لگے ہیں سال ہزاروں یہاں تک آنے میں
میں جی رہا تھا کسی اور ہی زمانے میں
نجانے راکھ ہوئے ہیں یہاں جگر کتنے
تمہاری مست نگاہی کو آزمانے میں
کہاں سے لائے گئے ہیں عجب یہ زندانی
کہ ایک جشن سا بر پا ہے قید خانے میں
ہمیں تو راکھ تھا ہونا سو ہولیے لیکن
تمہیں سُرور توآیا ہمیں جلانے میں
اک اضطراب کہ جاتا نہیں ہے پہلو سے
بسا ہے کون مرے دل کے آشیانے میں
ذرا سی تیز ہوا اور لو چمن بکھرا
یہی زبیؔر حقیقت ہے اس فسانے میں