کیا کر رہی ہو نوال؟
عنیزہ کچن میں اس کے نزدیک آ کر بولی۔
کچھ نہیں بھابھی۔
بس یہ بابا جان کے لیے چائے بنا رہی ہوں۔
اچھا۔۔
آپ کیا کھائیں گی؟
نوال مصروف مصروف سی بولی۔
تم بابا جان کے لیے بنا لو چائے میں خود ہی کچھ لے لیتی ہوں۔
وہ دھیمی سی مسکراہٹ لیے بولی۔
اوکے۔۔
وہ بول کے اپنے کام میں لگ گئی۔
کیا ہو رہا ہے یہاں؟
سحر ناشتہ کرنے کچن میں آئی تو عنیزہ کو دیکھ کے اس کا موڈ بگڑا۔
میں چائے بنا رہی ہوں۔
نوال اسے دیکھتے فورا بولی۔
عنیزہ نے کوئی جواب نا دیا۔
اور تم کیا کر رہی ہو؟
وہ آنکھیں اچکاتی عنیزہ کی طرف بڑھی۔
عنیزہ کچھ نا بولی۔
تمھے سن نہیں رہا میں تم سے پوچھ رہی ہوں۔
سحر نے اس کی بازو کھیچ کے اسے اپنی طرف سیدھا کر کے اونچی آواز میں کہا۔
میرے سے آج اس لہجے میں بات کر لی ہے خبردار جو آئندہ میرے سے اونچی آواز میں بات کی۔
عنیزہ جھٹکے سے اپنی بازو چھڑا کے تیکھے لہجے میں بولی۔
کیا ہوا آپ لوگوں کو؟
نوال حیران پریشان سی کی آواز آئی۔
تم کوئی منسٹر کی بیٹی ہو جو تم سے میں اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتی۔ ہمارے ہی گھر میں کھڑی ہو کر ہمیں ہی باتیں سنا رہی ہو۔ داد دینی پڑے گی تمھے۔ ایک تو زبردستی حازم سے شادی کی اوپر سے۔۔۔
اسٹاپ اٹ۔۔
عنیزہ اس کی بات کاٹتے ہوۓ زور سے بولی۔
بہت ہو گیا۔ اس دن سے تم بد تمیزی کر رہی ہو اور ہم برداشت کر رہیں ہیں۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں ہے کے ہم برداشت ہی کرتے رہیں گے۔
اور کس گھر کو تم اپنا گھر کہ رہی ہے؟
ذرا بتانا؟؟
یہ جہاں تم کھڑی ہو نا یہ میرا گھر ہے۔ حازم کی بیوی ہونے کے ناطے یہ سب میرا ہے۔ ایک منٹ سے پہلے تمھے نکلوا سکتی ہوں یہاں سے۔ کسی بھول میں مت رہنا۔
اور حازم تم سے شادی کرتا۔۔
سیریسلی۔
وہ آنکھیں گھما کے بولی۔
جہاں تک مجھے لگتا ہے اگر حازم کی شادی میرے سے نا بھی ہوتی تو وہ تم سے کبھی نا کرتا۔ تم اس کے قابل ہو ہی نہیں۔ کہاں وہ اور کہاں تم۔۔
عنیزہ نے اسے اوپر سے لے کے نیچے تک دیکھ کے کہا۔
نہیں اور وہ تم سے کرتا؟
تم تو زبردستی اس پر مسلط کی گئی ہو۔
بہت خوشفہمیاں ہیں تمھے اپنے بارے میں بھئی۔
سحر نخوت سے بولی۔
سو ابویس۔۔
میرے سے ہی کرتا۔
اسی لیے تو میں آج اس کی بیوی ہوں۔ زبردستی کی ہی صحیح ہوں تو نا۔ اور الحمداللہ ہم بہت خوش ہیں ایک ساتھ۔
خوش فہمی کی تو خیر ہے غلط فہمی تو نہیں نا ہے۔
تم تو یہ مقام حاصل ہی نا کر سکی۔
میں نے کہیں سنا تھا کے جو جس مقام کے قابل ھوتا ہے اسے وہی ملتا ہے۔
سو!!
اب دیکھ لو۔۔۔۔
عنیزہ مسکرا کے کہتی اسے آگ لگا گئی تھی۔
تم اپنی زبان!!
