رکو۔۔
وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر پہنچے بھی نہیں تھے جب عنیزہ کی آواز نے اسے روکا۔
وہ اس کی پشت کو دیکھتے ہوۓ بولی۔
حازم مڑا اور آنکھیں اچکائیں۔
جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو کیا بات ہے۔
وہ چلتی اس کے پاس آ کر رکی اور ہاتھ آگے کیا۔
فرینڈز۔۔
حازم کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔
حازم نے بھی اس کے ساتھ ہاتھ ملایا اور بولا۔
فرینڈز۔
اتنی جلدی سوچ بھی لیا؟
ہاں تو اور کیا۔۔
تم میں کچھ خامیاں تو ہیں پر آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں گی۔
وہ منہ کے زاویے بناتے بولی۔
اچھا جی۔
اور تم میں؟
حازم نے آگے سے سوال کیا۔
نہیں مجھ میں کوئی نہیں۔ اور الحمداللہ میں ٹھیک ہوں۔
وہ بولی اور ساتھ ہی اس کی طرف مسکراہٹ اچھالی۔
خوشفہمی۔۔
کوئی بات نہیں۔
غلط فہمی تو نہیں نا۔
جواب دینے میں تو وہ ہمیشہ سے ماہر تھی۔
چلو دیکھتے ہیں وقت کے ساتھ کس کی خامیاں دور ہوتیں۔
حازم بولا اور بیڈ کی طرف بڑھ گیا۔
ہممم۔۔ دیکھ لینا۔
وہ بھی کہتی ورڈروب کی طرف جا پہنچی۔
اس کا ارادہ چینج کرنے کا تھا۔ صبح سے وہ اس سوٹ میں اپنے آپ کو انکمفرٹیبل فیل کر رہی تھی۔ دوپٹہ سمبھالنا زیادہ مشکل ہو رہا تھا۔ جب سے اس نے ہوش سمبھالی تھی جینز اور شرٹس ہی پہنی تھیں۔ اب بھی وہ ورڈروب میں اپنے لیے کوئی جینز اور شرٹ ہی ڈھونڈ رہی تھی۔ پر وہاں تو سارے سوٹ تھے۔ اسے سمجھ نہیں تھا آ رہا کیا کرے۔
وہ دو منٹ سیدھی کھڑی ہو کر کچھ سوچنے لگی۔ حازم لیپ ٹاپ چلاتا سرسری سا اسے دیکھ لیتا۔ اس نے اپنی سائیڈ بند کی اور حازم کی کھول کر کھڑی ہو گئی۔ اس میں ادھر ادھر چیک کرنے کے بعد ایک ٹراوزر شرٹ مل گئی تھی۔ رات کو بھی اسے وہ کپڑے اپنے سے بہت بڑے تھے۔ لیکن اس نے پھر وہی پہننے کا ارادہ کیا۔ ابھی تو اس کے پاس کوئی پیسہ بھی نہیں تھا جو وہ اپنے لیے شاپنگ کر لیتی۔ فون اے ٹی ایم کارڈ ہر چیز وہ چھوڑ آئی تھی۔
حازم نے اسے اپنے کپڑوں میں کچھ ڈھونڈتے دیکھا تو فورا بولا۔۔
کیا ڈھونڈ رہی ہو؟
وہ اس کی آواز پر الماری کا پٹ بند کرکے حازم کی طرف منہ کر کے کھڑی ہو گئی۔
مجھے یہ لینا تھا کیوں کے میں اپنے کپڑوں میں ان ایزی فیل کر رہی ہوں۔ اور اگر تم اجازت مانگنے کا کہو تو دوستوں میں کوئی اجازت نہیں مانگتا۔
وہ جواب کے ساتھ دلیل بھی دے گئی تھی۔
اوکے تم پہن سکتی ہو لیکن ڈے ٹائم میں نہیں۔ ہمارے گھر میں کوئی بھی ایسے کپڑے نہیں پہنتا۔ اور تم جو مرضی کرو لیکن تھوڑی سی ڈریسنگ سینس چینج کر لو۔ میں یہ نہیں کہتا تم یہ پہنو وہ پہنو اور نا ہی میں کوئی پابندی لگا رہا ہوں۔ میں ایز آ فرینڈ سمجھا رہا ہوں۔ وہ پہنو جو آپ کو ڈھانپیں بھی۔
وہ نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے۔ میں خیال رکھوں گی۔
وہ کہتی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
