چائے پینے کے بعد حازم روم میں آ گیا تھا۔ اس کا ارادہ تیار ہونے کا تھا کیوں کے اسے تھوڑی دیر تک پولیس سٹیشن کے لیے نکلنا تھا۔
وہ ورڈروب کے سامنے کھڑا ہو کر اپنا یونیفارم نکال رہا تھا۔ تب ہی عنیزہ اندر داخل ہوئی۔
جو تم نے آج کیا ہے میں اس کے لیے تمھے کبھی معاف نہیں کروں گی۔
وہ اس سائیڈ پر کھڑی ہو کے بولی۔
کیا مطلب؟
کیا کیا میں نے؟
نیچے میرا پاؤں تم نے اپنے جوتے کی ہیل سے مثلا۔ بجائے سوری کرنے کے روب دکھا رہی ہو۔
اگر کوئی دیکھ لیتا تو۔
کیا عزت رہ جاتی میری۔
وہ غصّے سے آہستہ آواز میں بولا۔
مسٹر یہ ردعمل تھا۔
جو تم نے وعدہ کیا اور بعد میں پورا بھی نہیں کیا۔
وہ منہ کے زاویے بناتے بولی۔
کونسا وعدہ؟؟
جو میں نے پورا نہیں کیا۔
کون۔۔
وہ بول رہا تھا جب اندر ہی وہ بول پڑی۔
اب اتنے بھولے بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ رات کو کہا تھا نا کے صبح اٹھاؤں گا۔ پھر اٹھایا کیوں نہیں؟
وہ تیکھے تیور لیے بولی۔
توبہ کرو لڑکی۔
کیسے کیسے نہیں اٹھایا میں نے تمھے۔
پہلے تمہیں اتنی آوازیں دیں۔ پھر الارم بھی تمہارے کان کے قریب کیا پر تم تو ہلی بھی نہیں۔
اس کے بعد میں نے تمہاری بازو سے پکڑ کے ہلایا بھی۔
پر تم پتہ نہیں کون سے گھدے گھوڑے بیچ کے سو رہی تھی۔ ایسی بھی کیا نیند ہوئی یار۔
یہ سب کرنے کے بعد میں نیچے چلا گیا۔ کیوں کے میں لیٹ ہو رہا تھا۔
وہ خوفگی سے بول رہا تھا۔
ایسا تو نہیں ہو سکتا۔ ضرور تم نے سہی سے اٹھایا نہیں ہو گا۔ ورنہ میں اٹھ جاتی۔
وہ ادھر ادھر دیکھ کے بولی۔
یہ دیکھو بی بی۔
آئندہ سے خودی اٹھنا۔
میں نہیں اٹھاؤں گا۔
حازم ہاتھ جوڑ کے بولا۔
مجھے تو لگتا ہے تم فجر کی نماز بھی نہیں پڑھتی۔
فجر کی کیا کوئی بھی نہیں۔
جب سے آئی ہو کبھی تمھے نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔
حازم یہ بات کافی دنوں سے اس سے کرنا چاہ رہا تھا پر صحیح موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔ آج اسے مناسب لگا تو اس نے کہ دیا۔
پہلے میں پڑھتی تھی۔ پھر میں نے چھوڑ دیں۔ کیوں کے ٹائم نہیں ملتا تھا۔
وہ شرمندہ سی بولی۔
یہاں سب نماز پڑھتے تھے بس ایک وہ ہی نہیں پڑھتی تھی۔
استغفرالله۔۔
وہ بہت آہستہ آواز میں منہ میں بولا جو عنیزہ کو بھی سنائی نہیں دی۔
کیا مطلب ٹائم نہیں ملتا؟
ایسی کونسی مصروفیت ہے جو ٹائم نہیں ملتا۔ دنیا جہان کے کام بھی تو کرتی ہو۔ ایک نماز کا ٹائم نہیں۔
حیرت کی بات ہے ویسے۔
مجھے تو لگتا ہے نماز ہی سے کامیابی ہے۔ اس کے بغیر زندگی بےمعنی سی لگتی ہے یار۔ ایک بھی وقت پر ادا نا ہو تو ایسے لگتا جیسے پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔
مطلب اتنی بھی کیا مصروفیت ہوئی؟
اور تم کیا کرتی ہو نماز کا ٹائم نہیں ہوتا۔
نماز ہی سے تو اللّه کی مدد آتی ہے۔