انف۔۔۔
عنیزہ ہاتھ اٹھا کے اسے روکتے ہوۓ بولی۔
آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ میں مزید پتھر کے ساتھ اپنا سر نہیں ٹکرا سکتی۔
وہ کہ کے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
نوال؟؟
وہ چپ چاپ کھڑی تھی عنیزہ نے جاتے ہوۓ اسے بلند آواز میں پکارا۔
جی بھابھی۔
وہ عنیزہ کی طرف دیکھ کے بولی۔
آج اپنی فیملی کی نظر اتار لینا۔ بہت خطرہ ہے۔
اچھا جی۔
وہ کہ کے باہر نکل گئی۔
تم سب لوگ ملے ہوۓ ہو نا میری بے عزتی کرنے کے لیے۔
بہت خوشی ہو رہی ہو گی تمھے بھی۔
وہ نوال پر بھرکی۔
نہیں سحر آپی۔
ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔
نوال آہستہ آہستہ بولی۔
بھاڑ میں جاؤ تم سب لوگ۔
تم لوگوں کی وجہ سے ہی وہ مجھے اتنی باتیں سنا کر گئی ہے۔
سحر چلائی۔
میری بہن پر غصّہ نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اور جو وہ باتیں تمھے سنا کر گئی ہے تم قابل تھی اس کے۔
امید ہے کے دو تین دن تو سکون سے گزر جائیں گے۔
حازم سنجیدگی سے بول کے نوال سے مخاطب ہوا۔
نوال آپ جاؤ باہر۔۔
اچھا بھائی جان۔
میں بس چائے ڈال لوں۔
وہ کہ کے چائے ڈالنے لگ گئی۔
حازم باہر نکل گیا۔
اس کے پیچھے ہی پیر پٹکھتی سحر بھی چلے گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار تو بتا تجھے دیکھنے آئے تھے؟
ہاں آئے تھے میں نے انکار کر دیا۔
بابر لاپرواہی سے بولا۔
کیوں؟
آنٹی تو کہ رہی تھیں کے لوگ بہت اچھے ہیں۔
حازم نے کندھے اچکائے۔۔
ہمم۔
اچھے تھے۔
وہ پھر اسی انداز میں بولا۔
ہاں تو پھر انکار کیوں کر دیا؟
اور صحیح طرح سے بتا کیوں نہیں رہا۔
حازم نے سوالیہ نگاہ لیے پوچھا۔
یار میں کسی کے لیے اپنی آنی کو نہیں چھوڑ سکتا۔
اور لعنت بیجھتا ہوں میں ایسی شادی پر جو مجھے پیاروں سے ہی دور کر دے۔
اس نے بول کے لمبھی سانس لی۔
کیا مطلب؟
میں سمجھا نہیں۔۔
حازم نے نا سمجھی سے کہا۔
حمنہ مجھے کہ رہی تھی کے ہم لوگ شادی کے بعد فرانس شفٹ ہو جائیں گے۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے آنی اور انکل بھی ساتھ ہی جائیں گے۔
تو وہ کہتی نہیں۔ وہ لوگ یہی پر ٹھیک ہیں۔ ہم پیسے بیجھ دیا کریں گے۔ اور بھی پتہ نہیں کیا کیا۔
تو میں نے اسے صاف الفاظ میں کہ دیا میں تمھے چھوڑ سکتا ہوں ان لوگوں کو نہیں۔ جان بستی ہے میری ان میں۔ اور کیسے میں ان کو یہاں چھوڑ کے جا سکتا ہوں۔ میرا تو ایک پل بھی ان کے بغیر گزارہ نہیں ہے اور وہ کتنے آرام سے کہ رہی تھی کے پیسے بیجھ دیا کریں گے۔
جیسے وہ لوگ میرے پیسے کے ہی تو بھوکے ہیں۔
ساری زندگی اولاد سے بڑھ کے انہوں نے میری چاہت کی اور جب ان کی باری آئی تو میں انھیں چھوڑ دوں۔
نہیں۔
ایسا میں کبھی بھی نہیں کر سکتا۔
شادی نا کرنا مجھے منظور ہے۔
وہ سنجیدگی سے بول کے خاموش ہو گیا۔
بہت اچھا کیا تم نے۔
دنیا کونسا ختم ہو گئی ہے۔ لڑکیاں اور بھی بہت۔
آج تو نے دل خوش کر دیا۔
اٹھ گلے لگ۔
حازم چیئر سے اٹھ کر بولا۔
بابر کھڑا ہو کے اس سے گلے ملا۔
پھر الگ ہو کر مسکراتے ہوۓ دونوں واپس اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے۔
