رات گہری ہو رہی تھی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی لب آپ ہی آپ مسکرارہے تھے بار بار آج کا واقعہ اس کے ذہن میں آرہا تھا کئی بار سونے کی کوشش کی مگر ناکام رہی تھک کے وہ اٹھ بیٹھی
یہ محبت بھی کیا شے ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا تک نہ تھا جس کے بارے میں وہ صرف سنتی آئی تھی آج اسے وہ محبت ہوگئی تھی اسی انسان سے جس انسان نے اسے میٹرک میں پرپوز کیا تھا۔۔۔۔۔ پھر اس نے اسے میٹرک میں کیوں ہاں میں جواب نہیں دیا تھا ؟؟؟ اس نے اپنے دل سے پوچھا
" شاید میں اس وقت ذہنی طور پہ تیار نہیں تھیں" خود ہی جواب دیا
" پر ذہنی طور پہ تو میں آج بھی تیار نہ تھی پھر۔۔۔۔۔؟؟؟؟"
"شاید یہ اس کی محبت کی شدت اور سچائی تھی جو اس کی آنکھوں میں دکھ رہی تھی"
" ہاں" اور اس بات پہ اس کا دل بھی ایمان لے آیا ایک بہت دلفریب مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا
۔ --------
" ہائے کیسی ہو؟؟؟" دوسرے دن وہ کالج آئی تو بہت کنفیوز تھی یہ سوچ سوچ کے بار بار گھبرا رہی تھی کہ وہ کلاس میں کیسے جائے گی اور اگر علی اس کے سامنے آگیا تو۔۔۔ اس کا تو دم ہی نکل جانا ہے وہ یہ سوچتے سوچتے کلاس کی طرف جا رہی تھی کہ علی چلا آیا وہ ایک دم چونکی اور نظر اٹھا کے اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ہونٹوں پہہ بہت پیاری مسکراہٹ تھی وہ جھجکی
" آپ۔۔۔۔۔ ہاں میں یقین نہیں آرہا ؟؟؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا
" نہیں" وہ جھینپی اور نگاہیں جھکا لیں
" تو بتاؤ کیسے یقین دلاؤں؟؟؟" وہ شرارت سے بولا تو وہ بوکھلا گئی " ایسی بات نہیں ہے میں وہ نہیں کہہ رہی میں۔۔۔۔۔" اس نے کچھ کہنا پر اس کی آنکھوں میں ناچتی شرارت کو دیکھ کے جھینپ گئی " کلاس کا ٹائم ہورہا ہے " کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی وہ ہنس دیا " ارے رکو لڑکی میں بھی آرہا ہوں " وہ بھی اس کے پیچھے ہولیا۔
---------
یہ ان کا معمول بن گیا تھا وہ کالج میں سارا دن ساتھ رہتے تھے اس سے بات کیے بنا اسے دیکھا بنا علی کا دن نہیں گزرتا تھا یشل کے پاس ابھی سیل فون نہیں تھا سو ان کی زیادہ تر بات کالج میں ہی ہوتی تھی
پھر جب وہ لوگ انٹر میں آئے تب یشل نے اپنا پرسنل سیل فون لیا اب تو وہ کالج میں ہی نہیں بلکہ ہر ٹائم چیٹنگ پہ ہوتے دونوں کو ایک دوسرے کی عادت سی ہوگئی تھی۔
-------
" ہائے بہنا کیسی ہو؟؟؟" وہ لان میں بیٹھی اپنی سوچوں میں گم تھی ہونٹوں پہ بہت دلفریب مسکان سجی ہوئی تھی کہ کسی نے اس کے چہرے کے سامنے چٹکی بجائی وہ چونکی
" آپ۔۔۔۔۔" وہ سامنے ارسلان بھائی کو دیکھ کے چونکی ارسلان اس کے تایا کے بیٹے تھے اس کے بچپن کے دوست اور بھائی انہوں نے کبھی اسے بہنوں سے کم نہیں سمجھا تھا اور نہ اس نے کبھی بھائیوں سے
تایا تائی کی وفات ہوگئی تھی اس لیے وہ جب بھی خود کو اکیلا فیل کرتے وقار آفندی اپنے چاچا کے گھر آجاتے وقار آفندی بھی انہیں بیٹوں سے کم نہیں سمجھتے تھے