حازم کو خوشی ہوئی تھی کے کم از کم وہ بات کو سمجھتی تو ہے۔ اور آج کافی حد تک اس کو وہ نارمل لگ رہی تھی۔ اسے امید تھی کے آہستہ آہستہ وہ ٹھیک ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
چینج کر کے نکلی اور ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ بال وغیرہ برش کر کے وہ بیڈ کی ایک طرف بیٹھ گئی۔
حازم لیپ ٹاپ اٹھا کر صوفے کی طرف بڑھنے ہی والا تھا جب وہ بولی۔
کہاں جا رہے ہو؟
صوفے پر۔ تم یہاں سو جاؤ میں صوفے پر سو جاؤں گا۔
حازم مڑا ہی تھا جب وہ پھر بولی۔
ایک منٹ۔
ایسا کرو تم بھی بیڈ پر لیٹ جاؤ۔ ہم شئیرنگ کر لیتے ہیں۔ ایک سائیڈ تمہاری اور ایک میری۔ درمیان میں کشن رکھ لیں گے۔
اس نے تجویز پیش کی۔
کوئی بات نہیں تم لیٹ جاؤ میں صوفے پر ایڈجسٹ کر لوں گا۔ ایسے مشکل لگے گا۔
کیوں جی۔
کیا کسی 4، 3 بندوں نے یہاں اور سونا ہے جو مشکل لگے گا۔ تم نے مجھے اپنے کپڑے دیے اس لیے میں تمھارے ساتھ اپنا بیڈ شئیر کر سکتی ہوں۔ آگے تمہاری مرضی۔
وہ کہ کے درمیان میں کشن سیٹ کرنے لگ گئی۔
حازم بیڈ کو اپنا کہنے پر مسکرا دیا۔ اور لیپ ٹاپ نیچے رکھ دیا۔
۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
عفاف فائق کہاں ہے؟
ماما وہ صبح ہی چلے گئے تھے۔
وہ کہ رہے تھے کے ان کو ضروری کام ہے۔
عفاف ان کے سامنے چیئر پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔
کھانا بھی نہیں کھا کر گیا۔
فردوس بیگم پریشان ہوئیں۔
ماما میں نے کہا تھا۔ کہ رہے تھے کے پولیس سٹیشن سے جا کر کچھ کھا لوں گا۔
اچھا۔
اور بی جان کیوں نہیں آئیں ناشتے پر؟
وہ ڈائننگ خالی دیکھ کر بولیں۔
جب سے عنیزہ گئی تھی کوئی ٹھیک سے کھانے پر بھی نہیں آتا تھا۔
سب زیادہ تر کمروں میں ہی رہتے تھے۔
وہ کہ رہی تھیں میرا کھانا روم میں ہی بجھوا دیا کرو۔ خالی ڈائننگ ٹیبل مجھے کھانے کو دوڑتا ہے۔
اور میں نے ان کا کھانا ان کے روم میں بجھوا دیا ہے۔
عفاف نیچے منہ کیے بتا رہی تھی۔
اچھا۔
عفاف ایک بات پوچھوں آپ سے؟
فردوس بیگم نے اجازت طلب کی۔
جی ماما ضرور۔
اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے۔
کیا ہم نے عنیزہ کے ساتھ زیادتی کی ہے؟
وہ نظریں زمین پر مرکوز کیے بولیں۔
بلکل بھی نہیں ماما۔
بس ایک غلطی ہوئی جو ہم نے ان سے پوچھا نہیں۔
اور آپ ٹینشن کیوں لیتی ہیں۔ وہ بہت جلد ہمارے ساتھ ٹھیک ہو جائیں گی۔وہ غصّے کی ذرا تیز ہیں۔ اس لیے اس دن وہ سب بول گئی۔ مجھے یقین ہے وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔
عفاف ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بولی۔
دیکھو اس کے جانے کے بعد ٹھیک سے کوئی کھانا بھی نہیں کھاتا۔ تم کرو نا بات اس سے کے وہ ایک بار آ کے مل جائے۔
ماما ہم ایسا کریں گے کے پرسوں سنڈے ہے تو ہم دونوں ان کی طرف سے ہو آئیں گے۔ ایسے ہمیں پتہ بھی چل جائے گا کے وہ وہاں ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔
اوکے۔
فردوس بیگم کہ کے کھانے کی طرف مت وجہ ہوئیں۔
۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کل حیدر کا فون آیا تھا۔
اس تک بھی خبر پہنچ گئی حازم کی شادی کی۔ وہ کہ رہا تھا آپ نے اچھا نہیں کیا۔ رشتہ ہماری بیٹی سے کیا اور شادی کسی اور سے کر دی۔
فواد صاحب آہستہ آہستہ بول رہے تھے۔ ان کی نظریں ہاتھ میں پکڑے چائے کے کپ پر مرکوز تھیں۔
تو آپ نے کیا کہا؟
عفت بیگم پلیٹس سائیڈ پر رکھ کے بولیں۔
میں نے کہا جب یہاں آؤ گے تو تفصیلً بات کریں گے۔
آپ ان کو کچھ تو بتاتے کے یہاں کیا ہوا۔
وہ ان کی بات کے جواب میں بولیں۔
بتا تو میں دیتا پر فون پر کچھ ڈسکس کرنا مجھے اچھا نہیں لگا۔ آمنے سامنے بات ہو گی تو زیادہ اچھا ہے۔
یہ بھی ٹھیک ہے۔
وہ دوبارہ ڈائننگ سے پلیٹس اٹھانے لگ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے دس بج رہے تھے جب عنیزہ کی آنکھ کھلی۔
وہ اٹھی بیڈ پر بیٹھی اور زور سے انگڑائی لی۔ پھر ایک دم سے اس کے ذہن میں ایک خیال آیا وہ فوراً سیدھی ہوئی۔
بیڈ کی دوسری سائیڈ پر نظریں دورائیں تو وہ خالی تھی۔ اس نے واشروم کی طرف دیکھا اس کا بھی دروازہ کھلا تھا۔ مطلب وہ نیچے جا چکا ہے۔ وہ سوچتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ کپڑے لیتی واشروم کی جانب بڑھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد نہا کر نکلی اور قد آور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
اپنے بال سیٹ کر کے دوپٹہ اٹھایا اور گلے میں ڈال لیا۔
نیوی بلیو کلر کی ویلوٹ کی شارٹ شرٹ اور ساتھ بلیو ہی کیپری پہنے ہوۓ تھی۔ سکائے بلیو کلر کا ہیوی دوپٹہ گلے میں تھا۔ گیلے بال کھلے چھوڑے ہوۓ تھے۔ میک اپ سے پاک چہرہ نہانے کی وجہ سے بہت پر کشش لگ رہا تھا۔
ویسے ان کپڑوں میں میں اتنی بھی بری نہیں لگتی ہوں۔ جتنا میں نے سوچا تھا۔ وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کے بولی۔
اب میں نیچے چلتی ہوں سب ویٹ کر رہے ہوں گے۔
خود کو کہتی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے آئی تو ڈائننگ ٹیبل خالی تھا۔
وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔
آج سب نے ناشتہ نہیں کرنا کیا؟
اس نے دل میں سوچا۔
کرنا تو ہو گا ہی۔ شاید ابھی کوئی نا اٹھا ہو۔
لیٹ کرنے کا ارادہ ہو۔
وہ دل میں سوچ ہی رہی تھی جب اسے عفت بیگم کی آواز سنائی دی۔
آپ کب اٹھی عنیزہ؟
میں ابھی تھوڑی دیر پہلے آنٹی۔
اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
اچھا۔
آپ بیٹھو میں زاہدہ سے کہ کر ناشتہ لگواتی ہوں۔
باقی نہیں کریں گے کیا؟
وہ ان کے کچن میں جانے سے پہلے فورا بولی۔
باقی سب تو کر چکے ہیں بچے۔ اور سب اپنے اپنے کاموں کے لیے بھی نکل چکے ہیں۔ بس آپ ہی رہتی ہو۔
عفت بیگم نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے جواب دیا۔
پر اتنی جلدی؟
بیٹا سب نے جانا ہوتا ہے تو ہم لوگ ناشتہ جلدی کر لیتے ہیں۔
آپ جب چاہے تب کر سکتی ہو۔
وہ پیار سے بولیں۔
اچھا ٹھیک ہے۔
وہ اتنا بول کے چپ ہو گئی۔
