ہوش و حواس حسن کے اطوار لے اڑے
باقی جو تھا ترے لبِ انکار لے اڑے
ہم ہی شکارِ تشنہ نگاہی رہے فقط
اور لوگ کب کے دولتِ دیدار لے اڑے
اب پھر رہا ہے دشت میں ظالم برہنہ سر
حق کے غبار ظلم کی دستار لے اڑے
جب ساز باز لفظوں نے فیشن سے کر لیا
تہذیب کا جو پہلا تھا معیار لے اڑے
عام آدمی ہے ششدر و حیراں کھڑا ہوا
بازار کی ہر ایک شۓ تجّار لے اڑے
باقی مسافروں کو بچی ہیں صعوبتوں
آسائشیں تو قافلہ سالار لے اڑے
گلیوں کا حسن ، رونقِ بازار سب کا سب
بڑھتے ہوئے فساد کے آثار لے اڑے
کاملؔ پھر آج نور کے ہالے بوقتِ صبح
ابھرے تو سارا زعمِ شبِ تار لے اڑے