دن یوں ہی تیزی سے گزرتے رہے اس کا ایم بی بی ایس میں ایڈمیشن ہو گیا تھا اور اس نےاپنے آپ کو پڑھائی میں مصروف کرلیا تھا اس لے بہن بھائی بھی اعلٰی تعلیم حاصل کررہے تھے اور یہ سب ارسلان بھائی کی بدولت ہی تھا جنہوں نے سخت وقتوں میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور بھائی بن کے دکھایا
وہ اپنی زندگی میں بہت آگے نکل گئی تھی پر اب بھی وہ اسے بھلانے میں ناکام تھی دن تو جیسے تیسے گزر جاتا پر جب شام کے سائے گہرے ہونے لگتے تو اس کی یاد کا پنچھی اس کے دل میں ڈیرہ ڈال لیتا جس سے وہ چاہ کے بھی نکل نہ پاتی لوگ اسے خوش مزاج کہتے تھے پر اندر کا حال صرف وہی جانتا ہے جس پہ بیتی ہو
لوگ خوش مزاج کہتے ہیں مجھے
میں نے اکثر خود کو اداس پایا ہے
دن گزرتے رہے وہ ایم بی بی ایس کے فورتھ ائیر میں تھی مشعل ایم بی اے کررہی تھی اور مصطفٰی فرسٹ ائیر پری انجینئیرنگ کررہا تھا جب اچانک مصطفٰی کے کہنے پر ان کا پاکستان جانے کا پروگرام بنا ماما بابا کی قبر پہ بہت سال ہوگئے تھے وہ نہیں گئے تھے اب وہ جانا چاہتے تھے
۔ ---------
اور پھر وہ دن بھی آپہنچا جب انہوں نے پاکستان کی سرذمین پہ قدم رکھا
بہت سی تلخ یادیں اس کے ذہن میں تازہ ہوئیں پر اس کے برعکس مشعل اور مصطفٰی بے حد خوش تھے
جب انہوں نے اپنے گھر میں قدم رکھا تو ایک سکون سا انہیں محسوس ہوا واقعی اپنا گھر اپنا ہوتا ہے اور جو اپنائیت اور سکون اپنے گھر میں محسوس ہوتا ہے وہ اور کہیں نہیں ہوتا وہ گیٹ عبور کرچکے تھے ایک بار وہیں کھڑے ہو کے اپنے خاموش گھر کو دیکھا جہاں کبھی ان بہن بھائی کی ہنسی گونجتی تھی جس میں ماما بابا کی ہنسی کی آوازیں بھی شامل ہوتی تھیں آج بھی وہ ویسا ہی تھا پر اب کی بار وہ گھر خاموش تھا وہاں کوئی بولنے والا نہیں تھا کوئی ہنسنے والا نہیں تھا ان تینوں کی ہی آنکھیں نم تھیں وہ چلتے چلتے گھر کے اندر آگئے ارسلان بھائی ان سے ملنے آئے تھے پھر کچھ دیر بعد چلے گئے
۔ --------
دوسرے دن وہ لوگ اپنے ماما بابا کی قبر پہ گئے وہاں پر وہ پھر بچوں کی طرح بے تحاشہ روئے تھے زخم پھر سے ادھڑنے لگے تھے کتنے خوش باش رہ رہے تھے وہ لوگ اور پھر ایک دم کیسے اچانک ان پہ قیامت ٹوٹی تھی یہ صرف وہی جانتے تھے مصطفٰی ان میں سب سے چھوٹا تھا حد سے زیادہ حساس۔۔ وہ وہاں بیٹھ کے اتنا رویا کہ اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا بہت دیر تک وہاں بیٹھے رہنے کے بعد وہ لوبے دلی سے گھر آئے کہ بہرحال انہیں جانا ہی تھا۔
اگلے دن ارسلان بھائی اسے اپنے ہاسپٹل لے آئے تھے وہ ڈاکٹر تھے وہ ان کا ہاسپٹل دیکھ رہی تھی اور ارسلان بھائی سے باتیں بھی کررہی تھی کہ کوئی انہہں بلانے آگیا
" سر ایک ایمرجنسی کیس ہے آپ کو ڈاکٹر خلیل بلا رہے ہیں آپ کی ہیلپ چاہیے"
" اوکے میں آتا ہوں" انہوں نے کہا
