پانی کی بھری ہوئی گگری لے کر پگڈنڈی پر جاتی ہوئی دیہاتی حسینہ کے انداز خرام کی مانند چلتی ہوئی ریل جب ایک جھٹکے کے ساتھ اکبر پور اسٹیشن پر رُکی تو بہت سے دہقان سروں پر گٹھر یاں رکھے ہوئے انڈوں میں سے چوزوں کی طرح ریل کے ڈبّوں سے نکل کر پلیٹ فارم پر آ گئے۔ ایک ساعت نہ گزری تھی کہ گاڑی کے
آخری ڈبے کے دروازے پر کھڑے ہوئے نیلے کوٹ اور سفید پینٹ والے آدمی نے اپنا بایاں ہاتھ بلند کیا۔ ہاتھ میں لگا ہوا سبز پرچم وفادار کتّے کی دُم کی طرح لہرایا۔ انجن کے سیاہ جسم سے سیٹی کی آواز نکلی۔ اور ریل آہستہ آہستہ اگلی منزل کی طرف رینگنے لگی۔ ریل سے اُترے ہوئے مسافر بنیان پہنے ہوئے ایک موٹے سے آدمی کو ٹکٹ تھما کر پلیٹ فارم سے باہر آ گئے۔ یوں تو پلیٹ فارم لامحدود تھا لیکن دو جانب اکبر پور کے دو بورڈ اور ان دونوں کو ملانے کے لیے پان پھُول کے پیڑوں کی ایک لمبی سی قطار نے محدود کر دیا تھا۔ رام چرن بھی ایک ہاتھ میں تھیلا اور دوسرے میں اٹیچی لٹکا کر پلیٹ فارم نما جگہ سے باہر آیا۔ چار سال پہلے جب پہلی بار دہلی سے گاؤں واپس گیا تھا تو اس نے یہ اٹیچی پچیس روپے میں خریدی تھی۔ ایسی ہی اٹیچی تو چودھری کا لڑکا لے کر آیا کر تھا۔ جو شہر کے ایک کارخانے میں منشی ہے۔ گاؤں والوں نے جب رام چرن کے پاس یہ اٹیچی دیکھی تھی تو نہ جانے کتنی رشک و حسد کی نظریں اٹیچی کے اندر اُتر گئی تھیں۔ گاؤں کے لڑکوں میں تو جھگڑا ہو گیا تھا۔ ایک کہتا تھا میں لے چلوں گا۔ دوسرا کہتا نہیں، میرے چاچا کی ہے، میں لے چلوں گا۔ اور رام چرن کی پتنی سکھیا تو بہت دیر تک اٹیچی کو چمٹائے رہی تھی۔ پلیٹ فارم کے باہر ایک رکشے والا اس اُمید پر کھڑا تھا کہ شاید کوئی صاحبِ حیثیت آدمی ریل سے اترے۔ لیکن قدیم روایت کی طرح ریل سے اُترے ہوئے مسافروں نے پگڈنڈی کی راہ لی۔ گاؤں دو کوس کے فاصلے پر تھے۔ بیل گاڑیاں چلنے کی وجہ سے راستہ چوڑا بن گیا تھا۔ رام چرن کو آتا ہوا دیکھ کر رکشہ والا گوشت کی بوٹی پر چیل کی طرح جھپٹا۔
’’ارے رام چرن بھیّا! آؤ، تمہرے لیے تو آج رکسہ لایو ہوں۔ تم تو بالکل سہر کے بابو لگت ہو۔‘‘
بوٹی پنجوں میں پھنس گئی تھی۔ رام چرن کا سینہ اتنا پھُولا کہ اوور کوٹ بھی تنگ معلوم ہونے لگا تھا۔ رکشہ والے نے بڑھ کر اٹیچی لے لی۔ اور رکشہ کے پائیدان پر رکھ دی۔ رام چرن اس طرح رکشہ پر بیٹھا جیسے زمیندار گھوڑے پر بیٹھتا ہے۔ رکشہ والے کے جسم میں کئی گنا قوت بڑھ گئی تھی۔ اس نے رکشہ کھینچنا شروع کیا۔
’’کیوں رے نندو، توُ تو شہر میں رکسہ چلاتا تھا۔‘‘ رام چرن نے بڑے لوگوں کی طرح نندو سے پوچھا۔
’’ہاں بھیّا! کچھ دنا سے گاؤں میں آ گیا ہوں۔ امّاں بیمار رہت ہے۔ کوئی اور دیکھنے والا ہے نہیں۔‘‘
’’گاؤں میں تو آمدنی بھی نہ ہوت ہو گی۔ یاں کون رکسہ میں بیٹھتا ہے۔‘‘
’’یاں کیا آمدنی ہوئے گی۔ چار آنے دینے میں بھی میآ مرتی ہے۔‘‘
’’ارے دلّی میں بڑی آمدنی ہے۔ لال کلے سے ٹیشن اتنی دور بھی نہ ہو گا جتنو گاؤں ہے۔ لیکن ایک سواری بھی ہو تو پورا ڈیڑھ روپیہ لیتے ہیں۔‘‘
