اسے لگ رہا تھا جیسے زمین اس کے پاؤں کے نیچے سے کھسک گئی ہے۔
وہ گرنے ہی والا تھا جب فواد صاحب نے اسے تھاما۔
کیا ہوا ہے فائق؟
انھوں نے پریشانی سے پوچھا۔۔
سب ختم ہو گیا انکل۔۔
وہ اتنا بول کے چپ ہوا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
ہوا کیا ہے؟
وہ پھر بولے۔
وہ لوگ برات لے کر نہیں آ رہے۔
یہ سن کے فواد صاحب کا بھی رنگ اڑا۔
تم ہوش میں تو ہو۔
کیا کہ رہے ہو؟
ان کو لگا انھوں نے کچھ غلط سن لیا ہے۔
ٹھیک کہ رہا ہوں میں انکل۔
وہ کہ رہے تھے عدیل غائب ہے دو تین دنوں سے۔
اب ب۔۔
اب۔۔
میری بہن کا کیا ہو گا۔
لوگ تو اسی پر کیچر اچھالیں گے کے لڑکی میں ہی کوئی خرابی ہو گی۔ اور بابا کی عزت۔۔
فائق کے منہ سے لفظ ٹوٹ ٹوٹ کے نکل رہے تھے۔
چپ کرو فائق۔
کچھ نہیں ہوا۔
عنیزہ بیٹی کی برات آج ہی آئے گی۔
فواد صاحب کچھ سوچتے ہوۓ بولے۔
کیا ہو گیا ہے آپ کو انکل۔
ان کی کال آئی ہے وہ لوگ برات نہیں لے کر آ رہے۔ تو کہاں سے آئے گی برات۔
فائق اپنے آنسو صاف کرتے بولا۔
میں لے کر آؤں گا۔
میں تم سے عنیزہ کا ہاتھ مانگتا ہوں حازم کے لیے۔
ان کی بات سن کے فائق کا حیرت سے منہ کھلا۔
کیا تم حازم کے لیے رضامند ہو؟
انھوں نے اس کا ہاتھ تھامتے پوچھا۔
پر انکل۔۔
پر کیا۔۔
میں نے بھی تو حازم کی شادی کرنی ہی ہے۔ تو اب کیوں نہیں۔ اور مجھے بہت خوشی ہو گی عنیزہ کو اپنی بیٹی بنا کر۔
اور حازم۔۔
فائق نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔
اس کی تم ٹینشن نا لو۔ وہ میرا کام ہے۔
تم اپنی ماما سے بات کرو میں گھر کال کرتا ہوں۔
انکل لیکن۔۔۔۔
وہ کہ کے رکا۔ اسے سمجھ نہیں تھا آ رہا کیا کہے۔
دیکھو جیسے وہ میرے بچے ہیں ویسے ہی تم لوگ بھی میرے بچے ہو۔ تم لوگوں کی عزت میری عزت ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے ان شاءاللّه سب ٹھیک ہو گا۔ تم جا کر مہمانوں کو دیکھو میں آتا ہوں۔
فواد صاحب اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولے۔
میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں انکل۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے۔
یہ غیروں والی بات تو نا کرو۔
وہ بول ہی رہے تھے جب فائق کا فون بجا۔
اس نے نیچے جھک کے فون اٹھایا اور دیکھا تو فردوس بیگم کی کال تھی۔
تم کرو بات میں آتا ہوں۔
فواد صاحب کہتے باہر کی طرف چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
وعلیکم السلام۔
جی بابا۔۔
حازم فون اٹھا کے مودب سا بولا۔
آپ کب تک پہنچ رہے ہو۔
بابا میں گھر جا رہا ہوں۔ تیار ہو کے ماما لوگوں کو لے کر نکلوں گا۔
اچھا۔۔
اگر آج میں آپ کو کچھ کہوں تو کیا آپ میری بات مانو گے؟
کیا ہوا بابا خریت؟
جی خریت ہی ہے۔
کیا میں آپ کے لیے کوئی فیصلہ کر سکتا ہوں؟
بابا آپ کو میرے سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جو چاہیں میرے لیے فیصلہ کر سکتے ہیں۔
شاباش میرے بچے۔
مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
آپ ایسا کریں گھر جا کر اچھا سا تیار ہو کے اپنے سارے دوستوں اور ماما لوگوں کو لے کر جلدی پہنچو۔
لیکن کیوں بابا؟
اس نے حیرت سے پوچھا۔
میں آپ کی شادی عنیزہ سے کرنا چاہتا ہوں۔
یہ سنتے ہی اس نے جھٹکے سے کار روکی۔
کیا مطلب بابا۔۔
فواد صاحب اسے سب کچھ تفصیل سے بتانے لگے۔
بتا کر انھوں نے فون بند کر دیا۔
حازم نے لمبا سانس کھینچا۔
اور کار چلانے لگ گیا۔
اس کی زندگی میں اپنے پرنٹس کی بہت اہمیت تھی۔ وہ ان کی کوئی بات رد نہیں تھا کرتا۔ یہ بھی اس نے اللّه پر چھوڑ دیا تھا۔ شاید یہ ہی ہونا لکھا تھا قسمت میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!