حازم تمھے پتہ ہے انکل یہاں نہیں ہوتے لیکن ان کا ہر دوسرے منٹ بعد مجھے فون آ رہا ھوتا ہے میں نے کھانا کھایا ، مجھے کسی چیز کی تو نہیں ضرورت ، میں چپ کیوں ہوں ہر بات کا میری وہ مجھ سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ اتنا تو وہ آنی کو بھی فون نہیں کرتے جتنا مجھے کرتے ہیں۔
وہ مسکرا کے بتا رہا تھا۔
اور آنی کی تو بات ہی نا کرو ان کی تو دنیا ہی میں ہوں۔
وہ بول کے چپ ہوا۔
یار میں سوچ رہا تھا کے کیوں نا تیری شادی سحر سے کرا دوں؟
کچھ پل خاموشی کے نظر ہوۓ تھے کے حازم بولا۔
معافی دے بھائی۔
حمنہ تو جو تھی وہ تھی ہی۔
سحر تو اس سے بھی دس رتیاں اوپر ہے۔
میری سکون سے بھری زندگی میں تباہ نہیں کر سکتا۔ بہت پسند ہے مجھے اپنی زندگی۔
وہ منہ کے زاویے بناتے بولا۔
مرضی تیری۔
میں تو بھلا ہی سوچ رہا تھا تیرا۔
اوہ۔۔
آگ لگا تو ایسے بھلے کو۔
اس سے تو اچھا میں ساری زندگی کنوارہ ہی رہ لوں۔
ہاہاہاہا۔۔
حازم کا قہقہ بلند ہوا۔
مذاق کر رہا تھا میں۔ رونے نا لگ جایا کر۔
وہ ہنسنے کے دوران بولا۔
ایسا مذاق بھی نا کیا کر۔
اوکے۔۔
حازم نے کہا۔
یار تم اور بھابھی کب آ رہے ہو ہماری طرف؟
آنی روز پوچھتی ہیں۔
ہمم آئیں گے بہت جلد۔
حازم کچھ سوچتے ہوۓ بولا۔
جلدی پروگرام بنا اور مجھے بتا۔
جلدی کا مطلب آج یا کل۔۔
اوہ اتنی بھی کیا جلدی ہے؟
حازم حیرت سے بولا۔
ہے بہت جلدی۔
بھابھی سے مل کے تیرے سارے افیرز بتانے ہیں۔
بابر نے آنکھ دبا کے کہا۔
بکواس نا کر کمینے۔
اسے تو پہلے ہی لگتا ہے کے میرا بہت سی لڑکیوں کے ساتھ چکر ہے۔
اور ابھی تک تو وہ۔۔۔۔۔۔
حازم بولتے بولتے رکا۔۔
کیا ابھی تک؟
جلدی بتا!
یہاں پر بریک کیوں لگائی؟
کچھ نہیں یار۔
بس ویسے ہی۔
حازم پرسوچ سا بولا۔
آج تو اسے بھی ناراض ہوئی کو چوتھا دن ہو گیا۔
اب اتنی بھی کیا ناراضگی۔۔
حازم نے دل میں سوچا۔
کیا سوچنے لگ گئے؟
بابر نے اس کے سامنے ہاتھ ہلا کے کہا۔
کچھ نہیں۔
یار کچھ کھانے چلیں؟
بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔
بابر گویا ہوا۔
ہاں چل۔
دونوں اٹھ کے کھڑے ہو گئے اور باہر نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانا کھا کر وہ دونوں کمرے میں آ گئے۔
حازم صوفے پر بیٹھ کے فون میں مصروف ہو گیا اور عنیزہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔
کچھ ٹائم گزرا تھا کے وہ اٹھ کے کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگانے لگ گئی۔
کچھ دیر چکر لگانے کے بعد وہ ورڈروب کی طرف چلے گئی۔
اس میں پتہ نہیں کیا ڈھونڈ رہی تھی جو اسے مل ہی نہیں رہا تھا۔
حازم اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہا تھا۔
ورڈروب کا پٹ بند کرتی پھر ادھر سے ادھر چکر لگانے لگ گئی۔
حازم اٹھا اور عنیزہ کی طرف بڑھا۔
مزید اور کتنے دن ناراض رہنے کا ارادہ ہے تمہارا محترمہ!!
وہ اس کے سامنے کھڑا ہو کے بولا۔
تمھے اس سے کیا۔ تمہاری تو جان چھوٹی ہوئی ہے۔ تم خوش رہو۔ اب تمھے تنگ بھی تو نہیں نا کرتی۔ بہت سکون میں ہو گے۔ تمہیں میرے ہونے یا نا ہونے سے کونسا فرق پڑتا ہے۔ خوش رہو۔ میرا کیا میں نے تو چلی ہی جانا ہے۔
وہ اتنے دنوں کی بھری ہوئی آج سب بول گئی تھی۔ تب سے اسے حازم پر ہی غصّہ آ رہا تھا جس نے اپنی غلطی کی سوری بھی نہیں کی تھی اور ایسے بنا بیٹھا تھا جیسے اس کا کوئی قصور ہی نا ہو۔ اب اس نے پوچھا تو وہ پھٹ پڑی تھی۔
My happiness is nOt withOut yOu..
