ٹیلی فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی۔
’’ہیلو۔۔جی۔۔وہ ایسا ہے ہمیں آپ کی منجھلی والی لڑکی پسند ہے آپ کہیں تو ہم عید بعد آ جائیں۔‘‘
چچی بی نے ٹیلی فون رکھ دیا۔
’’جی۔ ۔ہیلو۔۔میں لکھنؤ سے بول رہی ہوں۔ ۔ہمارے یہاں سب کو آپ کی منجھلی بیٹی بہت پسند آئی۔ آپ کہیں تو ․․․․․‘‘
چچّی بی نے فون کاٹتے ہوئے کہا:
’’لیکن ہمارے یہاں آپ کے بیٹے کو کسی نے پسند نہیں کیا۔‘‘
ٹیلی فون کی گھنٹیاں بجتی رہیں اور چچی بی اسی طرح جھنجھلا کر ریسور پٹختی رہیں۔ یہ بات سنتے سنتے انہیں اُلجھن سی ہونے لگی تھی اور اُنہیں ڈر تھا کہ کہیں یہ اُلجھن نفرت میں تبدیل نہ ہو جائے اور اس کا الزام وہ خود پر نہیں خدا پر لگاتی تھیں کہ وہی سب کا خالق ہے۔ فرق تو اُسی نے پیدا کیا ہے۔ کیوں اس نے سب کو ایک جیسا نہیں بنایا۔ ایک ہی درخت پر اچھّے بُرے پھل لگا دیے، اگر آدمی کے اختیار میں ہوتا تو دنیا میں صرف خوبصورت آدمی پیدا ہوتے۔ کون باغبان چاہتا ہے کہ اس کے گلشن میں کوئی بد وضع پھول کھلے۔ یہ سب کچھ سوچنے کے بعد وہ استغفار پڑھتیں اور کہتیں ’’خدا غیب کا حال جانتا ہے معلوم نہیں اس میں کیا مصلحت ہے ورنہ وہ بھی تو اس دنیا کا باغبان ہے اور وہ بھی اپنے گلشن کو حسین دیکھنا چاہتا ہو گا۔ ذہنی کرب انسان کو سب کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسے اپنے وجود سے بھی نفرت ہونے لگتی ہے۔ چچی بی بھی ذہنی کرب میں مبتلا تھیں۔ بیٹیوں کی بڑھتی ہوئی عمر ہی و الدین کے کرب کا سبب بن جاتی ہے۔ وہ چار بیٹیوں کی ماں تھیں۔ لوگ ان کے روبرو روایت بیان کرتے کہ خدا اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے جو چار بیٹیوں کی پرورش کرتا ہے، وہ کہتیں شاید اس لیے کہ زندگی میں جہنم کی سزا پا لیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے اپنی دنیاوی جنت کو بالائے طاق رکھ کر اپنی چاروں بیٹیوں کی پرورش کی تھی۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کے سر پر دھوپ نہیں آنے دی تھی۔ وہ مستقل ان کا سائبان بنی ہوتی تھیں۔ انہیں چاروں بٹیاں عزیز تھیں کہ وہ انہیں کا ہی تو حصہ تھیں۔ لیکن نہ جانے کیوں وہ بڑی بیٹی کو بہت چاہتی تھیں۔ شاید اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے انہیں ماں کہہ کر پکارا تھا۔ انہیں ماں کا اعزاز بخشنے والی وہی بیٹی تھی۔ اس کے بدلے میں چچی بی نے بھی اپنے وجود کو بھول کر اس کی پرورش کی تھی۔ اپنا عیش و آرام سب کچھ اس پر قربان کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنی دانست میں اسے اچھی تعلیم دلوائی تھی ہر وہ کام جو وہ خود جانتی تھیں اسے سکھایا تھا کبھی کبھی ماں کی اس خاص توجہ کے سبب چھوٹی بہنیں جلن بھی محسوس کرنے لگتی تھیں۔ پھر ماں کے سمجھانے پر سب کچھ بھول جاتیں۔
