بات ان کی چار سو ہونے لگی
ان کودیکھوں ، آرزو ہونے لگی
آپ سےتم ، تم سے تو پر آگئے
عشق میں یوں گفتگوہونےلگی
دید کی شربت پلائیں وہ ہمیں
نخلِ الفت کی نمو ہونے لگی
ہائے وحشت ، آہنی زنجیر بھی
ان دنوں زیب ِ گلو ہونے لگی
جو جفا جو روز ڈھاتا ہے ستم
دل کو اس کی جستجو ہونےلگی
وہ بضد ترک ِ تعلّق پر ہوا
ہر تمنّا اب لہو ہونے لگی
شدّت ِ گِریہ نےچھینےچشم ِ اشک
خشک اب یہ آب جو ہونے لگی
رازمخفی عشق تھاجب ہمنشیں
بات کیوں پھر کو بکو ہونے لگی
آئینہ انورؔ دکھایا سچ کا جب
جنگ گھر میں دوبدو ہونے لگی