My happiness is "yOu"...
حازم سنجیدگی سے لفظوں پر زور دیتا بولا۔
وہ مزید کچھ نا بولا۔
اس کے بولنے سے کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔ وہ ہونقوں کی کیفیت سے سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ اس سے یہ الفاظ اسپیکٹ نہیں کرتی تھی۔
اب بولو کچھ؟
حازم اسے بازو سے پکڑ کے قریب کرتا بولا۔
وہ کچھ نا بولی۔
تم کیسے کہ سکتی ہو کے میری جان چھوٹی ہوئی تھی ؟
میرے لیے بہت عزیز ہو تم۔
میرے دل کے بہت قریب ہو تم۔
میں تو تمھے بات بات میں مخاطب کرتا ہی رہتا تھا وہ تو تم ہی تھی جو ناراض ہوۓ بیٹھی تھی۔
وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوۓ نرمی سے بول رہا تھا۔
عنیزہ بغیر آنکھیں جھپکے ہونٹ دانتوں میں دبائے اسے دیکھ رہی تھی۔
حازم نے آگے بڑھ کے اس کے ماتھے پر بوسہ لیا۔
وہ زور سے آنکھیں میچ گئی۔
اب بتاؤ ناراضگی ختم ہوئی یا نہیں؟
حازم تھوڑا پیچھے ہو کر بولا۔
عنیزہ نے ایک آنکھ کھول کے اسے دیکھا۔
جب دیکھا کے وہ کچھ فاصلے پر ہے تو دونوں آنکھیں کھول لیں۔
وہ اور پیچھے کو ہوئی اور بولی۔
پہلے بتاؤ میک اپ کرواؤ گے؟
اس نے معصومیت سے کہا۔
عنیزہ!!
تم جان بوجھ کر کرتی ہو نا یہ باتیں۔۔
وہ جھنجھلا کے بولا۔
نہیں۔
میں سچ میں کہ رہی ہوں۔
ورنہ کوئی صلح نہیں۔
وہ ضدی ہوئی۔
اب مجھے غصّہ آ رہا ہے عنیزہ؟
حازم تیکھے تیوروں کے ساتھ بولا۔
اب تم غصّہ کرو گے ؟
میں صبح آنٹی کو ہر بات بتاؤں گی۔
جا رہی ہوں میں۔
نہیں سونا مجھے اس کمرے میں۔
وہ غصّے سے کہ کے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوال آج میں تمھارے روم میں ہی سوں گی۔
عنیزہ اس کے بیڈ پر آلتی پالی مار کے بیٹھ گئی۔
بھابھی آج اچانک سے!!
سب ٹھیک ہے نا؟
نوال حیرت سے بولی۔
اس کو عنیزہ کی سونے والی بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کیوں کے جب سے وہ شادی ہو کر یہاں آئی تھی بس کام کے سلسلے میں ہی اس کے کمرے تک آتی تھی۔ سوتی تو وہ اپنے کمرے میں تھی۔
ہاں سب ٹھیک ہے۔
کیا میں یہاں نہیں سو سکتی؟
وہ تکیہ بیڈ کی پشت کے ساتھ سیٹ کر کے ٹیک لگا کر بیٹھ کے بولی۔
نہیں نہیں۔
آپ سو جائیں مجھے تو بہت خوشی ہو گی۔
نوال نے مسکرا کے کہا۔
ہمم تھینک یو۔۔
ہم رات کو موویز دیکھیں گے اور خوب انجوئے کریں گے۔
عنیزہ نے اسے اپنے خیالات بتائے۔
اچھا جی۔
آپ بیٹھیں میں ابھی آئی۔
مجھے ابراھیم کو دودھ کا گلاس دینا ہے۔
وہ بیڈ سے اٹھتے ہوۓ بولی۔
اچھا جلدی آ جانا میں ویٹ کر رہی ہوں۔
اوکے بس دو منٹ میں آئی۔
کہ کے وہ باہر نکل گئی۔
کیا تھا وہ سب؟
کیا سچ میں حازم کے دل میں میری کوئی ویلیو ہے؟
یا پھر سب!!