نندو کے منہ میں پانی آ گیا۔ رام چرن کا خون بڑھ گیا۔ رکشہ برابر آگے بڑھ رہا تھا۔ رام لیلا ختم ہو چکی تھی۔ خریف کی فصلیں کھیتوں سے گھروں میں پہنچ چکی تھیں اور ربیع کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ کھیت صاف پڑے تھے۔ رام چرن کی نگاہیں چاروں طرف گھوم رہی تھیں۔ ان ہی کھیتوں میں اس کا بچپن کھیلتے کُودتے گزرا تھا، اور ان ہی کھیتوں میں اس کی جوانی کا خون پسینہ بن بن کر جذب ہوا تھا۔ اُسے وہ دن یاد آنے لگے جب وہ گاؤں میں زمیندار کے یہاں نوکر تھا۔ پھر زمیندار نے ٹریکٹر اور تھریسر خریدلئے اور اس جیسے کئی لوگوں کو جو کئی پشتوں سے زمیندار کے نوکری کرتے چلے آ رہے تھے، کام سے ہٹا دیا گیا۔ رام چرن وہ حالات بھُولا نہیں تھا جن کے سبب اُسے اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا تھا۔ رکشہ گاؤں میں داخل ہوا تو بہت سے بچّے تالیاں بجاتے ہوئے رکشے کے پیچھے دوڑنے لگے۔ گاؤں والوں کی نگاہیں اُس کی طرف اٹھ گئیں۔ ہر ایک اُسے بڑی حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ پورے رکشے میں اکیلے بیٹھ کر تو بڑے آدمی آتے ہیں۔ رام چرن اوور کوٹ اور پینٹ پہنے ہوئے تھا۔ جو دو سال پہلے اس نے سنڈے مارکیٹ سے خریدے تھے۔ گھر والوں کے لیے بہت سے کپڑے لے کر آیا تھا۔ کئی روز تک گاؤں میں گھر گھر اس کی چرچا ہوئی تھی۔ گھر کے دروازے پر جب رکشہ رُکا تو اچھی خاصی بھیڑ جمع ہو گئی۔ رام چرن رکشے سے اُترا۔ اٹیچی اور تھیلا اندر پہنچ چکا تھا۔ اس نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر نندو کو دیا تو پاس کھڑے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ کسی نے کہا:
’’ایک روپیہ تو چودھری کا لڑکا ہی دیوت ہے۔‘‘
رکشے والے نے سُن لیا اور خوش ہو کر بولا ’’ارے ہمرے بھیّا کا کسی سے کام ہیں۔‘‘
رام چرن نے بھی یہ باتیں سُن لی تھیں مگر اس طرح نظر انداز کرتا ہوا گھر میں چلا گیا جیسے سنا ہی نہ ہو۔
رام چرن ہر سال رام لیلا ختم ہونے پر گاؤں آیا کرتا تھا اور آٹھ دس روز رہ کر واپس چلا جاتا۔ رام لیلا کے میلے میں چھ مہینے کے برابر آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ اس بار بھی کچھ دن رہ کر رام چرن واپس دلّی گیا۔ گاؤں میں رام چرن کے ساتھ اس کے چاچا بھی رہتے تھے جن کے پاس پانچ بیگہہ کھیت کا ایک ٹکڑا تھا اور پانچ بچّے تھے۔ بیچارے تنہا کھیت پر لگے رہتے۔ لیکن گزارے کے لائق بھی حاصل نہ کر پاتے۔ ان کا خیال تھا کہ گھنشیام، جو ان کا سب سے بڑا لڑکا تھا۔ اگر ان کا ہاتھ بٹائے تو وہ اس زمین سے چاندی ہی نہیں سونا بھی اُگا سکتے ہیں۔ لیکن گھنشیام رام چرن کے ساتھ دہلی جانے کے لیے بے چین تھا۔ اس نے دلّی کے بارے میں ایسی ایسی باتیں سن رکھی تھیں کہ اس کا دل گاؤں کی محدود زندگی کو چھوڑ کر شہر کی رنگین دنیا کی طرف بھاگنے لگا تھا۔ وہ ہر بار رام چرن سے دہلی کے بارے میں طرح طرح کی باتیں پوچھا کرتا تھا۔ رام چرن اپنی برتری کا احساس جمانے کے لیے دہلی کا نقشہ بہت بڑھا چڑھا کر کھینچتا تھا۔ ایسی تعریفیں کرتا کہ سامعین کے دل و نظر دہلی دیکھنے کے لئے بے قرار ہو اُٹھتے۔
