی سب بہت خوبصورت سا ہو گیا تھا علی کی ہمراہی میں وہ بہت خوش رہنے لگی تھی
آج وہ علی کے ساتھ ڈنر پہ آئی تھی اس نے اپنی آنکھوں سے ملتا جلتا گرین کلر کا ڈریس زیب تن کی تھی سرخ و سفید رنگت جو کہ میک اپ سے پاک تھی ہونٹوں پہ نیچرل پنک کلر کا لپ گلوز لگایا ہوا تھا اور لمبے سلکی بالوں کو ایک کندھے پہ ڈالا ہوا تھا خوبصورت ہاتھوں میں نازک سا بریسلیٹ اور کانوں کے ٹاپس نے اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دئیے تھے
علی بلیک تھری پیس میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا علی اپنے گھر کے بارے میں اسے پہلے ہی سب بتا چکا تھا وہ یہ رشتہ سچائی سے نبھانا چاہتا تھا جو جھوٹ سے پاک ہو اور یشل کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا
علی نے آرڈر دیا اور پھر یشل سے بولا
" مس کرو گی مجھے؟؟؟" یشل کے کھانا کھاتے ہاتھ رکے " نہیں" یشل اداس ہوئی پر لہجے میں بشاشت لاتے ہوئے گویا ہوئی
" سوچ لو ہم پہلے کی طرح مل نہیں سکیں گے" علی نے کہا
"کوئی بات نہیں " وہ دل پہ جبر کر کے مسکرا کے بولی علی اس کی دلی کیفیت سمجھ رہا تھا
" تم مجھے روز دیکھ بھی نہیں پاؤ گی" وہ پھر بولا
"کوئی بات نہیں" آواز بھرانے لگی
" سوچ لو بات بھی نہیں ہو سکے گی " علی کے یوں کہنے پر کب سے جھکی نظریں اٹھیں
" کیوں ؟؟؟" اب کو سوال کیا گیا
" بھئی میں بزی ہو جاؤں گا تو تمہیں ٹائم کیسے دوں گا " علی نے مسکراہٹ دبائی
" یعنی بھول جاؤ گے مجھے" یشل نے بھرائی آواز میں کہا آنکھیں جیسے جلنے لگیں تھیں اور دو آنسو ٹوٹ کے گر پڑے علی ایک دم پریشان ہوا یشل اٹھ کے وہاں سے چلی گئی گویا ناراضی کا بھرپور انداز۔۔۔۔۔ جا کے بالکنی میں کھڑی ہوگئی علی بھی وہیں چلا آیا
ارے میری جان تو ناراض ہو گئی " علی نے اس کا ہاتھ تھاما
" جائیں آپ مجھے بات نہیں کرنی " یشل نے ہاتھ جھٹکا
" مجھے تو آپ بھول جائیں گے نا جا کے تو پھر یہاں کیوں آئے ہیں"شکوہ لبوں سے نکلا
علی نے اس کا ہاتھ تھاما اور اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا
" کوئی اپنی زندگی سے بھی غافل ہو سکتا ہے" علی کے یوں کہنے پہ نظر اٹھا کے اسے دیکھا
" تمہیں پتا ہے تم میری جان ہو ۔۔۔۔۔ ہر سانس میں تم بستی ہو تو تم نے سوچ کیسے لیا کہ میں تمہیں بھول جاؤں گا تم میرے لیے ان قیمتی شے میں سے ہو جس کو اگر ویران جگہ پہ رکھو تو وہ بھی آباد ہو جائے جسے اندھیرے میں رکھو تو وہ جگہ روشن ہو جائے۔۔۔۔۔ جیسے میرا دل۔۔ پتا ہے یہ تمہاری روشنی سے منور ہے کیونکہ تم یہاں رہتی ہو" علی نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا یشل اسے سن رہی تھی اس کی بات کے اختتام پہ اس نے اس سے پوچھا