اس نے بازو گھٹنوں کے بل باندھ کے دل میں سوچا۔
حازم کے قریب آنے پر اسے عجیب سا احساس ہوا تھا۔ وہ مزید اس سے ناراض نہیں رہنا چاہتی تھی لیکن اس کے سامنے کھڑا ہونا اسے محال لگ رہا تھا۔
وہ دوبارہ سے وہی بات کر کے جان بوجھ کر کمرے سے آئی تھی۔
ابھی وہ سوچوں میں مگن تھی جب ایک دم سے دروازہ کھلا۔
عنیزہ نے آنے والے کو دیکھا تو ساکت رہ گئی۔
اسے لگا تھا وہ نہیں آئے گا۔
اٹھو روم میں چلو۔
حازم سنجیدگی سے بولا۔
کیوں؟
میں نہیں جا رہی۔
وہ چہرہ دوسری طرف پھیر کے بولی۔
تماشہ نا لگاو عنیزہ۔۔
ماما لوگ دیکھیں گے تو سب کیا سوچیں گے؟
چپ چاپ اٹھ کے چلو۔
وہ دھیمی آواز میں کہ رہا تھا۔
میں ہر گز نہیں جاؤں گی حازم۔
تم جاؤ۔
کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
وہ اس کی طرف دیکھ کے تحمل سے بولی۔
عنیزہ تم اٹھ رہی ہو یا میں اپنے طریقے سے اٹھاؤں؟
وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولا۔
نہیں کرو نا۔
میرا موڈ نہیں ہے۔
اور تم کونسا میری کوئی بات مانتے ہو۔
وہ جواباً بولی۔
حازم بغیر اسے کچھ کہے اس کی طرف بڑھا اور اسے بازوں میں بھر لیا۔
آہہہہہہہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہو؟
نیچے اتارو۔
وہ گھبراتے ہوۓ چیخ کے بولی۔
تمھے ایک بار پیار کی بات سمجھ میں نہیں نا آتی۔
حازم نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
نہیں آتی۔
آج کے بعد تو میں کوئی بات نہیں مانو گی۔
اتنے دنوں کی ناراضگی کے دوران بھی میں تمھے چائے بنا کر دیتی تھی۔
تم بہت۔۔۔۔۔
وہ غصّے سے بولتے بولتے رکی۔
حازم اسے اٹھائے ہوۓ ہی روم تک لایا اور بیڈ پر بٹھا دیا۔
چائے تو تم ہی بنایا کرو گی۔
کوئی تو بیوی ہونے کا فرض ادا کرو۔
اس نے دروازہ بند کر کے واپس بیڈ پر بیٹھ کے کہا۔
اوونہ۔۔
وہ سائیڈ سے کشن اٹھا کر پھینکنے ہی لگی تھی کے واپس رکھ دیا۔
لیمپ کے سوئچ پر زور سے ہاتھ مارتی وہ بلینکٹ تان کر لیٹ گئی۔
عجیب ہے ویسے۔
ناراض تو مجھے ہونا چاہیے تھا۔
میری تو سکون کی زندگی کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
اللّه ہی خیر کریں گے۔
حازم نے چھت کی طرف دیکھ کے دل میں سوچا۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھابھی رات کو آپ کہاں چلے گئی تھی؟
آپ نے تو میرے روم میں سونا تھا۔
نوال عنیزہ سے رات کے بارے میں پوچھنے لگی۔
وہ جب کمرے میں واپس آئی تو کمرہ خالی تھا۔ اس نے رات کو ان کے کمرے میں جانا مناسب نہیں سمجھا اس لیے اب پوچھ رہی تھی۔
چلے گئی تھی میں اپنے روم میں۔
یہاں کچھ لوگوں سے میری خوشی برداشت ہی کہاں ہے۔
وہ ایک نظر حازم کو دیکھ کے بولی۔
بیٹا آپ نوال کے روم میں لیکن کیوں؟
عفت بیگم نے حیرانگی سے پوچھا۔
جی آنٹی۔
بس ویسے ہی۔
میرا کوئی مووی دیکھنے کو دل چاہ رہا تھا تو سوچا نوال کے ساتھ دیکھ لیتی ہوں۔
یہ کچن میں گئی تو پیچھے سے مجھے نیند آنے لگ گئی پھر میں اپنے روم میں واپس چلے گئی۔
عنیزہ نے وضاحت دی۔
حازم کو تو اس کے جھوٹ سن کے حیرت ہو رہی تھی۔
وہ جوس کا گلاس منہ کو لگاتے ہوۓ عنیزہ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
پر عنیزہ نے دوبارہ اس کی طرف نہیں دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابراھیم تم مجھے بائیک چلانا سیکھا رہے ہو۔
اور کوئی تمھے کچھ نہیں کہے گا۔
شام کا وقت تھا۔ ابراھیم عنیزہ اور نوال تینوں لون میں بیٹھے ہوۓ تھے۔ جب وہ بار بار ابراھیم سے بائیک چلانے کا کہ رہی تھی۔ وہ لگاتار منع کر رہا تھا پر عنیزہ ضد پر آری ہوئی تھی۔
