کار ایک ہوٹل کے سامنے جا رکی۔
دونوں نکل کر کار لاک کر کے اندر بڑھ گئے۔ عنیزہ نے بھی پارکنگ میں کار کھڑی کی اور ان کے پیچھے ہوئی۔
ریسیپشن پر کھڑے ہو کر انہوں نے کوئی بات کی اور سیڑھیاں چڑھ گئے۔ عنیزہ بات تو نہیں سن سکی لیکن وہ بھی ان کے پیچھے گئی۔
میم آپ کہاں جا رہی ہیں؟
ریسیپشن پر کھڑی لڑکی نے اسے اوپر جاتے ہوۓ دیکھ کے پوچھا۔
میں ان کے ساتھ ہوں۔
زبردستی مسکراہٹ سجائے کہا۔
اوکے میم۔
عنیزہ مزید کوئی بات کیے بغیر ان کے پیچھے گئی۔
وہ دونوں اوپر آ کر دائیں طرف سیکنڈ لاسٹ روم میں چلے گئے۔
عنیزہ ٹھٹھکی۔
دونوں کو ایک روم میں جاتا دیکھ کے اسے بہت حیرت ہوئی۔
یا اللّه سب خیر کرنا۔
اس نے دل میں سوچا۔
میں ان کے پیچھے جاؤں یا نا؟
وہ خود سے مخاطب ہوئی۔
جاؤ عنیزہ۔
نہیں نہیں۔
آہستہ سے بڑبڑائی۔۔
ایسا کرتی ہوں روم کے باہر کھڑے ہو کر ہی سن لیتی ہوں شاید کچھ سن جائے۔
وہ اس سوچ کے تحت جلدی سے آگے بڑھی۔ ابھی دروازے کے پاس پہنچی ہی تھی جب اسے اندر سے چیخنے کی آواز آئی۔
وہ فوراً پیچھے ہو کر کھڑی ہوئی۔
چیخ سن کے اسے یک دم پسینہ آنے لگ گیا۔
واپس چلی جاتی ہوں میں تو کسی کو بتا کر بھی نہیں آئی ہوں۔
لیکن اندر۔۔۔۔۔
وہ شش و پنج میں ہی کھڑی تھی کے اندر سے پھر چیخنے کی آواز آئی۔
مزید ایک منٹ کی دیر کیے بنا وہ اندر چلے گئی۔
دروازہ کھلا ہوا ہی تھا۔
اندر آ کر سامنے کا منظر دیکھ کے وہ چکرا کے رہ گئی۔
کیا ہو رہا ہے یہاں؟
تھوک نگلتی ہمت کر کے وہ بولی۔
دونوں نے بے ساختہ مڑ کے اس کی طرف دیکھا۔
اتنی جلدی آ گئی تم؟
امید نہیں تھی ویسے مجھے۔
چلو اچھا ہے۔
عدیل خباثت سے بولا۔
بکواس بند کرو اپنی۔ لگتا ہے آخری دفعہ والا تھپڑ بھول گئے ہو۔
عنیزہ غصّے سے اونچی آواز میں بولی۔
اسی تھپڑ کا بدلہ لینے کے لیے تو تمھے یہاں بلایا ہے۔ پر افسوس مجھے اس معصوم چڑیا کا سہارا لینا پڑا۔
اس نے سحر کے منہ پر ہاتھ پھیر کے کہا جو وہ جھٹک گئی تھی۔
کیا بکواس ہے یہ؟
اور سحر تم اس کے ساتھ کیا کر رہی ہو؟
عنیزہ نے سحر کو دیکھ کے پوچھا جس کے ہاتھ بندھے ہوۓ تھے۔ اور شرٹ ایک سائیڈ سے تھوڑی پھٹی ہوئی تھی۔
یہ مجھے جھوٹ بول کے یہاں لے کر آیا ہے۔ کہ رہا تھا کے عنیزہ بھی وہی پر ہے اور حازم بھی۔ دونوں تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں انہوں نے مجھے لینے بیجھا ہے۔
پر جب میں یہاں آئی تو کوئی بھی نہیں تھا۔ اور یہ میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔
بولتے بولتے وہ ایک دم رکی۔
