حازم جلدی کرو یار کب سے تم تیار ہونے لگے ہوۓ ہو۔ پر تم ہو کے تمہاری تیاری ہی مکمل نہیں ہو رہی۔
وہ اس کے سراپے کو آئینے میں دیکھ کر گویا ہوئی۔
توبہ ہے عنیزہ۔
ایک یونیفارم ہی تو چینج کیا ہے۔
کہاں سے میں تمھے تیار لگ رہا ہوں؟
وہ اپنی طرف ایک طائرانہ نگاہ ڈال کے بولا۔
اچھا ٹھیک ہے۔
جلدی چلو آنٹی کی طبیعت بھی نہیں ٹھیک پھر واپس بھی آنا ہے۔
وہ کہ کے دروازے کی طرف بڑھی۔
چلو۔
حازم بھی چابی اور والٹ لے کر باہر آیا۔
عفت بیگم نے دونوں کو کچھ سامان لانے کا کہا تھا انہوں نے خود بھی ساتھ جانا تھا پر طبیعت خرابی کے باعث وہ دونوں کو بیجھ رہیں تھیں۔ حازم پولیس سٹیشن سے جلدی آ گیا اور چینج کر کے عنیزہ کو ساتھ لیے روانہ ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم کوئی چیز رہ تو نہیں نا گئی؟
عنیزہ نے اسے بازو سے ہلا کے پوچھا۔
نہیں سب لے لیا ہے۔
وہ ٹرالی کی طرف دیکھ کے بولا۔
ایک بار دیہان سے دیکھ لو۔
ہاں یار دیکھ لیا ہے کچھ نہیں رہتا۔
ہممم۔
بل پے کرنے کے بعد انہوں نے اپنا سامان کار میں رکھا اور خود بھی اندر بیٹھ گئے۔
اب ان کا ارادہ کسی اور مال میں جانے کا تھا۔
جہاں سے عنیزہ کو اپنی شاپنگ کرنی تھی۔
ہلکی پھلکی باتوں کے دوران وہ دونوں پہنچ گئے تھے۔
اتر کے اندر کی طرف بڑھ گئے۔
عنیزہ کو کوئی کپڑے پسند نہیں آ رہے تھے۔
حازم تو اس کے ساتھ آ کر پچھتا رہا تھا۔ آخر بہت گھومنے کے بعد جب اسے کچھ نا پسند آیا تو حازم نے اپنی پسند کے ہی لے لیے تھے۔ وہ منہ بنائے چپ چاپ سائیڈ پر کھڑی ہو گئی تھی۔
چلو چلیں۔
بل پے کر کے حازم اس کی طرف آ کر بولا۔
میں نہیں جا رہی۔
پھٹ سے جواب آیا۔
کیا مطلب نہیں جا رہی؟
اس نے نا سمجھی سے پوچھا۔
مطلب صاف ہے کے میں گھر نہیں جاؤں گی۔
وہ دو ٹوک بولی۔
تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا۔ گھر نہیں جاؤ گی تو کدھر جاؤ گی؟
حازم نے ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ آہستہ آواز میں کہا۔
جہاں بھی جاؤں تم سے مطلب۔
میں کہ رہا ہوں چلو۔
حازم نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
نہیں۔۔
وہ بھی سختی سے بولی۔
تم!!!!!!
