امازیہ جو ہوا سو ہوا اب یہی تمہاری زندکی ہے اسے خوشی سے گزارو۔۔ جو اچھا لگتا ہے اسے قبول کر لو اور جو اچھا نہیں لگتا اسے تبدیل کر لو ۔۔۔ تم اپنی محبت سے اسے تبدیل کر سکتی ہو تم ارشم بھائی کو بدل سکتی ہو‘‘ دلہن کے لباس میں ارشم خان کے کمرے میں بیٹھی امازیہ کو زرتاب نے کہا
زرتاب بہت مشکل ہے۔۔۔ وہ شخص جس نے مجھے حاصل کرنے کے لئے مجھے اغوا کیا۔۔میری زندگی بربناد کرنے کی کوشش کی اس شخص کے ساتھ ساری زندگی کیسے گزارو ں گی ‘‘
’’مجھے تو لگتا ہے کہ امازیہ خان کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے ‘‘ زرتا ب نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئیے مزاقا کہا جس پر امازیہ ارشم خان دھیرے سے مسکرائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امازیہ میں نے تم سے اتنی محبت کی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شحص تم سے اتنی محبت نہیں کر سکتا۔ اس لئے تو آج تم ۔۔۔ ‘‘ سنگار میز کے سامنے بیٹھی ہوئی امازیہ کے پیچھے کھڑے ارشم خان نے کہا جس پر امازیہ تلخی سے مسکرائی
ارشم خان کو مجھ سے اتنی محبت ہے کہ اس نے مجھے حاصل کرنے کے لئے مجھے اغواہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ‘‘ وہ تلخی سے بولی
’’امازیہ میں نے ایسا ۔۔۔ ‘‘ وہ اسکی بات پر حیران ہوا
’’تم نے کبھی سوچھا ہے کہ کیا گزری ہوگی مجھ پر۔۔ وہ دن میں نے کس ڈر اور خوف میں گزارے ہونگے۔۔۔ اک اک لمحہ میں کس اذیت سے گزری ہونگی ‘‘ وہ رو رھی تھی آج اس کا سارا لاوا باہر آنے کا دن تھا وہ روتے ہوئے اپنے پہنے ہوئے زیور پھینک رہی تھی
’’ میں تمہیں کھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔۔ ہاں یہ سب میری وجہ سے ہوا مگر اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا میں تو کبھی تمہیں تکلیف پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ‘‘
’’میں تمہیں زندگی بھر معاف نہیں کرونگی ارشم ‘‘
’’ میں تمھارے بغیر زندگی تصور بھی نہیں کر سکتا ‘‘ اس کی آواز بھیگی ہوئی تھیاور میں تمھارے ساتھ اپنی زندگی تصور نہیں کر سکتی ‘‘ اس نے دو بدو جواب دیا اور وہی زمیں پر بیٹھ کر رونے لگی
’’ چلے جاو یہاں سے تم ۔۔۔ ابھی اور اسی وقت جاو یہاں سے ‘‘ وہ چلائی اور ارشم بغیر کچھ بالے دروازے کی طرف بڑھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تمیں ڈراپ کر دون ‘‘ آئینے کے سامنے کھڑی بالوں میں برش کرتی ہوئی امازیہ کو ارشم نے کہا جو دو ہفتے بعد کالج کے لئے تیار ہو رھی تھی
’’ کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے تمھاری مہربانی کی ‘‘ اس نے بغیر مڑے اس کی آفر ٹھکرا دی
’’ تم اب میری ذمہ داری ہو امازیہ ۔۔اور تمھارہا کالج آفس کے رستے میں ھہ پڑتا ہے مجھے خوشی ہوگی ‘‘ ارشم محبت اور احترام سے بول رہا تھا