اس کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں تھیں۔
تم اتنے گھٹیا ہو عدیل۔
تمہاری بھی گھر میں ماں بہن ہے۔ تمھے ذرا شرم نہیں آئی۔
عنیزہ غصّے سے چیخی۔
شرم مائے فٹ۔۔
جب تم نے پبلک پلیس پر میرے منہ پر تھپڑ مارا تب تمھے شرم نہیں آئی۔
اور یہ تو صرف ایک مہرہ تھی۔ تمھے بلانے کے لیے مجھے اس کا استعمال کرنا پڑا۔
چلو اچھا ہوا دونوں ایک دوسرے کی بربادی دیکھنا۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔
وہ ہنستا ہوا دروازے کی طرف بڑھا اور اسے لاک کیا۔
عنیزہ کی ایک دم سیٹی گم ہوئی۔
اس نے آگے بڑھ کے جلدی سے سحر کے ہاتھ کھولے۔
ہاتھ کھول کے اس کی بازو پکڑ کے دروازے کی طرف بڑھی۔
کہاں؟
عدیل ان کے سامنے آ کر بولا۔
عدیل ہمیں جانے دو پلیز۔ اس میں سحر کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اور اس دن کے لیے میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔
عنیزہ آہستہ آہستہ بولی۔
اسے لگا شاید یہ ایسے مان جائے۔
نا نا نا۔۔
اتنی مشکل سے تو تم شکنجے میں آئی ہو اب کیسے جانے دوں۔ شادی بھی تم سے نہیں ہو سکی تھی۔ پر اب میرے تو مزے ہو گئے بھئی ایک کے ساتھ ایک فری۔
وہ آنکھ دباتا مسکرا کے گویا ہوا۔
عدیل تم حازم کو جانتے نہیں ہو۔ ہمیں جانے دو اگر اسے پتہ چل گیا تو بہت برا ہو گا۔
وہ پیچھے ہوتے ہوۓ بولی کیوں کے عدیل ان کی طرف ہی آ رہا تھا۔
جو کر سکتا ہے کر لے وہ ایس پی۔۔
میں اس کے باپ سے بھی نہیں ڈرتا۔
وہ دونوں دیوار کے ساتھ جا لگی تھیں۔ وہ بھی قدم بڑھاتا ان کے مقابل کھڑا ہو گیا تھا۔
یہ دیکھو میں ہاتھ جوڑتی ہوں ہمیں جانے دو۔
عنیزہ نےخوف سے کہا۔
چلی جانا اتنی بھی کیا جلدی ہے۔
تھوڑا سا اپنے حسن کا دیدار تو کروا دو۔
وہ کہتا آگے بڑھ کے عنیزہ کے سر سے اس کا سٹولر اتار چکا تھا۔
وہ ایک دم لرزی۔
جیسے اس کا تحفظاتی سامان کسی نے چھین لیا ہو۔
سحر جلدی سے عنیزہ کے آگے آ کر کھڑی ہوئی۔
خدا کے لیے اسے کچھ مت کرنا۔
اس کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ آئی تو میں ہوں تمھارے ساتھ۔
سحر ہاتھ جوڑ کے لڑکھڑا کے بولی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔
بکواس بند کر اپنی۔ میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے تم لوگوں کی فضول بکواس سننے کا۔
اس نے اسے بازو سے پکڑ کر سائیڈ پر دھکہ دیا۔
ٹیبل سے سر ٹکرانے کی وجہ سے سحر کے سر سے خون بہنے لگ گیا۔
اس کے منہ سے چیخ برآمد ہوئی۔
سحر!!!!
