’’مجھے ارشم سے طلاق چاہیے ‘‘ سکندر خان کے دائیں طرف صوفے پر بیٹھی امازیہ نے کہا
’’ کیوں ‘‘ سکندر خان نے تحمل سے پوچھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بات جذبا ت اور غصے سے قابو نہیں کی جا سکتی
’’کیونکہ میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ‘‘ اس کے لہجے میں آج نفرت نہیں تھی برہمی تھی غصہ تھا،
’’ تم کیا کہتے ہو ارشم ‘‘ سکندر خان ارشم کی طرف متوجہ ہوا جو امازیہ کے ساتھ تھوڑے فاصلے پر صوفے پر بیٹھا تھا
’’ میں اس کے سامنے اپنی شرط واضح کر چکا ہوں اور آپکو بھی بتا دیتا ہون کہ میں اس کو اس دن طلاق دونگا جس دن میں کسی اور سے نکاح کرونگا اگر آپ دونوں کو یہ شرط منظور نہیں ہے تو آپ۔۔۔۔ آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں ایک بات اور تایا جان۔۔۔ امازیہ کو لگتا ہے کہ میں نے اسے اغواہ کروایا تھا تو یہ بات میں آپ کے سمنے واضح کر دوں کہ میں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی مگر یہ سب مشہور بزنس ٹائیکون رفیق صاحب نے مجھ سے میرا ڈریم پروجیکٹ لینے کے لئے کیا تھا اور امازیہ کو چھڑوانے کے لئے ہی میں نے اپنا پروجیکٹ اسے دے دیا تھا آپ چاہے تو اس بات کی تحقیقات کر وا سکتے ہیں اور مین بھی اس بات پر قسم اٹھانے کو تیار ہوں باقی میرے پاس میرے بے گناہی کا کوئی ثبوت نہیں ہے ‘‘ ارشم کے لہجے میں ااج بد گمانی تھی۔ سکندر خان کی نظریں شرم اور پچھتاوے سے جھک گئی اور پھر گویا ہوئے’ ٹھیک ہے اگر تم دونوں اپنے فیصلے پر قائم ہو تو کورٹ کچہری کے چکرون سے بہتر ہے کہ ارشم کی شرط مانتے ہوئے یہ اپنے دوسرے نکاح کے دن ہی امازیہ ک۳و طلاق دے دیں ‘‘ سکندر خان نے فیسلہ کیا تو امازیہ کو لگا جیسے وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر گئی ، جیسے اس نے اپنی زندگی میں بہت ہی اہم کچھ کھو دیا ہے اور ارشم کی تو جیسے دنیا ہی لٹ گئی ہو ۔ سکندر خان نے بھی دکھ سے منہ موڑ لیا تھا جبکہ باقی سب کا بھی یہی خیال تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم بہت غلط کر رہی ہو ۔۔بہت پچھتاو گی ‘] آج پورے دو ہفتے بعد علمص امازیہ سے اس بارے مین بات کر رہی تھی
’[ تو کیا کروں بار بار اپنی عزت نفس کا مزاق۔۔۔ مین اس سے ناراض تھی تو وہ مجھے راضی بھی تو کر سکتا تھا اس نے تو کبھی مجھے راضی کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔۔ مجھے راضی کرنے کے بجائے اس نے تو۔۔۔۔ ‘‘ اس نے علمص کو جواب دیا اور دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی
’’ علمص تمہیں امی بلا رہی ہے ‘‘ علمص کے مذید کچھ کہنے سے پہلے ارشم اندر آیا اور اس نے علمص کو عدیرہ بیگم کا پیغام دیا
’‘ شاپنگ جا رہے ہیں تم نہیں جاوگی ‘‘ کھڑکی میں کھڑی امازیہ کو اس نے کہا جو باغ میں لگے پھول دیکھ رہی تھی
’’نہیں تم لوگ جاوٗ میرا مود نہیں ہے ‘‘ آج اس نے تلخ جواب دینے کے بجائے نارمل سا جواب دیا
’’ تمھاری favorite مال پہ جائینگے ‘‘ وہ اس کے پاس آکر کھڑا ہوا
’’جہان مرضی چاہے جاو مجھے نہیں جانا کہی ‘‘ اس کی آواز بھر آئی تھی اور آنکھین آنسوں سے لبریز تھی۔ ارشم اس کی خالت کو محسوس کرتے ہوئے بغیر کچھ کہے وہاں سے پلتا
’[ میرا شوھر مجھ سے کہہ رہا ہے کہ میری دلہن کے لئے شاپنگ کر لو۔۔۔ تم بہت ظالم ہو ارشم خان بہت ظالم۔۔۔ تم مجھے آرام سے مرنے بھی نہین دوگے ‘‘ اس نے دل ہیدل میں کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی یہ ٹھیک نہیں کر رہے آپ ‘‘ شاپنگ مال مین چلتے چلتے علمص نے کہا