ابراھیم تھوڑا سا سیکھا دو۔
ابھی بھائی کے آنے میں بہت ٹائم ہے۔
نوال نے بھی حمایت کی۔
آ جائے حازم۔
ہمیں کیا۔
کونسا اس کی بائیک ہے جو اسے کچھ ہو گا۔
عنیزہ نے منہ کے زاویے بناتے کہا۔
بھابھی آپ کو نہیں نا پتہ۔
ابراھیم بےبس سا بولا۔
ابراھیم وہ اتنی دیر سے کہ رہی ہیں۔
مان لو تو انکی۔
کچھ نہیں ھوتا۔
نوال نے عنیزہ کی سائیڈ لی۔
اوکے۔
میں سیکھا دیتا ہوں۔
پر اگر بھائی جان آ گئے تو؟؟
تو میں ہوں نا۔۔
میرے ہوتے ہوۓ وہ آپ لوگوں کو کچھ بھی نہیں کہے گا۔ اور اگر کہے گا بھی تو میں خود ہی نمٹ لوں گی۔
وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولی۔
اچھا پھر ٹھیک ہے۔
آ جائیں میں آپ کو بتاتا ہوں۔
وہ تینوں اٹھ کے پورچ کی طرف آئے جہاں بائیک کھڑی تھی۔
بھابھی آپ سے چل جائے گی نا؟
یہ عام بائیک نہیں ہے ہیوی بائیک ہے۔
ابراھیم نے پھر پوچھا۔
یار جہاز تو نہیں نا ہے۔
میں چلا لوں گی۔
عنیزہ نے اسے مطمئن کرنا چاہا۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابراھیم کی لگاتار تگ و ود کے بعد وہ تھوڑی بہت چلانا سیکھ گئی تھی۔
اب وہ مسلسل اکیلے چلانے کی ضد کر رہی تھی۔
پر ابراھیم نہیں مان رہا تھا۔
بھابھی آپ سے ہینڈل نہیں ہو گی۔ اوپر سے یہ وزنی بھی بہت زیادہ ہے۔
ہو جائے گی ابراھیم۔
اور کروں گی تو آئے گی۔
وہ اسے سمجھانے کے سے انداز میں بولی۔
نوال اور ابراھیم کے مسلسل روکنے کے باوجود وہ نہیں مانی اور بائیک چلانے لگی۔
بہت مشکل سے وہ چلا رہی تھی۔
اسے بار بار ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ گر جائے گی۔
ابراھیم نوال دونوں اس کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔
وہ نیچے کو دیکھ کے اپنے دیہان بائیک چلا رہی تھی جب اچانک اس سے کنٹرول نا ہوئی اور وہ دروازے سے جا ٹکرائی۔
عنیزہ خود نیچے اور بائیک اس کے اوپر۔
وہ دونوں فوری عنیزہ کی طرف باگے۔
اس سے پہلے ابراھیم عنیزہ کے اوپر سے بائیک اٹھاتا گیٹ سے حازم انٹر ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے یہاں؟
حازم نے اندر آ کر آنکھیں اچکا کے پوچھا۔
بھا بھائی آپ!!
نوال رک رک کے بولی۔
ابراھیم نے بھی بائیک اٹھا کر حازم کی دیکھا جو انہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
عنیزہ بہت مشکل سے کھڑی ہوئی اس کی ٹانگ پر بائیک کا وزن آ گیا تھا جس کی وجہ سے اس سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا۔
کوئی کچھ بولے گا؟
حازم اونچی آواز میں بولا۔
عنیزہ نے فورا نوال کا ہاتھ پکڑا۔
وہ تینوں لائن میں کھڑے ہو گئے تھے۔
ابراھیم سائیڈ پر بائیک کھڑی کر کے ان کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا تھا۔
کوئی جواب میں کچھ نا بولا۔
میں کچھ پوچھ رہا ہوں ابراھیم؟
وہ سخت لہجے میں بولا۔
وہ۔۔۔۔
ان دونوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔
میں نے ہی کہا تھا ان سے کے مجھے بائیک سیکھنی ہے۔
عنیزہ ابراھیم کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑی۔
یہ کونسا نیا شوق ہوا؟
اگر کسی کو چوٹ لگ جاتی تو۔۔
حازم ضبط کرتے بولا۔
لگی تو نہیں نا۔۔
عنیزہ نے بے خوفی سے کہا۔
ابراھیم میں نے تمھے کتنی دفعہ منع کیا ہے کے اس خرافات سے گھر والوں کو دور رکھا کرو۔
تمھے اس لیے یہ نہیں لے کر دی تھی کے کبھی خود گرو اور کبھی کوئی دوسرا۔
حازم اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔
میں نے کہا تھا اسے۔
وہ تو مجھے منع کر رہا تھا۔
عنیزہ نے اس کی بات کاٹ کے کہا۔
اسٹاپ اٹ!!