عنیزہ باگ کے اس کے پاس گئی۔
اپنا یہ ملو ڈرامہ بعد میں کرنا۔ ابھی میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
وہ عنیزہ کو بازو سے کھیچتے بولا۔
پلیز عدیل خدا کے لیے جانے دو۔
میں اللّه کی قسم کھا کے کہتی ہوں آج کے بعد کبھی تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گی۔
عنیزہ روتے ہوۓ بولی۔
اسے خوف آ رہا تھا عدیل سے۔
تمھے میں ہاتھ اٹھانے کے قابل چھوڑوں گا تو پھر ہی ہے۔ تم تو دنیا سے اپنا منہ چھپاتی پھرو گی۔
وہ اسے گھسیٹتا ہوا بیڈ تک لایا اور اسے کھڑا کر کر بیڈ پر دھکا دیا۔
عنیزہ لگاتاڑ اس کی منتیں کر رہی تھیں اور رو رہی تھی۔
سحر بھی روتے ہوۓ اسے روک رہی تھی پر وہ سحر کو کرسی سے باندھ چکا تھا۔
اس کے منہ میں رومال دیا تھا۔
عنیزہ بیڈ پر اوپر ٹانگیں کر کے بیٹھ گئی تھی اور خوف کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔
وہ عنیزہ کی طرف آیا تو اس نے سائیڈ پر پڑا جگ اس کی طرف پھینکا۔ بروقت سائیڈ پر ہونے کی وجہ سے وہ بچ گیا تھا۔
تیری تو۔۔۔۔
بیڈ پر چڑھ کے اس نے عنیزہ کے منہ پر تھپڑ مارا اور اس کے بال مٹھی میں جکڑ لیے۔
اتنی اوقات کے مجھے مارے تو۔ آج تو زندہ نہیں چھوڑوں گا تجھے۔
دوسرے ہاتھ سے عنیزہ کا گلہ دبایا۔
وہ چیخ رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں سے اس کے ساتھ گلے سے نیچے کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
کافی دیر تک اس نے ایسے ہی پکڑی رکھا جب عنیزہ کی آنکھیں بند ہونے لگیں تو اپنے ہاتھ پیچھے ہٹائے۔
اس کے ہاتھ ہٹاتے ہی عنیزہ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔
خبردار جو آج کے بعد میرے سے بد تمیزی کی۔
اب وہ اس کا منہ ہاتھوں میں جکڑے بول رہا تھا۔
رسی سے عنیزہ کے ہاتھ پاؤں باندھے اور اسے بیڈ پر لٹا دیا۔
سحر مسلسل زمین پر اپنے پاؤں مار رہی تھی اور کرسی کو ادھر ادھر ہلا رہی تھی کے کسی طرح وہ کھل جائے۔
کافی کوشش کے بعد وہ منہ سے رومال نیچے تھوک چکی تھی۔
عدیل تمھے اللّه کا واسطہ ہے اس کے ساتھ کچھ مت کرنا۔ خدا کے لیے معاف کر دو ہمیں۔
وہ روتے ہوۓ چیخ کے بولی۔
وہ آیا اور سحر کے منہ پر تھپڑ رسید کیا۔
نیچے سے رومال اٹھا کر دوبارہ اس کے منہ میں دے دیا۔
خون کی وجہ سے سحر کا منہ بھر گیا تھا۔ اور کپڑے بھی خراب ہو گئے تھے۔ ماتھے سے مسلسل خون نکل رہا تھا۔
عدیل بیڈ پر آیا اور عنیزہ کے اوپر جھکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ اس کے اوپر جھکا ہی تھا جب اس کا فون بجا۔
وہ اگنور کرتا دوبارہ اس پر جھکا۔
عنیزہ نے اپنا منہ ادھر سے ادھر جھٹکنا شروع کر دیا۔ عدیل نے اس کا منہ اپنے ہاتھوں میں دبوچہ۔
ابھی وہ بولتا فون پھر سے بجنا شروع ہو گیا۔
وہ پھرتی سے اٹھا اور ٹیبل سے اپنا فون اٹھا کے کان پر لگایا۔
کیا تکلیف ہے تجھے؟
تجھ میں صبر نہیں ہے کیا۔۔
کہا تو ہے تجھے بھی موقع دوں گا پھر کیوں بار بار فون کر کے ڈسٹرب کر رہے ہو۔
وہ فون کان سے لگاتے ہی چیخا۔