اور امازیہ ایک خاموش نگاہ اس پہ ڈال بیڈ سے اپنا بیگ اٹھا کر کمرے سے نکل گئی اور ڈرائیور کے انتظار میں ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئی ڈرائیور کے آنے میں ابھی آدھا گھنٹہ تھا
ہائے اللہ بھابھی یہ دیکھو ‘‘ مابائیل سکرین پر نظریں جمائے علمس بھی آکر اس کے پاس بیٹھ گئی
اگر دوبارہ تم نے مجھے بھابھی کہا تو میں تمھاری جان لے لونگی ‘‘ امایہ کتاب بند کر کے بولی اسے علمص کے اس بھابھی لفظ پر خوب غصی آتا مگر علمص بھی ڈیٹ تھی مجال ہے جو منع ہو جائے
ایک تو ہمآپکو اتنے پیار سے بھابھی بلا رھے ہیں اوپر سے آپ غصہ دکھا رہی ہے ۔۔۔‘‘ علمص کو برا لگا
’’اچھا بتاو کیا دکھا رہی تھی ‘‘ امازیہ کو جلد ہی اپنے بے وقت غصے کا اھساس ہوا
’’یہ دیکھو ‘‘ اس نے موبائیل کا سکرین امازیہ کے سامنے کیا جس پر کچھ لفط جگمگا رھے تھے
’’میرے نام کا مطلب کتنا عجیب ہے ‘‘
علمص یعنی تعجب انگیز ‘‘ امازیہ نے دہرایا
’’اب میں تعجب انگیز ہوں کوئی ‘‘ علمص نے منہ بناتے ہوئے پوچھا
’’ ہو تو سہی ‘‘ امازیہ نے بے ساختہ کہا جس پر ایک لمحہ کے لئے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر دونوں کا قہقہ بلند ہوا مگر دروازے میں کھڑے سکندر خان پر نظر پڑتے ہی دونوں خاموش ہو کر کھڑی ہو گئی ۔ دونوں سکندر خان کی طرف سے کچھ کہنے کا انٹظار ہی کر رہی تھی مگر وہ بغیر کچھ کہے آگے بڑے اورت ان دونوں نے گہرا سانس لے کر صوفے پ ر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئی مگر ان کے بیٹھتے ہی دڈرائیوا آگیا جس پر دونوں کو کالج کے لئے نکلنا پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکینہ۔۔سکینہ میری شرٹ کہاں ہے ؟؟ الماری میں کپڑے ڈھونڈنے میں مشغول ارشم خان ملازمہ کو آواز دے رہا تھا بیڈ پر بیٹھی امازیہ ایک نظر اس پر ڈال کر دوبارہ کتاب پر نظریں جما لیتی
’’ سکینہ۔۔۔ ‘‘
’’ آنکھیں کھول کر دیکھ لیا کرو ‘‘ امازیہ اٹھ کر الماری کے پاس آئی اور شرٹ نکال کر اسکے سامنے دوبارہ الماری میں رکھ دی
Thank you ‘‘ارشم خان نے چہرے پر مسکراہٹ کو قابو کرتے ہوئے کہا اور واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔ نہ جانے کیوں نکاح کے تین لفط ہمارہ دل نرم کر دیتا ہے اس شخص سے لاکھ نفرت کے باوجود اسیتکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔
’’ہیلو !! ‘‘ موبائیل کی گھنٹی بجنے پر امازیہ نے فون اٹھایا تو آگے سے زرتاب کا فون تھا اتنے میں ارشم بھی نہا کر واش روم سے باہر آ گیا
’’میان آنا چاہتی ہوں مگر بابا جان نہیں مانیں گے ‘‘ امازیہ نے اس کے کسی بات کے جواب میں کہا
’’ انکل کو منانا تمھارہ کام ہو ار تم نہیں آئی تو میں زندگی بھر تم سے بات نہیں کرونگی ‘‘
