السلام علیکم!!
حازم واک کر کے آیا تو عنیزہ بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بک کھولے کچھ پڑھنے میں مصروف تھی۔
اس نے کوئی جواب نا دیا۔۔
السلام علیکم!!!
وہ گلہ کھنکھارتا زور سے بولا۔
اس نے پھر کوئی جواب نا دیا۔
حازم نے آگے بڑھ کے بک اس کی گود سے اٹھا لی۔
کیا ہے؟
اسے دیکھتی ہوئی نے نا سمجھی سے کہا۔
اب حازم نے کوئی جواب نا دیا۔
حازم میں پوچھ رہی ہوں کیا ہے؟
بک واپس دو میری۔
وہ اسے ٹس سے مس ہوتے نا دیکھ کے چیخی۔
جب میں سلام کر رہا تھا تب جواب کیوں نہیں تھی دے رہی۔
اس نے آنکھیں اچکائیں۔
وعلیکم السلام !!
فورا سے پہلے جواب آیا۔
سوری۔
میں نے سنا نہیں تھا۔
اب میری بک واپس کر دو؟
ہاتھ حازم کے سامنے کر کے بولی۔
کیا ہے ایسا اس بک میں جو تم اتنی مگن ہو کر پڑھ رہی تھی؟
اس نے بک کو ایک نظر دیکھ کے پوچھا۔
تمہیں اس دن بتایا تو تھا کے تمھے نہیں پتہ کے یہ کیا ہے۔
اور اب مجھے جلدی سے یہ واپس کر دو پہلے ہی بہت ٹینشن لگی ہوئی ہے۔
کس بات کی ٹینشن؟
حازم نے سوال کیا۔
کسی کی نہیں۔
بک دے دو تو۔
وہ اس کی طرف دیکھتی ضبط کرتے ہوۓ آرام سے کہ رہی تھی۔
اگر نا دی تو؟؟
کیوں نہیں دو گے تم؟
میں چھین لوں گی۔ پہلے ہی ساری رات سکون سے نہیں سوئی۔
وہ اس کے سامنے کھڑی ہو کر جھنجھلا کے بولی۔
اچھی بھلی ساری رات سوئی رہی ہو۔
ایک منٹ کے لیے بھی تم اٹھی نہیں ہو۔
پھر سکون کی نیند کیوں نہیں آئی؟
حازم نے بک دوسرے ہاتھ میں پکڑ کے اس سے دور کی اور بولا۔
افففف۔۔
تمھے نہیں پتہ نا۔
ساری رات میرے خواب میں یہ ناولز آتے رہے ہیں۔ اب بس میں اسے ختم کرنا چاہتی ہوں۔ جلدی سے دے دو۔
بتا کے اس کے آگے ہاتھ کیا۔
عنیزہ سچ میں یہ تمھارے خواب میں آتے ہیں؟
حازم نے بک کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
اسے اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہوا۔
ہاں تو اور کیا۔
اچھا۔۔
تو کیا میں تمھارے خوابوں میں آتا ہوں؟
حازم نے آنکھوں میں شرارت لیے سنجیدگی سے پوچھا۔
اس کی بات سن کے عنیزہ گڑبرائی۔۔
ہاں ہاں بتاو۔۔
وہ دوبارہ بولا۔
ہر گز بھی نہیں۔
اور تم بھلا کیوں آؤ گے۔
منہ بسورتی نے کہا۔
اچھا چلو پھر ٹھیک ہے میں نہیں دے رہا۔
میں بھی پڑھوں گا تا کے مجھے بھی تو پتہ چلے اس میں ایسا کیا ہے۔
وہ بک کو دیکھ کے بولا۔
ہا ہائے۔۔
تم کیوں پڑھو گے تم تو لڑکے ہو۔
وہ شاکی حالت میں بولی۔
کیا لڑکے نہیں پڑھ سکتے؟
اگر یہ پڑھ سکتے ہو پھر میک اپ بھی تو کروا ہی سکتے ہو۔
اور آئی پرومیس اگر تم نے یہ پڑھا تو میں تمہارا میک اپ بھی کروں گی۔
ایک دم لڑکی لگو گے۔
عنیزہ نے پچھلی بات کو یاد کرتے ہوۓ کہا۔