جب ان کی بیٹیوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ان کے گھر بسانے کی فکر نے راتوں کی نیند کو اڑا دیا۔ وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب چاروں بیٹیاں جوان ہو گئیں۔ چچی بی اپنی سب سے بڑی بیٹی کے لیے متفکر تھیں۔ وہ جلد از جلد اس فکر سے آزاد ہونا چاہتی تھیں۔ بڑی بیٹی ایم اے پاس کر چکی تھی اور چھوٹی بیٹی بی اے کی طالبہ تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ تمہاری منجھلی بیٹی بہت حسین ہے۔ وہ بھی اس بات کو جانتی تھیں لیکن اس کا اظہار نہیں کرتی تھیں۔ اس لیے کہ انہیں بڑی بیٹی کی خوشیاں عزیز تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کو سب سے پہلے ماں کہنے والی بیٹی رنجیدہ ہو اور پھر ماں کے لیے تو سب بچے ہی حسین ہوتے ہیں۔ لیکن منجھلی کے حسن سے وہ پریشان رہنے لگی تھیں اس لیے کہ وہ حسن بڑی کے گھر بسانے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔
چچی بی کا خاندان بہت بڑا تھا اور ان کے تعلقات کا حلقہ بھی وسیع تھا۔ اس لیے بیٹیوں کے جوان ہوتے ہی رشتے آنے لگے تھے۔ یوں تو چچی بی کی چار بیٹیاں اچھی صورت شکل کی تھیں لیکن سب سے بڑی چھوٹی بہنوں کی طرح حسین نہیں تھی جب کہ وہ سب سے زیادہ سلیقہ مند تھی کیوں کہ چچی بی نے سب سے زیادہ توجہ ہی اس پر دی تھی۔ لیکن آنکھوں کے اس بازار میں ظاہری حسن کو ہی فوقیت حاصل ہے۔ آدمی جو دیکھتا ہے بس وہی دیکھنا چاہتا ہے جو اسے دکھائی نہیں دیتا، اسے دیکھنا نہیں چاہتا جب کہ حقیقت وہ ہے جو نظروں سے اوجھل ہے۔ چچی بی کو دکھ یہ تھا کہ جو کوئی بڑی کا رشتہ لے کر آتا۔ منجھلی کا ہاتھ مانگ کر چلا جاتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بڑی عمر اور چچی بی کی فکر بڑھتی جا رہی تھی۔ انہیں افسوس یہ تھا کہ جس پھول پر انہوں نے سب سے زیادہ محنت کی تھی اس کا کوئی طلب گار نہیں تھا۔ انہیں اپنی بڑی بیٹی کے جذبات کا احساس تھا وہ اس کے روبرو کبھی ملول نہ ہوتی تھیں۔ جب کہ اندر ہی وہ گھلتی جا رہی تھیں۔ انہوں نے ہر ایک سے صاف انکار کر دیا تھا کہ منجھلی کی شادی اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک بڑی رخصت نہیں ہو جاتی۔ اسی لیے چچی بی نے اکثر یہ بھی کیا کہ جب کوئی رشتہ کے ارادے سے آیا تو انہوں نے منجھلی کو گھر سے باہر کہیں بھیج دیا تاکہ اس پر کسی کی نظر ہی نہ پڑے۔ لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ اب چچی بی کی فکر اور الجھن نفرت میں بدلنے سی لگی تھی۔ وہ منجھلی کی شکل سے چڑنے لگیں تھیں کہ انہیں بڑی کی خوشی اور جذبات کا احساس تھا۔
پھر ایک دن انہوں نے انتہائی کشمکش کے عالم میں وہ فیصلہ کر لیا جو مائیں نہیں کرتیں۔ رات کے اندھیرے میں وہ ایک گلاس تیزاب لے کر منجھلی کے کمرے کی طرف بڑھیں۔ دروازہ کھلا تو تھا۔ چچی بی کمرے کے اندر داخل ہوئے۔ منجھلی بے خبر سو رہی تھی۔ نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ چہرے کے اتار چڑھاؤ سے لگتا تھا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ چچی بی نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا۔ چہرہ چاند کی طرح دمک رہا تھا۔ ماں کی محبت امڈ آئی لیکن بڑی بیٹی کی خوشیوں کی فکر نے اُسے دبا دیا۔ تیزاب کا گلاس لے کر وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھیں۔ اسی لمحہ منجھلی خواب میں بڑبڑائی۔ ’’امّی۔ ۔امّی۔۔مجھے بچاؤ۔ کوئی میرے اوپر تیزاب ڈال رہا ہے۔‘‘
چچی بی کے ہاتھوں سے تیزاب کا گلاس چھوٹ گیا۔ زمین پر پھیلے ہوئے تیزاب نے ان کے اپنے ہی پیروں کو جلا دیا۔
٭٭٭