وہ بولتے بولتے رکا۔
اس کا ہاتھ پکڑ کے زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹا۔
کیا ہے؟
سب لوگ دیکھ رہے ہیں۔
عنیزہ ادھر ادھر دیکھ کے دھیمی آواز میں گھڑائی۔
وہ کچھ نا بولا۔
میں چیخوں گی کے یہ مجھے کڈنیپ کر رہا ہے۔
اپنے ہاتھ چھراتے غصّے سے کہا۔
چیخ لو۔
میں بھی بتا دوں گا سب۔۔۔
تم انتہائی ایک برے انسان ہو۔
جو بھی ہوں اب میرے ساتھ ہی گزارا کرنا پڑے گا ساری زندگی۔
حازم نے اس کی طرف دیکھ کے مسکرا کر کہا ۔
ہممم۔
ویری فنی۔
وہ منہ بنا کے بولی۔
اس کی بات پر مقابل کا قہقہ بلند ہوا۔
لڑتے جگھڑتے وہ دونوں مال سے باہر نکل رہے تھے جب پیچھے سے کسی نے حازم کو پکارا۔
نسوانی سی آواز حازم کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ کھڑا ہو گیا۔
مڑ کے دیکھا تو عفاف اور فائق کھڑے تھے۔
حازم عنیزہ کا ہاتھ چھور کے بیگز نیچے رکھ کے فائق کے گلے لگا۔
ابھی عفاف عنیزہ سے ملتی اس نے دور سے ہی اسے وہی رہنے کا اشارہ کر دیا۔
وہ چپ چاپ اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی۔
حازم مجھے کار کی چابی دے دو میں جا کے بیٹھتی ہوں تم جلدی آ جانا۔
وہ بیگز اٹھا کے حازم سے مخاطب ہوئی۔
ان دونوں کو اگنور کر کے وہ حازم سے چابی لے کر چلے گئی۔
حازم کو اس کے روئیے پر بہت افسوس ہوا تھا۔
وہ دونوں تو چپ ہی رہ گئے تھے اپنی بہن کی نیچر سے اچھے سے واقف جو تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا ہے عفاف آج؟
اتنی خاموش کیوں ہو آپ جب سے مال سے آئی ہو؟
راضیہ بیگم نے اس کے سر میں انگلیاں چلاتے پوچھا۔
وہ آ کر سیدھا ان کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گئی تھی اور مسلسل خاموش تھی۔ ہمیشہ وہ کوئی نا کوئی بات کرتی رہتی تھی۔
فائق بھی سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
بی جان عنیزہ آپی بہت بدل گئیں ہیں۔
اب وہ پہلے جیسی بلکل بھی نہیں رہیں۔
وہ اٹھ کے بیٹھی۔
آپ کو پتہ ہے اب وہ فرنگیوں والا لباس بھی نہیں پہنتی۔ آپ کہتی تھی نا کے ایسے کپڑے نا پہنا کرو تو اب وہ نہیں پہنتی۔
اب وہ حجاب بھی کرتی ہیں۔
کیا وہ خوش تو ہے وہاں؟
اور تمھے کیسے پتہ یہ سب؟
رضیہ بیگم نے آہستہ سے پوچھا۔
ہم نے مال میں دیکھا تھا ان کو۔ خوش کا تو پتہ نہیں لیکن وہ بہت مطمئن لگ رہیں تھیں حازم بھائی کے ساتھ۔
اس نے بتایا۔
کیا وہ تم لوگوں سے ملی؟
تم لوگوں نے اسے گھر آنے کا کہنا تھا۔ اسے بتانا تھا کے سب اسے بہت یاد کرتے ہیں۔
وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بولیں۔
کیسے کہتے۔
انہوں نے تو ہم سے سلام تک بھی نہیں لیا۔
مجھے تو لگتا ہماری طرف دیکھا بھی نہیں شاید۔
وہ مایوسی سے بولی۔
کیوں؟
بی جان آپ کو تو پتہ ہی ہے نا کے وہ کتنی ضدی ہیں۔
وہ ابھی تک ہم سے ناراض ہیں۔
پر مجھے وہ بہت یاد آتی ہیں۔ جب میں ان کے روم میں جاتی ہوں تو میرا رونے کو دل چاہتا ہے کے کیوں وہ کر رہی ہیں ایسا ہمارے ساتھ۔
کہتے ہوۓ اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔
راضیہ بیگم نے اسے گلے لگایا۔
چپ کرو عفاف۔ اللّه پر بھروسہ رکھو۔
ان شاءاللّه بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔
بی جان اب تک تو نہیں ہوا نا۔
وہ منمنائی۔
ہو جائے گا ان شاءاللّه۔
بس دعا کیا کرو۔
رضیہ بیگم اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے بولیں۔
