ہاتھ آئے تو مرے پر بادلِ نا خواستہ
وہ توجہ تو کئے پر بادلِ نا خواستہ
ہایو ربّا کس لئے منت کشی کے باوجود
راضی ملنے پر ہوئے پر بادل ناخواستہ
ہم مزاجاً گر چہ حضرت عشق کے تھے جانشیں
عشق کا سودا کئے پر بادلِ نا خواستہ
ہم دھنی تھے قول کے پرسوں مگر ایسا ہوا
بات سے پیچھے ہٹے پر بادلِ نا خواستہ
ایک مولانا ہیں میرے گاوں میں بحرالعلوم
قرض تو واپس کئے پر بادلِ نا خواستہ
یوم مادر پر ہزاروں لوگ لیکر پھول وول
اپنی امّاں سے ملے پر بادلِ نا خواستہ
ان کی باتیں سن کے ہر بندہ بشر کہنے لگا
جیسے بھائ ہوں سگے پر بادلِ نا خواستہ
ایسے لوگوں کو خدا کیوں اجر دے گا یوم حشر
جو شریعت پر چلے پر بادلِ نا خواستہ