خود کی تو تمھے کوئی پرواہ نہیں ہے دوسروں کا ہی خیال کر لیا کرو کم از کم۔۔
اور نوال ابراھیم آپ دونوں سے میں ایسی امید نہیں کرتا تھا۔
حازم کہ کے اندر کی جانب بڑھ گیا۔
وہ تینوں بھی چپ چاپ اس کے پیچھے چل دیے۔
وہ زینے چڑھ رہا تھا جب مڑ کے بولا۔
ایک منٹ سے پہلے تم مجھے کمرے میں نظر آؤ۔
کہ کے چلا گیا۔
بھابھی اب کیا ہو گا؟
بھائی تو بہت ڈانٹیں گے۔
اوپر سے ماما بھی گھر نہیں ہیں۔
نوال پریشان سی بولی۔
کچھ نہیں ہو گا۔
تم لوگ پریشان نا ہو۔
میں ہوں نا۔
ابھی سن کے آتی ہوں اس کی بات۔
وہ ان کو حوصلہ دیتی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
اسے خود بھی ڈر لگ رہا تھا۔
پر وہ ظاہر نہیں کر رہی تھی۔
کونسا جن ہے جو کھا جائے گا۔
اگر کچھ کہے گا تو میں بھی پھر بتاؤں گی آج۔۔
وہ کمرے کے باہر کھڑی خود سے باتیں کر رہی تھی۔
لگ تو آج پورا جن ہی رہا تھا۔
اس نے دل میں سوچا۔
آلتو جلالتو آئی بلا کو ٹال تو۔۔
وہ منہ میں بڑبڑاتی کمرے کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئی۔
۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندر آ کر وہ دروازہ بند کر کے چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔
یہ آج کیا نیا ڈرامہ لگایا ہے؟
حازم کھڑکی کے پاس کھڑا تھا۔
وہ پیچھے مڑے بغیر ہی بولا۔
کچھ نہیں۔۔
عنیزہ نے صوفے پر بیٹھ کے ٹانگیں سیدھی کی اور اسے جواب دیا۔
کیا مطلب کچھ نہیں!!
اگر تمھے چوٹ لگ جاتی تو۔
حازم نے مڑ کے غصّے سے کہا۔
تو۔۔
اتنی جلدی ٹیمپر لوز نا کیا کرو۔
کچھ ہوا تو نہیں نا۔ اور جو کام ہوا نہیں اس کے بارے میں سوچنے کا کیا فائدہ۔
دوسری بات تم خود ہی کہتے ہو کے غصّہ نہیں کرتے۔
اور اب خود ہی۔
ایوی خامخواہ ان بچاروں کو بھی ڈانٹ دیا۔
اس نے بول کے لمبا سانس لیا۔
ہاں میں پاگل ہوں نا۔
حازم جھجھلا کے بولا۔
عنیزہ اٹھی اور ورڈروب سے حازم کے کپڑے لے کے اس کی طرف بڑھی۔
یہ لو چینج کر لو۔
کپڑے اس کی طرف بڑھائے۔۔
حازم اس سے کپڑے لیتا بغیر کچھ بولے چینج کرنے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھابھی بھائی جان نے کیا کہا آپ کو؟
وہ نیچے آئی تو نوال نے فورا پوچھا۔
کچھ نہیں کہا۔
اس نے تو بس ویسے ہی بلایا تھا۔
وہ نوال کے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔
آپ کے کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟
ابراھیم نے فکرمندی سے پوچھا۔
نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔
عنیزہ نے مسکرا کے کہا۔
نوال کھانا بنا لیں؟
عنیزہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
جی بھابھی چلیں۔
وہ دونوں اٹھ کے کچن کی طرف چلے گئیں۔
عفت بیگم اور فواد صاحب گھر نہیں تھے۔ وہ لوگ فواد صاحب کے کسی دوست کے گھر گئے تھے اور واپسی پر حیدر صاحب کی طرف جانا تھا۔ وہ بتا کر گئے تھے کے ہم لوگ لیٹ ہو جائیں گے۔
نوال اور عنیزہ نے مل کر کھانا بنایا تھا۔
ان چاروں نے کھانا کھایا ۔ ابراھیم نے ان کی خوب تعریف کی تھی کے کھانا بہت مزے کا ہے۔ حازم کھانا کھا کر چپ چاپ اٹھ کے چلا گیا۔