اور میں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جو لوگ نماز چھوڑ دیتے ہیں کیا ان کے پاس سچ میں ٹائم نہیں ہوتا یا اللّه ہی انھیں اپنے سامنے کھڑا کرنا نہیں چاہتے؟ بندے کی کیا مجال کے وہ نماز نا پڑھے۔ اگر اللّه چاہیں تو۔
اللّه چاہیں تو ہی بندا اس کی عبادت کرتا۔
بول کے وہ کچھ دیر کے لیے چپ ہوا۔
ایک اور بات۔۔
سکون صرف اللّه کی یاد میں ہے۔
وہ اتنا کہ کے واشروم کی طرف چلا گیا۔
پیچھے عنیزہ سوچوں میں گم ہو گئی۔
جو حازم نے کہا کیا وہ ٹھیک تھا؟
اللّه مجھے سچ میں۔۔۔۔
اس کے آگے فل اسٹاپ آ رہا تھا۔
اسے ایک منٹ کے لیے لگا شاید جو اس کے ساتھ ہوا وہ اللّه کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے ہی ہوا۔
کیا کیا نہیں کرتی تھی وہ۔
گانے وہ سنتی تھی فلمیں وہ دیکھتی تھی۔ کیا اس سب کا ٹائم اس کے پاس تھا۔
یہ سوچتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔
کتنا روکتے تھے اس کو اس کے بابا۔
پر وہ۔۔
کیا اللّه میرے سے ناراض ہیں؟
اس نے دل میں سوچا۔
نہیں نہیں۔
اللّه تو بہت غفور و رحیم ہیں۔ وہ اپنے بندے سے ناراض نہیں ہوتے۔ میں ان سے معافی مانگ لوں گی۔
وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔
اپنے آنسو صاف کیے اور بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم نہا کر نکلا تو سیدھا ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
گیلے بال ، دھلا دھلا سا چہرہ، براؤن آنکھیں ، تیکھا ستواں ناک ، سرخ و سفید رنگت ، منہ پر سنجیدگی سجائے وہ کسی کو بھی زیر کرنے کا ہنر رکھتا تھا۔
بال برش کرتے اس کی نظر بیڈ پر بیٹھے وجود پر گئی۔
جو بیٹھے بیٹھے ہی سو رہی تھی شاید۔۔
اتنی جلدی کوئی کیسے سو سکتا ہے۔
اس نے دل میں سوچا۔
اسے یہی تو کام ہے لڑائی سونا اور رونا۔۔
وہ اس کے وجود کو آئینے میں سے دیکھتے ہوۓ سوچ رہا تھا۔
بال سیٹ کر کے وہ والٹ اور چابی اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
کچھ یاد آنے پر دوبارہ واپس آیا۔۔
بیڈ سے بلینکٹ اٹھا کر عنیزہ کے اوپر دیا اور واپس چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کا وقت تھا جب عنیزہ کی آنکھ کھلی۔
وہ اٹھی زور سے انگڑائی لی اور بیٹھ گئی۔ ٹائم کی طرف نظر گئی تو چار بج رہے تھے۔
اوہ۔۔
میں اتنی دیر کیسے سو گئی۔
آنٹی نیچے ویٹ کر رہی ہوں گی۔ اور اب تو نوال بھی انسٹیٹیوٹ چلے گئی ہو گی۔ آج تو میں نے بھی جانے کا سوچا تھا۔
وہ پریشان ہوئی۔
ابھی وہ اٹھی بھی نہیں تھی جب نوال کمرے میں داخل ہوئی۔
بھابھی وہ نیچے۔۔۔
جی کیا؟
اور تم آج انسٹیٹیوٹ نہیں گئی؟
چلو اچھا ہے اکھٹے چلتے ہیں میں نے بھی جانا ہے۔
وہ اسے دیکھ کے اپنی ہی دھن میں بولنے لگ گئی۔
بھابھی۔۔
میں آپ کو بلانے آئی تھی۔
