تشنگی اور بڑھائیں گے، چلے جائیں گے
آپ آئے بھی تو آئیں گے، چلے جائیں گے
مہتمم ہم نے سرِ بزم کہاں رہنا ہے
جب وہ اٹھ کرچلےجائیں گے،چلےجائیں گے
لوگ ڈھونڈیں گےنکل کر ہمیں ان گلیوں میں
صرف آواز لگائیں گے، چلے جائیں گے
وقت کم ہے کہ غمِ زیست پسِ پشت کیے
جشن! غم خوار منائیں گے، چلے جائیں گے
جب بھی ہم خانہ بدوشوں سے تواکتائے گا
زندگی سر پہ اٹھائیں گے، چلے جائیں گے
یہ تری خام خیالی ہے کہ ہم محفل میں
منہ اٹھائے چلےآئیں گے، چلے جائیں گے
سستی شہرت کےلیے ہم نہیں جاتے ہرجا
جوبھی عزت سے بلائیں گے، چلےجائیں گے جن
زندگی بزمِ سخن ہے جسے سنتے سنتے
اپنےحصےکا سنائیں گے چلےجائیں گے
یہ توسیکھاہی نہیں آپ کی صحبت سےکہ آپ
جب چراغوں کو بجھائیں گے، چلے جائیں گے
سرپھرےایسے ہیں شاہد کہ غرورِ ہستی
تم کو مٹی میں ملائیں گے چلے جائیں گے