" سوری گڑیا میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں اگر موڈ ہے تو پاسپٹل دیکھ لو اگر بور ہو رہی ہو تو گھر چلی جاؤ بے شک" وہ بولے
" نہیں اب آئی ہوں تو ہاسپٹل دیکھ کے ہی جاؤں گی آپ اپنی ڈیوٹی کریں بے شک" وہ مسکرائی تو وہ " اوکے" کہہ کر چلے گئے
وہ کوریڈور میں کھڑی تھی جہاں پہ لائن میں لیبز بنی ہوئی تھیں وہ اور آگے آئی تو اس کی نظر علی کی امی پہ پڑی ساتھ میں شفق آپی تھیں اس کے قدم خود باخود ان کی طرف بڑھے ان کے پاس پہنچ کے اس نے انہیں سلام کیا
" ارے یشل تم " انہوں نے فورا اسے گلے لگایا " ہائے میری بچی آگئی کیسی ہے؟" وہ بولیں
" آنٹی ٹھیک ہوں آپ دونوں کیسی ہیں؟" وہ ان سے حال چال پوچھنے لگی
" یشل اتنے سال بعد پاکستان کی یاد آئی تمہیں" آپی بولیں
" آپی یاد تو روز آتی ہے پر یہاں آنے کا مین مقصد یہ تھا کہ ماما بابا کی قبر پہ جانا تھا بہت سال ہوگئے ہیں نا"
" بہت اچھا کیا بیٹا " آنٹی بولیں
" آپ خیریت سے آئیں یہاں؟"
" ہاں سب خیریت ہے وہ بس چیک اپ کروانے آئی تھی اپنا" آپی بولیں
چیک اپ کیوں۔۔۔۔ کیا ہوا آپی آپ کو؟" وہ فکرمندی سے بولی
" ارے جنت کا بھائی یا بہن آنے والی ہےتو اسی سلسلے میں آئی تھی "
اوہ مبارک ہو بہت بہت " وہ حقیقتا خوش ہوئی تھی
" خیرمبارک۔۔۔۔۔"
" اچھا سنو کل جنت (علی کی بھانجی) کی برتھ ڈے ہے تم نے آنا ہے ہر حال میں" انہوں نے فورا اسے انوائیٹ کیا
" آپی میں۔۔۔۔۔نہیں آسکوں گی پرسوں فلائیٹ ہے میری میں واپس جا رہی ہوں"
" پرسوں فلائیٹ ہے نا کل تو نہیں"
" پر پیکنگ تو رات کو کرنی ہو گی نا"
" میں کچھ نہیں سن رہی یشل بس آنا ہے تم نے" وہ بضد تھیں یشل کو مانتے ہی بنی
" اوکے آپی"
----------
کافی عرصہ بیت گیا
جانے اب وہ کیسا ہوگا؟؟
وقت کی ساری کڑوی باتیں
چپکے چپکے سہتا ہوگا
اب بھی بھیگی بارش میں وہ
بن چھتری کے چلتا ہوگا
مجھ سے بچھڑے عرصہ بیتا
اب وہ کس سے لڑتا ہوگا
اچھا تھا جو ساتھ ہی رہتے
بعد میں اس نے سوچا ہوگا
اپنے دل کی ساری باتیں
خود سے خود ہی کہتا ہوگا
کافی عرصہ بیت گیا ہے
نہ جانے وہ کیسا ہوگا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
اس نے ڈائیری لکھ کے بند کی اور چئیر کی پشت سے ٹیک لگا لیا اور آنکھیں بند کرلیں
ایک بے چینی سی تھی اس کے اندر
" پتا نہیں اتنے سالوں بعد میں اسے یاد بھی ہونگی یا۔۔۔۔۔۔"
" پتا نہیں مجھے دیکھ کے کیسے رییکٹ کرے"
" اور اگر میں اس کے سامنے کمزور پڑگئی تو۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں" اس نے آنکھیں کھولیں
" بہت مشکل سے سنبھالا ہے اپنے آپ کو پھر سے بکھرنے نہیں دے سکتی" اس نے دل میں سوچا
وہ سوچوں میں گم بیٹھی تھی کہ مشعل چلی آئی
" آپی میں اپنی فرینڈز کی طرف جا رہی ہوں آج گیٹ ٹو گیدر پارٹی رکھی ہے ہم فرینڈز نے"
" ٹھیک ہے پر ٹائم سے آجانا اوکے"
" جی آپی۔۔۔۔۔ آپ اپنی فرینڈز سے نہیں ملیں گی؟ مصطفٰی کو دیکھیں یہاں ہم کو بھولا بیٹھا ہے"