وہ تو خود اسے بہت یاد کرتیں تھیں۔
اللّه کرے کے سب جلد ہی ٹھیک ہو جائے۔
عفاف نے ان سے علیحدہ ہو کے کہا۔
بہنیں ایسی ہی ہوتی ہیں لڑ جتنا مرضی لیں لیکن ایک دوسرے کی دوری نہیں برداشت کر سکتیں۔ ان کی نوک جھونک میں ہی پیار چھپا ھوتا ہے۔ برے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے والیں ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی کا سفر دونوں کا خاموشی سے ہی کٹا تھا۔
عنیزہ واپس آ کر سیدھا اپنے کمرے میں بند ہو گئی تھی۔
حازم کمرے میں نہیں گیا تھا۔
اسے دکھ ہوا تھا عنیزہ کے اس رویے سے ۔ لیکن اس نے اسے کچھ نہیں کہا تھا۔
وہ کمرے میں بھی اسی لیے نہیں گیا تھا کے وہ اکیلی بیٹھ کے سوچے اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہو۔
کیوں وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھے ہوۓ ہے۔
اسے تو خود سمجھ نہیں آتی تھی۔
اسے تو شکر ادا کرنا چاہیے تھا کے اس کی وہاں شادی نہیں ہوئی۔ اگر وہ شادی کے بعد چھوڑ دیتا تو تب یہ کیا کرتی۔
جو آیا ہی نہیں خاک شادی نبھاتا وہ۔
وہ دل میں سوچ رہا تھا۔
اس نے سوچ لیا تھا کے وہ عنیزہ سے کوئی بات نہیں کرے گا آج کے متعلق۔
اسے خود کو احساس ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن حازم ضروری کام کی وجہ سے صبح صبح ہی نکل گیا تھا۔
عنیزہ اٹھی تو وہ کمرے میں نہیں تھا۔
وہ بھی فریش ہو کر نیچے آ گئی۔
سارا دن عفت بیگم کے پاس ہی رہی اور ان کا سامان پیک کروانے میں بھی خاصی مدد کی تھی۔
ڈنر کرنے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔ لیکن حازم ابھی تک نہیں آیا تھا۔
عفت بیگم بھی روم میں چلے گئیں تھیں اور جاتے ہوۓ عنیزہ کو بتا گئی تھیں کے آج حازم شاید لیٹ ہو جائے اس کی کال آئی تھی۔ تو وہ اسے کھانا دے دے جب حازم آئے۔
عنیزہ بھی اچھا جی کہ کے کمرے میں آ گئی تھی۔
انتظار کرتے کرتے رات کا ایک بج چکا تھا۔
عنیزہ کو اب فکر ہو رہی تھی کیوں کے جب سے شادی ہوئی تھی وہ کبھی بھی اتنی لیٹ نہیں آیا تھا۔
اس نے کافی دفعہ اس کا نمبر ٹرائے کیا پر وہ بند جا رہا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے۔ کبھی وہ بیڈ پر بیٹھ جاتی تو کبھی فون ہاتھ میں پکڑے ادھر سے ادھر چکر لگانے لگ جاتی۔
یا اللّه سب ٹھیک ہو۔
وہ بڑبڑائی۔
بیڈ پر بیٹھی تو نظر کلاک پر گئی۔
جہاں دو سے اوپر وقت ہو گیا تھا۔
اس نے فون پکڑا اور پھر سے اس کا نمبر ڈائل کیا۔
ابھی بھی وہ بند تھا۔
یا اللّه۔
مجھے بہت خوف آ رہا ہے۔
وہ لمبا سانس لے کے بولی۔
اب تو اسے رونا آنے لگ گیا تھا اور سمجھ نہیں آ رہی تھی کے کیا کرے۔ سب اپنے اپنے کمروں میں سوئے ہوۓ تھے وہ اٹھائے بھی تو کس کو۔
پھر ایک خیال کے تحت بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اس کا ارادہ عفت بیگم کو جگانے کا ہوا۔
آخر اتنا ٹائم ہو گیا تھا۔
عجیب عجیب سے خیال بھی ذہن میں آ رہے تھے۔
دروازے کے پاس پہنچی تھی جب باہر سے کسی نے دروازہ دھکیلا۔
اس کی کمرے میں چیخ گھونجی۔
حازم نے اندر آ کر جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔
کیا ہو گیا ہے؟
اس ٹائم کیوں چلا رہی ہو۔
وہ اس کو آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ سنجیدگی سے بولا۔
اوہ شکر ہے تم آ گئے۔