اگر جان پیاری ہے تو نکل آ۔ وہ ایس پی پہنچ چکا ہے یہاں۔ بس اوپر آنے والا ہی ہو گا۔ ہوٹل کے بیک گیٹ سے آ جا میں کار لے کے کھڑا ہوں۔
دوسری طرف سے بغیر سانس لیے بتایا گیا۔
کیا بکواس کر رہے ہو۔ اسے کس نے بتایا؟
اور تجھے کیسے پتہ وہ ایس پی ہی ہے۔
اس نے غصّے سے پوچھا۔
وہ یونیفارم میں تھا اس لیے مجھے پتہ چلا۔ اور ریسیپشن پر میں نے اس کی گفتگو سن لی تھی۔ وہ تیرے روم میں ہی آ رہا ہے۔ جلدی آ نہیں تو میں جا رہا ہوں۔
کہتے ہی دوسری طرف سے فون کاٹ دیا گیا۔
فون پاکٹ میں ڈالنے کے بعد وہ عنیزہ کی طرف آیا۔
آج تو تو بچ گئی پر اگلی دفعہ پورا انتظام کروں گا۔
اگر وہ کمینہ ایس پی نا آ رہا ہوتا تو تجھے اپنے ساتھ ہی لے کر جاتا۔ چھوڑنے والا تو میں اب نہیں ہوں تمھے۔
اس کے بال دبوچے وہ بول رہا تھا۔
بال کھیچنے کی وجہ سے عنیزہ کی آنکھوں میں پھر پانی بھر آیا۔
وہ اسے چھوڑ کے جلدی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
حازم لفٹ سے نکلا اور کمرے کی طرف بڑھا۔
کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔
وہ ایک منٹ کی دیر کیے بنا اندر داخل ہوا۔ اس کا خود کا دل بہت گھبرا رہا تھا کے سب ٹھیک ہو۔
کمرے کی حالت اس کی سوچ کے برعکس تھی۔
سامنے بیڈ پر عنیزہ بندھی ہوئی پڑی تھی اور چئیر پر سحر خون سے لت پت بےہوش پڑی تھی۔
وہ باگ کے عنیزہ کی طرف گیا۔ اور اسے کھولا۔
عنیزہ فوری اس کے گلے لگ کے اونچی اونچی رونے لگ گئی۔
چند منٹ رونے کے بعد وہ خود ہی اس سے الگ ہوئی۔
حازم سچ میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔
میں تو وہ۔۔۔
وہ رونے کے درمیان اسے بتا رہی تھی جب حازم نے اسے بازؤں سے پکڑا ار اس کی بات کاٹتے ہوۓ بولا۔
مجھے پتہ ہے۔
وضاحت نا دو مجھے۔
ساتھ اس کے آنسو صاف کیے۔
حازم وہ سحر۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے بولی۔
میں کھولتا ہوں اسے۔
حازم اٹھ کے اس کی طرف بڑھا پیچھے ہی عنیزہ آئی۔
اسے کھولا تو وہ بے سدھ پڑی تھی۔
سحر!!
عنیزہ نے آگے بڑھ کے اس کا چہرہ تھپتھپایا اور اسے آوازیں دیں۔
پر وہ ہلی بھی نہیں۔
حازم؟
عنیزہ نے مڑ کے اسے پکارا۔
آواز ایسی تھی کے ابھی رو دے گی۔
کچھ نہیں ہوتا لگتا ہے بے ہوش ہو گئی ہے۔اسے ہوسپیٹل لے کر چلتے ہیں۔
حازم نے آگے بڑھ کے اسے بازؤں میں اٹھایا اور عنیزہ کو ساتھ لیے کمرے سے باہر نکل آیا۔
حازم میں ایسے نہیں جاؤں گی۔
ہلکی سی آواز آئی۔
کیوں؟
میرے پاس سٹولر نہیں ہے میرا۔ وہ کمرے میں ہی رہ گیا ہے۔
آنکھیں نیچے کیے اس نے وجہ بتائی۔
اچھا جاؤ لے آؤ میں کھڑا ہوں۔
نہیں میں اکیلے نہیں جاؤں گی۔
وہ منمنائی۔
یار میں یہی کھڑا ہوں۔ جاؤ جلدی سے لے آؤ۔ کچھ نہیں ہو گا۔
حازم نے کہا۔
وہ بغیر کوئی جواب دیے چلے گئی۔ واپس آئی تو وہ حجاب میں تھی۔
اسے ساتھ لے کر وہ لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر کیا کنڈیشن ہے ہمارے پیشنٹ کی؟
حازم نے ڈاکٹر کو آپریشن تھیٹر سے باہر آتے دیکھ کے پوچھا۔