اور آج میں نے انسٹیٹیوٹ نہیں جانا کیوں کے گھر میں گیسٹ آئے ہوۓ ہیں۔
کل جانا ہے تو ہم اکھٹے چلے جائیں گے۔
نوال بھی ایک سانس میں بولی۔
اچھا۔۔
سوری۔۔
وہ میں اپنے ہی دیہان میں بول گئی۔
اور گیسٹ کون آئے ہیں؟
عنیزہ بیڈ سے اٹھ کے بولی۔
وہ فردوس آنٹی اور عفاف آئیں ہیں۔
اس نے رک رک کے بتایا۔
عنیزہ ساکت اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی۔
بھابھی ماما کہ رہی ہیں کے آپ نیچے آ جائیں۔
وہ جھجھکی۔
میری طبیعت خراب ہے۔
آنٹی کو میری طرف سے معذرت کر دینا۔ میں نیچے نہیں آؤں گی۔
اور جو گیسٹ آئیں ہیں ان کو میرا ایک پیغام دے دینا۔
اپنے گھر سے تو نکال دیا ہے کیا اب یہاں بھی رہنے دینا ہے کے نہیں۔ اور ہاتھ جوڑ کہنا کے میرے پیچھے آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مر بھی جاؤں تو تب بھی۔
ان پر تو میں بوجھ تھی۔
تو اب کیا کرنے آئیں ہیں وہ لوگ۔
جو بوجھ ہوتا ہے اس کے پیچھے نہیں جایا جاتا۔ پہلے ہی بہت مشکل سے میں ان کی جان چھوڑ کے آئی ہوں۔
ان کی زندگی میں تو شاید میں عذاب تھی۔ جو سر سے اتارنے کی کوشش کی۔
ایسا تو کوئی سوتیلوں کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔
بس کریں آپی۔۔
عفاف کب سے باہر کھڑی سن رہی تھی۔
مزید اس سے رہا نہیں گیا تو وہ اندر آ گئی۔
مہربانی کرو۔
اور پلیز آئندہ آپی نا کہنا۔
جو آپ لوگوں کی آپی تھی وہ مر چکی ہے ۔ یہاں تو عنیزہ حازم آفندی کھڑی ہے۔
جس کو آپ لوگوں نے بدکردار بنا دیا۔ بنایا بھی کیا بلکے اچھے سے ثابت بھی کیا۔
اب تو میں خود کو بھی بد کردار ہی لگتی ہوں۔
عنیزہ بغیر مڑے ہی بول رہی تھی۔
یہ سب سن کے عفاف کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
وہ آنسو صاف کرتی باہر باگ گئی۔
نوال بھی اس کے پیچھے ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے کمرے میں آیا۔
اس نے ادھر ادھر نظر دورائی تو تواقع کے بر عکس کمرے کی حالت خراب نہیں تھی۔
اسے جھٹکا لگا۔
عنیزہ غصّے میں ہو اور کمرے کی ہر چیز اس کی جگہ پر ہو۔
نا ممکن سا لگا تھا اسے۔
اب کمرے کو ٹھیک دیکھ کے اسے حیرت ہو رہی تھی۔
صوفے کی دوسری سائیڈ پر نظر گئی تو وہ جائےنماز پر بیٹھی دعا مانگنے میں مصروف تھی۔
اسے دیکھ کے حازم کو بہت خوشی ہوئی۔
کم از کم وہ اس کی بات پر عمل تو کرتی تھی۔
وہ صوفے کے سامنے ٹیبل پر ٹرے اور ایک بیگ رکھتا کپڑے چینج کرنے چلا گیا۔
حازم چینج کر کے نکلا تو عنیزہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ آ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
عنیزہ یہاں آؤ۔
بیٹھتے ہی اس نے اسے پکارا۔
کیوں؟
وہ بےزاری سے بولی۔
کیوں کا کیا مطلب؟
اس سے تو لڑائی ہوتی ہے۔
اور آج مجھے تمہارا لڑائی کا کوئی موڈ نہیں لگ رہا۔
وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
کیا مطلب تمہارا؟ میرا لڑائی کا موڈ کیوں نہیں لگ رہا۔
عنیزہ اسے گھور کے بولی۔
مطلب آج اللّه سے باتیں کی ہیں۔
غصّہ تو تب ہی ختم ہو گیا ہو گا۔ اور ہمیں بھی تو بتاؤ کیا کیا باتیں کی۔
کیسا لگا اللّه سے بات کر کے۔
ہمارا بھی کوئی ذکر کیا یا خود کے لیے ہی سب کچھ مانگ لیا۔
وہ اس کی طرف دیکھ کر نرمی سے بول رہا تھا۔ آج دن میں جو ہوا اسے عفت بیگم نے بتایا تھا اور اسے پیار سے سمجھانے کا کہا تھا۔
یہ میرا اور اللّه کا معملا ہے اس سے تمھے کیا۔
اس نے منہ بنا کے کہا۔
اوکے۔
نا بتاؤ۔
اور یہ کھانا کھا لو۔ ماما نے تمھارے لیے بجھوایا ہے۔
حازم کھانے کی طرف اشارہ کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
میرا موڈ نہیں ہو رہا۔ اور نا ہی مجھے بھوک ہے۔
یہ رزق بھی اللّه کا دیا ہوا ہی ہے۔ اور اسے دھدکارتے نہیں ہیں۔ اس کی قدرو قیمت ان سے پوچھو جس کے پاس یہ نہیں ہے۔
کیسے وہ ایک وقت کے کھانے کے لیے ترستے ہیں۔
اس کے کچھ اور کہنے سے پہلے ہی وہ بولا۔
حازم کی بات سن کے وہ بیڈ سے اٹھی اور صوفے کی طرف آ گئی۔ ٹرے اپنے آگے کی اور کھانا شروع ہو گئی۔
حازم اس کی طرف دیکھ کے مسکرایا۔
ایک بات بتاؤ۔۔
ہمم کیا۔۔
وہ کھانے کے دوران بولی۔
یہ آج کمرے کی حالت ٹھیک کیوں ہے؟
عنیزہ نے تیکھے تیور لیے اسے دیکھا پر بولی کچھ نہیں۔
اوکے۔
کھانا کھا لو۔
وہ اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر بولا۔
اس نے کھا کر ٹرے ایک سائیڈ پر کر دی۔
وہ صوفے سے اٹھنے ہی لگی تھی جب حازم بول پڑا۔
بیٹھی رہو۔
مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔
وہ بغیر سوال کیے بیٹھ گئی۔ اسے پتہ تھا وہ کیا بات کرے گا۔
آج تمہاری ماما لوگ آئے تھے۔ اور تم ملی بھی نہیں۔
وہ آہستہ آواز میں بولا۔
میں اس کے متعلق کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔
اگر اور کوئی بات ہے تو بتاؤ ورنہ مجھے نیند آ رہی ہے۔
وہ بات ختم کرنے کے انداز میں بولی۔
اس کے متعلق کیوں نہیں بات کرنا چاہتی۔
وہ لوگ تمھارے پیرنٹس ہیں۔ ایسا رویہ بھی رکھتا ہے کوئی۔
جو بھی ہوا کیا ان کی وجہ سے ہوا۔
کیا کوئی چاہتا ہے کے اس کی اولاد کے ساتھ ایسا ہو۔
اور اگر تمہاری شادی ہو جاتی اور خدا ناخواستہ شادی کے بعد وہ لڑکا ٹھیک نا نکلتا یا کوئی بھی اور مسلہ تب کیا کرتی۔
پیرنٹس کبھی بھی اپنی اولاد کا برا نہیں سوچتے وہ اچھا ہی سوچتے ہیں۔
تمھے اپنا دکھ تو دکھ لگ رہا ہے پر جو ان پر بیتی ہوئی ہو گی اس کا کیا؟
پلیز میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ اور ویسے بھی یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے۔ یہ میرا ہے میں خود ہی اسے ہینڈل کر لوں گی۔
وہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔
جو تمہارا مسلہ ہے وہی میرا ہے۔ کیوں کے بیوی ہو تم میری۔
حازم اس کی بات سن کے سخت لہجے میں بولا۔
ہاں ہوں۔
زبردستی کی۔
اور مجبوری میں بنائے گئے رشتوں کی میری نظر میں کوئی ویلیو نہیں۔
وہ کھڑی ہو کے اونچی آواز میں بولی۔
واؤ یار۔
آج توکمال ہی کر گئی اور شکر ہے تمھارے دل کی بات تو سامنے آئی۔
ہماری کہاں ویلیو ہو گی تمہاری نظروں میں۔
ہم مفت میں جو مل گئے ہیں تمھے۔
اتنی کیئر کرنے والی فیملی کی کوئی ویلیو ہی نہیں۔
زبردست۔۔
حازم بھی اس کے مقابل کھڑا بول رہا تھا۔
وہ تو اس کی بات سن کے شوکڈ میں آ گیا تھا۔
میرا کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا۔
عنیزہ بات کا رخ بدلتے دیکھ بولی۔
جو بھی تھا میں اچھے سے سمجھ گیا۔
آج سے تم جو بھی کرو گی کوئی تمھے کچھ نہیں کہے گا۔
خوش رہو۔
حازم کہ کے بیڈ کی طرف چلا گیا۔
اور لائٹ اوف کر دی۔
اللّه جی۔
یہ میں نے کیا کر دیا۔
وہ صوفے پر بیٹھ کے ہاتھوں میں سر لیے سوچنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن گزر چکے تھے۔
حازم اور عنیزہ کے درمیان بات چیت بلکل بند تھی۔
عنیزہ نے نوال کے ساتھ انسٹیٹیوٹ جانا شروع کر دیا تھا۔ گھر میں اس کا ٹائم نہیں گزرتا تھا۔
سارا دن وہ عفت بیگم کے ساتھ گزارتی تھی۔ ان کے ساتھ رہنے سے اس کا کافی حد تک دل لگ گیا تھا۔ اور تھوڑے بہت کچن کے کاموں کا بھی پتہ چلی جا رہا تھا۔
عفت بیگم نے اسے چائے بنانا بھی سیکھا دی تھی۔
آج عفت بیگم اسے ساتھ لے کر گروسری کرنے گئیں ہوئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا ہے جگر۔
دو تین دنوں سے تیرا موڈ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔
اور آج مجھے کرم دین بھی کہ رہا تھا۔
بابر حازم سے کچھ ڈسکس کرنے آیا تھا تو اسے چپ چاپ بیٹھا دیکھ کے بولا۔
کچھ بھی نہیں یار۔
بس ویسے ہی۔
حازم سنجیدگی سے بولا۔
جھوٹ نا بول۔تیرے منہ سے مجھے صاف پتہ چل جاتا ہے۔ اور اب تو میرے سے باتیں چھپائے گا۔۔
جہاں تک مجھے لگتا ہے ضرور بھابھی سے لڑائی ہوئی ہو گی۔
بابر سوچنے کے سے انداز میں بولا۔
نہیں یار۔
حازم پھر اتنا ہی بولا۔
اوئے یہ کیا تم نے نہیں یار نہیں یار لگایا ہوا ہے۔ سیدھی طرح سے بتاتا کیوں نہیں۔
اور ایسا منہ کبھی تم نے میرے سے تو لڑائی کر کے بنایا نہیں۔
آخر کو ایک حساب سے میں بھی تیری ایکس گرل فرینڈ ہی تھا۔
وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
حازم کا قہقہ گھونجا۔۔
بیوقوف لڑکے۔
کیوں اپنی جینڈر چینج کرنے پر لگے رہتے ہو۔
حازم ہنسنے کے دوران بولا۔
اب ہنس لے۔
میری زندگی تباہ کر کے۔
وعدے میرے سے اور شادی کسی اور سے۔
وہ منہ بسور کے بولا۔
بابر میں بتا رہا ہوں اگر تیری یہی حرکتیں رہی نا تو کوئی لڑکی تیرے سے شادی نہیں کرے گی۔