کہاں تھے صبح سے۔
ٹائم دیکھا ہے۔
اتنی لیٹ کون گھر آتا ہے؟
اور فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے۔
اگلا بندا بےشک پریشانی سے ہی مر جائے۔
اٹھنے دو صبح بابا جان کو دیکھنا تمہاری ایک ایک بات بتاتی۔
وہ اس کا ہاتھ منہ سے ہٹاتی ایک سانس میں بولی۔
کھانا ملے گا یا نہیں؟
صبح سے میں بھوکا بھی ہوں۔
یہ تو پوچھا نہیں۔
وہ بغیر کوئی جواب دیے گویا ہوا۔
اوہ سوری۔
میں ابھی لاتی ہوں کھانا تم چینج کر لو۔
وہ کہ کے دروازے کی طرف بڑھی۔
ساتھ ایک چائے کا کپ بھی۔
اور اچھی طرح سے پکا پکا کے لانا۔
یاد رہے سب اکھٹے ہی لانا۔ ایک ایک چیز لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
وہ وہاں کھڑے کھڑے ہی بولا۔
عنیزہ سن کے نیچے چلے گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جانے کے بعد حازم نے سائیڈ ٹیبل سے فرسٹ ایڈ باکس لیا اور اپنی شرٹ اتارنے لگا۔
شرٹ اتار کے بیڈ کی ایک سائیڈ پر رکھی اور اپنا چہرہ موڑ کے دائیں بازو پر کندھے کے تھوڑا سا نیچے زخم کو دیکھنے لگا۔
فرسٹ ایڈ باکس کھولا کوٹن اور سپرٹ نکال کر نیچے رکھ دیا۔
اس کا ارادہ پہلے زخم کو صاف کرنے کا تھا جس سے مسلسل خون بہ رہا تھا۔
بائیں ہاتھ سے وہ کوٹن ہاتھ میں پکڑے صاف کرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اس کا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا۔
دروازے کی طرف پیٹھ کیے وہ اپنے دیہان لگا ہوا تھا جب اسے گلاس گرنے کی آواز آئی۔
وہ ایک سیکنڈ کی دیر کیے بنا فورا پلٹا۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے آنکھوں میں پانی لیے چپ چاپ کھڑی تھی۔ پانی کا گلاس زمین بوس ہو چکا تھا۔
حازم بھی ساکن کھڑا ہو گیا۔
اسے امید نہیں تھی کے یہ اتنی جلدی روم میں آ جائے گی۔
یہ کیا ہوا ہے؟
عنیزہ نے آگے بڑھ کے ٹھہر ٹھہر کے پوچھا۔
کچھ نہیں بس چھوٹی سی چوٹ لگ گئی تھی۔
وہ بول کے خاموش ہوا۔
حازم یہ چھوٹی سی چوٹ ہے؟
جھوٹ کیوں بول رہے ہو۔
اس نے بے یقینی سے کہا۔
میں کیوں جھوٹ بولوں گا یار۔
اور اگر تم روئی تو میں بہت برے سے پیش آؤں گا۔
وہ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کے اسے پہلے ہی وارن کر گیا۔
اس کے کہنے کی دیر تھی وہ رونا شروع کر چکی تھی۔
اففففففففف عنیزہ اففففففف۔۔۔۔۔
رو کیوں رہی ہو؟
اس نے اسے بازوں سے پکڑ کے پوچھا۔
وہ کچھ نا بولی۔
اچھا ایسا کرو پہلے میرے ڈریسنگ کر دو پھر دونوں اکھٹے بیٹھ کے روئیں گے۔
وہ اسے مسلسل آنسو بہاتا دیکھ سنجیدگی سے بولا۔
بیڈ سے فرسٹ ایڈ باکس اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دیا اور خود وہاں بیٹھ گیا۔
وہ بغیر کچھ بولے اس کی طرف بڑھ آئی۔
جب اس کی نظر زخم پر گئی تو فوری اس نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔
کچھ ہی دیر بعد وہ اس کی ڈریسنگ کر کے کمرے سے باہر چلے گئی۔
وہ مزید وہاں کھڑا نہیں ہونا چاہتی تھی۔
حازم اٹھا اور کپڑے چینج کیے۔
بیڈ کی پشت کے ساتھ ٹیک لگا کر وہ آنکھیں بند کر گیا۔
آج وہ لوگ ڈرگ اسمگلنگ کے سلسلے میں ریٹ کرنے گئے تھے۔
وہاں کسی نے حازم پر فائر کر دیا جو اس کے کندھے کے نیچے لگا۔
سب کو گرفتار کر کے بابر انہیں پولیس سٹیشن پہنچا چکا تھا اور حازم کرم دین کے ساتھ ہوسپیٹل روانہ ہو گیا تھا۔
کچھ ہی دیر میں ڈاکٹرز نے آپریٹ کر کے گولی نکال دی تھی لیکن زخم گہرا تھا۔