" ہاں میں کہاں گم ہو بڑا مسکرایا جا رہا ہے وہ بھی اکیلے اکیلے کیا بات ہے کزن"
" کچھ بھی نہیں بھائی بس ایسے ہی" وہ بوکھلائی
" ارے ایسے کیسے کچھ نہیں چلو بتاؤ" ان کے بہت کہنے پہ اس نے سب کچھ انہیں بتا دیا ارسلان بھائی ہنس
" اچھا تو یہ بات ہے"
" جی"
" تم نے چاچو چاچی کو بتایا؟؟"
"جی بتایا تھا ماما کو"
" تو انہوں نے کیا کہا؟؟؟ "
" کچھ نہیں یو نو نا بھائی ماما میری بیسٹ فرینڈ ہیں میں ان سے کچھ نہیں چھپاتی تو علی کے بارے میں بھی سب بتادیا میں نے وہ مجھے کچھ نہیں بولیں بس مجھ سے ایک وعدہ لیا ہے"
" کیسا وعدہ ؟؟؟"
" انہوں نے کہا کہ بیٹا اس نے تمہیں پرپوز کیا اور تم نے ایکسپٹ بھی کرلیا بٹ۔۔۔۔۔ اپنے بابا کا یقین اور غرور کبھی مت توڑنا اس یقین اور غرور کو ہمیشہ اپنے ساتھ لے کر چلنا تاکہ کبھی بھٹکو نہیں" یشل کی ماما اس معاملے میں کافی آزاد خیال تھیں وہ محبت کے خلاف نہیں تھیں
" گڈ یہ تو پھر اچھی بات ہے تم ان کی نصیحت پہ ہمیشہ عمل کرنا اوکے" انہوں نے کہا تو اس نے سر ہلا دیا۔
-----------
آج کل علی بہت ہی خوش نظر آرہا تھا صبح جلدی جلدی ناشتہ کرکے کالج چلا جاتا آتا تو بجائے تھکن ہونے کے مسکرارہا ہوتا یا کچھ نا کچھ گنگنا رہا ہوتا تھا سارا دن اپنے سیل فون پہ لگا ہوتا اور شام میں باہر نکل جاتا شہلا بھابی کو رلی کی حرکتیں کچھ مشکوک سی لگ رہی تھیں وہ جب بھی علی کو لیلٰی کو باہر لے جانے کا کہتیں وہ صاف انکار کردیتا
آج بھی ایسا ہی ہوا تھا تو وہ جی جان سے جل کے رہ گئیں
" دیکھ رہی ہو تم علی کو اس کے رنگ ڈھنگ دیکھیں ہیں تم نے" بھابی غصے سے لیلٰی کے روم میں آئیں وہ جو نیل پینٹ لگا رہی تھی چونک کے انہیں دیکھا
" کیا ہو گیا ہے آپی" اس کی یہ بے پرواہی شہلا کو بہت کھلی
" تن بیٹھ کے یہ نیل پینٹ لگاؤ اور اگر علی ہاتھ سے نکل گیا نا تو مجھے مت کہنا" اس نے نیل پینٹ کی شیشی بند کی اور ان کی طرف متوجہ ہوئی
" کیا ہوا ہے بتائیں تو؟؟؟"
" علی کی حرکتوں پہ ذرا نظر رکھو مجھے اس کی حرکتیں کچھ مشکوک سی لگ رہی ہیں"
" مطلب؟؟؟"
" مطلب یہ کہ کہیں کسی لڑکی کے چکر میں تو نہیں پڑ گیا وہ۔۔۔۔ اگر ایسا ہوا نا تو اس گھر میں بہو بننے کے جو خواب دیکھ رہی ہو نا اسے خواب سمجھ کے بھول جانا"
" تو اس میں پریشانی والی کی بات ہے" اس کے اس طرح کہنے پہ شہلا کا دماغ گھوم گیا
" تم اس بات کو اتنا ہلکا لے رہی ہو"
" ہاں لے رہی ہوں۔۔۔۔۔ یو نو نا آپی لڑکوں کو تو ایسی عمر میں محبت ہو ہی جاتی ہے اس میں پریشانی والی کیا بات ہے "
" اس میں پریشانی کی ہی بات ہے تمہیں معلوم ہے نا علی رشتوں کے معاملے میں کتنا ٹچی ہے اور جو مرد رشتوں کے معاملے میں اتنے ٹچی اور حساس ہوں نا وہ دل لگانے کے لیے محبت نہیں کرتے اور نا ہر ایک سے کرتے ہیں"