" تو پھر یہ کیوں کہا کہ بھول جاؤ گے؟"
" وہ تو تمہیں تنگ کرنے کو کہا تھا پر تم تو رونے لگیں" اور ہنسا
" اگر تمہیں بھول جاؤں گا تو میرا دل ویران نہیں ہو جائے گا ؟" اس نے یشل سے کہا یشل دل سے مسکرائی
" اچھا اب چلو ڈنر نہیں کرو گی" علی نے اسے یاد دلایا تو وہ اس کے ساتھ چلنے لگی
" بات کرو گے نا روز؟؟؟" یشل نے بیٹھتے ہوئے پوچھا
" ہاں بابا روز " علی مسکرایا
" صبح میری بالکنی پہ کون آئے گا؟؟؟" یشل نے پھر پوچھا
" تمہاری عادتیں بہت خراب ہوگئی ہیں" علی نے کہا
" کی کس نے ہیں ؟؟؟" یشل نے بھی اترا کے کہا
" آفکورس مابدولت نے" علی نے جھک کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے مؤدب ہو کے کہا تو یشل ہنس دی۔
---------
اور پھر وہ چلا گیا یشل بہت اداس رہنے لگی تھی یونی میں بھی اس کی کمی فیل ہوتی تھی حالانک وہ روز فون پہ گھنٹوں باتیں کرتے تھے وہ اس میلوں کے فاصلے پہ تھا یشل کو یہ ہی بات سب سے زیادہ افسردہ کرتی تھی
ابھی بھی وہ علی کو ہی سوچ رہی تھی کہ اس کی کال آگئی
" ہائے کیسی ہو؟؟؟"
" ٹھیک۔۔۔۔۔" اس نے مختصر سا جواب دیا
" یہ کیا بات ہوئی سہی سے بتاؤ" علی نے پھر پوچھا
" آپ کب آؤ گے؟؟؟" اس نے الٹا سوال کردی
" ارے ابھی تو مجھےیہاں آئے تین دن ہوئے ہیں اور تم آنے کی باتیں کررہی ہو"
" تو تین دن کم ہیں" وہ اداسی سے بولی
" اوہو۔۔۔۔۔ یعنی محترمہ مجھے مس کررہی ہیں " علی بڑے دل سے مسکرایا یشل جھینپی
" میں نے ایسا کب کہا؟؟؟"
" کیوں ایسا نہیں ہے کیا مجھے مس نہیں کررہی " علی نے پوچھا
" جی نہیں"
" نہیں۔۔۔۔؟؟؟؟ ٹھیک ہے میں پھر فون بند کرتا ہوں " وہ مصنوعی ناراضی سے بولا تو یشل گڑبڑائی
" میں نے ایسا کب کہا؟؟؟"
" اففففف لڑکی کبھی کچھ کہہ ہی دیا کرو"
" کررہی ہوں نا مس۔۔۔۔۔ کیا ہے" وہ اس کے ناراضی کے ڈر سے فوراً بولی علی نے قہقہہ لگایا یشل جھینپی
" کب آئیں گے؟؟؟" وہ اپنی جھینپ مٹانے کو بولی
" ابھی تو فی الحال نہیں آسکتا" وہ پھر اداس ہوئی اور خاموش ہوگئی
" یشل یار پلیز اداس مت ہو دیکھو " یشل کی آنکھیں نم ہونے لگیں
" یشل پلیز" علی بھی یک دم افسردہ ہوگیا یشل رونا شروع ہوچکی تھی
" یشل پلیز تم روتی ہو نا تو ایسا لگتا ہے میری دنیا ویران ہوگئی ہے ایسا لگتا ہے ساری دنیا اداس ہوگئی ہے یشل پلیز چپ ہو جاؤ میرا دل بند ہو جائے گا ورنہ " یشل کے رونے کو ایک دم بریک لگا
" اللٰہ نہ کرے علی ایسا مت کہیں"
" تو پھر چپ ہو جاؤ جلدی سے" یشل نے جلدی سے اپنے آنسو پوچھے