زخم کافی گہرا تھا ان کا سٹیچیز وغیرہ لگا دیے ہیں۔ اور بلڈ بھی کافی بہ چکا تھا ابھی ان کو بلڈ لگایا گیا ہے۔ لیکن وہ ہوش میں نہیں آئیں۔ بس یہ دعا کیجئے گا کے کوئی سیریس مسلہ نا ہو جائے۔ امید تو ہے کے انشاءاللّه وہ جلد ہی ہوش میں آ جائیں گی۔ باقی اللّه بہتر کرنے والے ہیں۔
ڈاکٹر پیشہ وارانہ مسکراہٹ سجائے بتا کر چلے گئے۔
حازم کیا ہو گا اگر سحر کو کچھ ہو گیا؟
عنیزہ رونے والے انداز میں بےبسی سے بولی۔
کچھ نہیں ہوتا۔
انشاءاللّه سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اللّه سے اچھے کی امید رکھو۔
حازم نے اسے سمجھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد اسے ہوش آ گیا تھا۔
حازم اور عنیزہ دونوں اس کے پاس تھے۔
وہ ان دونوں سے معافی مانگ چکی تھی اور سب کچھ بتایا تھا کے کیسے عدیل نے اسے ٹریپ کیا۔ اور وہ عنیزہ کے گلے لگ کے خوب روئی کے اگر وہ نا آتی تو اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
عنیزہ نے اسے اپنے سے الگ کر کے چپ کروایا اور اسے لیٹا دیا۔
اس کا ہاتھ سحر کے ہاتھ میں ہی تھا۔
سحر آنکھیں موندیں لیٹ گئی۔
ایسے لیٹے کچھ ہی وقت گزرا تھا کے حیدر صاحب ، وجیہہ بیگم اور نوال تینوں روم میں انٹر ہوۓ۔
حازم نے ان کو کال کر کے بتا دیا تھا کے سحر کا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوا ہے جس کے باعث وہ ہوسپیٹل میں ہے۔ اور کہا تھا کے آتے ہوۓ ساتھ نوال کو بھی لیتے آئیے گا۔
وجیہہ بیگم سب سے پہلے بیڈ تک پہنچی۔
عنیزہ اٹھ کے سائیڈ پر ہو گئی۔
کیسی طبیعت ہے سحر؟
وہ پاس بیٹھ کے بولیں۔
میں ٹھیک ہوں موم۔
وہ مسکرا کے گویا ہوئی۔
کتنی بار کہا ہے بیٹا دیہان سے رہا کرو۔ کیوں نہیں مانتی ہو ہماری بات۔
ہمارے پاس تمھارے علاوہ ہے ہی کیا؟
وہ ضبط کرتے بولیں۔
پلیز موم نا کریں نا۔ میں بلکل ٹھیک ہوں۔ بابا سمجھائیں نا انہیں۔
وہ حیدر صاحب کو دیکھ کے بولی۔
ٹھیک کہ رہی ہیں آپ کی موم۔
اب آپ بھی؟
وہ سنجیدگی سے بولی۔
جی میں بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ نوال اور سحر کے کمرے سے آئی تو کافی رات ہو چکی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں جانے سے جھجھک رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کے حازم کا سامنا کیسے کرے گی۔ اگر آج حازم نا آتا تو؟؟
اس کے آگے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ سوچ کے ہی اس کا دھم گھٹ رہا تھا۔ جب سے ہوسپیٹل سے آئی تھی وہ سحر اور نوال کے ساتھ ہی مصروف تھی۔ سحر انھیں اپنے گھر لے آئی تھی کے آج کی رات وہ لوگ یہیں گزاریں گے۔ سب کے کہنے کے بعد وہ لوگ مان گئے تھے۔
میں حازم کو کیسے یقین دلاؤں گی کے میرا کوئی قصور نہیں تھا؟
اور کیا حازم یقین کرے گا کے میں بلکل پاک ہوں۔ جس حالت میں آج اس نے مجھے دیکھا۔
وہ شام کے بارے میں سوچتے ہوۓ خود سے ہی بڑبڑائی۔
ایک بار بات کر کے دیکھ لوں گی۔ اگر نا مانا تو پھر میں؟؟؟؟؟
یہ کے آگے سوالیہ نشان آ رہا تھا کے اگر نا مانا تو وہ کہاں جائے گی۔