" اوہ کم آن آپی۔۔۔۔۔ یہ جسٹ کہنے کی باتیں ہیں اور فرض کرلیں اگر اسے محبت ہو بھی گئی ہے کسی سے تو علی کو ایسی سوکالڈ محبت تو کچھ سال پہلے بھی ہوئی تھی نا کیا ہوا اس کا۔۔۔۔۔ اس نے آنٹی کو اس لڑکی کے بارے میں بتایا تھا اور پھر اسے جا کے پرپوز بھی کیا تھا پر اس نے کویہ جواب نہیں دیا تھا بھول گیا نا اس محبت کو بھی علی۔۔۔۔۔ تو اگر اسے محبت اب دوبارہ بھی ہوگئی ہے تو بے فکر یہ بھی وہ بھول جائے گا" شہلا بھابی سوچ میں پڑ گئی بات تو وہ ٹھیک کہہ رہی تھی میٹرک میں ایسا واقعہ ہوا تو تھا وہ ایک دم مطمئن ہوگئیں
" سو بہنا ٹینشن مت لو علی صرف میرا ہے"
" ہاں ٹھیک ہے بٹ پلیز لیلٰی علی پہ دھہان دیا کرو اس کے آس پاس رہا کرو"
" اوکے" اس نے کہا اور دوبارہ نیل پینٹ لے کے بیٹھ گئی
۔ -------
آج سنڈے تھا وہ گہری نیند میں تھی کہ اس کا سیل فون بجا اس نے مندی مندی آنکھوں سے اسکرین کو دیکھا اور مسکرائی
" ہائے سویٹی گڈ مارننگ" علی کی خوشگوار آواز اس کے کانوں میں گونجی
" گڈ مارننگ"
" سو رہی ہو کیا ؟؟؟" علی نے پوچھا
" ہممم۔۔۔۔۔ سورہی تھی پر آپ نے جگا دیا "
" اوہو۔۔۔۔۔ میری سویٹی سو جاؤ"
" اب ایسی بھی بات نہیں ہے"
" پھر کیسی بات ہے ؟؟؟" اس نے شرارت سے پوچھا
" کوئی بات نہیں ہے" وہ مسکرائی
" کوئی بات نہیں ہے چلو پھر میں فون رکھتا ہوں"
" علی۔۔۔۔۔۔ " وہ چیخی علی ہنس دیا
" خود ہی تو کہہ رہی ہو کہ کوئی بات نہیں ہے"
" میں نے ایسے تھوڑی کہا ہے"
" پھر کیسے کہا ہے؟؟؟" اس نے پھر پوچھا
" افففففف۔۔۔۔۔۔ علی کتنے سوال کرتے ہو آپ" اس نے چڑ کے کہا تو علی ہنسنے لگا
" اوہ مائے انوسینٹ گرل۔۔۔۔۔ تم سے بات کرنے کا دل چاہ رہا ہے"
" آپ بات کر تو رہے ہیں"
" ایسے نہیں نا تمہیں دیکھنا ہے"
" ابھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟" اس نے پوچھا
" ہاں نا اگر پوسینل ہے تو ورنہ نہیں"
" ابھی کیسے؟؟؟"
" اچھا ایسا کرو بالکنی پہ آؤ"
" کیوں؟؟؟"
" بس آؤ نا" وہ بالکنی پہ آئی تو باہر علی کو دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہا تھا وہ مسکرائی
" آپ یہاں۔۔۔؟؟؟ اس وقت؟؟؟"
" ہممممم تمہیں دیکھنے کو دل چاہ رہا تھا" وہ مسکرائی ایک غرور سا ہوا اسے کیا کوئی سچ میں اس سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے یہاں چلا آیا
" علی ۔۔۔۔۔"
" ہاں کہو علی کی جان" وہ اس کے یوں کہنے پہ جھینپی
" وہ علی میں نے ماما کو آپ کے بارے میں بتادیا ہے" وہ بالکنی میں کھڑی اس سے بات کررہی تھی علی کچھ دیر کو خاموش ہوا پھر بولا
" انہوں نے تمہیں کچھ کہا تو نہیں نا"
" نہیں علی انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا پتا ہے علی میری مام بہت نائس ہیں وہ میری بیسٹ فرینڈ ہیں میں ان سے کچھ بھی نہیں چھپاتی میں ان کو آپ کے بارے میں بتایا تو انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا ہاں انہوں نے مجھے سمجھایا"
" بہت اچھی بات ہے یشل مجھے ناز ہے تم پر" وہ مسکرا دی
-----------
" وقار آفندی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ابھی میں نے بھابی کو فون کیا تو انہوں نے بتایا مجھے" رابعہ نے ہاشم آفندی کو فون کر کے اطلاع دی تو وہ منہ بنا کے بولے