" اچھا نہ نہیں روتی پر پلیز آئیندہ مت بولنا ایسا " اس نے بھاری آواز میں کہا
" اوکے بابا اب نہیں کہتا بس۔۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ اسٹڈی کیسی جا رہی ہے " علی نے اس کا دھیان بٹانے کو کہا تو یشل اسے بتانے لگی
----------
" بزنس میں بڑا لاس ہو رہا ہے مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے سوچ رہا ہوں وقار بھائی سے مانگ لوں" ہاشم بولے تو زرمینہ منہ بنا کے بولی
" آپ کو تو ان کے گھر جانا پسند نہیں ہے پھر؟؟؟"
" اب اپنے کام کے لیے تو بندہ چلا ہی جاتا ہے اور ویسے بھی احمد بھی تو کتنے لے لیتا ہے ان سے پیسے انہوں نے کچھ نہیں کہا کبھی۔۔ اب کے بار میں لے لوں گا"
" یہ تو ٹھیک کہہ رہے ہیں احمد تو جب جاتا ہے رقم لے کے ہی آتا ہے اس بار بھی پانچ لاکھ لے کے آیا ہے وقار بھائی سے"
" ہمممم چلو کل چلیں گے"
" ہاں ٹھیک ہے" زرمینہ نے کہا
یشل سو کے اٹھی اور فریش ہو کے باہر آئی لاؤنج سے باتوں کی آواز آرہی تھی
" کون آیا ہے؟؟؟ میں جا کے دیکھتی ہوں " وہ خود سے بولی اور لاؤنج میں چلی آئی لاؤنج میں آکے اسے خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ لاؤنج میں اس کے ماموں مامی آئے ہوئے تھے
" واٹ آ پلیزینٹ سرپرائیز کب آئے آپ لوگ؟؟؟" وہ خوشی سے بولی
" جب تم سو رہی تھیں تب" مامی نے اسے پیار سے ھلے لگایا
" ماما مجھے اٹھایا کیوں نہیں اور نہ بتایا کہ آپ لوگ آرہے ہیں؟؟؟" وہ ماما سے بولی
" ارے بیٹا ہم نے تو کسی کو بھی نہیں بتایا تھا سوچا آپ
سب کو سرپرائیز دیا جائے" ماموں پیار سے بولے
" بہت اچھا سرپرائیز ہے" وہ خوشی سے بولی
" اور تمہیں اٹھایا اس لیے نہیں کیونکہ بھابی نے منع کردیا تھا کہ تم یونی سے تھکی ہوئی آئی ہوگی" ماما نے جواب دیا
" ڈئیر کزن یہاں بھی تو دیکھو بھائی کو بھول گئیں " اشعر نے اس سے کہا
" ارے اشعر بھائی بھی آئے ہیں مل گئی آفس سے فرصت آپ کو"
" یس مل گئی اور اگر فرصت نہیں ملتی تو اس بار تو کسی بھی طرح آنا ہی تھا میں نے آخر کو اتنے دنوں سے ملا نہیں ہوں اپنی سسٹر سے"
" بہت اچھا کیا " وہ بولی
-----------
رات کو یشل روم میں آئی سیل چیک کیا تو دیکھا علی کی 10 بجے کی تین مس کالز لگی ہوئی تھیں اور اب گیارہ بج رہے تھے
" اوہوں علی نے کال کی تھی اور مجھے پتا ہی نہیں چلا" وہ افسوس سے بولی اور اسے کال بیک کی دو تین بیلز کے بعد فون ریسیو ہوا
" سوری علی مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ آپ نے کال کی ہے وہ ماموں مامی آئے ہوئے ہیں نا تو ان سے باتوں میں پتا ہی نہیں چلا" وہ جلدی جلدی بتانے لگی معاً علی ناراض ہی نا ہوجائے
