سہہ لوں گا رنج، دینا جو احباب اور ہے
اس قلب ِ ناتواں میں ابھی تاب اور ہے
دیتا ہے زخم روز نیا ہم نشیں مرا
اس پر چھڑکتا طنز کا تیزاب اور ہے
برسات ِ غم نے چاہا کہ یکسر اجاڑ دے
لیکن زمین ِ دل ہوئی شاداب اور ہے
مانا حسیں ہے تو بھی مگر، تیری بات کیا
جا اے فلک کے چاند ، وہ مہتاب اور ہے
جلنے لگا ہے جب سے تری یاد کا چراغ
روشن ہمارے قلب کی محراب اور ہے
خوشیوں کا ذکر کم ہے کتاب ِ حیات میں
کیوں کرب اور غم سے بھرا ، باب اور ہے
ملتی نہیں جہاں میں ، مروّت کہیں جسے
اک شے خلوص نام کی ، نایاب اور ہے
جیتیں زمین شاہ ، یہاں ظلم و جبر سے
لیکن جو جیتے دل وہ ظفر یاب اور ہے
انور موازنہ نہیں ممکن کے باب میں
آنکھوں کی مے ہے اور مئے ناب اور ہے