اور پھر ایک دن گھنشیام اُس وقت گھر میں بغیر کسی سے کہے دہلی چلا گیا جب جاڑے کا موسم شباب پر تھا۔ دوسرے دن جب وہ دہلی کے اسٹیشن پر اُترا تو اُسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دنیا اتنی بڑی ہے۔ رکشے، اسکوٹر اور ٹیکسیوں کی بھیڑ تھی۔ اسٹیشن کے احاطے سے نکل کر باہر والی سڑک پر آیا۔ اُس نے اتنی چوڑی دو طرفہ سڑک پہلی بار دیکھی تھی اور اس سڑک پر چلتی ہوئی دو منزلہ بسیں گھنشیام کے لیے اور بھی باعث حیرت بنی ہوئی تھیں۔ باہر آ کر وہ سوچنے لگا کہ اس بھیڑ میں رام چرن کو کیسے تلاش کرے۔ اسے رام چرن کی بتائی ہوئی جگہوں کے نام یاد تھے۔ رام چرن لال قلعہ کے پاس خوانچہ لے کر بیٹھتا تھا۔ گھنشیام کو رام چرن تک پہنچنے میں دقّت تو ہوئی، لیکن پہنچ گیا۔ اُسے دیکھ کر رام چرن کو بڑی حیرت ہوئی۔ ’’توُ کیسے آ گیا رے یاں۔‘‘
’’بس یوں ہی‘‘۔ گھنشیام نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
رام چرن نے اُسے پاس ہی بٹھا لیا ور گھر کی خیریت پوچھنے لگا۔ شام ہو چکی تھی۔ گھنشیام خوش تھا۔ بار بار کسی نہ کسی بات کو رام چرن سے پوچھتا۔ رام چرن کبھی بتا دیتا اور کبھی چپ رہنے کے لیے کہہ دیتا۔
رات ہوئی تو رام چرن نے اپنا سامان ایک دکان میں رکھا اور گھنشیام کے ساتھ کھانا کھایا۔ جب رات کے ساتھ ساتھ سردی بھی بڑھنے لگی تو گھنشیام بولا۔ ’’بھیا! گھر ناہیں چلو گے؟‘‘
رام چرن نے اس کی معصومیت پر ہنستے ہوئے کہا۔
’’ابے کیسا گھر؟ پوری دہلی اپنا گھر ہے۔ چاہے جہاں رہو۔‘‘
گھنشیام نے رام چرن کو دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ جب سب بازار بند ہو گیا۔ اور فٹ پاتھ پر سونے والے اپنی جگہوں پر پہنچ گئے۔ رام چرن بھی اپنی جگہ پر پہنچا۔ جگہ کو جھاڑ کر چادر بچھائی۔ گھنشیام سے بیٹھنے کو کہا۔ وہ بیٹھ گیا۔ گھنشیام اپنے ساتھ ایک چادر لایا تھا۔ رام چرن نے کھیس اور چادر کو ملا لیا اور دونوں اوڑھ کر لیٹ گئے۔ گھنشیام میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جاڑوں کی رات جب نقطۂ عروج پر پہنچی تو گھنشیام ٹھنڈ کی وجہ سے سکڑنے لگا۔ لیکن رام چرن بڑے آرام سے سو رہا تھا، جیسے اُسے سردی کا احساس ہی نہ ہو۔ سردی جب ناقابل برداشت ہوئی تو گھنشیام منمنایا: ’’بھیا!بھیّا!‘‘
’’کا بات ہے؟‘‘
’’ٹھنڈ لاگت ہے‘‘
’’ابے سوجا یہاں لحاف کہاں رکھا ہے۔ دیکھ اُسے دیکھ ایک چادر ہی اوڑھ رکھی ہے اور کتنے آرام سے سو رہا ہے۔ اور وہ دیکھ اس کے پاس چادر بھی نہیں۔ لے سنبھال کے اوڑھ لے۔‘‘
