وہ شخص جب کہ میرے نشانے پہ آگیا
دل آگے بڑھ کے اس کو بچانے پہ آگیا
وہ دُور جا بسا تھا تعلق کو توڑ کر
دیکھا اسے بُلا کے، بلانے پہ آگیا
وہ چاہتا تھا گھر مرا جلتا رہے مگر
اپنی لگائی آج بجھانے پہ آگیا
جو کر رہا تھا عشق میں مرنے کی بات کل
اس کا دماغ آج ٹھکانے پہ آگیا
مجرم تھا تیرا جو اسے کچھ بھی نہیں کہا
غصہ بتا تجھے کیوں زمانے پہ آ گیا
مانگی تھی پیاسے لوگوں نے بارش کی یوں دعا
پانی تو شہر بھر کو بہانے پہ آگیا
ہائے وہ چین جو مجھے ملتا نہ تھا کہیں
لیکن وہ اس سے آنکھ ملانے پہ آ گیا
میں ڈر رہا تھا مجھ سے وہ ناراض ہی نہ ہو
اس کو تو پیار میرے بہانے پہ آ گیا
کیا غم بتا دیا ہے، تیرے لئے نجیب
اپنی متاعِ اشک لٹانے پہ آ گیا