یہ لو بھئی پڑھو تم۔
مجھے ہرگز بھی اپنی جینڈر چینج کرنے کا شوق نہیں ہے۔
وہ کوفت سے بولا۔
اسے میک اپ کا سوچ کے ہی ومٹ کرنے کو دل چاہا۔
بک پکڑا کر وہ ورڈروب کی طرف چلا گیا۔
ایسے ہی تم لائن پر آتے ہو۔
عنیزہ نے اس کی پشت کی طرف دیکھ کے سوچا اور مسکرا دی۔
اس کی ٹانگ ٹھیک ہوئی کو ایک ویک گزر چکا تھا۔دوبارہ حازم نے اسے ڈانٹا بھی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم میری بات مانو گے؟
وہ ناشتہ کر کے کمرے میں اپنی چیزیں لینے آیا تھا جب عنیزہ اس کے پیچھے آئی۔
ہاں بولو۔
وہ آج مجھے مال جانا ہے کچھ چیزیں خریدنی ہیں۔
تو میں شام کو لے جاؤں گا۔۔
اور اگر پیسے چاہیے تو وہ میں نے تمہاری ورڈروب میں رکھ دیے تھے جتنے چاہیے ہوۓ لے لینا۔
وہ فورا بولا۔
نہیں۔۔
مجھے جلدی جانا ہے۔ تم بہت لیٹ آؤ گے۔
اچھا تو پھر گھر میں سے کسی کے ساتھ چلی جانا۔
حازم میں خود جانا چاہتی ہوں۔
مطلب خودی ڈرائیو کر کے۔
وہ منمنائی۔۔
حازم تمھے پتہ تو ہے میں بہت اچھی ڈرائیونگ کرتی ہوں۔
اس نے حازم کو قائل کرنا چاہا۔
مجھے کیسے پتہ؟
اس نے سوالیہ نگاہیں لیے پوچھا۔
جب ہم پہلی دفعہ ملے تھے تب۔
اس نے اپنی طرف سے یاد دہانی کرائی۔
ہاں یاد ہے مجھے بہت اچھے سے۔
اسی لیے تو کرم دین نے تمھے روکا تھا۔
حازم مسکرایا۔
اس نے تو جان بوجھ کر ہی روکا تھا۔
عنیزہ منہ بنائے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے اللّه حافظ میں چلتا ہوں۔
حازم کہ کے دروازے کی طرف بڑھا۔
تو کیا میں چلی جاؤں؟
میں نوال کو ساتھ لے کر جاؤں گی۔
وہ اسے جاتا دیکھ بولی۔
ایسا میں نے کب کہا۔
تو کیا نہیں؟
اس نے منہ بنایا۔
چلی جانا پر دیہان سے۔
کہ کے حازم چلا گیا۔
تھینک یو۔
وہ اونچی آواز میں خوشی سے چلائی۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی شاپنگ جلد ہو گئی تھی۔
اس کے بعد وہ لوگ کچھ کھانے کے لیے ریسٹورنٹ میں آ گئیں تھیں۔
کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ بل پے کر کے اٹھ گئیں۔
ابھی وہ دروازے کے قریب نہیں پہنچی تھی کے ایک لڑکا عنیزہ کی طرف آیا۔
تم عنیزہ ہی ہو نا؟
وہ ان کے سامنے کھڑا ہو کر اسے سر تا پیر دیکھتے ہوۓ بولا۔
عنیزہ بھی اسے پہچان چکی تھی۔
نوال اور سحر ساتھ چپ چاپ کھڑی تھیں۔
چلو نوال۔
وہ اسے اگنور کرتی نوال کو کہ کے آگے بڑھی۔
عنیزہ میری بات تو سنو۔
وہ اس کے دروازہ عبور کرنے سے پہلے اس تک آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے بولا۔
عنیزہ تو اس کی اتنی ہمت پر دم سادھے رہ گئی تھی۔
اس نے ایک منٹ سے پہلے اپنا ہاتھ چھڑایا اور وہی ہاتھ سامنے والے کے منہ پر نشان چھوڑ چکا تھا۔
