خوں چکاں خنجر آبدار اس کے دست راست میں کالی دیوی کی لہو ٹپکتی زبان کی طرح لہرا رہا تھا۔ اس کے چہرہ پر کامیابی کی لہریں موجیں مارر ہی تھیں۔ خنجر کی نوک سے ٹپکتے ہوئے تازہ انسانی لہو کا ایک ایک قطرہ اس کے حیوانی جوش کو بلندیوں سے ہمکنار کر رہا تھا۔ اس کے لئے یہ کتنی خوشی کی بات تھی کہ مسلمانوں کے محلے میں رہنے کے باوجود اس نے دو برقعہ پوش عورتوں کو طرفۃ العین میں موت کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس نے ان دو عورتوں کو قتل کر کے اپنی قوم کے ان سبھی لوگوں کا انتقام لے لیا جو مسلمانوں کے ہاتھوں فساد میں مارے گئے۔ فیلِ مست کی طرح فتح کے نشے میں چور اپنی شادمانی کا اظہار اپنی پتنی اور جوان بیٹی سے کرنے کے لئے وہ برآمدے سے گزر کر کمرے کے دروازے پر آیا۔ کمرہ کا دروازہ بند دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ دونوں سہمی ہوئی اندر بیٹھی ہوں گی۔ مسلمانوں کے محلے میں بس یہ دو ہی گھر غیر مسلموں کے تھے۔ اس کے گھر کے ایک طرف شنکر لال کا گھر تھا۔ دوسری طرف پیپل والی مسجد کے امام صاحب رہتے تھے۔ شنکر لال کچھ ہی دن پہلے اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گھر میں تالا لگا کر اپنی سسرال چلا گیا تھا۔ اس کے جانے کے چند روز بعد ہی فرقہ وارانہ فساد انتہائی درندگی اور خونریزی کے ساتھ شروع ہوا۔ ہر فساد میں انسان پر حیوان غالب آ جاتا ہے۔ وہ بھی انسان تھا اس کے اندر بھی ایک حیوان پوشیدہ تھا جو اس وقت ابھر آیا جب اس نے اپنی آنکھوں سے ایک چورا ہے پر اپنی قوم کے کئی لوگوں کے سینوں سے خون کے فوارے اُبلتے ہوئے دیکھے۔ اور پھر نہ جانے کہاں سے اس کے ہاتھ میں ایک خنجر آ گیا۔ جھگڑے کی خبر پھیلتے ہی تمام گلیاں سنسان ہو گئی تھیں۔ گھروں کے تمام دروازے بند ہو چکے تھے۔ شام کا دھند لکا بڑھتا جا رہا تھا لیکن بازاروں کی جلتی ہوئی دکانوں سے اٹھتے ہوئے شعلے رات کی سیاہی چھیننے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اپنے گھر کی طرف دوڑ رہا تھا کہ اچانک اسے ایک گلی میں دبے پاؤں جاتی ہوئی دو برقعہ پوش عورتیں نظر آئیں۔ ماحول کے سنّاٹے نے اس کے کان میں کہا کہ بدلہ لینے کا اس سے اچھا موقع پھر شاید ہی ملے۔ اس نے اپنے چہرہ پر رو مال باندھ لیا تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔ پھر خنجر کو مضبوطی سے تھاما اور ان دونوں کے قریب پہنچ کر اتنی تیزی اور قوّت سے یکے بعد دیگر ان دونوں کی پیٹھ پر حملہ کیا کہ وہ خوف سے چیخ بھی نہ سکیں اور پھر اتنی ہی تیزی سے خون میں نہائے ہوئے خنجر کو لے کر اپنے گھر کی طرف پلٹا۔
پیر کی ٹھوکر سے دروازہ کھول کر کمرے میں گھسا لیکن کمرہ خالی تھا۔ وہ دوڑتا ہوا دوسرے کمرے میں پہنچا۔ وہ کمرہ بھی خالی تھا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اسے اپنے پتنی اور بیٹی کی لاشیں خون میں ڈوبی ہوئی نظر آنے لگیں۔ خنجر پر اس کی گرفت اور مضبوط ہو گئی۔ اس نے ایک نظر خون آلود خنجر پر ڈالی اور واپس جانے کے لئے دروازے سے نکل کر گلی میں آیا۔ تیز تیز قدموں سے گلی پار کرنے لگا۔ اچانک اس کے کانوں میں سسکیوں کی آواز آئی۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ وہی دونوں عورتیں خون میں لتھڑی ہوئی پڑی تھیں۔ ان کی زندگی کی کچھ سانسیں ابھی باقی تھیں۔ زمین پر پڑی ہوئی ایک عورت کے چہرے سے نقاب الٹ گیا اور کھمبے پر لگے ہوئے بلب کی روشنی میں وہ صاف دکھائی دینے لگا۔ وہ ان کے قریب سے گزرجانا چاہتا تھا۔ جاتے جاتے اس نے ایک نظر بے نقاب چہرہ پر ڈالی۔ اسے دیکھتے ہی زخمی عورت بول پڑی۔
’پتاجی۔ ۔ پتاجی۔۔ ہم۔۔ برقعہ میں چھپ کر جا۔۔ لیکن۔ ۔ لیکن کسی ظالم نے۔ ۔ ہمیں زخمی کر دیا۔ آپ۔۔ آپ کہیں چھپ جائیے۔ ۔ورنہ۔ ۔ ورنہ۔۔‘‘ اس کی سانسیں پوری ہو گئیں اور اسی لمحہ ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے نے دوسری لاش کا نقاب بھی اڑا دیا۔
٭٭٭