بابر بھی وہیں پہنچ چکا تھا۔
جب حازم کو ہوش آئی تو کافی رات ہو چکی تھی وہ بابر کے ساتھ اپنی شرٹ چینج کر آیا تھا تا کے گھر میں کسی کو علم نا ہو۔
بابر کے بہت کہنے کے باوجود وہ خود کار لے کر وہاں سے نکل آیا۔
راستے میں کچھ ڈاکوں سے اس کا سامنا ہوا۔
اس کا پسٹل بھی بابر کے پاس تھا جو وہ لانا بھول گیا تھا۔ کچھ دیر کی تگ و ود کے بعد وہ لوگ باگ گئے تھے لیکن حازم کی پٹی کھل گئی تھی۔ بازو ہلانے کے باعث اس سے خون رسنا شروع ہو گیا تھا۔
گھر پہنچا تو اسے لگا کے سب سو چکے ہیں پر عنیزہ کو جاگتا پا کر وہ جھنجھلایا۔
وہ رات کے اس وقت کسی کو جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔ اسی لیے اسے بہانے سے نیچے بیجھا۔ پر وہ تو دو منٹ میں ہی واپس آ گئی۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے ایسے بیٹھے کچھ ہی وقت گزرا تھا جب وہ ہاتھ میں ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوئی۔
وہ سنجیدہ سی ٹرے اس کے سامنے رکھ کے مڑی اور واپس باہر چلے گئی۔
حازم سیدھا ہو کر بیٹھا اور ٹرے سامنے کر کے بائیں ہاتھ سے لقمہ بنانے لگا۔ اس کے دائیں بازو میں پین ہو رہی تھی جس کے باعث اس سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔ اس لیے اس نے بائیں ہاتھ سے ہی کھانا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر نے اسے بازو ہلانے سے سختی سے منع کیا تھا۔
اس نے چند نوالے ہی لیے تھے کے وہ دوبارہ کمرے میں واپس آئی۔ جگ سائیڈ ٹیبل پر رکھتی وہ پانی سے بھرا گلاس اس کے سامنے رکھ چکی تھی۔ اور خود بھی سامنے ہی بیٹھ گئی۔
بغیر کچھ بولے نظریں نیچے کیے اس نے ٹرے میں سے لقمہ بنایا اور اس کی طرف بڑھایا۔
حازم تو اس کی مہربانی پر حیران ہوا۔
وہ تو سوچ رہا تھا کے تھوڑی دیر تک اس کا روم جنگ کا میدان ضرور بنے گا پر یہاں تو۔۔۔
وہ سوچوں کو جھٹکتا کھا گیا تھا۔
کھانا کھلانے کے دوران عنیزہ نے ایک نظر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا۔
کھلانے کے بعد وہ برتن کچن میں رکھ آئی تھی۔
آ کر چپ چاپ لائٹ بند کی اور ایک طرف لیٹ گئی۔
حازم پہلے ہی لیٹ چکا تھا۔
کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔
اس کی پشت حازم کی طرف تھی۔
تھوڑا قریب ہو کر اس نے عنیزہ کو اپنے حصار میں لیا اور مسکراہٹ ضبط کرتے اس کی طرف ہی دیکھنے لگا۔
عنیزہ ہلکی ہلکی نیند میں پہنچی ہی تھی کے اس نے فوراً آنکھیں کھولیں۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا بولے بھی تو کیا۔۔
وہ ہولے ہولے لرزنے لگی تھی۔
جو حازم اچھے سے محسوس کر چکا تھا پر بولا وہ بھی کچھ نہیں۔
تھوڑا پیچھے ہو کے لیٹو۔۔
ضبط کرتی وہ جلدی سے بول گئی۔
نہیں۔۔
آج میرا ایسے ہی سونے کا ارادہ ہے۔
حازم نے پر سکون سانس لیتے کہا۔
عنیزہ مزید گھبراہٹ کا شکار ہوئی۔
میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔
ہمت کرتی وہ سختی سے بولی۔
میں بھی۔۔
دو لفظی جواب آیا۔
کیا ہے؟؟
وہ اب جھنجھلا کے بولی۔
سو جاؤ یار۔
بعد میں میرا موڈ چینج ہو گیا تو پھر۔۔
اس نے بات ادھوری چھوڑی۔
عنیزہ کو پہلے تو کچھ سمجھ نا آیا جب سمجھ آیا تو وہ سانس روکے آنکھیں زور سے بند کر گئی۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہا............