چپ کر کے شاپنگ کرو تم۔۔۔۔ اور ہاں اپنی بھابھی کے لئے بھی اچھی اچھی چیزیں لینا ‘] ارشم نے علمس کے سر پر چھپت لگائی
’’ کونسی بھابھی کے لئے ‘‘ علمس نے مزاقا کہا
’[ کتنی بھابیاں ہے تمھاری ‘] اس نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا اور پھر دونوں زور سے ہنسے اور پھر ایک دکان کی طرف بڑھے جہاں عدیرہ بیگم کپڑے دیکھنے میں مصروف تھی
شاپنگ سے واپسی پر پر عدیر بیگم امازیہ کو کپڑے اور دوسری شاپنگ کی چیزیں دکھا رہی تھی جو انہوں نے لی تھی
’[ یہ دیکھو امازیہ ۔۔۔ یہ تمھارے لئے ہے۔۔ علمص نے پسند کیئے ہے اگر تمہیں پسند نہیں تو چینج بھی کروا سکتے ہیں ‘‘ انہوں نے امازیہ کو دو تیں سوٹ پکڑائے جو واقعی میں بہت خوبصورت تھے
’’ اچھے ہے چچی جان ‘‘ امازیہ بے دلی سے مسکرائی اور ایک گیڑ ارادی نطر ارشم خان پر پڑی تو وہ اسے دیکھتے ہی رہ گئی جو بے نیازی سے بیٹھا کارڈ دیکھ رہا تھا
’’ کتنے پر سکون ہو نا ارشم۔۔۔ مجھے بے سکوں کر کے ‘] اس نے سوچھا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی
’’ مجھے مت تڑپاو ارشم۔۔۔ میرے صبر کا امتحان مت لو۔۔۔میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں تیرا ساتھ چاہتی ہوں ہاں میں تھوڑی سی بیوقوف ہوں بلکہ بہت بیوقوف ہوں ۔۔۔ مگر مین ہھر بھی تم سے محبت کرتیہوں اگر مین کہہ نہین پاتی لیکن تم تو مجھ سے محبت کے دعوے دار سمجھ سکتے ہو نا۔۔۔ میری ان کہی سمجھ لو نا ارشم۔۔۔ اگر میں کہوں بھی تو بھی مجھے چھوڑ کر مت جاو۔۔میں جاوٗں بھی تو بھی مجھے جانے مت دو۔۔۔‘‘ایک لڑکی جب کچھ کہہ نہیں پاتی تو وہ اپنے احساسات اپنے جذبات اپنے سارے الفاط ڈائری میں لکھ دیتی ہے امازیہ بھی کسی س کہہ نہٰن پاتی تھی تو اس نے اپنے الفاط اپنا اظہار لکھ ڈالا
’’ میں امازیہ ارشم خان اقرار کرتی ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے۔۔میں قبول کرتی ہوں کہ میرے دل کے کورے کاغذ پر صرف تمھارہ نام نقش ہے ۔۔۔ امازیہ صرف تمھاری ہے ارشم۔۔ پھر یہ کہنا ضروری کیوں ہے بن کہے تم کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ مین کسی اور کے سا تھ �آپکو برداشت نہیں کر سکتی ‘‘ اس نے ڈائری بند کر کے بیڈ سے سر ٹکا دیا۔ ہم دوسروں کے الفاط تک نہیں سمجھ سکتے پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمارے ان کہی سمجھ لیں۔۔۔ جو ہم اپنے لیے چاہتے ہیں کاش وہ دوسروں کے لیئے بھی چاہتے تو زندگی کتنی حسین ہو جاتی.....
3rd ستمبر سے پہلے سب کچھ تیار ہو جانا چاہیئے ‘‘ ارشم نے ایک نظر آئینے کے سامنے کھڑی امازیہ پر ڈال کر کہا اور گنگناتے ہوئے کمرے سے نکلا امازیہ نے مڑ کر دروازے کو دیکھا جس سے ابھی ابھی ارشم نکلا تھا
3rd ستمبر یعنی د و دن بعد ‘‘ اس نے خود کلامی کی اور پھر ہاتھ میں پکڑا ہیئر برش رکھ کر کچن کی طرف بڑھی اور مگ میں کافی نکال کر چمچ چلانے لگی اتنے مین ارشم بھی اس کے پیچھے آگیا
’’ ڈیکوریشن کا سارہ سامان آگیا ہے۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ساری ڈیکوریشن اپنی نیگرانی مین کرواوٗ ۔۔۔۔ علمص بھی ساتھ ہوگی ‘‘ ارشم کچن مین اس کے ساتھ کاونٹر سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا
’’ میں کیسے یہ سب۔۔۔۔ ‘] امازیہ نے منع کرنے کی کوشش کی
’’ تم کر سکتی ہو امازیہ ۔۔۔ تم ہی کر سکتی ہو میں اس معاملے میں ملازموں پر بھروسہ نہیں کر سکتا مجھے سب کچھ بہترین چاہیے اس دن۔۔ تا کہ پوری۔۔۔۔ ‘‘ ارشم کے بات مکمل کر نے پہلے ہی امازیہ اپنا کپ نکال کر کچن سے چل دی