" ہمممم کل جاؤں گی میں۔۔۔۔۔ اچھا ہے نا اسے بھی انجوائے کرنے دو"
" اوکے آپی میں جاتی ہوں بائے" کہہ کر وہ چلی گئی
---------
علی کے گھر والوں نے بہت گرم جوشی سے اس کا ویلکم کیا علی اسے کہیں نظر نہ آیا تھا حیدر نے اسے فون پہ بتایا تھا کہ اس نے لاہور میں ہی جاب اسٹارٹ کردی ہے وہ بیٹھی تھی کہ فاطمہ آکے بولی
" اوہ یشل آپی مجھے اتنی خوشی ہو رہی ہے آپ کے آنے کی۔۔۔۔۔ اب تو آپ نہیں جاؤ گی نا"
" یہ آپ لوگوں کی محبت ہے فاطمہ۔۔۔۔۔ پر میں ہمیشہ کے لیے نہیں آئی کل میری فلائیٹ ہے میں واپس چلی جاؤں گی" یشل نے بتایا تو وہ افردہ ہوگئی
" ارے یار اداس نہ ہو ابھی تو ہوں نا تمہارے پاس " وہ اس کا موڈ ٹھیک کرنے کو بولی تو وہ مسکرائی
اتنے میں شہلا بھابی اور لیلٰی بھی چلی آئیں اور یشل کو دیکھ کے بد مزہ ہوئیں
" اففففف آپی یہ کیوں آگئی قسم سے زہر لگتی ہے یہ لڑکی مجھے" لیلٰی نفرت سے بولی
" مجھے تو جیسے بہت شہد لگتی ہے نا" شہلا بولی
" آگئی میرے علی پہ پھر سے ڈورے ڈالنے ہونہہ۔۔۔۔"
" تم میری بات سنو۔۔۔۔۔ سارا ٹائم تم علی کے ساتھ ساتھ رہنا ذرا تنہائی کا وقفہ نہ چھوڑنا ان کے درمیان"
" ہممم سمجھ گئی آپی" وہ بولی
" آؤ اس آفت کی پرکالا سے مل کے آتے ہیں" وہ بولیں تو لیلٰی نے بھی تقلید کی
دونوں یشل سے ملی یشل پھر آنٹی کے پاس بیٹھ گئی
" حیدر یہ علی کہاں گم ہے؟" فاطمہ بولی
" علی آئے نہیں ابھی تک " لیلٰی یشل کے سانے بن کے بولی"
" دیکھو ذرا شام میں فون کیا تھا میں نے کہ جلدی گھر آجانا آپ اور ابھی تک نہیں آئے" یشل ایسی بن گئی جیسے سن ہی نا رہی ہو۔۔۔۔۔شہلا بھابی نے اس کا سکون دیکھا تو بولیں
" ارے یشل تمہیں اہم بات تو بتانا ہی بھول گئے ہم۔۔۔۔۔ تمہیں معلوم ہے لیلٰی اور علی کی پچھلے دنوں منگنی ہوگئی ہے" یشل کو ایک دم جھٹکا لگا لیلٰی کو دیکھا جو مسکرارہی تھی یشل کا رنگ پھیکا پڑنے لگا شہلا نے بہت مزے سے اس کے تاثرات دیکھے
آنٹی نے بھی پہلو بدلہ ایک دم سب اس سے نظریں چرانے لگے تھے وہ سب اس سے کانٹیکٹ میں تھے پر علی کی منگنی کا تو کسی نے ذکر ہی نہیں کیا تھا یعنی اسے لاعلم رکھا گیا تھا وہ ضبط کرکے بولی
" مبارک ہو لیلٰی"
" خیر مبارک" وہ مسکرائی " اب آیا نہ مزا"
اتنے میں علی بھی آگیا لیلٰی فورا اس کی طرف بڑھی یشل نے صرف ایک نظر اسے دیکھا اور پھر رخ پھیر لیا وہ ان بیتے سالوں میں اور ہینڈسم ہوگیا تھا
----------
وہ لیلٰی سے مسکرا کے کوئی بات کررہا تھا اس نے ابھی تک یشل کو نہیں دیکھا تھا یوں ہی باتیں کرتے کرتے اس کی نظر یشل پہ پڑی تو پھر پلٹنے سے انکاری ہوگئی
کیا یہ سچ میں یشل تھی۔۔۔۔۔ یا اس کا وہم جو کئی سال سے اسے ہوتا آرہا تھا
نہیں یہ اس کی یشل ہی تھی وہ تیزی سے آگے بڑھا کے لیلٰی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"مت بھولو علی تم منگیتر ہو میرے یشل تمہاری کچھ نہیں لگتی"اس کے قدم تھم گئے