" اٹس اوکے یار" علی مسکرایا
"تھینکس" یشل بولی
" اتنی فارمل مت ہوا کرو میری یشل بنو اجنبی یشل نہیں"
" سوری" وہ بولی
" پھر فارمل" علی پھر بولا یشل ہنسی
" تو پھر کیا بولوں آپ ہی بتادیں"
" آئی لو یو کہو۔۔ آئی مس یو کہو" علی فوراً شوخ ہوا
" منہ دھو رکھیں ایسا میں کچھ نہیں بول رہی" یشل ہنسی
" اففففف لگتا ہے تمہارے منہ سے یہ سننے کے لیے کوئی اسپیشل طریقہ یوز کرنا پڑے گا"
" جیسے کے کیا؟؟؟" یشل نے پوچھا
" مرنے کا ڈرامہ ۔۔۔۔۔ اکثر موویز میں ایسا ہی ہوتا ہے نا کہ ہیرو ایکٹنگ کرتا ہے مرنے کی اور اس کی ہیروئین اقرار کردیتی ہے"
" اوہ ہیلو مسٹر یہ رئیل لائف ہے حال میں پہنچ جائیں " یشل بولی
" اچھا سنو" علی نے کہا
"جی"
" پرسوں آرہا ہوں میں " علی نے بتایا تو یشل کا چہرہ کھل گیا
" رئیلی۔۔۔۔۔ واؤ کب؟ کس ٹائم؟" یشل نے کھلکھلا کے پوچھا
" ہمممم۔۔۔۔۔ یعنی انتظار ہو رہا ہے ہمارا" علی مسکرایا
" جی نہیں۔۔۔۔۔ زیادہ خوش فہم نہ ہوں" یشل فوراً بولی علی ہنسا
" کبھی ماننا مت تم"
" اقرار صنف نازک کو سوٹ نہیں کرتا " یشل نے اترا کے کہا
" یعنی ڈھکے چھپے لفظوں میں اقرار کررہی ہو"
" جی نہیں "
" اففففف لڑکی کبھی تو ہاں کہہ دیا کرو" علی نے مصنوعی ناراضی سے کہا
" کیوں کروں جب کہ اقرار کرنے کے لیے آپ ہو میرے پاس" یشل نے پیار سے کہا تو علی مسکرادیا۔
-----------
لیلٰی کا موڈ آج شاپنگ کا تھا فاطمہ تو اپنی دوست کے گھر گئی ہوئی تھی
" شہلا آپی کو کہتی ہوں" وہ اٹھی اور کچن کی طرف آئی
" آپی شاپنگ پہ چلیں آج" شہلا کچن میں کام کررہی تھی کہ لیلٰی چلی آئی
" ابھی؟؟؟ ابھی تو کام پڑا ہے اتنا سارا"
" آپ فارغ ہو جائے تو چلتے ہیں" وہ بولی
" ہاں ٹھیک ہے"
" تمہیں پتا ہے علی آرہا ہے؟" شہلا بولی تو لیلٰی چونکی
" کب؟؟؟"
" یہ تو پتا نہیں پر دو تین دن تک آجائے گا"
" اوہ۔۔۔۔۔ یار پھر تو کل پہلی فرصت میں پارلر جاؤں تھوڑی فریشنیس تو ہو چہرے پہ جب وہ مجھے دیکھے " لیلٰی کو فکر لگ گئی
" تم بس انہی کاموں میں رہنا " شہلا چڑ گئیں
" تو پھر کیا کروں؟"
" کہتے ہیں مرد کے دل کا راستہ معدے سے ہو کے گزرتا ہے" شہلا نے کہا
" اوہ پلیز آپی میں نہیں بنا سکتی یہ کھانا وانا ہاتھ خراب ہو جائیں گے میرے" وہ منہ بنا کے بولی
" تو پھر بیٹھی رہو ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے"
" اچھا اس بحث کو چھوڑیں فارغ ہو جائیں تو مجھے بتا دینا شاپنگ پہ چلیں گے" کہہ کر وہ پلٹ گئی۔
--------
" اے کزن آج شاپنگ پہ چلیں" وہ لان میں ٹہل رہی تھی کہ اشعر چلا آیا
