اگرچہ دن کا سورج ڈھل گیا ہے
سیاہی شب کے رُخ پر مل گیا ہے
فلک کی دھڑکنیں بڑھنے لگی ہیں
ذرا آنچل زمیں کا ڈھل گیا ہے
یہ لگتا ہے ہمارے دوستوں کو
ہمارا بچ نکلنا کھل گیا ہے
ہے ذہن و دل پہ اب بھی خوف طاری
اگرچہ حاسثہ یہ ٹل گیا ہے
حسینیت کے پرچم کو اٹھائے
علی اکبر سرِمقتل گیا ہے
دھؤاں آہوں کا شاد اٹھنا ہے لازم
محبت کا الاؤ جل گیا ہے