اس کا سانس روکنا حازم اچھے سے محسوس کر گیا تو اس کا قہقہ گھونجھا۔
سانس لو یار۔
میں کھا تھوڑی جاؤں گا۔
ابھی مجھے بہت ضرورت ہے تمہاری۔
دوسری جانب مکمل خاموشی تھی۔
میں اسے گفتگو سے جیت لیتا لیکن!!
بزمِ یار میں خاموشی شرطِ اول تھی!!
حازم ہولے سے گنگنایا اور آنکھیں موند گیا۔
میری خاموشیِ مسلسل کو!!
اک مسلسل گلہ سمجھ لیجئے!!
وہ بھی جوابً بولی۔
حازم مسکرایا مگر بولا کچھ نہیں۔ وہ سارے گلے شکوے صبح دور کر دے گا سوچ کے چپ ہی رہا۔ جلد ہی دونوں نیند کی وادیوں میں پہنچ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ جاؤ آپ ناشتے کی لئے حازم کو بلا لاؤ۔
آنٹی میں؟
اس نے اپنی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
جی بچے آپ۔
وہ مسکرا کے بولیں۔
نوال آپ بلا لاؤ گی اسے؟
عنیزہ نے ناشتہ کرتی نوال سے کہا۔
اچھا بھابھی میں بلا لاتی ہوں۔ وہ اٹھی اور ان کے روم کی طرف بڑھی۔
عنیزہ کیا آپ دونوں کی کوئی لڑائی ہوئی ہے؟
عفت بیگم نے جوس ایک طرف رکھ کے پوچھا۔
نہیں آنٹی۔
میں تو یہ کھانا رکھوا رہی تھی تو سوچا نوال بلا لائے۔
اس نے مسکرا کے بتایا۔
اچھا پھر ٹھیک ہے۔
وہ مطمئن سی بولیں۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد نوال یونیورسٹی چلے گئی تھی۔ کچھ دیر بعد ہی فواد صاحب ، عفت بیگم اور ابراھیم تینوں بھی نکل گئے تھے۔
ان کے جانے کے بعد عنیزہ کمرے میں آ گئی۔
حازم بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔
وہ اس کی طرف ایک نظر ڈال کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
دوپٹہ سائیڈ پر رکھ کے اپنے بال کھول لیے۔
برش پکڑ کے وہ اپنے بالوں میں آہستہ آہستہ چلانے لگی۔ دیکھ تو وہ آئینے میں رہی تھی پر اس کا دیہان کہی اور تھا۔
ہوش میں تو وہ تب آئی جب اسے اپنے قریب سے حازم کی آواز سنائی دی۔
کیا کر رہی ہو؟
ہوں۔۔
وہ ہڑبڑا کے سیدھی ہوئی۔
کچھ نہیں۔
فوراً جواب آیا۔
کیا سوچ رہی تھی؟
وہ اس کا سراپا آئینے میں دیکھ کے بولا۔
کچھ نہیں۔
کوئی کام تھا کیا؟
وہ برش رکھ کے مڑی اور کچھ فاصلے پر ہوئی۔
نہیں۔
وہ فاصلہ طے کرتا بولا۔
عنیزہ دو قدم اور پیچھے ہوئی۔
باگ کیوں رہی ہو؟
وہ سنجیدگی سے بولا۔
ن نہیں تو۔
عنیزہ نے اس کی طرف دیکھ کے کہا۔
لگ تو رہا ہے۔
حازم نے بازو سے پکڑ کے اسے اپنے قریب کیا۔
کیا ہے؟
پیچھے رہو تو۔
اپنی طرف سے وہ غصّے سے بولی۔
اگر نا ہوا تو؟
تو میں پہلے ہی ناراض ہوں پھر اور ناراض ہو جاؤں گی ساتھ میں اپنا سامان لے کر نوال کے روم میں شفٹ ہو جاؤں گی۔
ناراضگی ختم کیسے ہو گی؟
ہو گی ہی نہیں۔
تم بہت زیادہ برے ہو۔
پہلے ڈانٹتے ہو پھر رونے بھی نہیں دیتے اور تو اور پھر پٹی بھی میرے سے ہی کرواتے ہو۔
منہ بنا کے وہ اسے اسی کی شکایات لگا رہی تھی۔
اور کچھ؟
وہ رکی تو حازم نے پوچھا۔