ارد گرد کے لوگ ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
آج اپنے غلیظ ہاتھوں سے مجھے چھونے کی ہمت کی ہے آئندہ ایسی جرت نا کرنا۔
آج تو تھپڑ پڑا ہے اگلی دفعہ تمھارے ہاتھ کٹوا دوں گی۔ اس لیے بہتر ہے میرے سے دور ہی رہنا۔
پتہ تو ہو گا ہی ایس پی کی بیوی ہوں۔
وہ بے خوفی سے کہتی باہر نکل گئی۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے ہوئیں۔
سحر تو اس کی ہمت پر شاکڈ رہ گئی تھی۔
کیسے وہ پبلک پلیس پر بغیر ڈرے اسے سبق سیکھا آئی تھی۔ لیکن وہ ہے کون؟
اس کے ذہن میں یہی سوال گردش کر رہا تھا۔
عنیزہ اور نوال دونوں کار میں بیٹھ گئیں تو سحر بولی۔
میں ابھی واشروم سے ہو کر آئی۔ بس دو منٹ۔
وہ کھ کے دوبارہ ریسٹورنٹ کی طرف چلے گئی۔
نوال گھر میں اس بات کے بارے میں کسی سے ذکر نا کرنا۔
عنیزہ اسے دیکھ کے بولی۔
اوکے بھابھی۔
اس نے دو لفظی جواب دیا۔
وہ دونوں مال کے لیے نکلنے لگی تھیں جب سحر گھر آ گئی۔ نوال نے اسے آفر کی تو وہ بھی ان کے ساتھ آ گئی تھی۔ سلام دعا کے علاوہ نا سحر نے عنیزہ سے کوئی بات کی اور نا ہی عنیزہ نے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر آئی تو اپنے کمرے میں آ گئی۔
کمرے میں داخل ہوئی تو سیدھی نظر حازم پر گئی جو میرر کے سامنے کھڑا تھا۔
آج اتنی جلدی آ گئے تم؟
اس نے بیگز ٹیبل پر رکھ کے پوچھا۔
ہاں آج ضروری کام کے لیے جانا ہے مجھے۔
وہ مختصر سا بتا کے چپ ہوا۔
عنیزہ نے صوفے پر بیٹھ کے اپنا حجاب کھولا اور سر صوفے کی پشت سے ٹکا لیا۔
اسے ایسے بیٹا تھوڑا ہی ٹائم گزرا تھا جب حازم کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
کیا ہوا؟
وہ سیدھی ہو کے بیٹھی۔
حازم ٹیبل کی دوسری سائیڈ پر سامنے ہی کھڑا تھا۔
وہ لائٹ براؤن کلر کی کلف لگی شلوار قمیض پہنے ، ہاتھ میں ریسٹ واچ لگائے ساتھ کھیڑی پہنے ، بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے ، کفوں فولڈ کیے ، چہرے پر سنجیدگی سجائے وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔
گوگلز ، فون اور کار کی چابی ہاتھ میں تھی۔
کیا میں ٹھیک نہیں لگ رہا؟
حازم عنیزہ کو ایسے اپنی طرف دیکھتا پا کر بولا۔
پہلے بتاؤ کہاں جا رہے ہو؟
عنیزہ اٹھ کے اس کی طرف آئی اور آنکھیں گھوما کے پوچھا۔
بتایا تو ہے ضروری کام پر جا رہا ہوں۔
اس نے جواب دیا۔
اتنا کون تیار ہو کر جاتا ہے ضروری کام کرنے؟
پھر سوال آیا۔
تیار کہاں ہوا ہوں یار۔
عام روٹین میں بھی یہی سب ھوتا ہے۔
اس نے ایک نظر اپنے اوپر ڈال کے کہا۔
اچھا۔
ایک منٹ رکو۔
وہ اس کی طرف بڑھی اور اس کا ہاتھ پکڑ کے واچ اتار دی۔