’’ او کے میں کوشش کرونگی ‘‘امازیہ نے کہا
لیپ ٹاپ پر کام کرتے ارشم نے مسکرا کر ایک نظر امازیہ کو دیکھا پفر دوبارہ لیپ ٹاپ پر نظریں جما لی
’’ہاں ہاں جانتی ہوں او کے اللہ خافظ ‘‘ وہ فون بند کر کے بیڈ پر سونے کے لیے لیٹی
’’میں تمھاری مدد کر سکتا ہوں ‘‘ اس نے لیپ ٹاپ سے نظریں اٹھائے بغیر کہا
’’تمھاری مدد سے پہلے مر جانا بہتر ہے ‘‘
’’دیک لو ۔۔میں تمھیں لے جا بھی سکتا ہوں ‘‘
’’منہ بند کر لو تم ‘‘ اس نے بغیر لحاظ کے کہا اور اپنی سائڈ کی لائٹ آف کر کے سو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’وہ میں زرتاب کی شادی میں جانا چاہتی ہوں ‘‘ امازیہ نے اپنی ساری ہمت مجتمع کر کے کہا
’’یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں اجازت نہیں دونگا ‘‘سکندر خان بد ستور کتاب پر نظریں جمائے رکھے ہوئے تھے
’’میں آپ سے اجازت لینے آئی ہوں بابا جان ‘‘ آنکھوں میں آئے آنسو کو بمشکل روکتے ہوئے وہ دوبارہ سے بولی
’’ہمارے خاندان کی لڑکیاں اس طرح منہ اتھا کر دوستوں کی شادیوں میں نہیں جاتی امازیہ خان ‘‘ سکندرخان کا مغرور سا جواب آیا
امازیہ ٹھوڑی دیر وہی کھڑی رہی پھھر سکند خان دوبارہ سے گویا ہوئے
’’ اب تم جا سکتی ہو ‘‘ سکندر خان نے کہا اور امازیہ نے ابھی ابھی دروازے سے ڈاخل ہوتے ہوئے ارشم کان پر ایک غصیلی بگاہ ڈال کر لائیبریری سے باہر نکل گئی۔سکندر خان سے بات کرنے کے بعد ارشم ٹیرس پر آیا جہاں امازیہ غم وغصے میں کھڑی تھیمیں تمھاری مدد کر سکتا ہوں ‘‘
مجھے اغواہ کر کے یا اس بار قتل کر کے ‘‘ اس نے بغیر ارشم کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہا اور جانے کو لپکی مگر ارشم نے اسے بازو سے پکڑ کر روک دیا اور کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتے رہے پھر ہاتھ چھوڑ دیا اور آگے کو لپکے امازیہ نے مڑ کر تیزی سے جاتے ہوئے ارشم کو دیکھا ایک دم اسے اپنے تلخ رویے پر افسوس ہوا۔کچھ دیر وہ مزید وہاں کھڑی رہی پھر پھر علمص کے کمرے کی طرف مڑی جہاں وہ کاپی پر کوئی ڈائیگرام بنا رہی تھی
’’کیا کہا تایا جان نے ‘‘اس نے ڈائیگرام بناتیہوئے پوچھا
’’ منع کر دیا ‘‘ وہبیڈ پر اس کے سامنے بیٹھ گئی
’’بھائی سے کیوں نہیں کہتی ؟؟‘
’’میرے بھی کوئیSelf respect ہے جس کو میں اس طرح مٹی میں نہیں ملا سکتی ۔۔میں اس شخص سے کوئی مدد نہیں مانگ سکتی میں اس شخص کے سامنے کبھی نہیں جھکونگی ‘‘ وہ بضد تھی
’’کیا تمہیں اب بھی بھائی سے ۔۔۔ ‘‘
’’بالکل بھی نہپیں کبھی نہیں ۔۔میں اس شخص سے محبت کبھی نہیں کر سکتی میں اسے محبت کو سکھ کبھی نہیں دونگی وہ تڑپتا رہے گا ساری زندگی محبت کے لئے ‘‘ وہ غصے سے کہہ کر وہاں سے نکلی ۔علمص اس دروازے کو دیکھتے رہ گئی جس سے ابھی ابھی امازیہ انکار میں بھی اقرار کر کے نکلی تھی....