" اب انہیں پوچھنے جانا پڑے گا میرا دل نہیں ہو رہا وہاں جانے کا وہاں۔۔۔۔۔ فضول کےچونچلے۔۔۔۔۔"
" ہوش سے کام لو ہاشم ہمارا کون سا دل ہو رہا ہے اسے پوچھنے کا پر اس کے سامنے ہم نے اپنا امیج اچھا رکھنا ہے بگاڑنی نہیں ہے اس سے سمجھ آئی"
" ہاتھ تو ہمارے پھر بھی کچھ نہیں آنا ہے تو فائدہ بہت گھنا ہے وہ وقار"
" وہ تو ہے" رابعہ نے بھی سر ہلایا
" وہاں جا کے اس کی جھوٹی محبتیں دیکھنا مجھے بالکل منظور نہیں ہے۔۔۔۔۔ اتنی ہی محبت ہے تو اپنی دولت میں سے کچھ حصہ ہی دےدے اپنے بہن بھائیوں کو پر نا جی نا دولت میں کمی نہیں آجائے گی"
" آئے ہائے تو ہم نے جا کے کونسی اس کو سچی محبت دکھانی ہے دکھاوا ہی کرنا ہے ہم نے بھی "
" آپ احمد کو کہہ دیں وہ چلا جائے گا آپ لوگوں کے ساتھ پر میں۔۔۔۔"
" بس کرو ہاشم میں نے احمد سے بات کرلی ہے وہ بھی جا رہا ہے اور تم بھی جا رہے ہو زرمینہ کو بھی کہہ دو کہ کل تیاری کرلے"
" ٹھیک ہے" انہوں نے نا چاہتے ہوئے بھی ہامی بھرلی
---------
شام میں وہ سب لوگ وقار آفندی کے گھر موجود تھے
" کیا بھائی صاحب آپ اپنی طبیعت کا بالکل دھیان نہیں رکھتے کچھ دن کی چھٹیاں کرلیں آفس سے" وہ ہاشم جو کل آنے پہ راضی نہیں ہو رہے تھے آج ان کے لہجے میں شیرینی گھلی ہوئی تھی
" ہاں بھائی کمزور بھی ہوگئے ہیں آپ" سمیہ بولیں وقار آفندی ہنسے
" ارے ٹینشن مت لو تم سب۔۔۔۔۔ بس تم لوگوں کو دیکھ لیا میں ٹھیک ہوگیا" وہ خوشدلی سے بولے
" یہ تو آپ کی محبت ہے بھائی صاحب " انعم بولیں
"اور بھابی آپ لوگ سنائیں کیسے ہیں آپ سب" انعم نے عطیہ سے پوچھا
" الحمداللٰہ انعم ہم ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔ تم لوگ سناؤ بڑے دنوں بعد چکر لگا ہے"
" ارے بھابی مصروفیات ہی اتنی ہوگئی ہیں زندگی کی کہ وقت نکالنا مشکل ہے" انعم کی جگہ زرمینہ نے جواب دیا
" ہاں یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہو زرمینہ تم لوگوں نے ناحق زحمت کی میں تو بالکل ٹھیک ہوں اور تم لوگوں کے آنے سے تو اور بہتر محسوس کررہا ہوں " وقار آفندی بے حد خوش تھے
" ارے زحمت کیسی بھائی ہو تم ہمارے تمہیں نہیں پوچھیں گے تو اور کس کو پوچھیں گے ورنہ آجکل کے رشتوں کا تو خون ہی خشک ہو گیا ہے " رابعہ مسکرائیں
" یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔" وقار بولے
" اب آپ لوگ آہی رہے تھے تو بچوں کو بھی لے آتے ویسے بھی کافی دنوں بعد آئے ہیں آپ لوگ" عطیہ مسکرائیں
" ارے بچے تو اپنی مرضی کے مالک ہیں ہم کیا کہہ سکتے ہیں بھابی آپ تو جانتی ہی ہیں آجکل کے بچوں کو"
" یہ تو سہی کہہ رہی ہو انعم بچوں کا اپنا ٹف شیڈول ہے"
" جی بھابی"
پھر وقار آفندی اور عطیہ نے انہیں رات کو کھانے پہ زبردستی روک لیا تھا اور جاتے وقت احمد آفندی نے اپنے بزنس کا جھوٹا بہانا بنا کر ان سے پانچ لاکھ لے لیے تھے جاتے وقت وقار آفندی نے سب کو تحائف دے کر رخصت کیا۔