اوہ کالی زبان۔
چپ کر۔
خود تو شادی کر لی ہے۔ بجائے کے مجھے حوصلہ دو آگے سے بدعائیں دے رہے ہو۔
تجھے تو چاہیے کے تم اور بھابھی مل کر میرے لیے رشتہ ڈھونڈو۔
وہ خوفگی سے بولا۔
ہاں ہم دونوں تو ڈھونڈ ہی لیں گے۔
بس انتظار کر۔
واہ جی واہ۔
بھابھی کے نام پر ساتھ ہی مسکراہٹیں۔۔
بابر مسکرا کے بولا۔
ہٹ جا کمینے۔
خود تو فارغ ہو مجھے بھی باتوں میں لگا لیتے ہو۔
حازم فائل کھول کے بولا۔
ہاں اب تجھے فارغ ہی لگنا میں نے۔
ایک تیرا موڈ سیٹ کروں۔
اور پھر فارغ بھی میں۔
وہ چہرے پر مصنوعی سنجیدگی سجائے بولا۔
تو تو جان ہے۔
بس کر۔
یہ لفظ کہ کے تو دل کے سوئے ہوۓ جذبات جگا دیتا ہے۔
اچھا یار باقی باتیں بعد میں میں تم سے ضروری بات ڈسکس کرنے آیا تھا پہلے وہ کر لیں۔
بابر سنجیدہ ہو کر بولا۔
اوکے۔
تو بتا میں سن رہا ہوں۔
حازم نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم آج کافی لیٹ گھر آیا تھا۔
کھانا کھا کر کمرے کی طرف آ گیا۔
دروازہ کھولا تو کمرہ اندھیرے میں ڈھوبہ ہوا تھا۔
اس نے اندر آ کر آہستہ سے دروازہ بند کیا اور الماری سے کپڑے لے کر چینج کرنے چلا گیا۔
چینج کر کے آیا تو ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہو کر بال سیٹ کیے۔
آئینے کے اندر سے نظر اس کی عنیزہ کی جانب گئی جو بیٹھے بیٹھے ہی سو رہی تھی۔
ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتا کے بیٹھ کے سونے کا کیا مطلب ہے۔
اگر سونا ہی ہے تو بندا لیٹ کر سو جائے۔
حازم نے دل میں سوچا۔
وہ برش رکھ کے اس کی طرف بڑھا۔
ابھی وہ اسے سیدھا کرتا اس کے ہاتھ میں حازم کو ایک کارڈ نظر آیا۔
اسے پکڑ کے باہر سے دیکھا تو وہ بلکل خالی تھا۔ اس نے سائیڈ پر رکھ دیا۔
وہ اسے لٹا کے اوپر کمفرٹر ڈال کے مڑنے ہی لگا تھا جب کسی خیال کے تحت واپس آیا اور ٹیبل سے وہ کارڈ اٹھایا۔
ابھی وہ کھولتا اس کے ذہن میں خیال آیا۔
یہ بری بات ہے کسی کی چیز کو دیکھنا۔
مزید کوئی خیال آنے سے پہلے اس نے وہ کارڈ کھول لیا۔
اس میں لکھے الفاظ پڑھ کے اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔
I'm sOrry fOr all..
The things i've dOne just knOw i never meant tO hurt yOu..
I'm nOt perfect..
I make mistakes..
I hurt peOples..
I'm truly sOrry fOr my wOrds and actiOns..
Please fOrgive me..
. . . . . . . . H. . . . . . . . . .
نیچے H دیکھ کے حازم کو یقین ہو گیا کے یہ اسی کے لیے ہی ہے۔
اسے خوشی ہوئی تھی کے اسے اپنی غلطی کا احساس تو ہے۔ اس نے ویسے ہی کارڈ عنیزہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
وہ اسے یہ نہیں ظاہر کرنا چاہتا تھا کے وہ پڑھ چکا ہے۔
وہ اپنی سائیڈ پر آ کر لیمپ اوف کر کے لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