وہ مجھ کو ورغلانا چاہتا ہے
دیئے کی لَو بڑھانا چاہتا ہے
مجھے انگلی تھمانا چاہتا ہے
مگر پہلو بچانا چاہتا ہے
اَماں پل پل جلانا چاہتا ہے
سزا بھی شاعرانہ چاہتا ہے
جسے وہ توڑتا ہے مسکرا کر
اسی دل میں ٹھکانہ چاہتا ہے
وہ رکھتا ہے نظر ترچھی ہمیشہ
مگر پَکّا نشانہ چاہتا ہے
مجھے پیغام دیتا ہے نظر سے
وہ گُل ہے گُل کھلانا چاہتا ہے
مرے پہلو میں بیٹھا ہے خفا سا
وہ ہر ڈھب سے ستانا چاہتا ہے
مجھے بانہوں میں اپنی قید کرکے
نِرا پاگل بنانا چاہتا ہے
وہ قاتل ہے سبھی یہ جانتے ہیں
اسے پھر بھی زمانہ چاہتا ہے
غموں سے کہہ دو تھوڑا رک کے آئیں
کوئی اب مسکرانا چاہتا ہے
جسے میں اپنے کاندھے پر لیے ہوں
وہ میرا قد گھٹانا چاہتا ہے
ترے نینوں کا یہ حساس دریا
مرے من میں سمانا چاہتا ہے