یہ کیوں اتاری ہے؟
حازم نے حیرت سے پوچھا۔
چپ رہو بتاتی ہوں۔
اور یہ ایسے فولڈ نہیں کرو کرو گے۔ اسے نیچے کر کے بٹن بند کرو۔
وہ اس کے بازوں کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
لیکن کیوں؟
حازم نے پھر نہ سمجھی سے پوچھا۔
کہا تو ہے چپ رہو اور جو میں کہ رہی ہوں وہ کرو۔
اس نے قمیض کے بازو نیچے کر کے بٹن بند کر لیے۔
اور یہ گوگلز نہیں لگاؤ گے تم۔
یہ گھر رکھ کے جاؤ۔
وہ تحکمانا انداز میں بولی۔
بلکے ایسا کرو یہ مجھے دے دو۔ عنیزہ نے خودی اس کے ہاتھ سے لے لیے۔
حازم چپ کھڑا آنکھوں میں حیرت سموئے اسی کو دیکھ رہا تھا۔
عنیزہ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے بال خراب کر دیے۔
عنیزہ؟؟
یہ کیا کیا ہے تم نے؟
وہ چیخا۔
اسے بال بنانے میں کافی ٹائم لگ گیا تھا۔ آخر کار سپرے لگا لگا کر بہت مشکل سے سیٹ کیے تھے۔
اب اچھے لگ رہے ہو اب جاؤ۔
وہ پیچھے ہو کر اس کا سوال اگنور کر کے مسکرا کے بولی۔
آر یو سیریس؟
اس حالت میں میں جاؤں؟
حازم اپنی طرف انگلی سے اشارہ کر کے بولا۔
ہاں نا۔
کچھ بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور سچی میں ابھی بھی بہت پیارے لگ رہے ہو۔
اس کے منہ سے پھسلا۔۔
حازم اسے دیکھ کے رہ گیا۔
وہ کچھ کہے بغیر ویسے ہی کمرے سے
باہر چلا گیا۔
وہ سکون کا سانس لیتی صوفے پر آ بیٹھی۔
افففف کتنا تیار ہو کے جاتا ہے۔
آج کے بعد بلکل بھی تیار ہو کر نہیں جاؤ گے۔
وہ خود سے ہی بولی۔
۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ تمھے پتہ تو ہے ہی کے میری بہن کی بیٹی کی شادی ہے۔
ہم لوگ تو پرسوں چلے جائیں گے کیوں کے اس دن مایوں ہے میں بڑی بہن ہوں زرمین کی تو وہ مجھے بار بار ابھی سے بلا رہی ہے۔
میں نے کہ کہ کے پرسوں تک اسے ایگری کیا ہے۔ اور پھر اس کے گھر شادی بھی پہلی ہے۔ نوال کا پرسوں پیپر ہے اور حازم کہ رہا تھا کے اسے کچھ ضروری کام ہیں اس لیے وہ لوگ مہندی والے دن یا برات والے دن آ جائیں گے۔
آپ تو ہمارے ساتھ ہی چلیں گی نا؟
انہوں نے اس سے پوچھا۔
آنٹی میں بھی حازم اور نوال کے ساتھ آ جاؤں گی۔ ادھر میں کسی کو جانتی نہیں ہوں گی تو میرا دل نہیں لگے گا۔ نوال جب آئے گی تو ساتھ ہی آ جاؤں گی۔
اور یہاں بھی ان کا تھوڑا بہت خیال رکھ لوں گی۔
وہ ان کی طرف دیکھ کے گویا ہوئی۔
اچھا بیٹے جیسی آپ کی مرضی۔
اور اگر کوئی بھی چیز آپ کو لینی ہے تو مجھے بتا دینا میں نے کل جانا ہے بازار۔
آپ بھی ساتھ چلی جانا اور لے آنا۔
وہ مسکرا کے بولیں۔
اچھا آنٹی جی۔
عنیزہ بھی مسکرائی۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