’’ ارشم نے ایک زور دار قہقہ لگایا جس کی مسکراہٹ میں فتح تھی ، کامیابی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلدی کرے بھابھی مہمان آنا شروع ہو گئے ہیں ‘‘ علمص نے دوسری بار اسے اطلاع دی
’’ میں تیار ہو جاوٗنگی تم پلیز جاو یہاں سے۔۔۔ اور کوئی اوپر نہ آئے مجھے بلانے ‘‘ اس نے دروازہ کھولے بغیر علمص کو جواب دیا اور پھر گھٹنوں میں منہ چھپا کر بلند آواز میں رونے لگی تھوڑی دیر مین اس کی آواز ہچکیوں میں تبدیل ہو گئی
’’ عورت کی عزت نفس کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے پہلے وہ حق کے لئے لرتی ہے لیکن جیسے ہی وہ اپنے محبوب شوھر کو کسی اور کی دسترس میں جاتا ہوا دیکھتی ہیں تو اس کی انا ، اس کی عزت نفس چور چور ہو جاتی ہے اسکا سارا غرور خاک ہو جاتا ہے پھر وہ اپنے عزت نفس کی جنگ چھوڑ کر اپنے محبوب کو اپنے شوھر کو واپس پانے کی جنگ لڑتی ہے ۔ امازیہ خان بھی آج اپنے عزت نفس کی جنگ چھوڑ کر اپنے شوھر کو پانے کی جنگ لڑ رہی تھی ۔ آج اس کے آنسوٗں میں پچھتاوا ہی پچھتاوا تھا۔ تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی ارشم نے نظر بھر کے لئے امازیہ کو دیکھا جو صوفہ پر بیٹھی پاوٗں اوپر کئے، بازون ٹانگوں کے گرد لپٹیسر گھٹنوں میں چھپائے رو رہی تھی
’’اب کیوں رو رہی ہو امازیہ ‘‘ ہو امازیہ کے قریب آیا اور اپنے ہاتھوں سے اسکا چہرہ اوپر کیا جو بھیگا ہوا تھا
مگر وہ کوئی جواب دئے بغیر ہچکیوں سے رو رہی تھی
’’ مجھے معاف کر دو امازیہ۔۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں میں نے تمہیں بہت تنگ کیا بہت ہرٹ کیا ۔۔ مگر اب وعدہ کرتا ہوں آج سے آپکو بالکل تنگ نہیں کرونگا۔۔۔ تم جیسا کہوں گی ویسا کرونگا ‘‘ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس نے امازیہ کے ہاتھ اس کے چہرے ے جدا کر دیئے
’’ تم شادی مت کرو ارشم ‘‘ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے انسوٗں سے تر چہرہ صاف کیا
’’میری شادی ہو چکی ہے امازیہ۔۔۔۔۔۔۔ تمھارے ساتھ ‘] اس کے ہاتھ اب امازیہ کے ہاتھوں میں تھے اور امازیہ نا سمجھی سے اسے دیکھتی رھی
’’پھر یہ سب تیاریاں ۔۔۔۔ یہ مہمان۔۔۔ یہ سب کیوں کس لئے ۔۔‘‘
’’ یہ سب تمھارے لئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے لئے ہیں‘]
’’ کیا مطلب ‘‘
’’امازیہ ۔۔۔ تمھارے سامنے میری شادی کا نام لیا ہے کسی نے میری شادی کا چھوڑو کسی شادی کا نام لیا گیا ہے تمھارے سامنے ‘‘؟؟
’’ پھر یہ سب تیاریاں ۔۔۔ وہ کارڈ ۔۔ وہ شاپنگ ۔۔۔ یہ سب کیا ہے ‘‘ ارشم نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور پھر بالے
’’ میری بیوقوف سی لائف پارٹنر ۔۔۔ آج تاریخ کیا ہے ‘‘
’’3rd ستمبر ‘‘
’’ 3rd ستمبر یعنی ہماری میرج اینیورسری ‘‘ اس نے جواب دیا اور اٹھ کھڑا ہوااوہ ہاں مجھے تو یاد ہی نہیں رہا ‘‘
’’جی ‘‘
اس کا مطلب کہ تم دوسری شادی نہیں کر رھے ہو ‘‘؟؟ وہ بھی صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی
’’ نہیں یہ تو ہماری میرج اینورسری کا سر پراٗز تھا اور تمھاری عقل ٹھکانے لانے کا ایک پلان ‘‘
’’ اور پھر وہ لڑکی کوں تھیجس سے تم بات کر رہے تھے ‘‘
’’ ہا ہا ہا ارشم ہنسا اور پھر کہا ’’ جمال صاحب کی بیٹی میری نئی بزنس پارٹنر ‘‘
’’ ارشم تم بہت بد تمیز ہو ‘‘
’’ تمیز سے امازیہ ارشم خان۔۔‘‘ امازیہنے اس کے سینے پر ایک مکا رسید کیا اور پھر اس کے کاندھے سے سر ٹکا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