جب سے وہ ہوٹل سے آئے تھے اس کی حازم سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے وہ زیادہ ڈر رہی تھی۔
وہ ہمت کرتی آگے بڑھی اور کمرے کا دروازہ کھولا۔
اندر آئی تو ھر طرف اندھیرا تھا۔ بس بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھی لیمپ جل رہی تھی۔ اس کی مدھم روشنی کمرے کا ماحول اور بھی فسوں خیز بنا رہی تھی۔ دوسری طرف حازم لیٹا شاید سو چکا تھا۔
اس نے اپنا سٹولر اتار کر صوفے پر رکھا اور واشروم کی طرف چلے گئی۔
منہ ہاتھ دھو کر آئی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
برش پکڑا اور بالوں میں چلانے لگی۔
بال ٹھیک کرنے کے بعد وہ لیمپ اوف کرتی حازم کے برابر لیٹ چکی تھی۔
اس کی سسکیاں کمرے میں گھونجی تو مقابل نے اسے بازو سے کھینچ کے اپنے حصار میں لیا۔
وہ ایک دم سے اس کے لیے تیار نہیں تھی۔
منہ پر ہاتھ رکھتی وہ اس کے سینے پر سر رکھے رونے میں مصروف ہو گئی۔
آنسو اس کی شرٹ بیگو رہے تھے۔
حازم نے بھی اسے رونے دیا اور کچھ نا بولا۔
مجھے پتہ ہے تم میرے سے ناراض ہو۔ اور تم مجھے اب چھوڑ دو گے۔ پر سچ میں حازم میں بابا کی قسم کھا کے کہتی ہوں وہاں کچھ بھی غلط نہیں ہوا۔ میں یہ بھی مانتی ہوں کے میری غلطی ہے میں بغیر بتائے چلی گئی پر میں کچھ چیزیں لینے گئی تھی۔ وہ تو راستے میں میں نے سحر اور عدیل کو دیکھ لیا تو ان کے پیچھے چلے گئی۔ مجھے کیا پتہ تھا کے وہاں کیا ہو گا۔
وہ رونے کے درمیان آہستہ آہستہ بتا رہی تھی۔
اورر۔۔۔
چپ کر جاؤ یار۔ کچھ نہیں ہوا سب بھول جاو۔
مجھے پتہ ہے تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ اور مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے۔ کیوں رو رو کے خود کو ہلکان کر رہی ہو۔ اور کس نے کہا میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟
حازم اس کے سر میں انگلیاں چلاتا بولا۔
مجھے لگا۔
گھٹی سی آواز آئی۔
اب تک اتنا ہی یقین ہے میرے پر؟
دوبارہ سوال کیا۔
دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔
میاں بیوی کے رشتے میں اعتبار سب سے اہم چیز ہے اور وہ مجھے اپنے سے بھی بڑھ کے تم پر ہے۔ تمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں۔
حازم وہ بہت ظالم ہے۔ اس نے بہت برا سلوک کیا میرے اور سحر کے ساتھ۔ اور وہ کہ رہا تھا میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔
خوف سے بتایا اور اس کی شرٹ کو ہاتھ میں دبوچ لیا۔
میرے ہوتے ہوۓ تمہے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چھوڑوں گا تو میں اسے نہیں۔ جیسا اس نے تم لوگوں کے ساتھ کیا اس سے ٹرپل اس کے ساتھ ہو گا۔
اس کے بالوں پر حازم نے بوسہ لیا۔
پکا پرومیس نا؟
وہ اس کی طرف دیکھ کے بولی۔
پکا پرومیس۔۔
حازم اگر آج کچھ ہو جاتا تو؟
وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پھر بولی۔
کچھ نہیں ہونا تھا۔ اللّه ہمارے ساتھ ہیں۔
اور بھول جاؤ آج کے بارے میں۔ سمجھو کچھ ہوا ہی نہیں۔
اس نے آنکھیں موند کے کہا۔
کوشش کر سکتی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