خوشیوں کے سنگ سنگ ہے خوف و ہراس بھی
فرخندگی کے ساتھ ہے چہرہ اداس بھی
ایسے میں غم کی جوت چھپاؤں تو کس طرح
چہرہ شناس آئے ہیں دیدہ شناس بھی
وہ جن کو اپنے دستِ صلابت پہ ناز تھا
اس بار کیسے ہل گئ ان کی اساس بھی
ہر شخص کے دماغ میں ہے سامری چھپا
اور لوگ کہہ رہے ہیں یہاں لا مساس بھی
مردود . بزمِ ناز کا کچھ تو خیال کر
کیا ھے تری نگاہ میں عزت کا پاس بھی؟
اتنا نہیں کہ آنکھ کے حامل ہی گر پڑے
جلوے کی تاب لا نہ سکے سور داس بھی
پارس ہیں میرے عہد کے سوداگرانِ شہر
ریشم کے ساتھ بیچ رہے ہیں کپاس بھی
اپنی زباں سے ہو گیا عریاں مزاجِ یار
ایسے میں اس کے کام نہ آیا لباس بھی
حساس ایسے وقت میں اشعار کیا کہیں
اعضا میں ارتعاش ہے مختل حواس بھی