برتن وغیرہ سب اٹھا کر وہ دونوں بھی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئیں۔
عنیزہ کمرے میں آ کر بیڈ کی پشت کے ساتھ ٹیک لگا کر ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گئی۔
اس کی لیفٹ ٹانگ میں گھٹنے کے نیچے بہت پین ہو رہی تھی۔ وہ شام سے اگنور کر کے لگی ہوئی تھی لیکن اب اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
جب وہ کمرے میں آئی تو اسے حازم کہیں نظر نا آیا۔ اسے لگا شاید وہ باہر ہو۔
اس نے سیدھی ہو کر ٹانگ سے اپنا ٹراوزر اوپر کھسکھایا تو گٹھنے کے نیچے سے اس کی ساری ٹانگ بلیو ہوئی ہوئی تھی۔
بائیک کا وزن اس کی ٹانگ پر ہی زیادہ آیا تھا۔
ابھی وہ دیکھ ہی رہی تھی جب بالکونی سے حازم کمرے میں آیا۔
عنیزہ نے اسے دیکھ کے فورا ٹراوزر نیچے کیا۔
حازم اسے دیکھ چکا تھا اور اس کی طرف آیا۔
کیا ہوا ہے تمہاری ٹانگ پر؟
اس نے بھرپور سنجیدگی سے پوچھا۔
کچھ بھی تو نہیں۔
عنیزہ اپنی طرف سے مسکرا کے گویا ہوئی کے اسے مطمئن کر دے۔
پر مقابل اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا چکا تھا کے کچھ تو ہے۔
دکھاؤ پھر مجھے۔
وہ اس کے سامنے بیٹھ کے بولا۔
کیوں؟
کچھ ہو تو دکھاؤں۔
اور تنگ نا کرو میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔
وہ بے زاری سے بولی۔
حازم نے اس کی ٹانگ پکڑ کے اس کا ٹراوزر اوپر کرنا چاہا۔
کیا کر رہے ہو۔
وہ اپنی ٹانگ کھینچتی بولی۔
پر کھینچنے میں ناکام رہی۔
حازم اس کو اگنور کرتا اوپر کر چکا تھا۔
اوہ مائے گاڈ۔۔
یہ۔۔
حازم آنکھیں کھولے اس کی ٹانگ کو دیکھ کے بولا۔
تم نے بتایا کیوں نہیں مجھے؟
اور اگر کوئی سیریس انجری ہو جاتی تو۔
تم ابھی بھی مجھے ڈانٹ رہے ہو۔
وہ رونے والے انداز میں بولی۔
تو اور کیا کروں؟
پہلے الٹی حرکتیں کرتی ہو پھر چوٹ لگوا کے بتاتی بھی نہیں ہو اور پھر تم چاہتی ہو کے تمھے ڈانٹا نا جائے۔
وہ کچھ نرم پڑا۔
تم بہت برے ہو۔ تم صرف ڈانٹ ہی رہے ہو تب سے۔ ایک بار بھی نہیں پوچھا چوٹ کا تم نے۔
کہتے ہوۓ اس کی آنکھ سے آنسو بہ نکلے۔
اچھا چپ کرو اب نہیں ڈانٹتا۔
حازم اس کے قریب ہو کر اس کے آنسو صاف کر کے بولا۔
وہ بے خودی میں اس کے گلے لگ گئی اور مزید رونے لگ گئی۔
عنیزہ چپ کرو یار کچھ نہیں ھوتا۔
حازم اسے دیکھ کے بولا۔
مجھے گھر میں کوئی نہیں ڈانٹتا تھا۔
اس نے رونے کے درمیان کہا۔
اوکے۔
اب میں بھی نہیں ڈانٹتا۔
چپ کرو۔
حازم نے اسے اپنے سے علیحدہ کر کے اس کے آنسو صاف کیے اور بیڈ سے اٹھ کے دروازے کے ساتھ والے ٹیبل کی طرف گیا۔
اس میں سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کے وہ واپس آیا۔
عنیزہ کی ٹانگ سیدھی کر کے اس پر ٹیوب لگانے لگا۔
آہستہ آہستہ۔
عنیزہ بولی۔
اوکے۔
حازم نے ٹیوب لگا کر پٹی کی۔
ہاتھ دھو کر آیا تو ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر میڈیسن اس کی طرف بڑھائی۔
اس نے چپ کر کے کھا لی۔
اب تم لیٹ جاؤ۔
حازم نے اس پر کمفرٹر اڑا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