بے پَردہ چَلے آئے وہ تَنہا مِرے آگے
تَقدیر سے حَیرت ہوئی پَردا مِرے آگے
چَلتی ہی زبان عُذر جَفا پر نہیں، لیکن
تُم حَشر میں خاموش نہ رہنا مِرے آگے
مَنزِل کا پتا پاؤں تو باقی ہے ابھی دَم
گو اور نہیں ہے کوئی صِحرا مِرے آگے
عالم ہے تُجھے دیکھ کے، مُوسیٰ صعقا کا
آیا نہ مِرا وَعدہ بے جا مِرے آگے
حائِل رہیں سو طَرح کے پَردے تو نہیں غَم
رکھتا نَہیں کُچھ دِیدۂ بِینا مِرے آگے
کیا دیکھ کے آئِینے کو وہ مِحو ہوئے ہیں
خُود کرتے ہیں وَصفِ رُخِ زَیبا مِرے آگے
بَند آنکھیں ہیں، کَشتی ہےمِری بِحرِ فَنا میں
کہہ دو کہ ہے یہ ساحلِ دَریا مِرے آگے
جَب اپنی حَقِیقَت کو ذَرا غَور سے دیکھا
آئِینہ ہوئی ہستئِ اشیا مِرے آگے
عَنقا کو زَمانے میں کیا میں نے ہی عَنقا
مَعدُوم ہوئی شُہرتِ عَنقا مِرے آگے
یہ حال ہوا دیکھتے ہی جَلوہ جَاناں
گویا کہ نہ تھا دہر میں، جو تھا مِرے آگے
وہ تیز روِ بادِیہ عِشق ہوں سالِکؔ
ھر ایک یہ کہتا ہے، ابھی تھا مِرے آگے