" آج۔۔۔۔۔ کل تو آپ لوگ آئے ہو" یشل نے کہا
" ہاں تو آج کیا شاپنگ پہ جانا منع ہے" اشعر نے پوچھا
" ارے نہیں نہیں۔۔۔۔۔ اچھا چلیں چلتے ہیں" وہ فوراً مان گئی
" علی بھی آرہے ہیں کل ان کے لیے بھی اچھا سا گفٹ لے لوں گی" اس نے سوچا اور ماما سے پوچھنے چلی گئی
ماما سے اجازت لے کے اس روم سے اپنا پرس اٹھایا اور چل دی۔
--------
اشعر نے تو شاپنگ کرنے میں لڑکیوں کو بھی مات دے دی تھی اسے کوئی چیز پسند ہی نہیں آرہی تھی کتنی شاپس انہوں نے چھان ماری تھیں ابھی بھی وہ ایک شاپس نکلے تھے کہ یشل بولی
" حد ہے اشعر بھائی کوئی چیز ہی پسند نہیں آرہی آپ کو"
" یار میں بہت چوزی ہوں۔۔۔۔۔ یو نو نا اتنا ہینڈسم بھی تو ہوں" اشعر بولا
" آپ نے لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے شاپنگ کرنے میں آئیندہ تو میں آپ کے ساتھ آئی" وہ بول رہی تھی کہ کوئی بہت تیزی میں گزرا اسے زور سے دھکا لگا وہ گرنے ہی لگی تھی کہ اشعر نے اسے بازو سے پکڑ کےسنبھالا
" آر یو اوکے سسٹر " اشعر نے فکر مندی سے پوچھا
" جی اشعر بھائی ٹھیک ہوں میں"
" یار لوگ کیا اندھے ہیں جو دیکھ کے نہیں چلتے"
" چھوڑیں آجائیں آگے چلتے ہیں"
---------
" آپی یہ یشل ہے نا؟؟؟" وہ لوگ شاپس سے نکلیں تو لیلٰی نے ان کو یشل کی طرف متوجہ کیا
" ہاں پر یہ اس کے ساتھ کون ہے" لیلٰی نے پوچھا
" مجھے کیا پتا کون ہے۔۔۔۔۔ اور تم کیا اسے دیکھنے لگ گئیں چلو چلیں" شہلا نے کہا
" بھابی ایسے کیسے چلی جاؤں ذرا سیل دینا اپنا"
" اب کیا کرنے لگی ہو ؟؟؟" شہلا نے پوچھا
" یار ان کی ایک پک لے لیتی ہوں کیا پتا کبھی کام ہی آجائے ہمارے " لیلٰی نے ان کی پک لی اور پھر اس نے دیکھا کہ کوئی تیزی میں اس کے پاس سے گزرا اور وہ گرنے لگی تو اسے اسی لڑکے نے سنبھالا کیمرہ تو آن ہی تھا لیلٰی نے کھٹا کھٹ کئی تصویریں لے لیں اس کا شیطانی دماغ بہت تیزی سے کام کررہا تھا۔
---------
وہ لوگ گھر آئیں لیلٰی کی خوشی کا آج کوئی ٹھکانہ نہ تھا رات کو شہلا اس کے پاس آئیں جو اپنے سیل پہ مصروف تھی
" کیا کروگی ان تصویروں کا" شہلا نے پوچھا
" بس دیکھیں آپ" لیلٰی نے کوئی نئی سم لی تھی وہ سیل میں لگائی
" اب کیا کرو گی؟؟؟"
" دیکھیں نا" لیلٰی نے کہا اور سیل کی طرف متوجہ کیا لیلٰی نے وہ تمام کی تمام تصویریں علی کے نمبر پہ بھیج دیں
" یہ کیا کررہی ہو تم؟؟؟" شہلا نے کہا
" یشل کو راستے سے ہٹانے کی تیاری کررہی ہوں" لیلٰی مزے سے بولی
" اب علی یہ پکس دیکھے گا تو اس یشل کو گولی ہی مار دے گا" وہ ہنسنے لگی
" افففف توبہ لڑکی تم تو بہت خطرناک ہو" شہلا بھی ہنسنے لگیں۔
---------