یشل اپنے آپ کو کنٹر کرتی رہی اس سے وہاں بیٹھا ہی نہیں جا رہا تھا ناجانے کیوں اتنا رونا آرہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا دل بند ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کا پہرہ بٹھالیا تھا
جنت کی برتھ ڈے سیلیبریٹ یوئی علی بہت بیتاب تھا اس سے بات کرنے کے لیے۔۔ دل چاہ رہا تھا سب بھلا دے اور اس کے پاس چلا جائے پر لیلٰی اس کے ساتھ سائے کی طرح چپکی ہوئی تھی
کیک کٹنے کے فورا بعد یشل سب سے معذرت کرتی اٹھ گئی کہ اب بیٹھنا محال تھا سب نے روکا بھی مگر وہ پیکنگ کا بہانہ کرتی اٹھ گئی
علی کو لگا جیسے اس کی دنیا ہی ختم ہورہی ہو وہ ایک بار پھر دور جارہی تھی وہ اپنے روم میں چلا گیا وہ جا چکی تھی اپنے گھر۔۔۔۔۔ وہ وہاں بیٹھ کے کیا کرتا ۔۔
" تمہیں ایسے جانے نہیں دینا چاہیے تھا" دل نے کہا اس نے ہر بار کی طرح سر جھٹکا
بڑے سکون سے رخصت تو کردیا اس کو
پھر اس کے بعد محبت نے انتہا کردی
--------
اس دن پھر سے وہ پہلے والی یشل بن کے بے تحاشہ روئی تھی وہ رونا نہیں چاہتی تھی پر آنسو خودباخود بہے چلے جا رہے تھے وہ بار آنسوؤں کو صاف کرتی پر پھر بھی ناکام رہتی باتھ روم میں جا کے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے پر کوئی اثر نہ ہوا وہ بکھرتی چلی گئی
کون کس کا ساتھی ہے, ہم تو غم کی منزل ہیں
پہلے بھی اکیلے تھے ,آج بھی اکیلے ہیں
اس کے زخموں سے خون رسنے لگا تھا اب۔۔۔۔۔ ظاہری زخموں کی تو چلو بینڈیج ہو ہی جاتی ہے پر جو باطنی زخم ہوں ان کی بینڈیج کیسے ہو گی وہ تو وقت کے ساتھ ساتھ ہی ٹھیک ہوتے ہیں ان کی سب سے بڑی بینڈیج وقت ہے
نہیں تم سے کوئی شکایت
بس اتنی التجا ہے
جو حال کر گئے ہو
وہ کبھی دیکھنے مت آنا
وہ ساری رات روتی رہی تھی آج ان کی فلائیٹ تھی فجر کی اذان پہ اس کی آنکھ کھلی تو نماز پڑھنے کے لیے اٹھی نماز کے بعد اس نے اپنے سکون کی دعا مانگی اور جائے نماز سمیٹی
اسکے پاس کوئی نہیں تھا جس سے وہ شکوہ کرتی گلہ کرتی اپنے دل کی بات کرتی۔۔۔۔۔ اس معاملے میں وہ بے حد غریب تھی کہ اس کے پاس کوئی ایسا انسان نہیں تھا جس سےاپنے دکھ سکھ شئیر کرتی
اس کے دل میں ایک حسرت سی تھی کہ کاش کوئی ہوتا جو اس کی سنتا اپنی سناتا سمجھانے والے بہت تھے وہ ان کی سنتی بھی تھی پر اپنی کسے سناتی پہلے ماما سے شئیر کرتی تھی وہ چلی گئی پھر ارسلان بھائی وہ بھی اپنی لائف مٰن مصروف تھے انہیں بار بار تنگ لرنا اچھا بھی نہیں لگتا تھا
وہ چاہتی تھی کہ کوئی ہو کہ جس کے ساتھ وہ بہت سارا ہنسے بہت سارا روئے پر ایسا اس کے پاس کوئی تھا ہی نہیں
نہ شکایتیں نہ گلہ کرے
کوئی ایساشخص ہوا کرے
جو میرے لیے ہی ہوا کرے
مجھ ہی سے باتیں کیا کرے
کبھی روئے جائے وہ بے پناہ
کبھی بے تحاشہ اداس ہو
کبھی چپکے چپکے دبے قدم
میرے پیچھے آکے ہنسا کرے
میزن طویل سفر میں ہوں اگر۔۔۔۔۔
میری واپسی کی دعا کرے