اور ابھی تو میں شاپنگ والی بات سے بھی ناراض ہوں۔
اپنی بازو چھڑاتے بولی۔
تو اب مانو گی کیسے؟
میں نہیں مان رہی۔
میں نے ابھی بابا جان کو بھی سب کچھ بتانا ہے۔ بس وہ شادی سے فارغ ہو آئیں۔
اس نے صاف انکار کیا۔
اوکے نا یار سوری۔
وہ تمھے پتہ تو ہے میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لئے میں مس بی ہیو کر گیا۔
آئی ایم ریلی سوری۔
حازم سنجیدگی سے بولا۔
اوکے۔
پر یہ لاسٹ ٹائم تھا۔
اور میری ایک شرط ہے؟
کیا؟
حازم نے آنکھیں اچکائیں۔
میرے سے کم از کم دس قدم کے فاصلے پر کھڑے ہوا کرو۔
وہ منہ بسورتے بولی۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔
عنیزہ کی بات سن کے حازم کا قہقہ بلند ہوا۔
ایسا تو نہیں ہو سکتا یار۔
میری اکلوتی بیوی ہو اور اس سے بھی دس قدم دور۔
ایسا تو ممکن نہیں اب۔
اور تو اور اب کچھ کچھ بیوی لگنے لگ گئی ہو۔
حازم دوسرے ہاتھ سے اس کی لٹ کان کے پیچھے کر کے گویا ہوا۔ نظر اس کے چہرے کی جانب ہی تھی۔
جاؤ پھر میں ناراض ہوں۔
اور اب تو کبھی بھی نہیں بلاؤں گی۔
تم ہو ہی زہر۔۔
وہ دانت پیستی بولی۔
آ لینے دو بابا جان کو۔
اوکے پھر دوسرے طریقے سے صلح کر لیتے ہیں۔
اور بابا جان کو تو تم کبھی بھی نہیں بتاؤ گی۔
مجھے پتہ ہے۔
آنکھوں میں شرارت لیے سنجیدگی سے کہا۔
دوسرا طریقہ؟؟
عنیزہ نے نا سمجھی سے پوچھا۔
بتا دوں؟
اس نے اجازت طلب کی۔
ہاں بتاؤ۔
عنیزہ ویسے ہی بولی۔
اوکے۔
حازم آگے بڑھا اور اس کے رخسار پر بوسہ لیا۔
عنیزہ کی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
وہ دم سادھے کھڑی ہو گئی۔
حازم کی گرفت ہلکی پڑی تھی کے اس نے اپنی بازو چھڑا کے باگنے کی کی۔
وہ بغیر حازم کی طرف دیکھے کمرے سے باہر نکل گئی۔
حازم اس کی حرکت پر کھڑا مسکرا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کا وقت تھا جب عنیزہ نے سوچا آج وہ اپنے ہاتھوں سے کچھ بنائے گی۔
اس نے چائنیز رائس بنانے کا سوچا۔
ریسیپی کے اکورڈنگ کچھ چیزیں گھر پر موجود تھیں اور کچھ لانے والیں تھیں۔
کار گھر پر ہی کھڑی تھی۔ اس نے سوچا وہ خود جا کر کچھ لے آتی ہے۔ نوال یونیورسٹی سے آ کر انسٹیٹیوٹ چلے گئی تھی۔ ادھر سے تھوڑی دیر پہلے واپس آئی اور سو گئی۔
حازم کو بابر لینے آیا تھا تو وہ اس کے ساتھ چلا گیا تھا۔
اس نے سوچا وہ سامان لے کر جلد ہی آ جائے گی اس لیے بغیر کسی کو بتائے کار لے کر چلے گئی۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارکیٹ سے کچھ ہی فاصلے پر وہ کھڑی سگنل کھلنے کا انتظار کر رہی تھی جب اس کی نظر اپنے سے کچھ ہی دور کھڑی کار پر پڑی۔
کار میں بیٹھی شخصیات کو دیکھ کے اسے ایک دم سے جھٹکا لگا۔
اس کا رنگ اڑا۔
یہ یہاں؟
سگنل کھلتے ہی وہ کار وہاں سے آگے بڑھی۔
عنیزہ نے بھی فوری کار ان کے پیچھے لگائی۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