گھنشیام نے کھیس کو اچھی طرح لپیٹا اور چُپ چاپ پڑا رہا۔ لیکن ٹھنڈ کی وجہ سے اُسے نیند نہیں آئی۔ دوسرے دن رام چرن نے خوانچہ نہیں لگایا۔ تاکہ گھنشیام کو دلّی کی سیر کرادے۔ مہرولی جانے کے لیے دونوں لال قلعہ سے بس میں سوار ہوئے۔ بس میں چڑھتے وقت گھنشیام کو ایسا لگا جیسے آج اس کے کپڑے پھٹ جائیں گے۔ یا پسلیاں آپس میں بھنچ جائیں گی، نیچے کھڑے ہوئے تمام لوگ چڑھ بھی نہ پائے تھے کہ بس چلنے لگی۔ گھنشیام کو لگ رہا تھا کہ بس کے پیچھے دوڑنے والے آدمی چڑھنے کی کوشش میں گر جائیں گے۔ بس کی کھڑکی سے ہر چیز بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ پورا ماحول اس کے لیے ایک خواب کی دنیا تھی۔ اچانک وہ ایک منظر کو دیکھ کر چونک پڑا تیز جاتی ہوئی ایک بس کے دروازے پر لٹکا ہوا آدمی سڑک پر گرا اور پیچھے سے ایک ٹرک تربوز کی طرح اس کے سر کو کچلتا ہوا گزر گیا۔ گھنشیام چیختے چیختے رہ گیا۔
’’بھیّا، بھیّا! دیکھو وہ آدمی!‘‘ رام چرن نے اس طرف دیکھا۔ ’’مرنے دے۔ اس طرح روز جانے کتنے مرتے ہیں۔ یہ دلّی ہے‘‘۔ اس منظر کو دیکھ کر گھنشیام کا دل خوف سے دھڑکنے لگا۔ اپنے آپ کو بس کے بیچ میں پا کر اُسے اطمینان ہوا اور ان لوگوں پر ترس کھانے لگا جو دروازے پر لٹکے ہوئے تھے۔ لیکن اُن لٹکنے والوں کے چہروں سے کسی طرح کا اظہار خوف نہیں تھا۔ جیسے وہ اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ بس سے اُترتے وقت اگر رام چرن گھنشیام کو سنبھال نہ لیتا تو اس کے گرنے میں کوئی کمی نہ رہی تھی۔ کیونکہ اس کے اُترنے سے پہلے ہی بس رینگنے لگی تھی۔
’’سالے ذرا دیر بھی ناہیں روکت‘‘ گھنشیام نے جھنجھلا کر کہا۔ اس کا دل اور بھی تیزی سے دھڑکنے لگا۔ ’’یہ سالے نہیں، دلّی کی بسوں کے ڈرائیور ہیں۔ کسی کے یار نہیں ہوتے۔ ذرا سی چوک ہوئی اور جان گئی‘‘۔ رام چرن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کی۔ بے چارہ گاؤں کا رہنے والا گھنشیام پہلے ہی دن دلّی کی بھاگتی دوڑتی زندگی سے ڈر گیا۔ اُسے شک ہونے لگا کہ وہ صحیح و سلامت گاؤں واپس پہنچ سکے گا یا نہیں۔ شام کو وہ پھر چاندنی چوک لوٹ آئے۔ رات آہستہ آہستہ اپنا سفر شروع کرنے لگی تھی۔ گھنشیام کو پھر رات کی سردی کا مقابلہ کرنا تھا۔ اُسے گاؤں میں لحاف کی گرمی اور چارپائی کے بستر کی یاد آ رہی تھی۔ سوچتے سوچتے اس کے خیالات اپنے چھوٹے سے کھیت پر جا کر ٹھہر گئے اور وہ سوچنے لگا کہ یہاں رہنے سے تو بہتر ہے کہ میں باپو کے ساتھ کھیت پر کام کروں۔ اس خیال کے آتے ہی وہ رام چرن سے پوچھنے لگا:
’’بھیّا! گاؤں کے لیے کل ریل کسی سمے جاوے گی۔‘‘
رام چرن نے متعجب نگاہوں سے گھنشیام کو دیکھا۔ ریل بڑی تیز رفتاری سے ناگن کی طرح لہراتی ہوئی سرسبز و شاداب کھیتوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جہاں گاؤں کے لوگ جھوم جھوم کر ملہار گار ہے تھے۔ اچانک ایک ٹرک اپنی کرخت آواز کے ساتھ رام چرن کے سامنے سے گزرا۔ اس نے چونک کر اس سمت دیکھا۔ جدھر ٹرک گیا تھا۔ وہ ایک اور ہی دنیا تھی وہاں لوہے کے بھاگتے دوڑتے لوگوں کی بھیڑ تھی۔ جن کے جذبات نہیں تھے۔ رام چرن کو لگا جیسے وہ ان لوگوں میں سے ایک ہے۔ اس نے ٹرک کے چھوڑے ہوئے گرد و غبار کے بیچ ریل کو دیکھنا چاہا لیکن وہ، دور جا چکی تھی۔ اور پھر وہ گھنشیام سے بہت آہستہ آواز میں کہنے لگا۔ ’’صبح دس بجے۔‘‘
٭٭٭