آپ بیٹھو بس دو منٹ میں زاہدہ کھانا لگا دیتی ہے۔
اچھا جی۔
وہ کہتی کرسی گھسیٹ کے بیٹھ گئی۔
چند منٹوں بعد کھانا ٹیبل پر موجود تھا۔
بیٹا اب آپ کھاؤ میں زاہدہ سے صفائی وغیرہ کروا لوں۔
بعد میں بیٹھتے ہیں۔
اوکے۔
وہ کہ کر کھانا کھانے لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھابھی آپ اتنا چپ چپ کیوں بیٹھی ہیں؟
ابراھیم لاؤنج میں آ کر بولا۔ وہ باہر جا رہا تھا عنیزہ کو اکیلی بیٹھی دیکھ کر اس کی طرف آ گیا۔
نہیں تو۔ میں کہاں چپ ہوں۔
وہ زبردستی کا مسکرا کے بولی۔
سارا دن وہ عفت بیگم کے ساتھ رہی۔ ان کے ساتھ اس کا ٹائم کافی اچھا گزر گیا تھا۔ اب وہ عصر کی نماز پڑھنے اپنے روم میں گئیں تھیں اور عنیزہ وہیں بیٹھی ہوئی تھی ۔کچھ اسے اپنے گھر والے بھی یاد آ رہے تھے۔
مجھے پتہ ہے آپ بور ہو رہی ہیں۔
اب میں آ گیا ہوں نا تو آپ بور نہیں ہوں گیں۔
بس ایک منٹ۔
وہ کہتا نوال کو آوازیں دینے لگ گیا۔
وہ بھی اونچی اونچی عجیب عجیب آوازیں نکال کر۔
عنیزہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
نوال باگتی ہوئی کمرے سے باہر آئی۔
کیا ہوا ابراھیم۔
اس نے حیران پریشان سی نے آ کر پوچھا۔
یار وہ۔۔
وہ بہت آہستہ آواز میں بولا جیسے ابھی بےہوش ہو جائے گا۔
کیا ہوا ابراھیم؟
وہ چہرے پر حیرت لیے ابراھیم کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کے آواز دینے کے انداز پر وہ بہت گھبرا گئی تھی۔ ابھی تو وہ ٹھیک آئے تھے۔
ابراھیم بولو بھی۔
وہ پاس آ کر اسے ہلا کر بولی۔
وہ چپ چاپ صوفے پر سٹیچو بنا بیٹھا تھا۔
بول کیوں نہیں رہے کچھ؟
وہ پھر بولی۔
بھابھی کیا ہوا ہے اسے؟
عنیزہ بامشکل اپنی ہنسی ضبط کر کے بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے سمجھ آ گیا تھا یہ نوال کو تنگ کرنے لگا ہے ۔عنیزہ نے نا میں سر ہلایا۔ جیسے کہنا چاہ رہی ہو مجھے نہیں پتہ۔
میں ماما کو آواز دیتی ہوں ابھی۔۔
اس سے پہلے وہ آواز دیتی اسے ابراھیم کا قہقہ سنائی دیا۔ ساتھ عنیزہ کا بھی۔
وہ پیچھے مڑی اور حیرت سے ان دونوں کو دیکھا۔
بدھو بنایا۔
بڑا مزہ آیا۔۔
بدھو
بدھو۔
وہ ہنستا ہوا کہ رہا تھا۔
نوال کو ساری بات اب سمجھ آئی تھی کے اس کے ساتھ پرینک ہوا ہے۔
ایک بار ابراھیم کا بائیک سے بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس کے بہت چوٹیں آئیں تھیں۔ گھر آ کر اس نے ایسے ہی عفت بیگم کو آوازیں دی تھیں۔ اور بے ہوش ہو گیا تھا۔تب سے وہ بہت ڈری ہوئی تھی۔ جب بھی گھر میں سے کوئی بھی باہر جاتا تو وہ آیتُلکرسی پڑھ کے پھونکتی اور پھر باہر جانے دیتی۔
آج اس کے ایسے آواز دینے سے وہ ڈر گئی تھی۔
تم تو۔
آج نہیں بچو گے تم میرے سے۔
نوال اس کی طرف بڑھی۔
وہ اس کی طرف آتی ابراھیم فورا اٹھ گیا۔
وہ پورے لاؤنج میں ایک دوسرے کے پیچھے باگ رہے تھے۔ اور ساتھ ساتھ نوال کشنز اٹھا کر اسے مار رہی تھی۔
عنیزہ ان دونوں کی طرف دیکھ کے زور زور سے ہنس رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